جسارت

2020-02-04 15:17:34 Written by زہرا جعفری

السلام علیکم 

 

آج ایک بہت حساس موضوع پر لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ 

جسارت اس لئے کہا کہ اس معاشرے میں کوئی حق بات کہنا بھی عذاب ہے۔ جسارت اس لئے کہا کہ کہ ہم میں سے اکثریت کا یہ المیہ ہے۔ اور جسارت اس لئے کہ آج ہو سکتا ہے میری تحریر میں تلخی دکھائی دے جو شاید آپ کے لئے نا قابل برداشت بھی ہو جاۓ۔ 

مگر جو میں نے لکھنا ہے وہ لکھ کر رہوں گی کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ میری بات اکثریت کے دل کی آواز بھی ہو گی۔ اکثر لوگ مجھ سے ایگری بھی کریں گے۔ 

بحیثیت انسان ، ہر فرد اکائی کا درجہ رکھتا ہے۔ اور ہر اکائی معاشرے کا جزو لازم ہے۔ اور ہر فرد کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔ نہ صرف گھریلو معاملات میں ، بلکہ معاشرے میں بھی ہر فرد کو کار آمد شخصیت ہونا چاہئے۔ اور یہ تب ہو گا جب ہم اپنے مسؤل خود بنیں گے۔ جب کہ ہمارا چلن تو یہ ہو گیا ہے کہ ہم صرف دوسروں کو دیکھتے ہیں اور اتنا دیکھتے ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ 

اسی معاشرے میں اور خاص طور پر پاکستان میں "مرد" ایک ایسی اکائی ہے جس کی حیثیت مسلم ہے۔ اگر مرد کو اسلام نے بلند درجہ دیا ہے تو ہمارے معاشرے نے بھی دیا ہے۔ 

مگر مسلہ وہاں بنتا ہے جہاں مرد اسلامی نقطہ نظر کو چھوڑ کر معاشرتی نقطہ نظر کے لحاظ سے خود کو بہت توپ چیز سمجھنے لگتا ہے۔  

مرد کو یہ بات سمجھنے کی از حد ضرورت ہے کہ اگر کسی کا رتبہ بڑا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں بھی "ہر جہت" سے بڑی ہوتی ہیں۔ 

قرآن نے اگر یہ کہا ہے کہ مردوں کا درجہ عورت سے بڑا ہے تو وہی قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ " اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ" 

آپ کی ذمہ داری فقط پیسہ کما کر گھر چلانا نہیں ہے۔ آپ کی اصل ذمہ داری اور ہے۔ جسے معاشرے کی ہر اکائی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ 

ہمارے گھروں کے ماحول اتنے تعفن زدہ ہو چکے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں۔ 

ہمارے گھروں کے ماحول اتنے خراب ہو چکے ہیں اور جب کوئی ریپ کیس سامنے آتا ہے تو ہم اپنے گھروں کا جائزہ از سر نو لینے کی بجاۓ معاشرے کو برا کہتے ہیں۔ 

 

اب ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے گھروں کا ماحول مثالی بنائیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی زبانوں کو لگام دے کر رکھیں۔ 

میرا دل ، میرا دماغ پھٹنے والا ہو چکا ہے۔

ایک بات بتاتی ہوں۔ 

ہمارے گھر کا ماحول الگ ہے۔ ہم اپنے بچوں کے سامنے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ 

میرے ابو کی جب ڈیتھ ہوئی تو میں اس وقت 27 سال کی تھی۔ اور اپنی 27 سالہ زندگی میں ، میں نے اپنے ابو کے منہ سے گالی نہیں سنی۔ معیوب گفتگو نہیں سنی۔ 

پھر مجھے جیسا ماحول ملا ، میں نے تو ویسا ہی ہونا تھا ناں۔ 

 میں نے جو خلع لی تو مزید بے شمار وجوہات میں سے سب سے اہم اور بڑی وجہ یہی تھی کہ جس شخص میں حیا نہ ہو ، جس شخص کو اپنی زبان پر لگام نہ ہو ، اور غصہ تو چھوڑیں میں ایسی کوشش ہی نہیں کرتی کہ کسی کو مجھ پر ایسا کوئی غصہ آے۔ مگر جس شخص کا مذاق بھی بے ہودہ گالی سے پاک نہ ہو۔ میں ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ کیوں کہ میں مثالی گھر بنانا چاہتی ہوں۔ میں معاشرے کو مفید فرد دینا چاہتی ہوں۔ یہ نہیں کہ گھر بسا رہے ، اولاد پر اولاد پیدا ہوتی رہے اور تربیت کے معاملے میں آنکھیں بند کر لی جائیں اور معاشرے کو ناکارہ فرد دیا جاۓ۔ کیوں کہ یہ جو ہمارے بچے ہیں ناں . یہ اکائیاں ہیں اگلی جنریشن ہے۔ اگلا معاشرہ ہے۔ معاشرہ انہی سے بنے گا۔ تو کیا ہم جیسے خود جئے ویسے ہی اگلا معاشرہ بھی رہے ؟؟ کیا ہمیں مثبت تبدیلیوں کی ضرورت نہیں ؟  

اور اگر ہے تو ہم دوسروں کو کیوں دیکھیں؟ تبدیلی کی ابتدا اور آغاز ہم سے ہوتا ہے۔ ہم خود کو بدلنے سے قاصر ہیں تو دوسروں کو کیا بدلیں گے۔ 

2 دن پہلے کی بات ہے۔ میرا بیٹا امی کے پاس کھیل رہا تھا۔ اور کھیلتے وقت خود سے خود ہی باتیں کرتا رہتا ہے تو اس کی زبان سے نا زیبا الفاظ نکلے۔ امی نے ڈانٹا۔ اور پھر پاس بٹھا کر پوچھا کہ آپ نے یہ کس سے سیکھا؟ 

اس نے کہا سکول میں بچے کرتے ہیں ایسی باتیں 

میں کل اسے سکول چھوڑنے گئی۔ تو وہاں جو قاری صاحب آتے ہیں۔ 

ان سے کہا کہ آپ پلیز بچوں پر کنٹرول کریں۔ وہ فضول گفتگو نہ کیا کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ " میری بہن مسلہ یہ ہے کہ بچے گھروں سے سیکھ کر آتے ہیں۔ سکول والے کیا کر سکتے ہیں۔ " 

میں نے کہا ہمارے گھر میں ایسی گفتگو نہیں ہوتی۔ ہمارا بچہ یہاں سے کچھ غلط سیکھ رہا ہے۔ اور یہاں کنٹرول آپ نے کرنا ہے۔ 

جی جی ٹھیک ہے کہہ کر وہ آگے بڑھ گۓ۔ مجھے تسلی نہیں ہوئی۔

 

میں آج گئی۔ تو بڑے سر وہاں موجود تھے۔ 

میں نے ان سے بھی یہی سب کہا۔ اور ان کا بھی یہی جواب تھا کہ بچے ہر طرح کے گھروں سے آتے ہیں اور گھروں سے سیکھ کر آتے ہیں۔  

ان کو بھی میرا وہی جواب تھا۔ ہمارا بچہ تو اسکول سے سیکھ رہا ہے ناں۔ ابھی تو ہم اسے اسی وقت ڈانٹ ڈپٹ کر اور پھر پیار سے سمجھا دیتے ہیں وہ سمجھ بھی جاتا ہے۔ 

مگر پھر بھی اگر آپ سے چھوٹے بچے کنٹرول نہیں ہوتے تو آپ اسے کسی بڑی بچی کے پاس بٹھا کر پڑھا دیا کریں۔ 

 

سکول تو خیر میں اس کا چینج کر ہی دوں گی اب۔ 

مگر یہ المیہ تو ہر طرف ہے۔ ہر طرف۔ 

جو بچے بگڑ چکے ہیں وہ کس سے سیکھتے ہیں ؟؟ 

اپنے گھر سے۔ اپنے گھر کے مردوں کی بول چال سے۔ اپنے گھر کی عورتوں سے۔ 

مگر بڑا کردار مردوں کا ہوتا ہے۔ 

اور یہی بچے جو انتہائی معصومیت کے دور میں غلط باتیں سیکھ کر بڑے ہو کر کچھ غلط کرتے ہیں تو پھر ہم معاشرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ 

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم جیسے لوگ کہاں چلے جائیں؟ 

کیا ہمارا بھی کوئی ٹھکانہ ہے ؟؟ 

کیوں کہ یہ تو طے ہے کہ جب کوئی سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی برائی کو نہیں چھوڑتا 

تو ہم اپنی اچھائی تو ہر گز بھی نہیں چھوڑیں گے۔ 

مگر اکثر مجھے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ میرے جیسے لوگوں کو اس دو مونہے معاشرے میں جینے کا واقعی کوئی حق نہیں۔

 

کوئی بات غلط، بری یا تلخ لگی تو بہت معذرت۔ 

اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کوئی مجھ سے اتفاق کرے۔ کیوں کہ ہر انسان کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔

مگر اب واقعی وقت ہے کہ ہر فرد واحد خود کو مسول سمجھے۔

سلامت رہیں۔ 

والسلام 

زہرا جعفری