ادھوری کہانی

2019-12-06 08:47:07 Written by کاشی قاسم

ادھوری کہانی

 

اندھیری کہر آلود رات اداسی کے لق و دق بیاباں پر زیریلی ناگن کی طرح سرسرا رہی تھی .... گہری خاموشی کے مہیب سائے ستاروں کا نور استعار لے کر مزید پراسرار ہوگئے تھے ..... بے رنگ اندھیرے سے لڑتی روشنی کی ایک رمق اس کھنڈر نما مکان کا دھندلا سا ہیولہ دکھاتی تو ناظرین کے اذہان لاتعداد ان دیکھے اندیشوں میں جکڑ جاتے .... مکان سے بلند ہوتی موسیقی کی دھن یوں اکھڑی اکھڑی بازگشت کے ساتھ فضا میں بکھر رہی تھی جیسے کسی شکستہ دل ساحر نے رات کی دھیمی سانسوں میں اپنا سیاہ جادو تحلیل کردیا ہو .... بے اماں شب کی سسکتی روحیں موسیقی کی دھن پر رقص کناں تھیں ۔ 

 

ناقابل برداشت ٹھنڈ میں بھی اس مکان کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی .... وقتاً فوقتاً دور سڑک سے گزرتی گاڑیوں کی روشنی اندھیرے کے تاریک طلسم کو جگمگا دیتی .... کھڑکی کے سامنے بیٹھا وہ جھاڑ جھنکار بالوں والا شخص سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے آسماں کی بے کراں وسعتوں میں جھانک رہا تھا .... حوادث زمانہ نے اس کے چہرے پر انتہائی مہارت سے جھریاں نقش کی تھیں لیکن پھر بھی جھریوں کے پیچھے سے جھانکتی جوانی کی تازگی عیاں تھی .... سیاہ حلقوں کے پہرے میں قید دھندلی آنکھیں اپنی سخت جان بناوٹ سے میل نہیں کھاتی تھیں .... شائد یہ آنکھیں بھی کبھی چمکدار رہی ہوں گی لیکن ہجر میں چپکے چپکے بہائے گئے اشکوں نے ان کے نور کو گہنا دیا تھا۔ 

 

وہ تنہائی کے رموز و اسرار سے بخوبی آشنا تھا غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی چھٹی حس شکست خوردہ جوگی کی اس روگی جنت میں کسی دوسرے کی موجودگی کا اشارہ دے رہی تھی .... سگریٹ کے دو گہرے گہرے کش لگا کر اس نے سگریٹ کھڑکی سے باہر پھینک دی .... پتھریلی زمین پر سگریٹ گرنے سے لاتعداد سسکتی چنگاریوں نے جنم لیا اور دوسرے ہی لمحے وہ گھٹاٹوپ اندھیرے کا حصہ بن گئیں .... اس نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس نے دوسری سگریٹ سلگائی اور دراز سے پستول نکالتے ہوئے کھڑا ہوگیا .... مکان کے اندر بھیانک تاریکی کا اندھا راج تھا لیکن اس کے نپے تلے قدم بتا رہے تھے کہ وہ مکان کے چپے چپے سے واقف ہے .... زرا ہی دیر میں وہ اس اجنبی کے روبرو کھڑا تھا ... اس نے اجنبی کا چہرہ بغور دیکھنے کی کوشش کی لیکن اندھیرے کی بے رنگ چادر کے پیچھے جھانکنا اس کے اختیار میں نہیں تھا

 

"تم ایک بزدل شخص ہو علی ..... تم پستول پکڑ سکتے ہو لیکن چلانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ..." اجنبی کی طنز میں ڈوبی پاٹ دار آواز کمرے پر طاری ہولناک سکوت کا سینہ چیرتے ہوئے اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔ "جیسے تم نے عشق کیا لیکن کبھی جرات اظہار نہ کرسکے۔"

 

"بکواس بند کرو .....!" اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا 

 

یہ تماشہ ہر شب دہرایا جاتا .... ہر شب وہ شناسا اجنبی اس کی تنہائی میں مخلل ہوتا .... ہر شب وہ اس کے زہر میں بجھے لفظوں کے نشتر سہتا اور ہر شب اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ برپا ہوتی .... دل پستول کی لبلبی دبانے کو مناتا جبکہ دماغ اس اقدام سے باز رکھنے کیلئے زور لگاتا ۔ اس نے زندگی میں صرف ایک بار دل کی سنی تھی اور ایک ہی بار میں دل نے اسے برباد کردیا تھا لیکن آج پھر وہ دل کی ماننے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔ اس نے پستول اجنبی پر تان کرکے آہستگی سے سیفٹی لاک بند کیا پر سیفٹی لاک کی چبھتی آواز کو خاموش کروانا اس کے بس سے باہر تھا ....چند لحظے کیلئے وہ آواز کمرے کے ویران سکوت میں گونجتی رہی پھر اجنبی نے اس گونج کا تسلسل توڑا ۔

 

"دنیا میں روزانہ لاتعداد افراد کی ان کہی کہانیاں ادھورے اختتام کو پہنچتی ہیں ... " اجنبی کا لہجہ پر قسم کے جذبات سے عاری تھا .... "دو کہانیاں مزید ادھوری رہ جائیں تو تمہیں لگتا ہے دنیا کو کوئی فرق ....." پستول کے دہشت انگیز دھماکے نے اجنبی کی بات کاٹ دی تھی 

 

عین اسی لمحے سڑک سے گزرتی گاڑی کی روشنی نے صدیوں پر محیط تاریکی کا طلسم توڑ ڈالا ۔ اس کے اور اجنبی کے بیچ حائل اندھیرے کی چادر چاک ہوگئی تھی .... وہ اجنبی کا چہرہ دیکھ کر چونک اٹھا .... وہ چہرہ اس کیلئے اجنبی نہیں تھا ..... وہ قہقہے لگا رہا تھا ..... درد میں ڈوبے خون آلود قہقہے .... اس کے ہاتھ سے پسٹل چھوٹ کر سیمنٹ کے پکے فرش پر جا گرا ..... موسیقی کی دھیمی سی دھن بدستور کمرے کی ہولناک اداسی میں تحلیل ہورہی تھی ۔ وہ یک ٹک دیوار پر فریم ہوئی اپنی ماضی کی تصویر کو دیکھتے ہوئے آہستگی سے زمین پر ڈھیر ہوگیا ....

 

اس نے آج ہمیشہ کیلئے اپنے ماضی و حال .... دونوں کی کہانیوں کو ادھورا چھوڑ دیا تھا ....