کیا آپ اس قابل ہیں؟

2019-12-07 15:19:33 Written by Lal Khan

آپ اس لائق ہی نہیں ہیں  

 

 اوکٹیویا ای بٹلر 22جون 1947کو کیلیفورنیا کے شہر پاسا دینا میں پیدا ہوئی۔یہ سیاہ فام تھی،اس زمانے میں امریکہ میں سیاہ فام ہونا کسی عذاب سے کم نہیں تھا،اس کا باپ بوٹ پالش کرتا تھا اور ماں دوسروں کے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھی۔اوکٹیویا تین سال کی عمر میں ماں کی انگلی پکڑ کر لوگوں کے گھروں میں جاتی تھی،یہ اپنی آنکھوں سے ماں کو گالیاں اور دھکے کھاتے ہوئے دیکھا کرتی تھی۔سفید فام امریکی عورتوں نے کئی مرتبہ اس کی کالی اور بھدی دکھنے والی ماں کو بالوں سے پکڑ کر چانٹے مارے تھے اور اپنے گھروں سے دھکے مار کر نکالا تھا۔اوکٹیویا سات سال کی ہوئی تو اس کا باپ زندگی کے بوجھ سے آزاد ہو گیا۔اوکٹیویا کی ماں اب بالکل بے سہارہ ہو گئی،یہ زمانے کی ٹھوکروں کی محتاج ہو گئی۔اوکٹیویا کا بچپن لکھنے والے اسے ”شرمیلی“ بتاتے ہیں۔یہ وہ شرم نہیں تھی جو پرانی فلموں میں ہیروئین کا خاصہ ہوا کرتی تھی،یہ شرم دراصل وہ گالی تھی جو معاشرہ اسے اور اس کے ماں باپ کو دیا کرتا تھا،یہ شرم ذلت کا وہ بوجھ تھی جسے اوکٹیویا پیدا ہوتے ہی ڈھونے لگی تھی،یہ شرم اس کا احساس کمتری تھا جو سفید فام لوگوں کو دیکھ کر روز بڑھتا تھا۔اوکٹیویا کا دوست کوئی نہیں تھا اور دشمن چاروں اور تھے،یہ گھر سے باہر نکلتی تو بچے گلی میں کھڑے ہو کر اس کا انتظار کر رہے ہوتے،یہ ان سے بچ کر روتی دھوتی اسکول پہنچتی تو وہاں ایک نیا محاذ اس کے انتظار میں رہتا،وہ کالی،بھدی اور غریب لاوارث بچی تھی اور معاشرے ایسے بچوں کو پسند نہیں کرتے۔آپ اوکٹیویا کی مصیبتوں کا اندازہ چاہ کر بھی نہیں کر سکتے مگر اس نے اس نے شعور میں قدم رکھتے ہی اپنی منزل طے کر لی،اس نے اپنا مقدر بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔یہ دن میں ماں کا بوجھ کم کرنے کے لیے چھوٹی موٹی نوکریاں کرتی اور رات کو لکھنا شروع کر دیتی۔یہ کتنی مرتبہ ریجیکٹ ہوئی،اس نے کہاں کہاں ذلت اٹھائی اور اس کی نسل اور اس کی غربت نے اس کے راستے میں کتنے روڑے اٹکائے۔۔۔یہ ایک طویل داستان ہے مگر دنیا میں ”سائنس فکشن“ لکھنے والوں کی بات کی جائے تو آپ اوکٹیویا کو پہلی صف میں کھڑا پائیں گے۔یہ کالی،بھدی اور بدصورت بے سہارہ یتیم بچی مرنے سے پہلے سائنس فکشن کے لیے کیا کچھ لکھ گئی ہے اور اس نے کتنے ایوارڈ وصول کیے ہیں اور یہ مغرب میں سیاہ فام عورتوں کے لیے کتنی بڑی مثال بنی ہے اس کے لیے آپ اوکٹیویا ای بٹلر کی زندگی کا مطالعہ کر لیجیے گا۔یہاں ہم صرف اس کی پانچ قابل توجہ خوبیوں کی بات کر لیتے ہیں۔

 

اوکٹیویا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے اپنی کسی محرومی کو،کسی احساس کمتری کو اور کسی دکھ کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔اوکٹیویا کی دوسری خوبی یہ تھی کہ اس نے صرف ایک ہی مرتبہ فیصلہ کر لیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔اس کی تیسری خوبی یہ تھی کہ اس نے حالات کو موافق اور ناموافق کے بیچ میں نہیں تولا،حالات جیسے بھی رہے وہ چلتی رہی اس کے قدم نہیں رکے۔چوتھی خوبی یہ تھی کہ اس نے قربانیاں دینے سے دریغ نہیں کیا۔اور اس کی پانچویں خوبی یہ تھی کہ اس نے پوری زندگی میں خود سے اور دوسروں کے سامنے کوئی بہانہ نہیں بنایا،اس نے کوئی عذر پیش نہیں کیا،اس نے کسی سے شکوہ تک نہیں کیا۔اس نے بس وہ کیا جو اسے یقین تھا کہ وہ کر لے گی۔۔۔اور اس نے کر کے دکھایا۔

 

تو آپ اگر غریب ہیں،یتیم ہیں،معاشرہ آپ کو کم ذات سمجھتا ہے،آپ کو چھوٹی موٹی نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں،آپ کی گلی میں آپ کا مذاق اڑایا جاتا ہے،اسکول کالج میں آپ کو ذلیل کیا جاتا ہے،آپ کے سامنے آپ کی ماں کو دھکے دے کر نکالا جاتا ہے اور اس کے منہ پر طمانچے مارے جاتے ہیں،آپ بدصورت ہیں اور آپ کا کوئی دوست بھی نہیں ہے،آپ تنہا ہیں مگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو نہیں روک سکتی۔اور اگر آپ کے ساتھ ان میں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر آپ کا موڈ نہیں بنتا،آپ کو نیند آ جاتی ہے،آپ کے ممی پاپا آپ کو پائلٹ بنانا چاہتے ہیں،آپ کی ساس آپ کے ہاتھ سے کاپی پنسل چھین لیتی ہے اور آپ کے بچے آپ کو تنگ کرتے ہیں اور آپ کے شوہر کو آپ کا لکھنا پسند نہیں یا آپ کی بیوی جھگڑالو ہے یا پھر پیاز کاٹتے ہوئے آپ کے ہاتھ میں چوٹ لگ گئی ہے اس لیے آپ نہیں لکھ پا رہے۔۔۔تو پھر آپ واقعی لکھنا چھوڑ دیں کیونکہ آپ در اصل لکھنا ہی نہیں چاہتے.....سچ کہوں؟ پھرآپ اس لائق ہی نہیں ہیں۔