احساس کا دروازہ کھول کر لکھیے

2019-12-04 10:16:05 Written by لعل خان

احساس کا دروازہ کھول کر لکھیے
آپ اگر میٹرک پاس ہیں تو پھر آپ لازماً ہیلن ایڈمز کیلر کو جانتے ہوں گے۔یہ 27جون 1880کو امریکی ریاست الابامہ میں پیدا ہوئی ،یہ ہینلے کیلر اور کیتھرین ایڈمز کی پہلی بیٹی تھی۔پیدائش کے ایک سال اور سات ماہ کے بعد یہ کسی پیچیدہ دماغی مرض کا شکار ہوئی ،مرض چلا گیا مگر اپنے ساتھ ہی اس کی آنکھیں ،کان اور زبان بھی لے گیا۔ہیلن پونے دو سال کی عمر میں گونگی ،بہری اور اندھی ہو گئی۔اس کا بچپن احساس کمتری میں گزرا ،چڑچڑی تھی ،اپنی سگی بہن سے جلتی تھی ،ماں سے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔بالاخر اس کی تربیت کے لیے مس سولیون کی مدد لی گئی ۔مس سولیون نے اسے اشاروں سے دیکھنا ،سننا بولنا اور پڑھنا بھی سکھا یا ،اس اندھی ،گونگی اور بہری بچی نے آگے چل کر دی سٹوری آف مائی لائف ،دی ورلڈ آئی لیو ان ،لائٹ ان مائی ڈارک نس،آؤٹ آف دی ڈارک ،دی سونگ آف دی سٹون وال،اوپٹیمزم،تھری ڈیز ٹو سی اور ان سمیت بہت ساری کتابیں لکھیں۔یہ سب آپ جانتے ہوں گے ،آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ہیلن دنیا کی پہلی گونگی ،بہری اور اندھی لڑکی تھی جس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری لی ،یقیناًآپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس کی کتابوں کے پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمے ہوئے اور اسے دنیا بھر میں پڑھا اور پڑھایا بھی جاتا ہے ۔آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس کی کتابوں کے علاوہ اس کی زندگی پر بھی فلمیں بن چکی ہیں ۔یہ ساری باتیں آپ جانتے ہوں گے اور اگر نہیں جانتے تو اتنا مشکل نہیں ہے ،گوگل پر میری طرح صرف ایک گھنٹہ لگا لیجیے ،آپ اس سے کہیں زیادہ جان جائیں گے ۔لیکن کیا آپ نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہیلن کی خاص بات کیا تھی،اس کی اسپیشلٹی کیا تھی، کیوں آج ایک سو انتالیس سال بعد بھی ہم اسے پڑھ رہے ہیں ،پڑھا رہے ہیں اور آج بھی اس کی لکھی ہوئی کتابیں کیوں زندہ ہیں؟کیا اس لیے کہ اندھی ،بہری اور گونگی ہونے کے باوجوداس نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا ،یا اس لئے کہ وہ اپنی کہانی خود لکھنے کے قابل ہو گئی تھی؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ،میں نے اسے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں پڑا مگر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہیلن کی کامیابیوں کے پیچھے اس احساس کا ہاتھ ہے جسے پکڑ کر اس نے اپنی زندگی کے سب اندھیروں کو مات دے دی۔ہیلن اندھی ہو گئی مگر اس کے دل میں احساس کی آنکھ کھل گئی ،ہیلن زندگی کے ایک ایک لمحے کو احساس کے ساتھ جیتی تھی ،و ہ پانی کو پینے سے پہلے محسوس کرتی تھی اور کھانے کی خوشبو کو سونگھ کر اس کا لطف اٹھایا کرتی تھی ،وہ جوں جوں بڑی ہوتی گئی اس کا احساس طاقت ور ہوتا چلا گیا ،اسے فطرت سے عشق تھا ،وہ پھول کی پتی سونگھ کر اس میں زندگی کے خوبصورت رنگ کھوج لیتی تھی ،وہ زمین پر ننگے پاؤں چل کر اس کی نرمی اور سختی کو جانچ لیتی تھی ،وہ سردیوں کی دھوپ اور گرمیوں کی شام کو بند آنکھوں کے ساتھ انجوائے کرتی تھی،اسے پانی کی پھوار میں بھیگ کرمزہ آتا تھا اور وہ نرم ہری گھاس پرلوٹ پوٹ کر فریش ہو جایا کرتی تھی۔وہ احساس کی آنکھ سے گرمی ،سردی ،بہار اور خزاں کو دیکھتی تھی ،وہ ماحو ل کی کیفیت پر دسترس رکھتی تھی ،اسی لیے دن اور رات کے فرق کو جان لیتی تھی ،وہ تارے گنتی تھی ،وہ شبنم کے قطرے کو انگلی کی نوک پر رکھ کر محسوس کرتی تھی ۔اندھی ہیلن نے در اصل زندگی کا وہ راز پا لیا تھا جس سے بینائی رکھنے والے لاعلم رہ جاتے ہیں،ہیلن نے احساس کو اپنی زندگی کی لاٹھی بنا لیا تھا جس کے سہارے اس نے ایک ایک قد م اٹھایا اور دنیا اس کے لیے جنت بن گئی۔ہیلن نے اس حقیقت کو بھی جان لیا تھا کہ اس کے ارد گرد آنکھیں رکھنے والے در اصل اندھے ہیں اور وہ اندھی ہو کر بھی سب کچھ دیکھ سکتی ہے ۔چند مشہور واقعات بھی ہیں ،ایک مرتبہ اس نے اپنی کسی دوست سے پوچھا ۔’’تم اسپین میں چھٹیاں گزارنے گئی تھیں...کہو اسپین کیسا لگا ؟‘‘ دوست نے بیزار ہو کر کہا ’’پتا نہیں‘‘ ہیلن نے حیران ہو کر کہا تھا ۔’’حیرت ہے ...تمہاری آنکھوں کا کیا فائدہ؟‘‘ وہ کہتی تھی ۔’’مجھے اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں پر حیرت ہوتی ہے جن کی آنکھیں ان کے کچھ کام نہیں آتیں ‘‘ وہ کہتی تھی ۔’’زندگی کو محسوس کیے بنا گزارتے چلے جانا در اصل اندھے لوگوں کا کام ہے ‘‘ وہ کہتی تھی ۔ ’’ اگر آپ کے پاس احساس جیسی کوئی چیز موجود ہے تو اس دنیا میں آپ کے لئے بہت کچھ ہے ورنہ آپ خالی ہاتھ ہیں‘‘
تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ سے عیاں ہوتا احساس زندگی ہی اس کی کامیابی کی ضمانت تھا،اس نے بنا محسوس کیے زندگی میں کوئی کام بھی نہیں کیا ،وہ روز مرہ کے معمولات کو بھی غیر معمولی احساس کے ساتھ انجام دیتی تھی اور زندگی کا حقیقی لطف اٹھاتی تھی۔اس نے یہی احساس اپنی کتابوں میں لکھا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی ۔آپ اگر لکھتے ہیں تو کیا صبح اٹھ کر چائے میں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں اور اس کی خوشبو کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ پھول کی پتی میں زندگی کی دھنک دیکھ پاتے ہیں؟ کیا آپ پانی پینے سے پہلے اسے غور سے دیکھنا اور محسوس کرناضروری سمجھتے ہیں؟ کیا آپ ننگے پاؤں چل کر زمین کے وجود کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ پانی کی پھوا ر میں بھیگ کر زندگی کا ہر غم بھولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،کیا آپ بند آنکھوں سے تارے گن لیتے ہیں ،کیا آپ کوچاند کے داغ میں درخت دکھتا ہے جس کی کسی شاخ پر بیٹھ کر آپ جیسا کوئی کتاب پڑھنے میں مگن ہوتا ہے ؟کیا آپ نے کبھی اوس کے قطرے کو انگلی کی پور پر چنا ہے ؟کیا آپ زندگی کا ہر لمحہ مکمل احساس کے ساتھ گزار رہے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو مبارک ہو ۔۔۔آپ بھی ہیلن کیلر ہیں ۔۔۔اور اگر آپ یہ سب نہیں کرتے تو پھر آپ حقیقت میں اندھے ہیںیا پھر آپ روبوٹ ہیں ....پھر آپ کچھ بھی بن سکتے ہیں مگر ہیلن کیلر نہیں بن سکتے ۔۔۔آپ لکھاری نہیں بن سکتے کیوں؟.....کیونکہ آپ اپنے احساس کی لاش پر کھڑے ہو کر دوسروں کے احساسات بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کسی صورت ممکن نہیں ہے ...اپنے احساس کا دروازہ کھول کر لکھیے ....لکھتے رہیے۔