گرہیں

2019-12-02 13:17:07 Written by عمر شریف

افسانہ 

گرہیں

۔۔۔۔۔۔۔

شاہد کو اس محلے میں جانے کی لت کب پڑی شاید اسے خود بھی ٹھیک سے یاد نہ ہو بس اتنا یاد ہے کہ بچپنا عہد شباب کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ نہاتے وقت وہ اپنے سینے کو دباتا تو وہاں سے ایک میٹھا سا درد اٹھتا محسوس ہوتا وہ اپنے سینے میں موجود شکاری بندوق کے چھروں جتنی پھنسیوں کو محسوس کرتا اور مسرور ہوتا کیونکہ اس نے اشفاق جو کہ اس کا لنگوٹیا تھا سے سن رکھا تھا کہ یہ پھنسیاں آغاز جوانی کی نشانیاں ہیں ۔ اب شاہد کا زیادہ تر فارغ وقت اشفاق کے منہ سے سنی ہوئی جوانی کی نشانیوں کو محسوس کرتے یا ان کے بارے میں سوچتے ہوئے گزرتا اور صنف مخالف میں اس کی دلچسپی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی

وہ دن وہ کیسے بھول سکتا ہے جب وہ اشفاق اور اس کے ایک چچا زاد کی معیت میں پہلی بار اس بازار میں داخل ہوا تھا۔ جب وہ ناز بائی کے کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو اس کا سارا جوش اور تجسس ایک انجانے خوف میں بدل چکا تھا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ ذہنی عیش پرستی قدرے آسان کام ہے۔ وہ بھاگ کر واپس لوٹ جانا چاہتا تھا لیکن اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں ایسا کرنے سے قاصر تھا۔ وہ گم سم سا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اس کے سوچنے سمجھنے کی سب صلاحیتیں مفقود ہو چکی تھیں۔ پھر جب اس کے ساتھیوں نے ایک لڑکی سے معاملہ طے کیا اور پہلے اسے دعوت دی تو وہ کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے عجب گومگوں کی کیفیت میں تھا اور کمرے میں پہنچ کر وہ یوں سر جھکائے کھڑا ہو گیا جیسے کوئی لڑکا ہفتہ بھر غیر حاضر رہنے کے بعد استاد کے سامنے اپنی سزا سننے کا منتظر کھڑا ہو۔ اس کی نوخیز جوانی پانی کی جھاگ کی طرح غائب ہو چکی تھی۔ وہ بہت مشکل سے اس بیسوا کی تجربہ کاریوں اور مہربانیوں سے منزل تک پہنچا تھا 

اس کے بعد تو یہ ایک معمول بن گیا تھا وہاں کی اکثر بیسواؤں سے اس کے بے تکلف مراسم پیدا ہو چکے تھے۔ لیکن مینا کی بات کچھ الگ تھی۔ وہ اب مینا کے علاوہ کسی اور کی طرف کم کم ہی جایا کرتا تھا۔ مینا بھی اس سے خاص انسیت کا مظاہرہ کرتی تھی۔ شاہد کو اس کی دو باتیں خاص پسند تھیں اس بازار کی دوسری بیسواؤں کی نسبت مینا کا انداز تعلق اور دوسری مینا نے اس سے کبھی کسی حفاظتی تدبیر کی ضد نہیں کی تھی البتہ وہ مخصوص گولیاں فراہم کرنا شاہد کے ہی ذمے تھا اور شاہد ان گولیوں کے کاغذ پر لکھا ان کا استعمال "اسقاط حمل کیلئے" بہت دلچسپی سے پڑھتا تھا

اب جب بھی شاہد کی جیب میں وہاں جانے کیلئے درکار رقم موجود ہوتی وہ وہاں پہنچ جاتا۔ اور یہ رقم اسے فراہم کرتی تھیں اس کی بیوہ ماں کے دوپٹے کی گرہیں ۔ ۔ ۔

شاہد کا بچپن سے یہ معمول تھا کہ جب بھی اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہوتی وہ اپنی ماں کے دوپٹے کی تاک میں رہتا کیونکہ کہ اس کے گھر میں ماں کے دوپٹے کی گرہیں ہی وہ واحد خزانہ تھا جس سے اس کی ضرورت کی رقم دستیاب ہوتی تھی

شاہد کی ماں نجمہ جسے ابھی ٹھیک سے سر ڈھانپنا بھی نہیں آیا تھا کہ بیاہ دیا گیا۔ شاہد کی پیدائش کے دو سال بعد عارفہ پیدا ہوئی اور عارفہ کی پیدائش کے دو سال بعد نجمہ کا شوہر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں چل بسا۔ دو بچوں کی پرورش کیلئے نجمہ نے سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ نجمہ کو اس کام کے صلے میں ملنے والے پیسے رکھنے کیلئے اپنے دوپٹے سے زیادہ محفوظ جگہ نظر نہ آتی تھی۔ وہ پیسوں کو دوپٹے کی ایک نکڑ پر رکھ کر گرہ لگا دیتی

شاہد کو بچپن سے ہی ماں سے پیسے مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی وہ صرف ماں کا دوپٹہ ڈھونڈتا اور گرہ کھول کر اپنی ضرورت کے پیسے نکال لیتا۔ یہ بات نجمہ کو بھی معلوم تھی لیکن اس نے کبھی شاہد کو نہ روکا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ اکیلی ہی ان کی ماں بھی ہے اور باپ بھی اور شاہد نے بھی ہمیشہ اپنی ضرورت سے بڑھ کر کچھ نہیں لیا تھا 

لیکن جب سے عارفہ کو اس پراسرار بیماری نے آ لیا تھا تب سے نجمہ کو دوپٹے کی گرہیں لگانے کی ضرورت کم کم ہی پیش آئی تھی کیونکہ سلائی کڑھائی سے ملنے والے وہ چند پیسے بھی عارفہ کے علاج پر اٹھ جاتے تھے۔ نجمہ شاہد کے بار بار کہنے کے باوجود اسے پڑھائی سے ہٹا کر کسی کام پر لگانے کو تیار نہ تھی

شاہد نے اب مینا کی طرف جانا کم کر دیا تھا کیونکہ اس کی ماں کا دوپٹہ بے گرہ ہو چکا تھا۔ حالانکہ کہ کبھی کبھار جا نکلتا تو مینا اسے انکار نہیں کرتی تھی لیکن اس طرح شاہد خود کو اس بازار کے ان دلالوں جیسا تصور کرتا جو دو وقت کی روٹی اور کبھی کبھار کے شرف بازیابی کیلئے پان منہ میں لئے اور رومال کندھے پر رکھے اپنے اپنے کوٹھوں کے گاہکوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ جبکہ وہ خود اس گندگی میں لتھڑا ہوا تھا لیکن ان دلالوں سے اسے گھن آتی تھی 

لیکن اب کچھ دن سے شاہد محسوس کر رہا تھا کہ عارفہ کو ڈاکٹر کی بتائی گئی خوراک بھی پوری میسر ہوتی ہے اور نجمہ کے دوپٹے کی گرہ بھی موجود ہوتی ہے۔ کئی بار اس کے ذہن میں گرہ کھولنے کا خیال آیا لیکن حالات کی صورت دیکھ کر وہ یہ خیال جھٹک دیتا 

اب اسے مینا کی طرف گئے ہوئے ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا۔ اور اس رات وہ بے بس ہو چکا تھا۔ مینا کے ساتھ گزرے نشاط انگیز لمحات اس کے پردۂ دماغ پر رنگین فلم کی طرح چل رہے تھے۔ من کو بہتیرا بہلانے کے باوجود اس کی طلب بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ بمشکل خود کو کل کے دلاسے پر سلانے میں کامیاب ہوا تھا

آج صبح سے ہی شاہد کی آنکھیں مسلسل ماں کے دوپٹے پر لگی ہوئی تھیں۔ جس پر لگی گرہ اسے معمول سے زیادہ بھاری محسوس ہو رہی تھی۔ گھر کی صفائی کیلئے نجمہ نے دوپٹہ اتار کے چارپائی پر پھینکا اور پانی لانے کیلئے نل پر چلی گئی۔ شاہد نے دوپٹہ اٹھایا اور کمرے میں چلا گیا۔ جانے کیوں آج اسے یہ عمل چوری معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے دانتوں سے گرہ کھولی اور اس کی نظر سرخ اور سبز رنگ کے نوٹوں پر پڑی۔ لیکن ان نوٹوں کے نیچے اسے کچھ کڑکڑاتی ہوئی شے محسوس ہوئی۔ شاہد نے نوٹوں کو اٹھایا تو اس کی نظروں کے سامنے اس کی جانی پہچانی تحریر تھی "اسقاطِ حمل کیلئے"

اس نے سب کچھ دوپٹے کی نکڑ پر رکھا اور ویسی ہی گرہ لگا دی اور گھر پر اک طائرانہ نظر ڈال کر باہر نکل گیا 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر شریف