بے وفا

2019-12-10 15:36:13 Written by کائنات نور

’’تم کچھ پریشان دکھائی دیتے ہو؟‘‘اعزا زعلی نے بیٹے کی طرف دیکھا۔ذیشان واقعی کچھ دنوں سے الجھا ہوا تھا۔کسی چیز میں اس کا دل لگ رہا تھا نہ ہی وہ یونیورسٹی جا رہا تھا۔زیادہ تر اپنے کمرے میں بیٹھ کر تنہائی میں کچھ سوچتا رہتا ۔اعزاز کو بیٹے کی یہ الجھن پریشان کررہی تھی۔اس لئے آج اس نے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ویسے بھی بیوی کی وفات کے بعد ذیشان ہی اس کی پوری دنیا تھی۔

’’بس ڈیڈ۔۔ویسے ہی۔۔ایگزامز اور پڑھائی‘‘

’’نہیں،ایسی بات تو نہیں،محبت کا چکر ہے؟‘‘اس نے بیٹے کی سرخ آنکھوں کو غور سے دیکھا جو رات کو جاگنے کا ثبوت تھیں۔ذیشان نظریں چرا گیا۔

’’ایسی تو کوئی بات نہیں ڈیڈ‘‘

’’باپ ہوں تمہارا۔۔سب سمجھتا ہوں،بتا کیا مسئلہ ہے؟‘‘

’’ایک لڑکی ہے‘‘اس نے بات شروع کی۔اس سے پہلے ذیشان مزید کچھ کہتا ،اعزاز نے تیزی سے اس کی بات کاٹی۔

’’وہ بہت خوبصورت ہے تم اس سے پیار کرتے ہو،وہ بھی تم سے کرتی ہے،مسئلہ بتا کیا ہے؟‘‘ذیشان نے حیرت سے باپ کی طرف دیکھا پھر بولا۔

’’اب وہ یونیورسٹی چھوڑ گئی ہے فائنل ایگزامز سے پہلے۔۔خدا جانے کیوں،میں نے اس کے گھر رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر ناکامی ہوئی ہے،رہتے وہ شہر میں ہیں لیکن گاؤں کے لوگ ہیں تو وہاں اس حوالے سے سختی ہے۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی ڈیڈ۔۔ہم پچھلے تین سال سے ساتھ ہیں جینے مرنے کی قسمیں کھا کر،وعدے کرکے ،اب یوں اچانک چھوڑ گئی وہ،کچھ بتائے بغیر‘‘ذیشان کی آنکھوں میں نمی دکھائی دی۔’’زندگی اس کے بغیر نامکمل ہے میں ایک لفظ نہیں پڑھ سکا۔۔پچھلی کئی راتوں سے سو نہیں سکا۔ایسا کیوں ہے ڈیڈ،یہ ہمیں سب سے زیادہ چاہنے والے اچانک کیوں چھوڑ جاتے ہیں سب سے زیاد ہ دکھ کیوں دیتے ہیں‘‘

’’وہ محبت نہیں ہو گی،ٹائم پاس ہو گا‘‘اعزاز نے اس کے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

’’ٹائم پاس۔۔‘‘وہ پھٹ پڑا۔’’رات تین تین بجے تک جاگنا۔۔ایک دوسرے سے بات کرنا؟جھوٹ ہے سب؟ایک دوسرے کو دیکھ کر جینا،جدائی کی بات پر رو پڑنا،چیخنا ،کسی اور لڑکی سے بات کرتا دیکھ کر خود کو زخمی کر لینا۔۔یہ ٹائم پاس ہے؟۔۔آخری بار جب میں نے اس سے مذاق میں بچھڑنے کی بات کی تھی تو اس نے تھپڑ مارا تھا مجھے منہ پر،پوری کلاس کے سامنے۔۔اور کہا تھا۔۔بچھڑ جاؤ مگر پھر میرے جنازے ضرور آنا۔۔نہیں ڈیڈ،یہ ٹائم پاس نہیں ہو سکتا،اگر اس نے کھیل کھیلا ہے تو میری روح سے کھیلا ہے میں اسے عمر بھر معاف نہیں کروں گا‘‘اعزاز نے مسکرا کر اسے دیکھاتھا۔وہ جذباتی ہو رہا تھا۔اعزاز اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا اور کئی سال پہلے کی ایک ڈائری اٹھا لایا۔ذیشان سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔

                              ’’بہت سے لوگ دنیا میں،فقط ماں باپ کی خاطر

                                کہانی موڑ لیتے ہیں،محبت چھوڑ دیتے ہیں‘‘

اس نے اپنی ڈائری کے پہلے ورق پر لکھا شعر پڑھا۔ذیشان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔اعزاز لمحے بھر کیلئے رکا اور گہری سانس کے بعد بولنا شروع کر دیا۔

’’میری بھی ایک محبت کی کہانی اس ڈائری میں بند ہے۔۔تم سن لو شاید کچھ سنبھل جاؤ‘‘

                                    ٭٭٭

’’تم کچھ پریشان دکھائی دیتے ہو اعزاز؟‘‘اس نے غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھا۔وہ بہت حساس تھی ،جس دن ذرا سا میرا موڈ بدلتا،وہ فوراً محسوس کر جاتی۔

’’ایسی تو کوئی بات نہیں‘‘میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔

’’کوئی بات تو ہے۔۔اب بتا بھی دو‘‘اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا۔ہم پارک میں اکیلے بیٹھے تھے۔اکیڈمی میں پڑھانے کے بعد اکثر ہم اس پارک میں بیٹھتے تھے۔یونیورسٹی میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنی فیس وغیرہ پوری کرنے کیلئے اس اکیڈمی میں پڑھاتے تھے۔

’’میں نے تم سے ایک جھوٹ بولا تھا۔۔‘‘میں نے اٹکتے ہوئے جواب دیا۔’’سچ بتانے لگا ہوں۔۔معاف کر دینا‘‘

’’کیا جھوٹ؟‘‘

’’میرا چار پانچ سال پہلے رشتہ طے ہو چکا ہے ابو کی بھتیجی سے‘‘اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی تھی۔میں بولتا چلا گیا۔’’آج کل شادی کی بات چل رہی ہے میری بھی اب تعلیم مکمل ہونے لگی لیکن میں نے انکار کر دیا ہے میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا رعنا‘‘

’’ماں باپ کو چھوڑ دو گے؟‘‘اس نے عجیب لہجے میں کہا۔

’’ہاں‘‘میرا لہجہ مضبوط تھا۔

’’پکی بات ہے؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی‘‘وہ میرا ہاتھ تھام کر کھڑی ہو گئی۔کہنا آسان تھا اور عمل کرنا مشکل۔۔اس دن اس نے میری ڈائری کے ورق پر شعر لکھا تھا۔۔

                           باقی سب کچھ ملا ہے بن مانگے

                           ایک تم کو خدا سے مانگا ہے۔۔

وہ واقعی مجھے مانگتی تھی دعاؤں میں۔۔نمازوں میں۔۔اگلے چند ماہ میرے گھر لڑائی رہی ۔میں اپنی بات پر اڑ گیا تھا۔ابو نے مجھے جائداد سے عاق کرنے کی دھمکی دی تھی۔۔رعنا ہر بات سے واقف تھی۔۔اور پھر ایک دن۔۔وہ چھوڑ کر چلی گئی۔۔

                                  ٭٭٭

’’کیوں؟‘‘ذیشان نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔

’’نہیں معلوم۔۔‘‘اعزاز نے کندھے اچکا دئیے۔’’آخری پیپر دے کر ہم کبھی نہیں ملے۔اس کا رزلٹ وغیرہ سب کوئی اور لے گیا تھا۔میں نے بہت ڈھونڈا اسے۔گھر بھی گیا اس کے ،پر وہ کہیں جا چکے تھے سب‘‘

’’وہ بے وفا تھی؟‘‘

’’نہیں‘‘

’’ٹائم پاس تھا؟‘‘

’’نہیں‘‘

’’پھر؟‘‘

’’قربانی‘‘اعزاز نے عجیب لہجے میں جواب دیا۔

’’کیسی قربانی؟‘‘ذیشان حیران ہوا۔

’’محبت کی قربانی‘‘اس نے گہری سانس لی۔’’وہ جان چکی تھی کہ میں الجھ گیا ہوں۔نہ محبت چھوڑ سکتا تھا نہ گھر والے۔۔تمہیں معلوم ہے وہ شعر جو اس نے میری ڈائری پر لکھا تھا۔۔اس نظم کا پہلے اشعار کیا ہیں؟‘‘ذیشان نے سوالیہ نظروں سے باپ کی طرف دیکھا۔

                      ’’تیری الجھن کا حل یہ سوچا ہے

                       اب بچھڑ جائیں ہم تو اچھا ہے

                       یہ محبت بھی ایسا ریشم ہے

                      ہاتھ ڈالا ہے جس نے الجھا ہے‘‘

’’وہ مجھے سمجھا گئی تھی۔۔اشعار کی زبان میں۔۔کہ اس نے میری الجھن کا حل ڈھونڈ لیا ہے افسوس میں سمجھ نہ سکا ورنہ شاید اسے مجبور کر لیتا اور وہ چلی گئی ہمیشہ کیلئے‘‘رات گہری ہونے لگی تھی۔۔کمرے میں اداسی نے بھی قدم جما دئیے تھے اور وہاں دو نم آنکھوں والے ناکام محبت موجود تھے۔۔

                                                                                                        ٭٭٭٭