سلسلہ معمہ

2019-12-03 14:24:13 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 26

"چھٹی حس"

 

      ہم میں سے کسی کا سامنا خلائی یا برفانی مخلوق سے نہیں ہوا نہ ہی ہم کبھی برمودا تکون یا ایریا 51 کے پاس گئے ہیں مگر آج جس معمے پر بات کروں گا تو یقیناً آپ کے ساتھ زندگی میں کئی بار اس طرح کے تجربات ہوئے ہوں گے۔

 

      ہم جانتے ہیں کہ انسان کی ظاہری اور باطنی صلاحیتوں کا محور فقط حواسِ خمسہ (سماعت، بصارت، لمس، سونگھنا اور چکھنا) تک محدود نہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا علم انسان کو خود بخود ہوجاتا ہے اور اس کیلئے اس کے پاس کوئی ٹھوس توجیح یا علم موجود نہیں ہوتا ہے مگر اس کا ادراک نہ صرف درست ہوتا ہے بلکہ یہ دوسروں کیلئے حیران کن بھی ہوتا ہے۔

ایسے علم، تجربے یا صلاحیت کو Extrasensory Perception، چھٹی حس کہتے ہیں۔

یعنی انسان کو کسی ایسی بات کا علم ہو جائے جو بظاہر موجود نہ ہو۔

 

      دنیا میں کئی ایسی علوم ہیں جن کے وجود کو نہ کسی نے ثابت کیا ہے اور نہ کر سکتا ہے مگر اس کے باوجود کروڑوں لوگ ان پر ایسے ہی یقین رکھتے جیسے دیگر سائنسی علوم پر ان کا یقین ہوتا ہے۔

اگر میں آپ کو بتاؤں کہ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ کیا پڑھا جاتا ہے تو یقیناً یہ سن کر آپ کو حیرت ہوگی کہ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ Horoscope یعنی ستاروں کا حال پڑھا جاتا ہے۔ اس سے ایک بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد ستاروں کے حال پر یقین رکھتی ہے اور دوسری بات یہ کہ ان میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے۔

 

چھٹی حس کی بھی کئی اقسام ہیں۔

اس کی کچھ اقسام پر بات کرتے ہیں۔

 

ٹیلی پیتھی:

     ٹیلی پیتھی اس علم کا نام ہے جس کے ذریعے دو انسان بغیر کسی مادی وسیلے کے ایک دوسرے کے ذہنوں سے رابطہ کریں چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں۔

ٹیلی پیتھی‘ ہپناٹزم یا مسمریزم، ان ناموں سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ انگریزوں کی ایجاد ہو مگر ایسا نہیں ہے۔ مسلمان اسلاف صدیوں پہلے ٹیلی پیتھی سے آگاہ تھے۔

کہتے ہیں قوت ٹیلی پیتھی کا حصول ممکن ہے بشرطیکہ انسان میں مستقل مزاجی اور صبر کا مادہ ہو، اتنی بڑی قوتیں ہفتوں اور مہینوں میں حاصل نہیں کی جاسکتیں اس کیلئے ایک طویل عرصے کی ریاضت کی ضرورت ہے۔

ان قوتوں کو حاصل کرنے کیلئے جو ریاضتیں کی جاتی ہیں اسے عرف عام میں یکسوئی یا ارتکاز توجہ کی مشقیں کہتے ہیں۔ ارتکاز توجہ اور یکسوئی سے انسان اپنی تمام تر توجہ کو کسی ایک نکتہ پر قائم کرتا ہے جب توجہ کسی نکتے پر قائم ہوجاتی ہے تو انسان بے شمار خرق العادات کا حامل بن جاتا ہے مثلاً کشف القلوب‘ تھاٹ ریڈنگ‘ توجہ سے سلب امراض اور قوت خیال کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا۔

یکسوئی کا حامل جب کسی کی طرف اپنا خیال روانہ کرتا ہے تو مطلوبہ شخص ہزاروں لاکھوں میل دور سے خیال وہم یا گمان کی صورت میں اپنی چھٹی حس سے محسوس کرلیتا ہے لیکن ان باتوں کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان یکسوئی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہو کہ جس کام جس غرض کیلئے یکسو ہوجائے تو ایسا غرق ہوجائے کہ آس پاس کی خبر نہ رہے۔ یکسوئی کی اس درجہ پر پہنچنے کیلئے ماہرین فن نے بے شمار مشقیں بیان کی ہیں۔ مثلاً آئینہ بینی، شمع بینی، دائرہ بینی، ماہتاب بینی، آفتاب بینی، جور بینی وغیرہ وغیرہ۔۔

 

غیب دانی یا روش بینی۔

      کسی ایک جگہ ہونے والا واقعہ کسی دوسری جگا دیکھنا یا محسوس کرنا۔

یہاں میں اپنا ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔

یہ ایک سال پہلے کی بات میرے دوست کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ اختلافات تھے۔ اس کی بیوی اسے چھوڑ کر گاؤں چلی گئی اور اس کی چند ماہ کی ننی بیٹی فائقہ کو بھی ساتھ لے گئی۔ وہ مجھے اکثر بتاتا تھا کہ اسے فائقہ بہت یاد آتی ہے۔ خود مجھے بھی فائقہ بہت پیاری لگتی تھی۔

اس دن میں بلا وجہ بہت پریشان تھا میں سگریٹ لے کر ایک دوست کے بیٹھک آیا وہاں سگریٹ پیتے ہوئے میری حالت مزید خراب ہوئی۔ مجھے عجیب سی گھبراہٹ ہونے لگی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ مجھے کوئی بہت بری خبر ملنے والی ہو۔ میں بیٹھک سے باہر نکلا تو ایک دوست کی کال آئی۔ میں کال اٹھانے سے گھبرا رہا تھا کہ کوئی بری خبر نہ ہو۔ اللہ کا نام لے کر کال اٹھائی تو خیریت تھی۔

مجھے رات کو بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سو گیا تو دوبارہ اٹھ نہیں سکوں گا۔ مختلف دعائیں پڑھ کر میں آخر سو گیا۔ صبح اٹھا تو دوست کا میسیج آیا تھا کہ رات اس کی بیٹی فائقہ انتقال کر گئی ہے۔ مجھے یہ سن کر جتنا افسوس ہوا اتنا ہی میں سوچ ڈوب گیا تھا کہ یہ سب محض اتفاق تھا یہ فائقہ نے اپنے والد کے لئے کچھ پیغامات ارسال کئے تھے جو اس کے بدلے میری چھٹی حس نے محسوس کر لئے تھے۔

 

پیش بینی:

      مستقبل کے بارے میں جاننا یا بتانا۔

پیش بینی دو قسم کی ہیں ایک شیاطین کی طرف سے یعنی نجوم، اور دوسری خدا کی طرف سے یعنی بزرگی۔ اور ان دونوں کے ماننے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔

دنیا میں نجوم کا علم رکھنے والے کروڑوں ڈالر کا کاروبار کرتے ہیں اور یہ شعبہ ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ستاروں کا علم رکھنے والے اب اپنے گاہکوں کو مختلف قسم کی خدمات پیش کر رہے ہیں۔

آپ انٹر نیٹ لگائیں تو آپ کو بے شمار جوتشی یا ماہر علم نجوم مل جائیں گے جو آپ کو یہ مشورے دینے کے لیے تیار ہوں گے کہ آپ سٹاک مارکیٹ سے کونسے حصص اٹھائیں اور کہاں سرمایہ لگائیں یا روپے کی قدر میں کمی ہو گی یا وہ بہتر ہو گی اور سونے کی قیمت کہاں جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں اصلی علم نجوم رکھنے والا بھی کوئی ہے یا نہیں کیونکہ کہ اصل علم نجوم سے انکار کرنے والا پھر قرآن میں لکھے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے سے بھی انکاری ہے۔

1898 میں مورگن رابرٹسن نے "Futility" نام سے ایک ناول لکھا تھا جس میں "Titan" نام کے ایک پانی کے جہاز کے ڈوبنے کا ذکر کیا گیا تھا اور پھر 40 سال بعد ٹائٹانک جہاز ڈوبتا ہے۔ ناول میں ٹائٹن کے بارے میں جو بتایا گیا تھا ٹائٹانک بھی ویسا ہی تھا اور پھر اسی طرح برف سے ٹکرا کر ٹوٹ کر ڈوب گیا جیسے ٹائٹن ناول میں ڈوبا تھا۔

 

      پیش بینی کی دوسری قسم بزرگی ہے یعنی خدا کا ولی ہونا۔ یہ عقیدہ صرف اسلام کا نہیں بلکہ تمام مذاہب کا ہے کہ خدا کے برگزیدہ بندے جو اپنی تمام تر زندگی خدا کی بندگی اور اسکی عبادت اور زہد و تقویٰ کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ خدا انہیں جب چاہیں اپنی خصوصی عنایت سے ولی، ابدال، قطب، سینٹ اور غوث جیسے اعلیٰ و ارفع روحانی مراتب پر فائز کر دیتے ہیں جہاں ان سے خارق عادت اور کشف و کرامات کا ظہور ہوتا ہے اور وہ ہاتف غیبی، القاء اور الہام کا ادراک رکھتے ہیں۔

ایسے اولیاء کی اگر ہم بات کریں تو حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئیاں بہت حیران کن طور پر درست ثابت ہوئی ہیں۔

نعمت اللہ شاہ آج سے قریبا آٹھ سو پچاس 850 سال قبل ایک مشہور و معروف صوفی ولی گزرے ہیں جن کے ہزاروں فارسی اشعار پر مشتمل دیوان کے علاوہ ایک قصیدہ بہت مشہور ہے جس میں اس برگذیدہ ولی نے آنے والے حوادث کی پیشن گوئی فارسی اشعار کی صورت میں کی ہے، جو آج تک حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی چلی آرہی ہے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے قصیدے لکھنے کی تاریخ سے 100 تا 800 سال بعد بر عظیم پاک و ہند میں آنیوالے بادشاہوں کے نام ترتیب وار ان کے قصیدے کے اشعار میں پڑھتے ہیں جبکہ وہ حکمران ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ سب سے پہلے مشہور مغل بادشاہ امیر تیمور کا نام اسکی پیدائش سے تقریبا 200 سال قبل اپنی پیشن گوئی کے ایک ابتدائی شعر میں لکھتے ہیں۔ اسکے بعد لودھی خاندان کے حکمران سکندر لودھی اور ابراہیم لودھی کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر ان کے بعد آنے والے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمران بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں کے نام ان کے اشعار میں آتے ہیں اور یوں خاندان مغلیہ کے 300 سالہ دور حکومت کی ترتیب وار پیشن گوئی کرتے ہوئے وہ انگریزوں کی ہند میں آمد تک خاندان مغلیہ کے قریبا تمام حکمرانوں کو اور ان کی مدت حکمرانی بیان کر دیتے ہیں۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی تمام حجابات سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کرہء ارض پر تا قیامت تک نمودار ہونے والے کم و بیش تمام بڑے واقعات و حوادث کو اپنے قصیدے میں بیان کرتے ہیں جو ماضی کی تاریخ کی روشنی میں بالکل صحیح، واضع اور عام فہم ہیں اور مستقبل میں اس کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی عالم غیب کی پردہ کشائی سے پہلے کچھ یوں فرماتے ہیں:

 

قدرت کرد گار مے بینم

حالت روز گار مے بینم​

 

ترجمہ: میں اللہ تعالی کی قدرت دیکھ رہا ہوں، میں زمانہ کی حالت دیکھ رہا ہوں۔

 

از نجوم ایں سُخن نمے گویم

بلکہ از کردگار مے بینم​

 

ترجمہ: میں یہ بات علم نجوم کے ذریعے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ذات باری تعالی کی طرف سے دیکھ رہا ہوں۔

 

      ان دو اشعار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مستقبل کا حال جاننے کا ذریعہ علم نجوم کے علاوہ بھی ہے اور وہ بزرگی ہے۔

 

ماضی قریب میں دیکھنا:

      کوئی واقعہ ہوا ہو اور کسی کو بعد میں ادراک ہو جائے کہ اس طرح ہوا ہوگا یہ بھی چھٹی حس کی ایک قسم ہے۔

ایسے کرداروں کا ذکر آپ لوگوں نے ناولوں میں سنا ہوگا جن کی چھٹی حس انہیں بتا دیتی ہے کہ کیا ہوا ہوگا۔ اصل زندگی میں بھی ایسے پولیس آفیسرز پائے جاتے ہیں جو کیس سننے کے بعد اپنی چھٹی حس سے محسوس کر لیتے ہیں کہ واقعہ جس طرح بیان کیا گیا ایسا نہیں ہوگا۔

 

رابطہ ارواح:

      روحوں سے رابطہ کر کے کسی بارے میں بتانا۔

چھٹی حس کی یہ قسم اکثر فلموں میں دکھاتے ہیں مگر چھٹی حس پر یقین رکھنے والے بھی اسے حقیقت تسلیم نہیں کرتے البتہ اصل زندگی میں کچھ پیر فقیر اس علم کا دعویٰ کرتے ہیں۔

 

      حواسِ خمسہ کے علاوہ ماروائے حواس کے وجود کا نظریہ انسان کے ابتدائی دور سے ہے اور اس کے کئی کیسز بھی موجود ہے مگر اس کے متعلق انسانوں کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

 

چھٹی حس یا محض اتفاق:

      ماہر نفسیات کا نظریہ ہے کہ انسان کے دماغ میں لاتعداد دھندلی یادداشتیں ہوتی ہیں۔

اگر وہ بچپن میں کسی راستے میں ایک آوارہ کتا بھی دیکھے تو وہ منظر اس کے دماغ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور پھر اگر وہ کئی سالوں بعد اسی راستے سے گزرے تو اس کو خیال آتا ہے کہ راستے میں اسے کتا نظر آئے گا۔ پھر اگر اسے کتا نظر نہیں آتا تو وہ اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اگر اس کے خیال کے مطابق اسے اتفاق سے وہاں کوئی کتا نظر آجائے تو وہ اسے اپنی تیز چھٹی حس کا کمال قرار دے دیتا ہے۔

 

چھٹی حس پیرانارمل سائنس:

      پیرانارمل سائنس پر تحقیق کرنے والے خیال ظاہر کرتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ چھٹی حس برقی شعاعوں کے ذریعے کام کرتی ہو مگر کچھ لوگوں یا کسی خاص صورت حال میں ہی یہ انسانی دماغ میں جاتی ہو اور سائنس اب تک اس کو دریافت نہ کر چکی ہو۔ جس طرح ایکسرے یا ریڈیو کی لہرے ہوتی ہیں جو آج سے کچھ سال پہلے دریافت نہیں ہوئی تھی۔

 

چھٹی حس ایک حقیقت:

      کچھ لوگ چھٹی حس کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں جن میں مذہبی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خدا کی طرف سے انسان کو ڈائریکٹ اشارہ ملتا ہے جب کے کچھ اسے انسان میں پہلے سے موجود صلاحیت قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں انسان کی ظاہریری اور باطنی صلاحیتوں کا محور حواسہ خمسہ تک محدود نہیں ایک ہی چیزکو دو شخص مختلف زایوں سے دیکھتے ہیں ایکسرے ایک عام شخص کیلئے ایک نگیٹو کاپی ہے لیکن ایک ڈاکٹر کیلئے بیماری کی تشخیص کا ذریعہ ہے یہ مختلف نتائج علم ، عقل اورتجربات کی بنیاد پر ہوتے حالانکہ مشاھدہ کا ذریعہ ایک ہی قوت بصارت ہے بس ایسے تجربہ اور علم اور عقل کو چھٹی حس کا نام دیا جاتا ہے جیسا کہ مشہور مثل ہے علم انسان کی تیسری آنکھ ہے۔

 

ماروائے حواس کچھ بھی نہیں:

      سائنسدانوں نے اس طرح کے تجربات پر کئی تحقیق کئے مگر اب تک کوئی بھی تجربہ سائنسی طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔

جیمز رینڈی ایک معروف امریکی شعبدہ باز ہے جو اسٹیج پر شعبدہ بازی میں نئی نئی تکنیک لے کر آتے ہیں۔ اس کا شمار سائنسدانوں میں بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اسٹیج پر جو بھی جادو دکھاتا ہے وہ ایک نئی سائنسی تکنیک ہوتی ہے جسے لوگ جادو سمجھتے ہیں۔ جیمز کا کہنا ہے کہ اس کی تقریباً ساری زندگی اسی میں نکل گئی کہ وہ کسی طرح کوئی ماروائے حواس چیز سیکھ سکے مگر وہ نہیں سیکھ سکا۔ جیمز رینڈی نے کئی بار ٹی وی پر یہ آفر کی ہے کہ اگر کسی کے پاس کسی بھی قسم کا کوئی ماروائے حواس کچھ بھی کرنے کا تجزیہ ہے تو وہ میرے سامنے آ کر کرے میں اسے ایک ملین ڈالر کا انعام دوں گا۔

جیمز رینڈی کہتے ہیں کہ یہ چیلنج میں 1964 سے دے رہا ہوں مگر آج کی تاریخ تک کوئی بھی اس چیلنج کو قبول کرنے نہیں آیا۔ اس بات ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے کمالات دکھانے والے میری ہی طرح کے شعبدہ باز ہوتے ہیں جو سائنسی علوم سے ہی اس طرح کے کھیل دکھاتے ہیں۔

 

چھٹی حس اور اسلام:

چھٹی حس کی بیان کردہ تمام قسموں کے علاوہ الہام اور وجدان ایسی قوتیں ہیں جن کا ذکر اسلام میں کئی جگہ موجود ہے۔

کہا جاتا ہے کہ الہام اور وجدان خداد داد صلاحیتیں بھی ہو سکتی ہیں اور مجاہدات و ریاضت سے بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔

وجدانی قوت کے حامل لوگ باڈی لینگویج سے شخصیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انسان کے اندر کی منفی و مثبت کیفیت بھانپ سکتے ہیں جبکہ الہام کے ذریعہ سے انسان کو کوئی پیغام ملتا ہے۔

بعض اوقات اللہ تعالٰی کی طرف سے کسی نیک صالح مسلمان کے دل میں حالت بیداری میں کوئی اچھی بات ڈال دی جاتی ہے، جس کا تعلق مستقبل کی کسی غیبی بات سے ہوتا ہے۔ اگر یہ الہام انبیاء کی طرف کیا جائے تو یہ بمنزلہ وحی شمار ہوتا ہے، مگر غیر انبیاء کا الہام وحی نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ وحی کے مقابلہ میں انتہائی کمزور اور خواب کے مشابہ ہوتا ہے یعنی جس طرح حالت نیند میں سچے خواب کے ذریعے کسی غیبی امر سے مطلع کر دیا جاتا ہے، اسی طرح حالت بیداری میں بعض اوقات بذریعہ الہام کوئی بات دل میں ڈال دی جاتی ہے اور پھر وہ اسی طرح پیش آتی ہے جس طرح اس کے بارے میں خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ذکر کئی اسلامی قصوں میں موجود ہے۔

قرآن مجید میں الہام کے کئی واقعات موجود ہیں۔

 

چھٹی حس نہیں شعور:

       ہمارے اندر بہت سی قوتیں ہیں۔ سوچنے کی قوت، انتخاب کرنے کی قوت، فیصلہ کرنے کی قوت۔ یہ ساری قوتیں شعور کے تحت ہیں۔

ہم دو چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلاً مجھے یہ کام کرنا چاہیے یا نہ کرنا چاہیے اور جب سوچنے سمجھنے کے بعد کسی کام کا انتخاب کر لیتے ہیں تو فیصلہ کر گزرتے ہیں۔ یہ سارے کام جان بوجھ کر دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں البتہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر سے خودبخود ایک خیال ابھرتا ہے اور ہم اس خیال کی درستی اور نادرستی کا عقلی فیصلہ کیے بغیر اس خیال کو عملی جامہ پہنا دیتے ہیں درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر ایک اجنبی شخص ہمیں ملتا ہے اور ہم ایک ہی نظر میں اسے پسند کرکے اپنا رازدار بنا لیتے ہیں، یا ایک معالج کسی مریض کو دیکھ کر بغیر کسی ظاہری وجہ کے چند دواؤں میں سے ایک دوا چن لیتا ہے اور دوا مریض کے حق میں اکسیر ثابت ہوتی ہے، یا ہمارے ذہن میں یکایک یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں قدم اٹھانا چاہیے، بظاہر وہ قدم خطرناک ہوتا ہے، مگر نتیجے میں کامیابی ہوتی ہے۔

اس کا تعلق ہمارے حواسِ خمسہ سے ہی ہوتا ہے۔

طوفان آنے سے کئی دن پہلے چیونٹیاں محفوظ مقامات پر چلی جاتی ہیں۔ ان کا عمل ان کی چھٹی حس نہیں بلکہ ان کی دیگر حواس کی بدولت ہوتا ہے۔ طوفان سے قبل چیونٹیاں ہوا سے طوفان کی خوشبو سونگھ لیتی ہے، اس لیے اپنے بل اور سوراخ چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں میں چلی جاتی ہیں۔ ہر واقعے کے پیش آنے سے پہلے فضا میں یقیناً نازک، باریک اور مخفی تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی اور چیونٹیاں ان تبدیلیوں کو اپنے حواسِ خمسہ سے ریکارڈ کر لیتی ہیں جسے انسان یا کسی دوسرے جانور کے حواس محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ عورت کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے وہ اپنے بارے میں کسی کی نیت کو جان لیتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر کوئی شخص آپ کو پسند کرتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر کچھ حرکات کرتا ہے جسے آپ اپنے حواس خمسہ سے جانچ لیتے ہیں مگر اسے بیان کرنا آپ کے بس میں نہیں ہوتا اور آپ اسے چھٹی حس کا کمال کہہ دیتے ہیں۔

مثلاً:

اگر کوئی شخص آپ کو پسند کرتا ہے تو وہ غیر محسوس انداز میں آپ کے قریب کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے وہ لاشعوری طور پر اپنے اور آپ کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے،

اگر وہ آرام دہ حالت میں بیٹھا ہوتا ہے تو آپ کو دیکھ کر اپنی پشت اور کمر سیدھی کر لیتا ہے،

خواتین کی عادت ہے کہ جب وہ کسی پسندیدہ شخص سے ملتی ہیں تو اپنے بالوں کو باربار درست کرتی ہیں، اس طرح مرد اور عورت دونوں میں کوئی کسی کو پسند کرتا ہے تو وہ کسی بھی محفل یا تقریب میں حتی الامکان اس کو اپنی نظر کی حدود میں رکھتا ہے اور اس دوران کوئی چٹکلہ چھوڑنے یا دلچسپ بات کرنے کے بعد اس کی طرف ضرور دیکھتا ہے کہ اس پر اس کی بات کا کیا اثر ہوا۔ اگر کوئی شخص سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی دوسرے کے کام کرنے بیٹھ گیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کا کام اس کے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اس کو پسند کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ہر بات پر اس کی تعریف کرتا ہے یا اس سے بات کرنے کے لئے بہانے تلاش کرتا ہے پسندیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس طرح کئی اشارے ہیں اگر مزید بیان کروں گا تو ٹاپک چھٹی حس سے "کسی اور" طرف نکل جائے گا۔

تو ایسے اشارے انسانی دماغ ریکارڈ کرتا ہے مگر وہ اسے بیان نہیں کر پاتا کیونکہ کہ وہ چھوٹے چھوٹے خیالات اور تجربات کا مجموعہ ہوتا ہے جسے ہم بالآخر چھٹی حس کا نام دے دیتے ہیں۔۔

 

کیا آپ اپنی چھٹی حس پر یقین رکھتے ہیں؟

اگر ہاں تو کیوں؟

کیا آپ کی چھٹی حس نے کبھی آپ کوئی اشارہ دیا ہے جو سچ ثابت ہوا ہو؟؟؟؟؟؟