جنریشن گیپ

2020-02-04 20:28:21 Written by محسن علی

"جنریشن گیپ"

"میں سچ کہتا ہوں جیسے ہم سب کو پتا نہیں چلا تھا بالکل اسی طرح آپکو بھی خبر نہیں ہوگی__اچانک کسی دھواں دار لمحے میں,کالی کھانسی کی طرح کی جنریشن گیپ نامی بلا آپکے آس پاس چپکے سے سیندھ ڈالے بیٹھ جائے گی_یہ ایسے ہی آتی ہے دبے پاوں_بغیر بتائے__اور جب آجاتی ہے تو بےقابو ہوکر خوب ہنستی ہے__تالیاں پیٹ کر_تب کھجور کی چھال پر بیٹھے گروہ میں پہلی پھوٹ پڑتی ہے_نظریات ,عقیدے,اور عمر کے لطیفے نہیں ملتے_ہم بھائیوں میں دیوار کھڑی ہوگئی تھی_ابو ہم سے کوسوں دور ہوگئے اور دادی کو کبھی بھی اماں کے کھانوں کا گمشدہ سواد مل کر ہی نہ دیا__"

میری کہانیوں کے کردار ہمیشہ ناسٹلجیک ہی رہے ہیں مگر اس میں سراسر میرا قصور ہے کیونکہ یہ میری بیماری ہے جو میں نے ان میں انجیکٹ کردی ہے__معذرت خواہ ہوں کہ میری سوچ اور قلم کی پٹریاں ریل کی طرح سیدھی نہیں ہیں__آئے روز حادثے ہوتے رہتے ہیں شاید__کہ یہاں بھی جنریشن گیپ والی کانی بلا گھوم رہی ہو...یہ بہت آوارہ روح ہے بس شکار ڈھونڈا اور دبوچ لیا___!

مجھے سب یاد ہے جب سردیوں کے سرد اور یخ بستہ موسموں میں ہم سب بھائی رضائیوں پر اچھل کود کرتے اور ایک دوسرے کو خوب رگیدتے اور دھموکے جڑا کرتے تھے ہر شام کو سرکس کا یہ سپیشل شو ہوا کرتا تھا اور اختتام میں گھپ خاموشی__اماں کا آٹھ نمبر جوتا اس شو کا کلائمکس ہوا کرتا تھا__یہ تب کی بات ہے جب یہ موذی بلا ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی___!

شاموں کو مولوی صاحب کا وظیفہ اکٹھے کرنے ٹولوں کی صورت محلوں,گلیوں میں گھوما کرتے تھے__گلیوں میں خوب سینکی ہوئی روٹیاں کھاتے اور مرغی کے سالن سے بوٹیاں ہڑپ کر صرف شوربہ ہی مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کیا جاتا_اور وہ تاسف سے کہا کرتے تھے

"کیا زمانہ ہے صرف شوربہ ہی دیا پھوہڑ عورتوں نے_قرآن کی تعلیم دیتا ہوں طبلچی تھوڑی ہوں__"

انھیں کبھی شک تک نہ ہوا کہ یہ کارستانیاں انکے شاگرد خاص کی ہوتی ہیں اور بیچاری ساری بستی کی نیک عورتوں پر الزام آجاتے تھے__کاش ہمارے الزام ہمارے ہی سر ہوا کرتے____!

راتوں کو شش شش کرتے جگنو پکڑنے کو بھاگا کرتے تھے__اور پکڑ پکڑ کر تکیوں کے غلافوں میں قید کرلیتے تھے_تب قید بہت فیسی نیٹ کیا کرتی تھی _قید کی کربناکی کے سبق تو اب سیکھے ہیں__!

جنگل گھاٹیوں میں ٹٹیریوں کے انڈے چرانا ہمارا محبوب مشغلہ تھا_کاش اولاد اور ماوں کے دکھ وقت سے پہلے علم میں آجایا کریں_ہائے

بھڑوں کی کھکھیریوں کو پتھر مار کر بھاگنا اور بھڑوں کے جھنڈ کے جھنڈ پیچھے آتے دیکھ کر جلدی سے بھاگ اٹھنا آج بھی یاد آتا ہے تو آنسو بہہ نکلتے ہیں__پدی چڑیوں کے گھونسلے اجاڑتے سمے کبھی خیال تک نہ آیا__!

"گھر اور گھونسلے آسانی سے نہیں بنتے_سانس کا سوت چرخے پر کاتا جاتا ہے اور ہر بار تند صحیح نہیں بیٹھتی_بار بار ادھیڑنی پڑتی ہے"

سکول کی سرخ دیواریں ہماری رازدار تھیں تختیاں وہیں سوکھتی تھیں_مرغوں کی عظیم قطاریں بھی وہیں دیکھنے کو ملتی تھیں برآمدے کی سیڑھیوں کے سامنے برسات کے دنوں میں کاغذ کی کشتیاں بنائی جاتیں_پانی میں راستے بنائے جاتے__چھٹی کا گھنٹہ بجتا اور کشتیاں ملاحوں کو اداسی سے دیکھتی بارشوں کے موسم میں غرقاب ہوجاتیں__تب تو غرقاب لفظ تک کا مطلب بھی پتا نہ تھا___,!

گوبر سے پرندے شرندے بناکر سکھایا کرتے تھے اور پھر انکے آگ کے حوالے کردیتے _اب سمجھ آیا ہے

"انسان کی فطرت میں ظلم کا عنصر ہے_اپنی تخلیق کو فنا کرتے ذرا بھر بھی نہیں جھجکتا"

تالابوں میں رہائش پذیر ڈڈوں کو پریشان کرنا بھی ہماری فیورٹ ہابی تھی__افف_

کانے چھیلتے,پتنگیں بناتے اور ریت کے ٹیلوں پر روٹیوں پر اچار کی پھانک رکھ کر مزے سے کھاتے تھے_,لسی کی بوتلیں غٹاغٹ چڑھا کر مدہوش ہوجاتے اور نیند میں ادھر ادھر ریتلے ٹیلوں پر لڑھک کر سوجاتے__دور سے_بہت دور سے_چرواہے گزرتے اور مویشیوں کی ٹلیوں سے جاگ جاتے_شام سر پر آجاتی_مائیں خونخوار موڈ میں رات کا کھانا بند کرنے کا آرڈی نینس جاری کرتیں اور دادیاں وکیل بن کر اس کیس میں کود کر ہمیشہ موکلین کو بچالیتی تھیں__!

اوہو_,میں بھی کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہوں کہا تو تھا ناسٹلجیا کی شکایت ہے مجھے__!!

وقت کے جھولے میں جھولتے ہم بڑے ہوگئے_اور تعلیم یافتہ بھی__,!

اور یہیں جنریشن گیپ نامی بلا آدھمکی__اماں اور ابا,اور ہماری وکیل دادی ہمیں قدامت پرست لگنے لگیں_جنہیں کچھ نہیں پتا_سیاست,لٹریچر,فیشن سینس,ماڈرن لطیفے__!!

اماں خالی نظروں سے دیکھے جاتیں یوں لگتا آنکھوں میں تھر اگ آیا ہو_,

"اماں ہاتھ اچھے سے دھویا کریں_ابھی تو آپ اپلے تھاپ رہی تھیں جراثیم ہوتے ہیں پلیز"

اماں کے ہاتھ سے پیڑا گرجاتا__ابا دہکتی آگ سے انگارہ اٹھا کر حقے پر رکھ لیتے_

"افف _یار ابا پلیز ہمارے سامنے مت کیا کریں_عجیب طور ہے_کوئی لائٹر لے لیں"

دادی روغن بادام لے کر پیچھے پھرا کرتیں_

"دادی_اب وہ وقت نہیں رہا اور نہ ہی ہم بچے ہیں_روغن اور گری کی بو سے سر پھٹتا ہے"

آہستہ آہستہ چولہے پر ہونے والی اجتماعی میٹنگیں جنریشن گیپ کی دھند کی نظر ہوگئیں_اماں,ابا اور دادی اب بات کرتے جھجکتے تھے انھیں ہمارے علم سے خوف آتا ہے__!

افف_تھکی ہوئی سوچ_اولڈ وے آف تھنکنگ_ابا جب بھی ریڈیو کی خبریں سنا کر ہمارے معیار پر آنے کی کوشش کرتے ہم جھڑک دیتے تھے___

"آپکو ڈان اور ڈیکی ٹائمز کا نہیں پتہ_آپکو موازنہ نہیں آتا_بس آپ ربیع اور خریف کی فصلوں کی خبر رکھا کریں بس"

ابا اس دوپہر اچانک بوڑھے ہوگئے_کنپٹیاں سفید ہوگئیں

"تم لوگ تو میرے قد سے بھی اونچے ہوگئے ہو میرے بچوں"

دی گارڈین,نیویارک ٹائمز اور ادھر وہ تھکا ہوا ریڈیو پاکستان ہونہہ_ہونہہ__!

کروشیا چلاتے سردیوں کی طویل راتوں میں اماں نے کتنی ہی جرسیاں بن ڈالی تھیں__ہم نے پرے پھینک دیں

"اماں_کتنی بار کہا ہے رواج نہیں رہا_بوننزا,اور ارمانی کا زمانہ ہے"

سینے سے لگائے ,آنکھوں کے کٹوروں میں پانی لئے,ہاتھ باندھے کھڑی بولیں بھی تو اتنا__!

"اور ماوں کے زمانے کیا ہوئے میرے بچوں_ماوں کے زمانے کیا ہوئے"

دادی پنیاں بناتیں لاڈ سے کھلانے کی کوشش کرتیں اور ہم چیخ اٹھتے__

"نکل آئیں غار کے زمانوں سے_یہ یہ_فوڈپوائزننگ ہوجاتی ہے اس سے"

دادی ہکا بکا سی بیٹھی رہ گئیں__اماں نے پنیاں توڑ توڑ کر پکھی واسیوں کو دان کردیں__!

سارے میں چپ پھرگئی تھی__ہم لمبی لمبی بحثیں کرتے_وقت,ماحول,اپ ڈیٹس___

"میں تھک چکا ہوں یار یہ اولڈ کلچر ہماری روٹس سے جانے کب نکلے گا_جانے کب"

شاپنگ مالز گھومتے,سینما جاتے,فاسٹ فوڈز کھاتے ہم اپنے پچھلوں کی بےکار اور بور زندگیوں پر لمبے لمبے تبصرے کرتے تھے__!

بینک اکاونٹ خالی ہوتا تو لہجے شہد ہوجاتے اور اگلے روز بینک اکاونٹ بھر جاتے__ربیع اور خریف کی فصلوں کی سوچ میں الجھا وہ بوڑھا ابا_دن کو اپلے تھاپتی اور راتوں کو کروشیے بنتی وہ اماں اور طاق راتوں کے وظیفے پڑھتی دادی__جانے کیا کچھ تیاگ دیتے__!

آج بھی وہی سوکھی روٹی ,پیاز کی ڈلی اور اچار کی پھانک ہے__

وہی ڈڈو پکڑتے جراثیموں سے کھیلتے وہ بچے__وہ ننگے تڑنگے ریتلے ٹیلوں پر سوئے بچے جو کسی چرواہے کی بھیڑوں کی ٹلیوں کی آواز کے منتظر کچی نیند سورہے ہیں__وہی شام کے لازوال منظر مائیں تھانے دارنیاں اور ابے وکیل__جگنووں کے تعاقب اور تکیوں کے غلافوں میں قید وہ جگمگاتی ننھی سی جانیں__رات کی ماں کی کہانیاں اور اللہ لوریاں__!!!

جانے کیسے جنریشن گیپ نے وار کیا_سیندھ لگائی__کیسے اور کیونکر__

آج ہماری اولادوں کی زندگیوں میں جنریشن گیپ نامی بلا آن پہنچی ہے__ہم نے آتش دانوں میں آگ بھڑکا دی ہے_آسمان پر تارے ٹوٹ رہے ہیں__ایرانی بلیاں گٹھڑی بنی اونگھ رہی ہیں___!

ہم اپنے بچوں سے مخاطب ہیں جو ہاٹ چاکلیٹ کے پیالے پیتے ہوئے,ہونٹوں پر زبان پھیرتے متوجہ ہیں__,

"اگر تم سیاسی منظرناموں سے ناواقف ہو تو کوئی بات نہیں_اگر تمہیں تھامس ہارڈی اور ٹالسٹائی کی خبر نہیں تو بھی کوئی بات نہیں__شکیرا اور بیتھون سے جان پہچان بھی ضروری نہیں_جے ڈاٹ اور کھاڈی کے پہناووں کا خیال نہیں تو بھی بہتر_اور_اگر اٹالین اور چائنیز کھانوں کی چاہ نہیں تو کوئی زبردستی نہیں__تم لمبی لمبی فلسفیانہ بحث نہیں کرسکتے,تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں___مگررر"

زرد بلبوں کی روشنی میں وہ چاکلیٹ کے پیالے ختم کرچکے ہیں_وہ اچھے سامع ہیں_دلچسپ ,ہوشیار__!

ہم نے جنریشن گیپ کو کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر باہر بھاگتے دیکھا تھا__!

"ربیع اور خریف کے عالم کا علم رکھنا وہ سارے زندگی کے علم جانتا ہے_کروشیے کی بیلیں بنتی بوڑھی آنکھوں کی مشقت یاد رکھنا_پنیاں اور بادام لے کر پیچھے پیچھے بھاگنے والیوں کی تھکن نہ بھولنا__جگنو,بھڑوں کی کھکھیریں,ٹلیاں,اور کھمبیوں کے سالن,روٹی اچار کے سواد کو یادداشت سے برطرف نہ کردینا__ورنہ سکون ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا__یہی تو اثاثے ہیں_یہی نہ رہے تو زندگی کیا اور حاصل کیا__جاو_وہ علم حاصل کرو جو تمہیں نفع دے جاو میرے پیاروں_زندگی بانہیں کھولے تمہاری منتظر کھڑی ہے__بھاگ جاو_"

 

تحریر_محسن علی