اختر رضا سلیمی کے ناول "جندر" پر تبصرہ و تجزیہ

2019-11-26 19:52:45 Written by وقاص چغتائ

اختر رضا سلیمی کے ناول "جندر" کا مطالعہ کیا، شعور کی رُو میں لکھا گیا ناول ہے۔ کہانی ،پلاٹ اور کردار مضبوط اور مربوط ہیں جبکہ ماحول اور  منظر نگاری زمان و مکاں کے مطابق ہے۔ جس میں مانسہرہ یا ہزارہ کے نواحی علاقوں کی تہذیب و تمدن دکھائی گئی ہے۔

ناول کا نام پڑھتے ہی مجھے بچپن کے وہ دن یاد آئے جب ہم باغ آزاد کشمیر  کے گاؤں چوکی میں رہائش پذیر تھے اور گرمیوں کے موسم میں مال مویشیوں کو لے کر جنگل میں موجود ڈھوک (کناس اور جودر) کا رخ کرتے تھے۔

2005کا زلزلہ جہاں ہر طرف تباہی کی داستاں رقم کر گیا وہاں ایک نئے دور اور ماحول کا آغاز بھی ہوا جو کہ صنعتی دور یا مشینی دور  کا باقاعدہ گاؤں گاؤں تک رسائی کا ذریعہ بنا۔

ناول دراصل ایک جندروئی کی کہانی ہے جس میں دو  ہی اہم کردار ہیں ایک ولی خان جو جندروئی ہے اور دوسرا وہ جندر۔
جندر تنہائی، انتظار اور موت کا ناول ہے جسکا آغاز ہی موت کے انتظار میں لیٹے ولی خان یا جندروئی اپنی کہانی سنانے سے شروع کرتا ہے۔
ناول کے درمیان جو ماحول اور فضا بنائی گئی ہے وہ مکمل اُس دور یا زمانے کی عکاسی کرتی ہے جہاں ایک طرف گاس اور مکئی کی کٹائی کے لیے "لیتریاں" لگ رہی ہیں اور دوسری طرف مکان بنانے کے لیے تمام لوگ مل کر کڑیاں لاتے اور مل کر مکان پر مٹی پھینکتے نظر آتے ہیں۔ کھیتوں میں بیچ بونے کے لیے بیلوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں نماز نہ پڑنا اتنا بڑا جرم نہیں، جتنا لیتری سے غیر حاضر رہنا۔

پھر ولی خان کی پیدائش کا واقعہ، جس کے ساتھ ہی اس کی ماں کی موت ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ جندر پر آ جاتا ہے اور ادھر ہی سے سکول جاتا ہے لیکن صرف 6 جماعتیں ہی تعلیم حاصل کرتا کہ ایک دن جب سکول سے واپس آتا ہے تو اپنے باپ کو جندر میں مردہ حالت میں پاتا ہے اور پھر وہ مشکلات سے بھری زندگی کیسے گزارتا ہے اور سکول چھوڑ کر جندر سے رشتہ جوڑ لیتا ہے۔
اسکی زندگی کے رنگین دن چند ہی نظر آتے ہیں، جن میں سے کچھ وہ جب وہ سکول جاتا تھا اور پھر وہ جب اسکی چچازاد حاجرہ سے شادی ہوتی ہے تو ایک بیٹے کی پیدائش اور پھر خاموش علیحدگی تک۔
اسکے بعد اسکی بیوی بیٹے کو لے کر شہر منتقل ہو جاتی ہے اور وہ پڑھ لکھ کر ایک بڑا افسر بن جاتا ہے لیکن ولی خان اپنا رشتہ جندر سے جوڑے رکھتا ہے۔ اسے نیند ہی جندر کی اس آواز کے دوران آتی ہے جب دانے پسے جا رہے ہوتے ہیں۔

ولی خان ادب سے کافی شغف رکھتا ہے کیوں کہ اس نے ابتدا میں بابا جمال الدین سے بہت سی کہانیاں سنی ہوتی ہیں، جو ایک داستاں گو ہے اور لوک کہانیوں کی ایک پوری روایت رکھتا ہے۔جندروئی کے والد کا اچھا دوست ہے اور بعد میں بہت سے ناول اور افسانے ایک ساتھ پڑتے ہیں آپ ان کے ادبی مزاج کا اندازہ  اس سے لگا لیں کہ وہ  دوران مطالعہ عبداللہ حسین کے ناول "اداس نسلیں "اور قراۃ  العین حیدر کے ناول "آگ کا دریا "پر ڈسکشن کرتے ہوئے عبداللہ حسین کے ناول کو "آگ کا دریا "پر ترجیح دیتے ہیں۔

ناول  آخر میں صنعتی ترقی سےانسانی سوچ اور معاشرے پر جو اثرات ہوئے ہمیں اس طرف سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک طرف اس کے کچھ مثبت اثرات ہیں، دوسری طرف اس کے بہت سے منفی اثرات بھی ہیں۔ جو ایک  اجتماعی زندگی سے انفرادی زندگی یا خود مختاری کی طرف انسان کو لے گئی اور انسان کو انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اکیلا کر گی۔

کہانی ایک لمبا سفر طے کرکے اپنے آغاز جہاں ولی خان 45 دنوں سے اس انتظار میں ہے کہ کوئی دانے لے کر آئے اور جندر کی اس خوبصورت آواز میں وہ کچھ دیر سو سکے۔ لیکن گاؤں میں مشینی چکی آ جانے کے بعد اب ادھر کون آئے!  اس طرح کہانی ، ولی خان اور جندروئی تہذیب، سب کی موت واقع ہو جاتی ہے۔