سلسلہ معمہ

2019-11-29 11:54:40 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 25

"آفت"

۔(Spontaneous Human Combustion)

 

25 دسمبر 1885، سینیکا، الینوائے، امریکہ۔

 

     میٹیلڈا رونی وسکی پینے کے بعد کچن گئی اور پیٹرک بھی سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جان ان دونوں میاں بیوی کا مالی تھا جو ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ صبح کرسمس تھی جان کو معمول سے زیادہ کام کرنا پڑا تھا اس لئے وہ بھی تھکاوٹ کے باعث اپنے کمرے گیا اور جلد ہی اسے نیند آ گئی۔

رات کسی وقت اسے کھانسی ہوئی مگر تھکاوٹ کی وجہ سے اس نے نظر انداز کیا اور دوبارہ سو گیا۔

صبح اٹھ کر جان نے اپنے تکیے پر کالک لگی دیکھی تو حیران ہوا۔ وہ اٹھ کر اپنے مالک پیٹرک کو جگانے اس کے کمرے گیا تو اسے دھچکا لگا۔ پیٹرک اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پڑا تھا۔ وہ یہ خبر دینے مالکن میٹیلڈا کو دینے اس کے کمرے میں گیا مگر وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ جان نے اسے رات کو آخری بار کچن میں دیکھا تھا۔ وہ کچن میں داخل ہوا تو اس کے پیروں سے جیسے زمین نکل گئی۔ اس نے میٹیلڈا رونی کی جلی ہوئی لاش دیکھی جو راکھ بن چکی تھی اور صرف اس کا ایک پیر جلنے سے بچ گیا تھا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ اس کا مالک پیٹرک بھی اسی آگ کے دھوئیں سے مرا اور اسی لئے اسے بھی رات کھانسی ہوئی تھی اور تکیے پر کالک بھی اسی وجہ سے تھی۔

پیٹرک کی موت کی وجہ تو سادہ سی تھی مگر میٹیلڈا رونی کی موت کی وجہ آج بھی کوئی نہیں جان سکا۔ دیکھنے میں موت کی وجہ آتشزدگی تھی مگر ایسا نہیں تھا۔

جان نے سونے کے لئے جاتے ہوئے دونوں میاں بیوی کے درمیان کچھ بھی غیر معمولی نہیں دیکھا تھا،

اس لئے ان کے درمیان کوئی ناخوشگوار صورتحال نہیں تھی۔

میٹیلڈا رونی کے کچن میں اس کے سوا کسی چیز کو آگ نہیں لگی تھی۔

آگ نے اس کے جسم کو راکھ کر دیا تھا جس کے لئے زیادہ تپش درکار ہوتی ہے۔

کچن میں اس کے جسم پر آگ کہاں سے لگی نہیں معلوم ہو سکا۔

اس کی معمولی آواز بھی کسی نے نہیں سنی نہ ہی وہ اتنی مذمت کر سکی کہ کچن سے باہر آجاتی وہ کچن میں اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکی تھی۔

اگر میں کہوں کہ میٹیلڈا کی موت ایک نادر الظہور صورتحال سے ہوئی تو آپ سوچیں گے ایسی کونسی صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان خود بہ خود جل کر کوئلہ ہوجائے اور دیگر کسی چیز کو آگ نہ لگے۔

 

Spontaneous Human Combustion

ایک ایسی نادر الظہور صورتحال کا نام ہے جس میں انسانی جسم کسی نامعلوم زریعے سے آگ پکڑتا ہے اور اس وقت تک جلتا ہے جب تک وہ راکھ نہ بن جائے۔

 

      معروف برطانوی ناول نگار چارلس ڈکینس نے 1852 میں جب اپنے مشہور ناول "Bleak House" کے ایک کردار کا انجام اس بھیانک احتراق سے کیا تو اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

جب اس سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ Human Combustion ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

 

      ہیومن کمبسشن کے ذکر کا آغاز سترویں صدی سے ہوا جب دنیا بھر سے ایسے آتشزدگی کے کئی کیسز سامنے آئے جس میں کوئی انسان جل کر راکھ ہوا اور اس انسان کے علاوہ وہ کرسی یا پلنگ بھی نہیں جلا جس میں جلنے والا شخص آرام کر رہا تھا یا سویا ہوا تھا۔ نہ یہ معلوم ہو سکا کہ جلنے والے جسم نے کونسے ذریعے سے آگ پکڑی۔ پھر اٹھارویں سے اکیسویں صدی تک مزید لاتعداد کیسز نے ماہرین کو اس معاملے پر سنجیدگی سے تحقیق کرنے پر مجبور کیا۔

 

      جب کبھی کوئی آتشزدگی کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو تحقیقاتی رپورٹ میں آگ کس ذریعے سے لگی یہ ضروری لکھا جاتا ہے۔ کبھی کسی جنگل یا کسی بلڈنگ پر لگنے والی آگ کی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ آگ خود بخود لگی بلکہ اس کی وجہ لکھی جاتی ہے اور جن کیسز میں بظاہر لگتا ہے کہ آگ خودبخود لگی وہاں بھی وجہ گرمی یا پھر رگر سے اٹھنے والی چنگاری ہوتی ہے۔ مگر ہیومن کمبسشن کا معمہ مختلف ہے۔ اس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس میں نہ کوئی ذریعہ آتشزدگی معلوم ہوتا ہے نہ جلنے والے کے علاوہ کسی اور جیز کو آگ لگتی ہے۔ مزید یہ کہ اس سے آج تک کوئی انسان جل کر بچ بھی نہیں سکا جو اس صورتحال کے بارے میں بتا سکے۔ جتنے لوگ اس دردناک احتراق کا شکار ہوئے ان کی یا تو کوئی ایک ٹانگ بچی ہے یا پھر ہاتھ۔ مزید یہ کہا جاتا ہے کہ اس صورتحال میں آگ پہلے معدے یا سینے میں لگتی ہے اس کے بعد باقی جسم کو لپیٹ میں لیتی ہے اور یہ سب اچانک ہوتا ہے۔

 

      تاریخ گواہ ہے کہ جب جب لوگوں نے اس عجیب آفت یعنی SHC کو ماننے سے انکار کیا تو اس کے نئے نئے کیسز سامنے آتے گئے جس کا جواب نہ تو کوئی سائنسدان دے سکا اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ۔

 

      انسان کے خودبخود جل جانے کے اب تک 200 سے زیادہ کیسز ریکارڈ کئے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کیسز الگ ہیں جو ریکارڈ پر نہیں آسکے۔

ان میں سے کچھ مشہور کیسز آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔

 

      1951 میں "میری ریسر" جو کہ ایک 67 سالہ خاتون تھی اس آفت کا شکار ہوئی۔ وہ اپنے ایزی چیئر (کرسی) پر جل کر راکھ ہوئی تھی۔ اس کیس میں ایک چیز یہ عجیب تھی کہ اس کے جلنے کے بعد اس کے سر کی کھوپڑی کا سائز چائے کے کپ جتنا ہو گیا تھا۔ یہ بات اس کے آفیشل ریکارڈ میں شامل ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ بنانے والے کی غلطی بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے کسی اور حصے کی ہڈی کو کھوپڑی سمجھ لیا ہو۔

 

      دوسرا مشہور کیس لندن کا 1982 میں جینی کا ہے۔ جینی کے والد کہتے ہیں کہ جینی میرے سامنے بیٹھی تھی جب اس کے آنکھوں میں مجھے چنگاری سے نظر آئی اور پھر اچانک اس نے منہ کھولا تو شعلہ بھڑک اٹھا اور آگ نے اس کے سر کو لپیٹ لیا۔ جینی کے والد نے جینی کے شوہر کو بلایا مگر دونوں ہی اسے بچانے میں ناکام رہے۔

اس کیس میں جینی کے علاوہ اور کسی چیز کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ یہ کیس کئی سال عدالت میں چلتا رہا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

 

      اس آفت کو اکثر لوگ بنائی ہوئی داستانیں کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ سب ان دنوں کے کیسز ہیں جب ٹھیک طرح سے تحقیق نہیں ہوا کرتی تھی۔

مگر پھر 2001 اور 2017 میں بھی ایسے کیسز سامنے آئے۔

 

      دسمبر 2001 میں کیلیفورنیا کی 73 سالہ خاتون گارڈن گروو اپنی کرسی پر بیٹھی تھی کہ اچانک آگ لگی۔ قصبے کے فائر فائٹرز اور پولیس کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ کس طرح صرف چار منٹ میں خاتون، کرسی اور ٹیبل جل کر راکھ ہوگئیں۔ اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے علاوہ کمرے میں اور کسی چیز کو آگ نہیں لگی۔

 

      ستمبر 2017 میں لندن کا ایک شہری اپنے نارمل روٹین کی واک پر تھا جب اچانک اس کے جسم نے آگ پکڑی۔ جب لوگوں نے اسے دیکھا تو فوراً ہسپتال لے گئے مگر وہ بچ نہیں سکا۔ پولیس نے اس شخص کی تمام تر سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی مگر کسی بھی فوٹیج سے پتہ نہیں چل سکا کہ جسم میں آگ کہاں سے لگی۔

 

      2016 میں فیسبک پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی گئی جس میں ایک شخص سڑک کنارے لیٹا ہوا ہوتا ہے جس کے پیٹ اور سینے سے آگ نکل رہی ہوتی ہے اور وہ زندہ ہوتا ہے۔ ویڈیو بنانے والا اس کے پاس جانے کی کوشش کرتا ہے مگر جلنے والا شخص اسے قریب آنے سے منع کرتا ہے۔

یہ ویڈیو فیسبک، یوٹیوب اور دیگر سوشل ویبسائٹ سے ڈلیٹ کر دی گئی ہے مگر کچھ نیوز کے کی مشہور ویبسائٹس پر آج بھی موجود ہے۔

یہ ہیومن کمبسشن کی ایک بڑی دلیل ہے مگر سوشل سائٹس پر موجود نہیں اس لئے اس کے متعلق مکمل معلومات نہیں کہ ویڈیو میں جلنے والا شخص کون ہے اور اس کے ساتھ ایسا کیسے ہوا۔

 

اب بات کرتے ہیں اس آفت، SHC کے متعلق کچھ نظریات کی۔

 

      کچھ مذہبی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہیں خدا اسی دنیا میں عذاب میں ڈالتا ہے یہ ان کے کسی سنگین گناہ کا نتیجہ ہوتا ہے اس لئے ان کا خاتما عبرتناک ہوتا ہے۔

کچھ لوگ اسے شیاطین جنات کی آگ کہتے ہیں۔ جنات کے اکثر واقعات میں آپ نے سنا ہوگا کہ جس جگہ جنات کا سایہ ہوتا ہے وہاں اکثر اچانک سے کہیں بھی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جنات چونکہ آگ سے بنے ہوتے ہیں شاید اس لئے ایسا کہا جاتا ہے۔

 

 

      انسان کے پیٹ میں پائی جانے والی گیس آتش گیر ہو سکتی ہے اس لئے کچھ کا خیال ہے کہ ایسا انسان کے پیٹ میں گیس کا شراب نوشی کے ساتھ ریئکشن سے ہوتا ہے۔ مگر سائنس کہتی ہے کہ ایسا کوئی رئیکشن سائنس نے دریافت نہیں کیا۔ شراب اور گیس آتش گیر تو ہو سکتی ہے مگر انسان کے جسم کو جلانے کے لئے ناکافی ہے۔

 

      بال لائٹننگ (ball lightning) ایک قدرتی مظہر ہے جس میں نامعلوم وجہ سے اچانک کسی بھی جگہ آگ یا تیز چمکتی ہوئی روشنی کا گولا نمودار ہوتا ہے جو کچھ دیر ہوا میں منڈلانے کے بعد خود ہی ختم ہو جاتی ہے۔ بال لائٹننگ خود ایک سائنسی معمہ ہے جس کی سمجھ آج تک سائنسدانوں کو نہیں آئی۔ اس کے کئی مشہور واقعات ہیں اس لئے اس کے وجود سے سائنسدان بھی انکار نہیں کرتے۔

کچھ لوگ انسان کے اس پراسرار خودبخود جلنے کے عمل کو بال لائٹننگ سے جوڑتے ہیں۔ مگر بال لائٹننگ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اکثر اڑتے جہازوں میں ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف نکل جاتا ہے اور کسی چیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا وہ دکھنے میں تو آگ کا گولا لگتا ہے مگر اس میں تپش نہیں ہوتی صرف روشنی ہوتی ہے۔

 

Steven Johnson Syndrome

ایک میڈیکل کنڈیشن ہے جس میں انسان کی سکن ایسی پوزیشن پر آتی ہے کہ بہت نازک ہو جاتی ہے اور پھر کسی بھی کیمیائی ریئکشن سے وہ جل سکتی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس پر 10 سالہ تحقیق میں صرف 101 کیسز سامنے آئے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت کم ہی لوگ اس کنڈیشن کا شکار ہوتے ہیں۔

اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سکن کی یہ کنڈیشن ایسی صورت اختیار کر سکتا ہے کہ کسی کیمیائی ری ایکشن سے انسان کی سکن پہ آگ لگ سکتی اور یہ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جسے SHC کہا جاتا ہے یہ Steven Johnson Syndrome کی کوئی اور مہلک شکل یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور بیماری ہو سکتی ہے۔

 

       اس مہلک صورتحال کے بارے میں سب سے مشہور تھیوری Wick effect ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب انسان کے جسم کو آگ لگتی ہے تو اس کا لباس اور جسم کی چربی اس میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس ایفیکٹ میں انسان کا لباس چراغ کی بتی (wick) کی طرح جلتی رہتی ہے اور انسان کی چربی موم یا تیل کا کام کرتی ہے۔

اس تھیوری پر بی بی سی نے ایک ڈاکومنٹری بھی بنائی تھی اور ایک سائنسدان نے مرے ہوئے سور پر یہ ایفیکٹ کر کے دکھایا تھا۔

مگر یہ تھیوری صرف یہ بتاتی ہے کہ انسان کا جسم کیسے جلتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے SHC میں آگ بھڑکنے کی وجہ نہیں معلوم اور پھر جلنے والا بالکل راکھ ہو جاتا ہے جس کے لئے بہت زیادہ سینٹی گریڈ کی آگ درکار ہوتی ہے جو گھر کی گیس لائن سے حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک آپ کے پاس کوئی اس طرح کا کیمیکل نہ ہو۔

 

      سائنس اس نادر الظہور مظہر پر یقین نہیں رکھتی۔ کئی طرح کی توجیہات پیش کی گئی مگر کوئی بھی تسلی بخش جواب ثابت نہ ہو سکا۔

غیر حل شدہ کیسز پر لکھنے والے معروف تحقیق کار جوئل نکل نے اپنی کتاب "Real life X-Files" میں ہیومن کمبسشن سے مرنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اتنا پراسرار بھی نہیں جتنا اسے بیان کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مرنے والوں اکثر لوگ آخری بار شراب کے نشے میں دیکھے گئے ہیں اور وہ تمام لوگ سگریٹ نوشی کے بھی عادی تھے اگر ان کیسز پر دوبارہ سے تحقیق کی جائے تو ہو سکتا ہے آتشزدگی کی کوئی نہ کوئی وجہ معلوم ہو سکے جو سب کیسز میں مختلف ہو سکتی ہے۔

مگر سوال وہی یہاں بھی اٹھتا ہے کہ ایک شخص کو جب آگ پوری طرح لگی نہیں ہوتی تو وہ خود کو اس سے چھڑا سکتا ہے یا کم از کم کوشش کر سکتا ہے نہ کہ وہ آرام کرنے کے لئے جس کرسی پر بیٹھا رہتا ہے اسی کرسی پر بیٹھے بیٹھے جل کر راکھ ہو جائے۔

 

واللہ اعلم۔

اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ۔۔۔۔