ماضی سے حال تک

2020-02-06 21:49:23 Written by شبیر علوی

تایاجی سے دادا صاحب کے متعلق جان کر یہ خوشی ہوئی کہ وہ خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے شگفتہ مزاج انکسار پسند نیک دل انسان تھے دیسی جڑی بوٹیوں کی ادویات بنا کر ان سے بیمار لوگوں کو صحتیاب ہونے میں مدد کرتے تھے

 وہیں یہ بات ہمارے لیے باعثِ افسردگی تھی کہ 

جب ہم محض ایک سال کے تھے ہمارے دادا جی 

 اس دنیا فانی سے انتقال فرما کر واپس پلٹ چکے تھے جہاں آخر ایک دن ہر کسی نے اپنے مقررہ وقت پہ موت کے بہانے پلٹنا ہے ................... 

 

اپنی تائی صاحبہ کی زبانی معلوم ہوا کہ ہمارے نانا اور دادا بھائی ہیں اور تائی صاحبہ کی والدہ ان کی بہن تھیں تاہم مذید معلومات انہیں میں سے کوئی دےسکتاہے .... 

گھر واپس آ کر امی ابو سے اپنے تایا کے گھر جانے کی وجہ سے ہلکی سی ڈانٹ کھاکر ہم نے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے ہمیں دادا کے متعلق کیوں نہیں کبھی بتایا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جب آپ سب اتنے گہرے رشتےدار ہیں تو آپس میں نفرت کیوں رکھتے ہیں؟؟؟؟؟

 کیوں آپ کو لگتاہے کہ تائی ہمیں نقصان پہنچائیں گی ؟؟؟؟ 

ہمارے ان سوالوں سے ہمارے امی ابو اور زیادہ پریشاں ہوئے کہ ضرور سائے کا اثر ہے ... 

 

دادا صاحب کے متعلق معلومات کی دل چسپی کو بھی ہمارے گھروالے ایک بیماری سمجھنے لگے تھے کہ یہ کیوں ایسے سوال پوچھتا رہتا ہے جن کا جواب مشکل ہے  

 

 ایک دن ہم تایا کے گھر گئے تو ہماری تائی صاحبہ نے بتایا کہ وہ اپنے میکے جارہی ہیں تایا کے ساتھ تم بھی ساتھ چلے آؤ وہاں تمہاری پھوپھو جن کی شادی تائی صاحبہ کے بھائی سے ہوئی تھی ہیں وہ بہت کچھ بتائیں گی دادا صاحب کے بارے میں بھی  

تاہم ساتھ چل دیے تانگے پہ بیٹھ کر گئے 

 

کوچوان کی جوانمردی سے بھی بہت متاثر ہوئےکہ وہ کیسے چلتے ہوئے تانگہ پہ ساتھ دوڑ کر سوار ہوجاتا ہے اور سواریاں اگر بڑھ جاتیں تو کھسک کھسک کر بانس کے اختتام پہ وزن برابر کرنے کو گھوڑے کی گردن تک پہنچ جاتا ہے تب ہمیں گھوڑے کے زورآور ہونے کی داستاں پہ بھی یقین آریا تھا 

پھوپھو کے گھر پہنچے تو وہاں سب کو خوش پایا تائی صاحبہ کے ابا بھی ہمارے نانا کی طرح بڑی عمر کے تھے 

ہمیں چونکہ دل چسپی اپنے دادا صاحب کے متعلق تھی تاہم پھوپھو سے دادا کے متعلق پوچھنا شروع کردیا تو 

 

ہماری پھوپھو ہمیں پیار بھی کرتی رہیں اور ہمارے ابا اور تایا سے ناراضی کا اظہار بھی 

 ہماری سمجھ سے بالاتر تھا یہ سمجھنا کہ وہ دادا جی کے متعلق بتاتے بتاتے اپنے بھائیوں کی شکایت کیونکر کر رہی ہیں 

 

ادھر ہمارے گھر میں ہماری گمشدگی کے سبب برپا کہرام سے گاؤں بھر میں تشویش تھی   

نہیں معلوم 

کس طرح یہ خبر تو گھر پہنچ گئی کہ ہم اپنے تایا کے ساتھ چلے گئے ہیں 

گم ہوجانے سے یہ بڑا دکھ تھا شاید ہمارے امی ابو کے لئے 

 

.............. 

غالباً دو دن وہاں رہے خوب مزہ آیا  

ہماری پھوپھو کا سسرال چونکہ تائی صاحبہ کا میکہ تھا اور یوں بھی ان کی والدہ ہمارے دادا کی بہن تھیں تاہم سب اپنے ہی تو تھے مگر ایک دوسرے سے خفا خفا کیوں ہیں 

یہ ہم سمجھ نا پائے 

 

جس دن ہمارے تایا اور تائی نے واپس آنا تھا اسی دن ہم وہاں اکیلے ہی گھومنے کے لئے باہر فصلوں میں نکل گئے سرسبز و شاداب فصلوں کے منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ ہی نا ہوپایا کہ ہم کہاں کس پگڈنڈی پہ چل رہے ہیں اور گاؤں سے کتنی دور آچکے ہیں 

یہ ایک امرودوں کا باغ تھا 

ساتھ میں گلاب کے پھولوں والے پودے بھی لگے تھے 

 

اچانک ہمیں ایک کتے کے غرانے اور پھر اس کے بھونکنے پہ احساس ہوا کہ شاید ہم غلط جگہ آگئے ہیں بہتیری منت سماجت بھی کی اس کی مگر کتے نے جیسے ہمیں کاٹنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا 

آخرکار بچاؤ کی سبھی کوششیں بے سود گئیں ہم کتے کے وار سے نا بچ پائے 

ہم مکمل طور پہ بےبس ہوچکے تھے کتا ہمیں چھوڑ نہیں رہا تھا 

ہماری ایک ٹانگ پہ ہی اکتفا نا کیا اس بےرحم نے کندھے پہ بھی کاٹا کمر اور پسلیوں پہ بھی اپنے نشان چھوڑے 

ہم سمجھ چکے تھے ہماری موت آج ہی ہے مگر زندگی کے مذید ستم ہمارے منتظر تھے 

 

اتنے میں ایک آدمی نے آکر ہمیں کتے سے بچا تو لیا مگر ہمارے ساتھ بجائے ہمدردی کے ہمیں کوسنا شروع کردیا 

اندھے تھے یہاں کیوں آئے تک تو ٹھیک تھا مگر وہ آدمی تو گالی پہ گالی دیے جارہا تھا 

ہمیں اپنے جسم پر آئے زخموں سے نکلتے لہو سے زیادہ اس آدمی کے لفظوں اور لہجے سے درد محسوس ہورہا تھا 

ہمارے دل و دماغ میں اس آدمی پہ غصہ بڑھنے لگا 

ہم اپنے زخم سہلاتے ہوئے یہی کہہ پائے تھے کہ چاچا سارا قصور کتے کا ہے 

تبھی اس نے ہمیں ایک ہلکی سی چماٹ بھی لگادی اور نازیبا الفاظ بھی کہے 

اس بار ہم کو نا جانے کیا ہوا کہ ہم برداشت ہی نا کرپائے 

ایسے میں وہ زور جو کتے کے خلاف ہم نہیں چلا سکے تھے اس آدمی پہ چل گیا 

قریب پڑی ہوئی آدھی اینٹ نظر آئی جو ہم نے اٹھا کر اس آدمی کے دےماری 

اس کا سر پھٹ گیا 

وہ حیراں ہی تھا کہ ہم نے اس کی قمیض پکڑ کر جو کھینچا تو وہ نیچے گرگیا 

اس نے اب کی بار زور زور سے آوزیں لگائیں 

شور سن کر تین چار لوگ آئے جو قریب کہیں کام کر رہے تھے تو اس آدمی نے ان کی مدد سے ہمیں رسیوں سے باندھ دیا 

اور گاؤں میں اعلان کروا دیا کہ ایک لڑکے کو باولے کتے نے کاٹ لیا اور لڑکا باولہ ہوگیا ہے مگر لڑکے کی پہچان نہیں ہے کہ کون ہے بندھا پڑا ہے  

ہمارے تایا اور تائی صاحبہ کے بھائی جو ہمیں پہلے ہی گھر میں نا پاکر پریشان تھے اعلان سن کر وہ اس طرف گئے تو ہمیں چھڑانے کی کوشش ناکام گئی کیونکہ سبھی نے ڈرا رکھا تھا کہ باولے کتے کے کاٹنے سے جو باولہ ہو جاتا ہے وہ کسی کا سگا نہیں رہتا 

یہ ہم پہ دوہرا تشدد تھا جس کے اثر سے ہم سب اخلاقیات بھول کر اس وقت سب سے بدزبانی کر رہے تھے 

ہماری بدزبانی ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ ہم باولے ہوچکے ہیں 

کاٹ لیں گے جو بھی پاس آئیگا 

جس نے ہمیں کتے سے بچایا تھا اس ہی آدمی کی بات کا یقین کیا جارہا تھا 

ہماری پھوپھو اور تائی صاحبہ سمیت دیگر خواتین بھی بس ہماری طرف دیکھ کر دور سے رو لیتیں مگر قریب نا آتیں 

انکا یہ بے وجہ خوف ہمارے غصے اور ناشائستہ زبان کا سبب بن گیا 

اور ان کے یقین پختہ ہونے میں دیر نا لگی کہ ہم باولے ہوچکے ہیں 

کسی نے ہمارے زخموں پہ مرہم پٹی تک کا نہیں سوچا کیونکہ کتے کے کاٹے زخموں سے نکلنے والے جراثیم خطرناک ہیں 

یہ مشہور پہلے سے ہی تھا 

ہمارے ماں باپ کو بھی ہمارے پھوپھا جاکر کب لے آئے ہمیں کچھ نہیں معلوم بعداز ہمیں ویسے ہی چارپائی پہ باندھے ہوئے ٹریکٹر ٹرالی پہ لاد کر ہمارے گاؤں لے آیا گیا اس دوران ہماری والدہ ہماری چارپائی کے قریب آتیں اور اپنے رشتہ داروں جن میں ہماری پھوپھو تائی تایا صاحب کو برے بھلے القابات سے نوازتیں 

ہمارے زخموں کا درد بھوک پیاس کے سبب پیدا ہونے والی تبخیر معدہ کا اثر تھا شاید یا پھر ہمیں پیار کی کمی تھی جو ہمیں اپنی والدہ سمیت سب کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے تھی 

اور ہمارا یہی رویہ اس افواہ کو یقین میں بدل رہا تھا کہ کتے کے کاٹنے سے باولہ ہوچکا ہے  

 

اگلےدن شہر سے ہمارے نانا نانی اور ماموں سمیت دیگر کئی رشتے دار بھی آچکے تھے مگر بین کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہے تھے 

قدرت کے کارخانہ میں کوئی بھی بےکار نہیں 

اللہ بھلا کرے اس خاتون کا جس نے پہلی بار ہمارے والدین کو یقین دلایا تھا کہ ہم پہ سایہ ہے 

اس کو بھی خبر ہوئی تو اس نے آکر ہمارے گھر والوں کو ایک بار پھر یاد دلوایا کہ بڑے سرکار شاہ صاحب کے پاس لے چلو جنات کا اثر زائل ہوسکتا ہے تو کتے کاٹے کا کیوں نہیں 

اس دوران ہم متعدد بار بےہوش ہوچکے تھے 

آخرکار ہمیں چارپائی پر بندھے بندھائے ویسے ہی پھر ٹرالی میں لاد کر بڑے سرکار کے ہاں لےجایا گیا 

 

ہمیں بس اتنا یاد ہے کہ بڑے سرکار نے ہماری یہ حالت دیکھی تو ہمارے والد سمیت باقی عزیز بھی جو ساتھ آئے ان پہ برس پڑے تھے 

درگاہ پر ہماری مرہم پٹی کے لئے اچھے سے بندوبست کیا گیا 

وہاں موجود سبھی سازندے اور ملنگ جو کہ پہچانتے تھے ہمارے اوپر چھاؤں بن گئے 

اور بڑے سرکار نے سب کو حکم دیا کسی بھی طرح کی کوئی کمی نہیں رہنا چاہیے دیکھ بھال میں بڑےسرکار نے ہمارے والدصاحب سمیت سبھی رشتہ داروں کو سمجھا کر بھیج دیا کہ بتایا ہے کہ یہ ہمارا بیٹا ہے آپ ملنے کے لیے آ سکتے ہیں 

اسے ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگے گا 

ویسے بھی اس نے یہی رہنا تھا آکر 

اب یہیں رہیگا 

ہمارا جسم جو زخموں کے سبب سوزش اور رسیوں میں بندھنے کے سبب اکڑ چکا تھا درد کی ٹیس تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ایک حکیم صاحب جو شاید بڑے سرکار کے مرید بھی تھے ہماری مرہم پٹی کرتے اور ملنگوں سے کہہ کر ہماری خوب خدمت کرواتے محض دو دن میں ہم اس قابل تو ہوچکے تھے کہ چل سکیں مگر حکیم صاحب نے زخم کچے اور کمزوری کا کہہ کر کھیچل سے منع کر رکھا تھا 

تیسرا یا چوتھا دن تھا جب ہمیں بڑےسرکار کے خاص خدمت گار نے آکر کہا کہ بی بی صاحبہ نے آپکو دیکھنا چاہ ہے 

یہاں وہ آ نہیں سکتیں آپکو جانا پڑیگا 

تاہم آپکا انتظام وہاں کردیا گیا ہے 

آپ پہلے کی طرح وہیں رہیں گے یہ کہہ کر انہوں نے وہاں موجود زائرین میں سے کچھ کو ساتھ لیا اور ہمیں اٹھا کر بی بی صاحبہ کے گھر منتقل کردیا 

گھر سے ملحقہ ایک بیٹھک کی صفائی وغیرہ کروا کر ہماری چارپائی وہاں لگا دی گئی اور ایک مرید کو ہماری خدمت پہ معمور کردیا 

 

بی بی صاحبہ نے جو ہمیں دیکھا تو دیکھتی رہ گئیں ہم انکے ادب میں اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں پائے اپنے ہاتھوں سے ہمارے بالوں کو سیدھا کرتے ہوئے بولیں کچھ بھی نہیں ہوگا تمہیں

 پریشان مت ہونا ہماری پیشانی کا بوسہ لے کر کہنے لگیں چل اب ہنس کر دکھاؤ  

ہم کو جو توجہ محبت ماں پھوپھو تائی صاحبہ سے ملنی چاہیے تھی ایسے وقت میں وہ بی بی صاحبہ سے پاکر خوشی سے 

ہنسے تو ہمارے ہنسنے کے سبب پسلیوں والے زخموں سے درد اٹھا تو کراہے ہم مگر 

ہم نے اس درد کو بی بی صاحبہ کے چہرے سے بھی محسوس کیا 

بی بی صاحبہ نے نیم کے پتے ڈلوا کر پانی ابالا اور اپنی خادمہ سے مل کر ہمارے زخم دھوئے 

اس وقت ہم اذیت سے جنت میں آگئے ہوں جیسے 

دل ہی دل میں تہیہ کر رہے تھے کہ اب ہم نے گھر نہیں جانا .........

ہر تیسرے چوتھے روز ہمارے رشتہ داروں میں سے بھی کوئی نا کوئی ابا یا امی کے ساتھ آتا 

خواتین میں تائی ممانی پھوپھو بھی آچکی تھیں 

ہم اس بات سے حیران بھی تھے اور خوش بھی کہ کسی بہانے ہی سہی ہمارے ابا اور تایا آپس میں صلح کرچکے ہیں 

ہماری برادری کے دیگر لوگ بھی اب اس وقوعہ کی وجہ سے بڑےسرکار کے گرویدہ ہورہے تھے 

بی بی صاحبہ ہمارا بہت خیال رکھتیں 

وہ جان چکیں تھیں کہ ہمیں اپنا دادا صاحب سے ملنے کا اشتیاق ہے مگر 

یہ کام ناممکن ہے ....... 

 

خواتین جو تعویز لینے اور دم کروانے کی غرض سے وہاں آتیں کبھی کبھی بی بی صاحبہ ہمیں کہہ دیتیں کہ اچھا ان کے لئے دعا کرو بیمار کی دعا مولاکریم رد نہیں کرتے 

بعض دفعہ بی بی صاحبہ ہمارے پاس بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کرتیں 

ایک دن کہنے لگیں کہ تم بہت اچھے ہو 

ہماری بہت مدد کرتے ہو 

ہم سوچ میں پڑگئے کہ ہم نے کب کہاں کیا مدد کی 

آخر بی بی صاحبہ سے پوچھ لیا کہ وہ کیسے 

تو وہ ہمارے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے بوئے بولیں 

تم ہماری بات سنتے ہو ہمارا دل جب درد سے بھر جاتا ہے ہم تمہیں باتیں سنا کر سکوں محسوس کرتے ہیں 

جانتے ہو تم انمول ہو ہمارے لیے 

ہم چاہتے ہیں ساری زندگی پرسکون رہو کبھی تمہیں کوئی پریشانی نا ملے 

ہم نے پوچھا بی بی صاحبہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم ساری زندگی مزے میں رہیں ؟ 

کہنے لگیں بالکل محبت کا کام کرلینا کبھی گھاٹا نہیں ملتا اس میں 

منافع ہی منافع ہے 

محبت کے بدلے میں کبھی محبت کے تمنائی مت بننا 

لوگ اپنے درد لے کر آئیں گے انہیں محبت کے ساتھ ساتھ یقین کی طاقت دینا 

جلدباز بھی آئیں گے تو 

ان سے کہنا یوسف کے خواب کی تعبیر کو سچ کرنے میں رب نے کئی برس کا عرصہ انتظار کروایا کئی مشکل مراحل سے

 گزارا اپنے پیارے کو 

دعائیں قبول نا ہونے کی وجہ تلاش کرو 

رب کی حکمت میں رضا مان لو  

نا جانے بی بی صاحبہ ایسی باتیں جب کرتیں ہمارا دماغ کیوں سن ہو جاتا تھا 

کچھ سمجھ نہیں آتا تھا 

کبھی کبھار ہم بی بی صاحبہ سے پوچھ لیتے تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی ولادت سے مصر تک کے واقعات سناتیں سمجھا سمجھا کر اور ساتھ میں پوچھا کرتیں کہ سمجھ رہے ہو نا..... 

 

ایک دن ہماری نانی صاحبہ بھی وہاں پہنچ گئیں ہمیں لینے کے لیے 

ہم چونکہ گھر جانے سے کتراتے تھے اب لیکن بی بی صاحبہ نانی صاحبہ کو وعدہ کرچکیں تھیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ ہمیں نانی اپنے ساتھ شہر ہی لےجائینگی 

ہم دوہرے خوش تھے کہ اب نانا سے دادا صاحب کے متعلق بھی بہت کچھ جان لینگے..... 

موٹرسائیکل رکشہ بھی اب عام ہوچکے تھے شہروں میں یوں نانی کے ہمراہ راستے میں ایک جگہ پہلی بار اس سواری میں بھی بیٹھنے کا اتفاق ہوا... 

 

نانی اماں کے گھر میں اب پہلے کی نسبت خاصی تبدیلی تھی افراد تو وہی تھے مگر گھر نیا بنایا گیا تھا.... 

ٹیلی فون لگ چکا تھا گھر میں جس سے ہمیں بہت خوشی تھی کہ جس چیز کو ہم نے ٹی وی میں دیکھا تھا اور حیران تھے آج سامنے موجود ہے دل میں خواہش تھی کہ ہم بھی اس پر بات کریں 

لیکن کیسے کب کس سے اور کیوں ؟؟ 

پھر اک دن یوں ہوا کہ فون کی گھنٹی بجی اور ہم نے بھاگ کر سب سے پہلے فون کا رسیور اٹھایا کان سے لگایا ایک بھاری سی آواز سنائی دی 

ہیلو... 

جواب میں ہم خوشی خوشی بولے وعلیکم السلام تو دوسری طرف سے کہا گیا السلامُ علیکم 

ہم نے پوچھا 

کون بول رہا ہے ؟ دوسری طرف سے بتایا گیا کہ 

رشید بول رہا ہوں مظفر گڑھ سے 

تو ہم حیران ہوئے اور کہا اوووو تیری خیرررر ہم تو صرف منہ سے بول پاتے ہیں 

اس سے پہلے کہ ہم مذید فلسفہ جھاڑپاتے ہمارے ماموں نے آکر ہم سے ٹیلی فون کا رسیور لے لیا اور ہنس ہنس کر بات کرنے لگے..... 

یوں چند ہفتے اپنے نانا کے گھر ہم نے بےفکر ہوکر گزارے اب ہمیں نا کسی نے مدرسے یا اسکول میں داخل کروانے کی بات کی اور نا کبھی ہمیں جھڑکا جاتا بوجہ 

بی بی صاحبہ کی تنبیہ تھی 

 

صبح شام ٹیلی ویژن یاپھر گلی میں 

ایک چھوٹے سے میدان میں دوسرے بچوں کو کھیلتے دیکھنا 

ہم خود نہیں کھیلتے تھے 

گلی کے کونے پہ ایک چائے کا ہوٹل تھا جہاں ملکی حالات پہ سیاست کی جاتی تھی محترمہ بےنظیر اس وقت وزیراعظم تھیں گھی کے ڈبوں پر ان کی تصاویر چھپی ہوتیں تھیں 

ہوٹل پر اس گھی کو لے کر بہت سی باتیں ہوتیں جن کی ہمیں سمجھ نہیں تھی 

لیکن ان لوگوں کو جو آپس میں رشتےدار اور محلےدار بھی تھے پھر بھی آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھ کر ہم کچھ بد دل سے ہوجاتے .. 

گھر میں نانی اماں اور ممانی بہت خیال رکھتیں مگر سب پریشان بھی رہتے کہ جوں جوں بڑا ہورہا ہے خاموش ہوتا جارہا ہے 

جب دیکھو دادا کے متعلق پوچھتا رہتا ہے 

وقت گزرنے کا ہمیں بھی احساس نہیں ہوا 

ہم چودہ برس کے ہورہے تھے 1996 کے ورلڈکپ کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا 

ہر طرف کرکٹ کی بات ہونے لگی وہ ہماری زندگی کے تلخ ترین ایام تھے 

ہمیں کرکٹ سے کوئی خاص دل چسپی تو نہیں تھی مگر سب کے دیکھا دیکھی ہم بھی کرکٹ میچ دیکھنے لگ گئے مگر ہمیں سمجھ بالکل نا تھی کہ کب خوش ہونا ہے اور کیوں ہونا ہے بس اسی لئے ہم بوریت محسوس کرتے کرکٹ سے 

اور ہوٹل پر کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ آپس میں لڑنے والے لوگ جب پاکستانی کھلاڑیوں کو گالی دیتے تو یک زبان ہوجاتے تعریف کرتے تو بھی ہم خیال بن جاتے مگر آپس میں ہر وقت لڑتے رہتے تھے .. 

ہندوستان سے میچ کے چرچے ہرزبان پہ تھے ہمیں بھی لگا کہ آج میچ پورا دیکھنا ہے 

دیکھنا ہے کہ عمران خان جس کی تصویر والے ہم نے لیمن کریم بسکٹ بھی دیکھ اور کھا رکھے تھے کیسے ورلڈکپ جیتے گا اس ہندوستان سے جس میں ہمارے دادا اور اسکے خاندان پہ ظلم کیے گئے تھے... 

میچ شروع ہونے کے بعد ہم نے ہوٹل پر لگے ہجوم میں سے ایک سے پوچھا کہ عمران خان کیوں نہیں کھیل رہا تو وہ ہمیں دیکھ کر ہنسنے لگا اور کہا کہ جا پتر گھر چل جا... 

ہندوستان اپنی باری کھیل چکا تو ہمیں آج بھی یاد ہے کہ عاقب جاوید اور وقار یونس نامی کھلاڑیوں کو بلاتفریق سبھی لوگوں نے آپسی دشمنی بھلا کر گالیاں دی تھیں 

ہم کچھ بھی کہنے کی کوشش کرتے تو ہمیں کہا جاتا پتر گھر چلا جا... 

 

پاکستان نے بلےبازی شروع کی تو سب خوش تھے ہوٹل پہ موجود سبھی افراد واہ واہ کر رہے تھے کہ پھر دو کھلاڑیوں 

عامر سہیل اور کسی پرشاد نامی بھارتی کھلاڑی کی آپس میں ہلکی سی اشارہ بازی ہوئی اور کچھ لمحے بعد ہی 

عامر سہیل جب پرشاد کے ہاتھوں ہی آؤٹ ہوگئے تو ہماری ہنسی تھی جو رکنے کا نام نا لے رہی تھی 

 

تبھی وہاں موجود کسی سرپھرے نے ہمارے زور کا گھونسا مارا اور کہا کہ 

چل گھر منحوس کہیں کا سارے میچ کا مزہ خراب کرکے رکھ دیا .... 

ہم متعجب ہوئے ڈرے سے اور درد سے کراہتے ہوئے بولے کہ میں نے کب کیا ہے 

وہ خود آؤٹ ہوا ہے میں نے کہا ہے اس کو وہ غصہ میں آئے

 نا آتا غصے میں 

یہ نہیں جیت سکتے ہم نے یہ کہا تو سارا مجمع ہی ہمیں کوسنے لگا اور اس نے تو ایک گالی کے ساتھ گھونسا بھی ایک اور ہمارے لگا دیا.. 

بس ہماری برداشت جواب دے گئی اور ہم نے جوابی کاروائی شروع کی تو حریف کا جسم 

لہولہان کردیا دس دس بندے ہمیں پکڑنے میں ناکام رہے ٹیلی ویژن ٹوٹ گیا چائے کے برتن سبھی اس کے سر میں پھوڑے تھے... 

ہمارے نانا ماموں نانی سب وہاں آچکے تھے  

 ہمیں پکڑ کے گھر لے گئے 

تعویز والا پانی کہاں ہے پلاؤ اس کو 

تب ممانی نے بتایا کہ وہ بوتل والا تو کچھ دن پہلے ختم ہوگیا تھا تازہ بھرنا یاد نہیں رہا 

اوہ خدایا یہ کیا تبھی تو یہ ایسا ہو رہا ہے آج 

نانی نے کہا اور سر پکڑ کے بیٹھ گئیں 

اور کہنے لگیں کہ اس کو جلد ہی اس کے پیر خانے لے چلو... 

باہر سے ہمارے چھوٹے ماموں نے آکر خبر دی کہ اس آدمی کے بہت زخم آئے ہیں اس کو بڑے ہسپتال لے گئے ہیں یہاں وہ بےہوش چکا تھا محلے کے ڈاکٹر نے جواب دیا اسکو ....

 

آگے جو ہوا وہ بہت دلچسپ بھی ہے 

اور دلسوز ہے 

بیان کریں گے اگلی قسط میں 

آپکی محبت کا طلبگار 

شبیرعلوی