وہ وقت دور نہیں

2020-01-10 19:05:19 Written by کنول سہیل قریشی

وہ وقت دور نہیں 
تحریر: کنول سہیل قریشی 
ہاں ٹھیک ہی پڑھا آپ نے وہ وقت دور نہیں جب پھر سے بچی کی پیداٸش کا سنتے ہی باپ خود اپنے ہاتھوں سے زندہ دفنا دے گے وہ وقت نزیک ہی ہے جب عورت کی پھر سے تذلیل ہوگی عورت کا پھر سے وہ مقام اُس سے چھینا جاۓ گا جو مقام اس کو خدا نے دیا خو غزت  قرآن نے بخشی اور جو مقام  حضرت مُحَمَّد ﷺ نے عورت کو دیا اپنی نسل بیٹی س چلا کر عورت کو عزت دی چاہے ماں کی صورت میں ہو بیوی کی صورت میں ہو یا پھر ایک عورت  بیٹی کی صورت میں ہو اس کو ہمیشہ عزت دی خدا نے عورت کو اتنا بڑے درجہ دیا ہے عورت کو کے اگر ایک عورت بیوی ہو تو اپنے خاوند کا مذہب پورا کرتی ہے ایک بیٹی ہو تو اپنے باپ کے لیے جنت کے دروزے کھولتی ہے اور اگرعورت ہوں تو اپنے قدموں میں جنت لیۓ بیٹھی ہوتی ہے مگر افسوس اس سے یہ مقام چھینا جارہا ہے اب عورت کو دیکھ کر یہ بے حس معاشرہ بہن بیٹی یا باچی نہیں کہتا کوٸی اس مال کہتا ہے کوٸی اس بچی کہتا ہے اس بےحس  معاشرے  نے عورت کا جینے دینا ہی مشکل کردیا ہے اب عورت بچی ہو بڑی ہو  یا پھر عمر کے کسی بھی حصےمیں ہو اس کو اب ذاتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے چاہیے وہ ذاہنی طور پر بچی ہی کیوں ناں ہو مرد اس کا فاٸدہ اٹھا ہی لیتا ہے  میں کیسے کہہ دوں کے اب عورت مکمل سیف ہے جب تک اس جہان میں کچھ مرد بھیڑیے ہیں عورت کہاں ہے سکون میں اب جب تک اس کے گھر میں ہی وہ اپنے ماں باپ پر بوجہ بناٸ ہوٸی ہے عورت کو وہ مقام اب کہاں ہے حاصل جو مقام دیا تھا خدا اور اس کے رسولﷺ نے  کیسے کہہ دوں یہمعاشرہ عورت کیلیۓ ٹھیک ہے جہاں پر عورت اگر پڑھنے بھی جاۓ تو اس کو  دیکھ کر معد آپس میں کہتے ہوں تیری بھابھی ہے اور اگر عورت کچھ اپنے ماں باپ کیلیۓ اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے خاطر نکلے تو دنیا اسے ہارافا اور طرح طرح کے نام سے بولاتی ہے  کیسے کہہ دوں ہر عورت سکون میں ہے کچھ قندیل بلوچ اور  حریم شاہ بھی بناٸی ہوٸی ہے عورت کا عوت ہی مقام چھین رہی ہے تنگ کپڑے پہن کر سر سے دوپٹا پھینک کر اور قندیل بلوچ جیسی اور مشرقی خاتون کی جیسی تہذیب اپنا نے کی جگہ مغربی تہذیب کو اپنایا ہے مغربی عورت  بناۓ کے چکر میں مشرقی ہر  عورت کی عزت کو چھینی کرکے رکھ دیا ہے ایسا ہوگیا ہے معاشرہ کے عورت جہاں کھڑی ہوتی ہے وہاں  Given Take جیسے لفظوں کا استعمال کیا جاتا ہے اس معاشرے میں عورت ہی عورت کو یہ کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے یہاں یہ بات ختم ہوتی کہاں  ہے عورت کی پیداٸش پہ تو خود اس کی ماں بھی روتی ہے اور دنیا اس کو حواس کی نظر سے دیکھتی ہے عورت کو کہ سیف رکھنے کیلیۓ مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے مگر مرد اور اس کے گھر والے جہیز کی ایک لمبی لسٹ دے کر کہتے ہے یہ سب آپ کی بیٹی ہی کیلیۓ ہے اب کہاں ہوتی ہے وہ شادیاں جہاں صرف آٹے کی چکی کھجور کی چھاریوں کا بنا ہوا بستر اور کچھ ضروری گھر کا سامان دے کر رخصت کردیا جاتا تھا اب تو لڑکیاں گھر میں ہی بیٹھی رہے جاتی ہے کیوں کے اس کے باپ کے پاس جہیز دینے کے اتنے پیسہ نہیں ہیں اور اگر کسی لڑکی کی شادی ہوجاے اور اس کا باپ جہیز بھی دے دے تو    اب تو ایسا زمانہ ہے جہاں اے سے فریج اور مہنگی مہنگی چیزے لے کر بھی ساسرال والے بیٹی کو طعنہ دیتے ہے کے تو لاٸی ہی کیا ہے اپنے پیہر سے   وفا کا عورت کو کہا جاتا ہے آدمی کیلیۓ وفا کا لفظ نہیں بنا ہوت اس فانی دنیا ہے یہ سب صرف عورت کو ہی سب کچھ برداشت کرنا پڑھتا ہے کیا آدمیوں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ عورت کو مال کہنے کی جگہ اس کے ساتھ عزت سے پیش آۓ  کیا اس کو عزت اور وہی مقام واپس نہیں مل سکتا جو عزت اور مقام عورت کو حضور پاک مُحَمَّد ﷺنے دیا کیا ہر عورت مغربی تہزیب کو اپنانے کی جگہ مشرقی روایت کو نہیں اپنا سکتی کیا عورت حجاب کرکے نہیں رہے سکتی اگر اپنے آپ کو حجاب میں عورت نہیں  رکھ سکتی تو وہ یہ شکایت بھی نہیں کرنے کی حقدار بھی نہیں ہے کہ مرد ہی خراب ہیں کیوں کے مرد کو خراب کیا بھی تو عورت نے ہی ہے  اور اگر یہ معاشرہ عورت کو کوتحفظ دینے سے پہلے جہیز کی لمبی لسٹ دے دیتا ہے تو اس معاشرے کو یہ بھی کہنے کا حق نہیں ہے کہ یہ دیکھوں اس عورت کہ پاوں  گھر میں روکتے ہی نہیں ہے یہ عورت  تو بد کردار ہارافا ہے غیرت کےنام پر ندیل بلوچ جیسی لڑکیوں کا قتل تو ہوجاتا ہے مگر ان لوگوں کا قتل کیوں نہیں ہوتا جو بچیوں کے ساتھ ذاتی کرتے ہیں ان کو پھانس پر کیوں نہیں لٹکایا جاتا جو عورت کو مال کہتے ہے اور ان کو قندیل بلوچ بنے پر مجبور کرتے ہیں  پھر وہ وقت دور نہیں ہے جب عورت کو زندہ دفنایا جاۓ گا۔۔۔۔۔