جوابی حملہ

2019-11-30 13:20:49 Written by عائشہ تنویر

میں خواتین کے جرائد کی بہت بڑی فین ہوں ۔ ان پر اور ان جرائد کی کہانیوں پر مثبت تنقید اور مزاح سے لطف بھی لیتی ہوں ۔
پھر یوں ہوا کہ بہت سی تضحیک آمیز پوسٹس خواتین رائٹرز اور ان جرائد کے بارے میں گردش کرنے لگیں تو تنگ آ کر میں نے یہ جواب لکھا تھا۔
..................................

جوابِ حملہ

اردو ادب میں پاپولر فکشن اور سنجیدہ ادب کی تفریق بہت پرانی ہے ۔ سنجیدہ ادب لکھنے والے پاپولر فکشن والوں کو اتنی ہی عزت دیتے ہیں، جتنے سنجیدہ ادب کے شائقین پائے جاتے ہیں۔
چلیں، سنجیدہ ادب کے پاس تو زبان و ادب کی ترویج جیسے خوشنما الفاظ ہیں مگر پاپولر فکشن لکھنے والے مرد حضرات بھی خواتین کے جرائد کے بخیے ادھیڑنے میں پیچھے نہیں رہتے ۔ جس طرح بعض مرد حضرات باس کا غصہ گھر والوں پر نکالتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ سنجیدہ ادباء کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی خفت خواتین کی کہانیوں پر انڈیلتے ہیں ۔
خود ان ڈائجسٹس میں کہانی کا فارمولا کیسا ہوتا ہے، آج وہ بھی جان لیں ۔

مردانہ فکشن میں کہانی کا ہیرو مرد ہی ہوتا ہے اور خواتین کے کردار کہانی میں محض رنگ بھرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں ۔

کہانی کی ہیروئن ستی ساوتری گھریلو لڑکی ہو، یا مارشل آرٹ کی ماہر جغادری حسینہ، اس کا بنیادی کام محض ہیرو کی محبت میں آہیں بھرنا ہوتا ہے ۔ یوں تو ہیرو صاحب بھی اپنی ہیروئن سے کم محبت نہیں کرتے مگر ان کی پاک محبت بار بار جذبات کے نشے میں بہنے کے باوجود مرادنہ فکشن کے حسب ضرورت رومانوی سین نہیں ترتیب نہیں دے پاتی ۔ اس لیے اسٹپنی کے طور پر رائٹر ایک عدد بےباک زنانہ کردار ضرور رکھ لیتے ہیں ۔ یہ لڑکی ، ہیرو سے ملاقات سے پہلے چاہے صحافی ہو یا اسمگلر مگر ہیرو کو دیکھتے ہی اس پر یوں جان نچھاور کرتی ہے کہ چاہنے کے باوجود ہیرو کے لیے اس سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ کبھی وہ ہیروئن کی جدائی میں اس کے ساتھ وقت بتاتا ہے ، تو کبھی اس کے ساتھ وقت بتاتے ہیروئن گنواتا ہے ۔ اس طرح اقساط بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ایٹین پلس سینز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جو کہانی کی ریٹنگ کو آسمان تک لے جاتے ہیں ۔

ان کہانیوں میں کرداروں کے نام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ ہیرو کا نام بگڑ کا استاد،ڈان وغیرہ بن جاتا ہے اور ہیروئن ۔۔۔اسے ہیرو جان ہی کہتا ہے کیونکہ ہیرو نام لینا بھی چاہے تو اصل ہیروئن اور اسٹپنی کے نام یوں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں کہ دونوں ہاتھ سے نکلتی نظر آتی ہیں ۔

خواتین رائٹرز کی ہیروئنوں کا تمسخر اڑانے کے ابوجود ان کی کہانی کی ہیروئن حالت جنگ میں بھی دنیا جہاں کی حسیناؤں کو مات دیتی ہے ۔ پارلر جائے بغیر اس کے ابرو کمان سے ہوتے ہیں اور مہینوں گھر میں بند رہ کر بھی اس کا وزن نہیں بڑھتا ۔

اگر بیک گراؤنڈ میں جائیں تو ہیرو کے والدین کا بچپن میں انتقال بہت ضروری ہے ۔ پھر چاہے وہ چچا کے پاس پرورش پائے یا یتیم خانے میں اس پر ظلم و ستم ہونا ہیرو بننے کا لازمی گُر ہے۔ رائٹر اسی ظلم و ستم سے ان کی قوت برداشت بڑھاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے غنڈوں سے مقابلہ کروا کر ہیرو کو ایک بڑا غنڈہ بنا دیتے ہیں مگر وہ دراصل غنڈہ ہوتا نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہیرو ہوتا ہے، اس لیے سب کچھ کر کروا کر بھی ہیرو ہی رہتا ہے ۔
وہ بڑے سے بڑا اسلحہ چلا لیتا ہے، خالی پستول ہو تو علی عمران کی طرح سر پر مار کر بیہوش کر دیتا ہے ۔ اسکول کی شکل نہ دیکھنے والے اور مظہر کلیم کو نہ پڑھنے والا ہیرو ناک، منہ بند کر کے ہوش میں لانا جانتا ہے ۔ کتابیں پڑھنے کا اسے وقت نہ بھی ملے تب بھی اس کی معلومات قابل رشک ہوتی ہے ۔

ہیرو بہت باصلاحیت فرد ہوتا ہے، چاہے ہیروئن بیچنے والے گروہ میں ہو یا بھیک مانگنے والے، دنوں میں ترقی کرتا ان کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتا ہے اور ایک دن اچانک اس کا ضمیر جاگ جاتا ہے ۔
پاپولر فکشن لکھنے والے مرد حضرات چونکہ مذہب کے تڑکے سے گریزاں ہی رہتے ہیں، اس لیے جاگے ہوئے ضمیر والے ہیرو صاحب مذہب سے اتنے ہی دور رہتے ہیں جتنے خواتین کے رسائل میں ہیرو، ہیروئن ۔۔۔
ان کی کہانیوں میں کوئی صوفی بھی آئے تو وہ مکمل مجذوب ہوتا ہے ۔
اسے اپنی پچھلے جنم کی محبوبہ کے علاوہ سب کچھ بھولا ہوا ہوتا ہے ۔
ہیرو کے ساتھ اس کا ایک وفادار دوست ہونا لازمی ہے۔ جس کا کوئی آگے پیچھے نہیں ہوتا ۔ یہ وفادار دوست درخت سے ٹپکتا ہے یا زمین سے اگتا ہے، اس بات کو کم ہی زیر بحث لایا جاتا ہے مگر اس نفسا نفسی کے دور میں بھی یہ اپنے رانجھے یعنی ہیرو کے لیے جان قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے ۔ اس سائیڈ ہیرو کے لیے ہیروئن کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی مگر اصل ہیروئن کے منظر نامے سے غائب ہونے کی صورت میں کہانی میں رنگ بھرنے کے لیے ایسے عارضی کردار ڈال دیے جاتے ہیں ۔ ہیرو صاحب ، اس سائیڈ ہیروئن کے واحد رقیب ہوتے ہیں اور اسے پورے سسرال کا لطف دیتے ہیں کیونکہ دوست کو ماں، باپ، بہن بھائی کے سارے رشتے ہیرو میں ہی نظر آتے ہیں ۔
ہیرو کی غنڈہ گردی قارئین تو آنکھیں بند کر کے برداشت کر لیتے ہیں لیکن اس کے دشمنوں سے برداشت نہیں ہوتی ۔ ہیرو کو دشمنوں سے بچانے کے لیے قانون نافذ کروانے والے اداروں میں بھی اس کا کوئی نہ کوئی کنکشن لازمی ہوتا ہے ۔ یہ اعلیٰ سرکاری افسر یوں تو بہت ایماندار ہوتا ہے مگر ہیرو کی خاطر اپنے سارے اصول بھول جاتا ہے ۔ ہیرو کی صورت میں اسے ملک کے لیے ایک مسیحا نظر آتا ہے اور وہ ہر اس مسیحا کو ہر مشکل سے نکالنے کے لیے ہمہ تن کوشاں رہتا ہے ۔
مرد حضرات اپنی کہانیوں میں لباس کی تفصیل دیں ، نہ دیں، شراب کی تفصیل ضرور دیتے ہیں ۔ سگریٹ سے پرہیز کرنے والا بھی ان کہانیوں کو پڑھنے کے بعد دیسی شراب، وہسکی اور بئیر میں فرق کرنا سیکھ جاتا ہے ۔
ان کہانیوں کے ہیرو کبھی فکر معاش میں مبتلا نہیں ہوتے، اس لیے اُنہیں مہنگائی سے کوئی شکوہ نہیں ہوتا ۔ انہیں حکومت پر غصہ نہیں آتا ۔ ان کے سارے شکووں کا مرکز ہیروئن اور غصے کا ہدف کہانی کا ولن ہوتا ہے ۔ دنیا کے کسی کونے میں کچھ ہو جائے، اس کی وجہ ان کا دشمن ہوتا ہے اگر دشمن انہیں ستانے سے توبہ بھی کر لے تو "چھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے لگی ہوئی " کے مصداق یہ نیا دشمن پیدا کر لیتے ہیں اور کہانی چلتی چلی جاتی ہے ۔