اپنی مدد آپ

2020-01-12 21:04:44 Written by طوبی ناصر

ناصر

میں اپنے ملک کا کیا حال سناؤں۔

زندگی کی گاڑی اپنی دھن میں اپنے راستے پر چلتی رہے تو ہم اپنی محدود سوچ سے باہر نکل کر سوچتے ہی نہیں۔ ہماری کہانی ہم پر سے شروع ہو کر ہم پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد ہونے والے کسی بھی واقعے کو ایک خبر کی طرح سنتے ہیں اور ہو سکے گا تو افسوس سے سر ہلا لیں گے اور پھر بھول کر اپنی زندگی میں گم ہو جائیں گے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کے ایک دن ایسے ہی کسی حادثے کا شکار ہم خود بھی ہو سکتے ہیں۔ ابھی کل کی ہی بات ہے میں بھی اپنی زندگی میں گم چلی جا رہی تھی کہ اچانک ایک حادثے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم کہاں رہ رہے ہیں اور کیسے رہ رہے ہیں۔

 

ایک دن پہلے راولپنڈی صدر میں میرے میاں اپنی گاڑی باہر پارک کر کے کسی کام سے ایک شاپ پر گئے اسی شاپ پر انھیں فائرنگ کی آواز آئی اور ان نے نظر انداز کر دیا تھوڑی دیر کے بعد جب وہ باہر آئے تو باہر کا منظر ہی بدل چکا تھا۔ گاڑی کے پاس پولیس اور لوگوں کا ایک رش لگا ہوا تھا جو قریب آنے پر معلوم ہوا ایک دہشت گرد تھا جس کی لاش گاڑی کے پاس پڑی تھی پولیس اسے پکڑ رہی تھی جس کی وجہ سے فائرنگ ہوئی اور وہ مارا گیا۔ اب اس کو مارنے میں ہماری گاڑی چونکہ وہاں کھڑی تھی اس لیے دو فائر گاڑی پر ہوے جس سے گاڑی کے تین شیشے متاثر ہوئے اور گولی گاڑی کے اندر ہی تھی اور بتایا گیا کے جو جانیں اور گئی ہیں جس میں ایک پولیس کا آدمی تھا اور ایک ڈولفن فورس کا آدمی بھی تھا اور دو راہگیر زخمی ہوئے جو کہ اب ہمارے لیے عام بات ہے کیونکہ یہ خبریں تو ہم روز سنتے ہیں کوئی خاص بات تو ہے نہیں۔۔۔

 

جی یہ خاص بات بلکل نہیں ہے لیکن ان کے لیے جو اس سے گزرے نہیں پر ہر اس انسان کے لیے اہم ہے جو کسی نہ کسی طرح کسی حادثے سے متاثر ہے۔

 

تو ہاں میں بتا رہی تھی کہانی وہاں پر ختم نہیں ہوئی کیونکہ ہماری گاڑی بھی اب حادثے میں ملوث ہو چکی تھی اس لیے اب اس کو کوئی نہ کوئی قیمت ادا تو کرنی تھی۔ اس لیے ہماری گاڑی ایک دو دن سے پولیس سٹیشن میں ہے اور ہم گھر بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں کہ ہماری گاڑی بےگناہ ثابت ہو اور باعزت بری ہو کر گھر آجائے۔ کوئی پوچھے ہماری گاڑی کا قصور کیا ہے ایک تو فائرنگ سے پچنے کے لیے اسے ڈھال بنایا گیا تو ہونا یہ چاہیئے تھا کے جو ہماری گاڑی کا نقصان ہوا اسے پورا کیا جائے الٹا ہمیں گاڑی وصول کرنے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑے۔

 

چلیں اس پر بھی بات نہیں کرتے مال،چیزوں کے بارے میں پریشان نہیں ہوتے۔ اللہ کا شکر ہے جان بچ گئی باقی سب کچھ مل جاتا ہے۔ ایک ناگہانی سختی تھی جو ٹل گئی اللہ نے اپنی امان میں رکھا لیکن یہ سب کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ کیا ہم محفوظ ہیں؟ کیا ہماری عزت,جان اور مال محفوظ ہیں؟ کیا اس میں جو ہمارے ساتھ ہوا وہ انصاف ہے؟ یہ ان جانوں کی کوئی قیمت ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں؟ 

 

تو اس کا جواب ہے نہیں۔ معذرت کے ساتھ ٹھیک ہے سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن ہم تو وہی بولے گئے جو دیکھا ہے۔

 

پہلی بات یہ واقعہ تقریباً ساڑھے چھ یا سات تک ہوا ہو گا جو کہ ایک بہت رش کا وقت ہے اور جہاں یہ واقعہ ہوا وہ بھی پبلک پلیس ہے۔ اب قانون کے رکھوالوں سے کوئی یہ پوچھے کہ مانا کوئی دہشت گرد ہی تھا لیکن ایک جان کے پیچھے کئی عام شہریوں کی زندگی خطرے میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ایک پبلک پلیس میں اوپن فائرنگ کسی کی بھی جان لے سکتی ہے۔

 

اس دن گاڑی میں کوئی بھی ہوتا اس کی بھی جان جاتی۔ آپ ایک عام شہری کی گاڑی کو اپنے لیے ڈھال بنا کر استعمال کر رہےہیں تو اس کے لیے اس شہری کے اس نقصان کا ازالہ کرنا آپ کے ڈپارٹمنٹ کی زمہ داری ہے۔ یہ نہیں بھی کیا جاتا ہم مانتے ہیں ہمارا ملک اس وقت کرائسس سے گزر رہا ہے،ہمارے ڈپارٹمنٹ بہت زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تو ہم بحیثیت زمہ دار شہری اپنا نقصان خود پورا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کم ازکم اور مشکلات مت پیدا کریں۔ عوام کے لیے آسانی پیدا کریں۔قانون کو فالو کریں پبلک ایریاز پولیس مقابلوں کے لیے نہیں ہوتے اور ایسا ہو جائے نقصان کی تلافی کریں چاہے وہ جانی ہو یا مالی۔

 

ایک اور شکوہ یہاں کروں گی ہمارا پولیس ڈپارٹمنٹ عام عوام سے بہت دور ہے۔ یہ ڈپارٹمنٹ ہمارا محافظ بن کے کام کرتا ہے لیکن معذرت کے ساتھ سب اپنے آپ سے پوچھیں کہ پولیس کو دیکھ کر ہماری جان نہیں نکل جاتی؟ ایک شریف انسان کو پولیس سٹیشن کسی کام سے جانا پڑے وہ پریشان ہو جاتا ہے۔تو میرا سوال یہ ہے ایسا کیوں ہے؟ جو ڈپارٹمنٹ عوام کے لیے بنائے جاتے ہیں وہ عوام سے ہی کٹ جاتے ہیں میں یہاں یہ نہیں کہتی سب ایک جیسے ہوتے ہیں یقیناً پولیس ڈپارٹمنٹ میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں لیکن ایک عام عوام کا یہ نظریہ کیوں ہے؟ کیونکہ آج بھی امیر آدمی کے لیے سب کچھ آسان اور غریب کے لیے سب کچھ مشکل ہے یہاں تک کہ انصاف ملنا بھی۔ ایک انسان جو بااختیار ہے وہ سب کچھ خرید سکتا ہے لیکن ایک انسان جس کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ اپنا حق بھی وصول نہیں کر سکتا۔

 

یہاں پر پھر قصور کس کا ہے؟ یہاں قصور ہم سب کا ہے ہم سب بحیثیت انسان، بحیثیت شہری کہی نہ کہیں اپنے فرائض میں کمی چھوڑ رہے ہیں۔ 

 

ایک فرد کا فرض دوسرے فرد کا حق ہوتا ہے اور دوسرے کا فرض پہلے کا حق اور اسی اصول پر معاشرے قائم ہوتے ہیں۔ 

 

تو آئیں آج سے یہ فیصلہ کریں زندگی میں ہم جس مقام پر بھی ہیں اپنی اپنی زمہ داری پورے انصاف کے ساتھ نبھائیں گے۔اپنے ساتھ،اپنے عہدے کے ساتھ اور اپنے ملک کے ساتھ مخلص رہیں گے۔ 

 

یہ ملک ہمارا ہے یہ ہمیں اپنی جان سے زیادہ پیارا ہے۔ اسے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں اپنی جان بھی دینی پڑی ہم دے گئے۔ لیکن یہ مراحل بعد کے ہیں پہلے اپنے ملک کو ہر برائی سے تو پاک کریں۔ اپنی زمہ داریوں کو اچھے طریقے سے پورا کریں اور ہم سب یہ کرنے لگیں تو ہمارا معاشرہ خوبصورت ہو گا ہمارا معاشرہ، ہمارا ملک پر امن ہو گا اور یقین کیجیے ہم میں سے ہر ایک یہی چاہتا ہے۔ہم اپنے ملک کو خوبصورت، پر امن اور ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

 

تو اس کے لیے ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہو گا ۔اپنے حصے کا کام خود کرنا ہو گا تو آج سے عہد کریں ہم اپنے ملک کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں گئے۔