مجموعہ شاعری

2019-12-10 17:05:31 Written by منیب شاکی

[10/12, 9:12 am] +92 320 7631405: اب تو زندہ رہنے کی سزا دی جا رہی ہے
مجھے لمبی عمر کی دعا دی جا رہی ہے

پہلے نوچ کھایا ہے میرے سارے بدن کو
زخم چھپانے کو اب رداء دی جا رہی ہے

ہمیں معلوم ہے بہت جلد شفا پائیں گے
کہ زہر کی بوتل میں دوا دی جا رہی ہے

انوکھا خواب دکھایا ہے عالمِ وحشت نے
سب کو ہی گھر، روٹی، قبا دی جا رہی ہے 

لگتا ہے یہ قبریں چاک ہو ہی جائیں گی 
جانے والوں کو پھر صدا دی جا رہی ہے

"حق دیں گے، حق دیں گے" یہ سنا تو ہے
اب شاکی خدا جانے، کیا بلا دی جا رہی ہے

                                     #منیب شاکی#
[10/12, 9:14 am] +92 320 7631405: تجھے بس ازان میں سنائی  دیتا  ہے! 
مجھے تو وہ ہر جگہ دکھائی دیتا ہے_

چھت کے اوپر  کیسا  فنکار  بیٹھا  ہے
پانی سے  ہی جو مورت بنائی دیتا ہے

ضروری نہیں پتھر ہی سیاہ کیے جائیں 
یار جہاں چاہے  پردے  اُٹھائی  دیتا ہے

اناالحق پہ جتنے ظاہر بیں تھے، سب بولے
دیکھو تو منصور یہ کیسی دہائی دیتا  ہے

سر کے سر بوُ دئیے پر یہ کیسا کھیت ہے
کھانے کو روٹی، نہ کچھ کمائی  دیتا ہے

یونہی جاگتا نہیں شاکی، میں رات بھر
گھر ٹوٹ رہا ہے، مجھے دکھائی دیتا ہے

                                    #منیب شاکی#
[10/12, 9:15 am] +92 320 7631405: تیری نظر سے جہاں  میں چھپا کیا  ہے
پھر کندھوں پہ فرشتوں کا مدعا کیا ہے

نور تیرا، نائب تیرا، جزو بھی ترا ہی ہوں
جزا و سزا چھوڑ، میرا حصہ بتا، کیا ہے

ہم تو انسان ہیں کیسے نہ بھٹک جائیں
ہاروت و ماروت سے پوچھ، دِکھا کیا ہے

لوگوں کو دیکھ کر یہ سوچتا ہوں میں 
اگر یہ  "بندے"  ہیں، تو  "خدا"  کیا  ہے

یہ  سوچ  کر  تجھ  سے  دور  ہی  رہا
بنا  ہجر  کے  عشق  میں  مزا  کیا  ہے

شاکی اس جہاں میں تری عمر دراز ہو
اس  سے  بڑھ  کر  کوئی  بدعا کیا  ہے

                                         #منیب شاکی#
[10/12, 9:20 am] +92 320 7631405: ت-خ-ی-ل

میں ہر شام لکھتا ہوں
تیرا ہی نام لکھتا ہوں 
خوشبو بھی لگاتا ہوں
اُسے ہر طور سجاتا ہوں
پھر پہروں اُسے دیکھنا
میرا معمول ہوتا ہے
میں جاگتا ہوں اُس وقت
جب ہر ایک سوتا ہے
میں اس کو چومتا نہیں
کہ
بےادبی نہ ہو جائے کہیں
برا نہ مان جائے وہ
کہ اجازت نہیں لی.......
............... 
شب کے عین وسط میں آخر
تیرا نام حرکت کرتا ہے
بڑھتے ہی بڑھتے وہ
 تیری تصویر بنتا ہے
پھر اس میں جان پڑتی ہے
جاناں!
پھر وہ تم ہوتی ہو
پر! 
اور ہی کہیں گم ہوتی ہو
میں دیدار کرنے لگتا ہوں
محبت کا اقرار کرنے لگتا ہوں
پھر بھی تم خاموش رہتی ہو
اصرار پر مرے فقط اتنا کہتی ہو
کہ تم مجھے پہچانتی نہیں
مجھ کو اپنا مانتی نہیں