عہد وفا/ری ویو

2020-02-07 19:37:05 Written by عائشہ تنویر

عہد وفا

 

انٹر سروس پبلک ریلیشن کے تعاون سے ہر اتوار کی رات ہم ٹی وی پر پیش کیا جانے والا ڈرامہ " عہد وفا " آج کل ناظرین میں خوب مقبول ہو رہا ہے ۔ پاکستانی عوام میں فوج سے محبت اور آئی ایس پی آر کے پرانے سُپر ہِٹ ڈراموں کا ریکارڈ جہاں " عہد وفا " کو ابتداء سے ہی ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا گیا، وہیں یہ نکتہ ہی اس پر سب سے زیادہ تنقید کا سبب بنا۔ (یوں بھی تنقید ہمارا قومی مشغلہ ہے، اس کی ادائیگی سے ہم کیسے غافل رہ سکتے ہیں۔) 

 

عوام کی پہلے سے طے بےشمار توقعات پر پورا اترنا اس قدر آسان کام ہر گز نہیں ہے۔ مین تھیم مختلف ہونے کے باوجود آئی ایس پی آر کی وجہ سے ہر قسط پر عہد وفا کا سنہرے دن یا الفا براوو جیسے شاہکار ڈراموں سے موازنہ کیا جاتا رہا ہے ۔ ( ہمارا ڈرامہ، ہماری مرضی ۔۔۔ )  

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرامے کی کاسٹ، اس کے رائٹر اور ڈائریکٹر نے اس پر بہت محنت کی ہے مگر پھر بھی ہر ڈرامہ مکمل طور پر شاہکار نہیں ہو سکتا، اسی لیے ایک بڑی ویور شپ رکھنے کے باوجود ڈرامے کے بےشمار کمزور پہلو بھی زیر بحث آتے رہتے ہیں ۔ ( اتنا وقت لگا کر ڈرامہ دیکھتے ہیں تو اسے ڈسکس بھی نہ کریں ۔) 

اس ڈرامے کی کہانی چار دوستوں کے گرد گھومتی ہے، جو لاابالی زندگی اور بے فکرے دورِ تعلیم سے سبق سیکھتے ہوئے عملی زندگی میں آتے ہیں۔ (اور شکر کہ ملک میں اتنی بے روزگاری کے باوجود نوکری حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔)  

ابتدائی ہی اقساط میں ان کی شرارتوں اور جملے بازیوں کے درمیان ایک منظر میں جس طرح چاروں مرکزی کردار وارڈن کے بیٹے کا مذاق اڑاتے ہوئے، اس کی والدہ کے نام کا تمسخر اڑاتے ہیں ، وہ منظر دیکھ کر حد درجہ افسوس ہوتا ہے ۔  

شاہ زین کے جاگیردارنہ پس منظر کے علاوہ تینوں کردار اچھی سلجھی ہوئی فیملیز سے تعلق رکھتے دکھائے گئے ہیں، ایسا مذاق ان کے ڈرامے میں کردار اور تربیت سے لگا نہیں کھاتا ، خواتین کا بالعموم اور کسی کی بھی ماں کا بالخصوص احترام ابھی ہماری معاشرت سے ناپید نہیں ہوا ۔لکھاری اور ہدایت کار کو شرارت اور بد تمیزی ، مذاق اور تمسخر کا فرق یاد رکھنا چاہیے ۔ اگر رائٹر کا مقصد لڑکوں کی آپس کی بے تکلفانہ دوستی اور بےباک انداز گفتگو دکھانا تھا تو یہ کام " لعنتی، خبیث، ذلیل، پھٹکار زدہ شکل " جیسے الفاظ اور جملوں سے بھی بخوبی ہو رہا تھا۔ 

یہاں یہ بات یاد رہے کہ عمومی طور پر آج کل کے ڈراموں میں اس سے زیادہ بے تکا مذاق دکھایا جا رہا ہے لیکن وہی بات کہ اس پراجیکٹ پر لگا فوج کا لیبل اس کے ناظرین ہی نہیں ، ان کی امیدوں کا گراف بھی بلند رکھ رہا ہے ۔ پی ایم اے کی محبت میں ہم جیسے بےشمار لوگ جو ڈرامہ نہیں دیکھتے، وہ عہد وفا دیکھ رہے ہیں ۔ ( اور کافی کچھ سیکھ رہے ہیں ۔) 

 

چاروں دوستوں کے لارنس کالج سے نکلنے کے بعد کہانی بہت اچھے انداز میں چلائی گئی، چاروں میں سے شارق کی زندگی کی کہانی بہت اچھی دکھائی گئی، معاشرے کے بہت سے منفی پہلوؤں کا سرسری جائزہ لیا گیا ۔ 

 

چاروں دوستوں کی کہانی دکھانے کی وجہ سے کہانی کا فوکس فوج پر نہیں رہا اور پی ایم اے کے سین عوام کی توقعات سے بہت کم رہے ۔ 

پی ایم میں ٹریننگ کے دوران پہلے سال کے اختتام پر جب یرموک مشق کے بعد جونئیر کیڈٹس واپس آتے ہیں ، تو ایک رات کے لیے وہ سینئر اور اس سال پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس جونئیر ڈکلئر کر دیے جاتے ہیں اور سینئرز سے بدلے لینے کا نادر موقع دستیاب ہوتا ہے۔ 

ڈرامے میں جس طرح یرموک مشق کا نام لے کر بار بار تذکرہ کیا گیا، ہم اس دلچسپ رات کا انتظار کرتے رہ گئے اور بناء کسی مزیدار سین کے ہیرو سعد جونئیر سے سینئر کیڈٹس میں چلا گیا اگر اس رات کو تفصیل سے بیان کیا جاتا تو نہ صرف ڈرامے میں جان پڑتی بلکہ یہ منظر ڈرامے کی اپنی منفرد شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ۔

( یرموک مشق کے بعد کیا ہوتا ہے، جاننے کے لیے کرنل اشفاق حسین کی کتاب "جنٹلمین الحمدلله" پڑھیں۔ ) 

 

ڈرامے میں فوج سے ریلیٹڈ ایسی دلچسپ صورتحال دکھانے کے لیے رائٹر نے پاس آؤٹ کے بعد سعد اور گلزار کی یونٹ میں پوسٹنگ کا انتظار کیا ۔ 

اپنی نئی یونٹ میں تعنیاتی کے پہلے دن ہی نئے آنے والوں افسروں کو بیوقوف بنانے کی روایت مشہور زمانہ ڈرامے الفا براوو چارلی میں دکھائی جا چکی ہے، اس لیے دلچسپ ہونے کے باوجود صورتحال نئی نہیں لگی ۔

اس سے بھی برا ستم گلزار کے ساتھ ہونے والا پھسپھسا مذاق تھا ۔ 

سعد کو بیوقوف بنانے کے منظر میں کردار نگاری اور اداکاری سے لے کر مکالمے تک خوبصورت تھے اور بلاشبہ یہ ایک مکمل سین تھا جبکہ گلزار کو بیوقوف بنانے والا منظر اس بیکار لطیفے کی طرح تھا، جس کے اختتام پر " ہنسنا کہاں تھا " کا سوال ذہن میں گونجتا رہتا ہے ۔

البتہ گلزار اور سعد کی ٹیلیفونک گفتگو خوب رہی، بالخصوص جِم والا سین بہت مزے کا تھا، جب سینئر آفیسر نے کنگ آرمر اور کوئین انفنٹری کے جھگڑے میں گلزار کو غریب عوام کی طرح رگید ڈالا تھا۔ انفنٹری اور آرمر یونٹس کا موازنہ اور فوج کے آپس کے مقابلے بہت اچھے لگے ۔

 

ڈرامے میں کیپٹن کرنل شیر خان ( نشان حیدر) کا تذکرہ بہت اچھا لگا ۔ ڈرامے کے ذریعے اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنا بلاشبہ ایک اچھا قدم ہے ۔ البتہ ایک تشنگی ضرور رہی کہ کیپٹن کرنل شیر خان کا باقاعدہ تعارف نہیں کروایا گیا ۔ جس منظر میں سعد کو ان کا کمرہ ملتا ہے یا وہ انفنٹری جوائن کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، وہیں دو، تین جملے مزید شامل کر کے ان کا مختصر تعارف ہو جاتا اور ان کی شہادت کا واقعہ دوبارہ بیان کیا جاتا تو بہت اچھا لگتا۔ 

یہاں ایک بات اہم ہے کہ ہم اپنی آرمی سے محبت کرتے ہیں اور فوج بھی اپنے شہداء کو نہیں بھولتی لیکن ضروری نہیں کہ فوج ڈرامہ بنائے تو اپنے عسکری ہیروز سے روشناس کروائے بلکہ عمومی طور پر بھی ڈراموں میں بمارے عسکری اور سول دونوں طرح کے ہیروز کا ذکر آنا چاہیے ۔ جن میں کیپٹن کرنل شیر خان سے لے کر عبدالستار ایدھی، حکیم محمد سعید، ارفع کریم، اعتزاز حسن تک شامل ہیں ۔

ڈرامے میں مزاح پیدا کرنے کی ذمہ داری کُلی طور پر رانی اور گلزار کے پاس ہے۔ گلزار کا کردار اور اداکاری بہت حقیقی ہے مگر رانی کا کردار کچھ اوور ہونے کے باوجود اچھا لگا۔ 

رانی نے الیکشن مہم بہت اچھی چلائی ۔ جس طرح اس نے 

سرمہ کالے نین دا 

ووٹ ملک شاہ زین دا 

کے نعرے لگوائے، ہمارا دل بھی بے اختیار

 

منہ وچ مٹھا پان اے 

آرمی ساڈی جان اے 

 

کے نعرے لگانے لگا۔

شارق کے ٹی وی شو اور رانی کی الیکشن مہم کے ذریعے مصنف نے بخوبی ہمارے نظام کی خرابیاں اور ان کے سدھار کی کوشش کی طرف توجہ دلائی۔

رانی نے زیور بیچ کر ڈسپنسری بنوانے کی جو بات کی، اس پر شاہ زین کو تو کیا اعتبار آتا، ہمیں ہی نہیں آیا۔ پھر بھی اس کے وعدے شاہ زین کو الیکشن جتوا گئے۔ 

 شاہ زین کا کردار ابتداء سے بہت جذباتی دکھایا گیا ہے ۔ اب سیاست میں آتے ہی اس نے کامیاب سیاست شروع کر دی مگر لگتا ہے، اس کی فطرت کی جذباتیت اسے لازمی مروائے گی ۔ چینل کے مالک صاحب ضرور اس کا راز کھول کر دوبارہ سب دوستوں کو الگ کریں گے ۔

(سارے ڈرامے میں جس طرح ان دوستوں کی بار بار صلح اور لڑائی ہو رہی ہے، اختتام کرنے کے لیے رائٹر کو کوئی زبردست موڑ لانا پڑے گا، وہی مشہور زمانہ کسی کی موت والا کلائمکس بھی چلے گا ورنہ اختتام پر ان کی صلح یا دوستی بھی عوام کو مطمئن نہیں کرے گی، کسی نہ کسی کے بلنڈر کے بعد دوبارہ لڑائی کا خوف ہی دامن گیر رہے گا۔ )

شارق بھائی کے تو کیا ہی کہنے ۔۔

جب تک غریب تھے، تب تک تو دوستوں کی باتیں ٹھنڈے دماغ سے برداشت کرتے تھے، شاہ زین سے لڑائی بھی سب سے آخر میں شاہ زین کی ہی بےجا ضد کی وجہ سے ہوئی ۔ اس سے پہلے والے انٹرویو میں بھی شارق نے سیاست دان سے بگاڑنے کی بجائے تکنیک سے کام لے کر عوامی مسئلہ حل کروایا مگر اب شاہ زین کے انٹرویو میں ایک دم دماغ گرم کر لیا ۔ 

خیر لگے رہو شارق بھائی، بس ایک بار اپنی ماں، بہن کی بھی خبر لے آؤ، انہیں مت بھولو اور بہنوئی کو بتا بھی آنا کہ بندے کے نصیب میں پیسہ ہو تو مل ہی جاتا ہے کیونکہ آخری مرتبہ جو اس ٹیکنیشن بہنوئی کے سین دکھائے گئے تھے، وہ سین رشوت کو جائز دکھانے کو کافی تھے ۔ رشوت خور حضرات اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو بار بار، " اچھے ہسپتال ہوتے تو میں یہ نہ کرتا" والی لوریاں سنا کر اپنی کرپشن کا سارا الزام عہد وفا کے سر نہ ڈال دیں ۔( فوج کے کندھے ویسے بھی ہر قسم کا بوجھ سہہ لیتے ہیں ۔ ) 

ایک بات جس پر شاید توجہ نہیں دی گئی کہ جب سرائیکی جملے بولے گئے تب سب ٹائٹل میں ان کا اردو ترجمہ دکھا دیتے تو زیادہ مناسب تھا۔ جملہ مکمل سمجھ نہ آئے تو مزہ آدھا رہ جاتا ہے ۔

ڈرامے میں بہت سے جذباتی مناظر بخوبی دکھائے گئے، بالخصوص شہریار کا اپنے باپ کی جگہ بینڈ بجانا اور پھر شاہ زین کی حویلی میں اس گلوکار کو گلے کر حوصلہ دینا ناظرین کے دل جیت گیا تو گلزار کا اپنے ٹیچر کو عزت دینا نہ صرف دل کو چھو گیا بلکہ ایک چھوٹے سے قصبے سے نکلنے والے لڑکے کی اتنی بڑی کامیابی " محنت کرے انساں تو" ،" با ادب، بانصیب " جیسے محاوروں کو سچ ثابت کرتی معاشرے میں امید پھیلاتی رہی ۔

البتہ شہریار کی طرف کی کہانی میں معصومہ کا کردار اور اس کی بےجا خدمات بالکل غیر ضروری لگیں۔ خاص طور پر اس کا شہریار کے منع کرنے کے باوجود بلا وجہ بیویوں کی طرح آگے پیچھے پھرنا،

( محاورتاً کہا ہے، آپ واقعی اپنی بیوی سے آگے پیچھے پھرنے کی امید نہ لگا لیں)  

اور پھر بلآخر معصومہ کا منہ پھاڑ کر اظہار محبت کر دینا بالکل اچھا نہیں لگا ۔ جس طبقے سے شہریار کا تعلق دکھایا گیا، اس کے بعد اس کی ماں، بہنوں کا اس قدر لاتعلق رہنا ممکن ہی نہیں ۔

 (ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ پڑھے لکھے باؤ منڈے کو گھر میں ہی لائن ماری جائے اور ماں کو پتہ ہی نہ چلے۔ بیٹی کی ماں ایک آنکھ کھول کر سوتی ہے تو بیٹے کی ماں دونوں آنکھیں بلکہ زبان بھی حاضر رکھتی ہے ،آخر بیٹے کو کیش کروانا ہوتا ہے جناب ۔) 

یہ چیز اس لیے بھی زیادہ بری محسوس ہوئی کہ شہر سے تعلق رکھنے والی رمشا اور دعا کو سلجھا ہوا دکھایا گیا، جبکہ قصبے سے تعلق رکھنے والے دونوں کردار معصومہ اور رانی کسی قسم کی خودداری یا عزت نفس کو بالائے طاق رکھے محض "شوہر تلاش" مہم میں لگی رہیں ۔ اس سے ڈرامے میں قدرے تعصب سا در آیا۔ یہاں توازن پیدا کرنا زیادہ مشکل بھی نہیں تھا کہ اس ڈرامے میں ٹیپیکل لو اسٹوری یا سب کے جوڑے بنانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ 

 

کہانی میں ایک ٹوئسٹ دعا کے ایڈاپٹڈ ہونے کا ڈالا گیا ۔ جو بلاوجہ ہی لگا۔ 

پھر جس طرح دعا کے والد اس سے محبت کرتے تھے اور ان کی اپنی بیگم سے اسی بات پر تلخ کلامی رہی کہ یہ حقیقت دعا کو معلوم نہ ہو، ان مکالموں کی وجہ سے والد کے انتقال کے بعد دعا کا ایک دم خالی ہاتھ رہ جانا عجیب لگا۔ 

 

گود لی ہوئی اولاد کا شرعی طور پر وراثت میں حصہ نہیں ہوتا، یہ بات عمومی لوگ جانتے ہیں، اس لیے اپنے ایڈاپٹڈ چائلڈ کے لیے یا تو وصیت کر جاتے ہیں ، یا ہبہ کر جاتے ہیں ۔ یہ سب اس صورت میں ہوتا ہے، جب اولاد اور معاشرہ اس حقیقت سے باخبر ہو۔

جو صورت ڈرامے میں دکھائی گئی کہ دعا اس سچائی سے لاعلم تھی اور اس کے برتھ سرٹیفکیٹ سے شناختی کارڈ تک پر باپ کا نام شاہد درج تھا، اس کی ماں اس کے ساتھ تھی، اس صورت میں اسے عدالت میں ایڈاپٹڈ چائلڈ ثابت نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ قانونی طور پر وہ وراثت کی حقدار تھی اور اس کے کردار کے تناظر میں اس جیسی مضبوط لڑکی اس بات پر راحیل جیسے بونگے کردار سے بلیک میل نہیں ہو سکتی البتہ اس کے تایا اگر چاہتے تو اولاد نرینہ کی غیر موجودگی کا دعویٰ دائر کر کے اپنا حصہ لے سکتے تھے ۔

کیونکہ اولاد نرینہ کی غیر موجودگی میں مرنے والے کی جائیداد میں اس کے بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے ۔ مگر راحیل صاحب بلاوجہ پھنے خان بن کر درمیان آ گئے۔ 

 

بہرحال دعا نے شریعت کا حوالہ دیا تھا اور ویسے بھی یہ سب کرائسس ان کی لو اسٹوری بڑھانے کے لیے ضروری تھا، اس لیے اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔

 

 ڈرامے کے مرکزی کرداروں نے اچھی ایکٹنگ کی مگر راحیل، عاشی ، رانی کا بھائی اور ، شاہ زین کا باپ 

 اور چند دیگر کرداروں کے بے ڈھب لہجے مزا کرکرا کرتے رہے ۔ 

شاہ زین کے دادا کا کردار جاندار اور ایکٹنگ شاندار رہی ۔ البتہ والد صاحب کی دبی دبی شخصیت دیکھ کر سمجھ نہیں آیا کہ وہ کس پر چلے گئے ہیں بلکہ شاہ زین کے اسلام آباد آنے کے بعد جب سیاست کے گُر سکھانے والی شخصیت ان کے ابا کے حلقہ احباب سے نکلی تو ہم حیران رہ گئے ۔

بریگیڈئیر فراز اور ان کی بیگم اپنی پراثر شخصیت سے ہمارا دل موہ لیتے رہے ۔ فراز نے جب لارنس کالج میں سعد کو اس کی بہن رامین کا حوالہ دے کر سمجھایا تھا وہ منظر اور سعد کی مما کے کلینک کا منظر لکھ کر رائٹر نے معاشرے کے سدھار میں اپنے قلم کے ذریعے حصہ ڈالا۔ ویل ڈن ۔۔

ڈرامہ کی ہائپ اس کی ریلیز سے پہلے ہی اس قدر نہ بنی ہوتی اور تمام اقساط باقاعدگی سے نہ دیکھی ہوتیں تو شاید ہم اسے اس کڑے انداز میں نہ جانچتے ۔ 

مجموعی طور پر ڈرامہ اچھا جا رہا ہے ، امید ہے آئندہ بھی مظلوم ساس ، بہو یا سوکن کی کہانیوں سے ہٹ کر ایسے ہلکے پھلکے ڈرامے دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔

 

عائشہ تنویر