پی ایس ایل

2020-02-26 11:24:33 Written by عائشہ تنویر

ہمیں کرکٹ میں اتنی ہی دلچسپی ہے، جتنی کسی ساس کو اپنی بہو کی ڈگریوں میں ہوتی ہے۔ بس جب چار لوگوں میں بیٹھے ، فخر سے ڈاکٹر بہو دکھا دی لیکن گھر میں تو گول روٹی ہی کام آتی ہے ۔

 ہم بھی اسی طرح جب پاکستان میچ جیت جاتا تو دوستوں سے مٹھائی کھا لیتے اور خرابئی قسمت کا شکار ہماری بیچاری ٹیم ہار جاتی تو ہم کرکٹ کو وقت کا ضیاع قرار دے کر احباب کی دلجوئی بھی ڈھنگ سے نہ کرتے ۔ 

کرکٹ سے دلچسپی نہ ہونے کے باوجود پاکستان سے ہماری ازلی و ابدی محبت ہمیں ہمیشہ پاکستانی ٹیم کی فتح کے لیے دعا گو رکھتی ۔ اکثر ایسا ہوا کہ بھائی کو ٹی وی کے سامنے جما دیکھ پورے دل سے دعا کی ،" اللہ تعالیٰ ہماری کرکٹ ٹیم کو فتح نصیب فرما۔ " 

بھائی حیرت سے پورا گھوم گیا ۔

" مگر ہماری ٹیم کھیل کب رہی ہے ۔ ابھی تو کوئی ٹورنامنٹ نہیں ہو رہا ہے ۔" 

" کبھی نہ کبھی تو کھیلے گی ۔ اب دعا بھی دوا کی طرح گھڑی دیکھ کر کریں کیا۔ " 

بڑے ہونے کا بالکل جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے چھوٹے بھائی کو ناجائز ہی ڈانٹ دیا۔ 

وہ منہ بناتا دوبارہ اسکرین کی طرف متوجہ ہوا تو ہم نے بھی بغور کھلاڑیوں کا جائزہ لیا ۔ کھیل کے میدان میں بھاگتے کھلاڑی کی سبز شرٹ پر پاکستان ہی لکھا تھا ۔

یقیناً یہ کوئی پرانا میچ تھا، جسے جتوانے کے لیے ہماری دعاؤں کا وقت نکل چکا ہے ۔ 

ویسے تو ہمیں اردو شاعری میں کہیں اپنا ذکر نہیں ملا لیکن جب کبھی 

" ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ۔ " کا مصرعہ سنا تو یوں محسوس ہوا کہ منیر نیازی شاید ہماری حرکات سے باخبر ہو کر ہمیں ہی کہہ گئے ہیں ۔

بہرحال اتنا تو ہمیں بچپن سے علم تھا کہ سبز وردی میں ہمارے شاہین موجود ہوتے ہیں۔ یہ اور بات کہ بہت بار سبز وردی کے دھوکے میں بنگلہ دیش اور ساؤتھ افریقہ کے لیے دعا کرنے کے بعد اب ہم لباس کے رنگ کے ساتھ ٹیم کا نام بھی دیکھ لیتے تھے ۔ 

 

نیلی وردی ہمارے لیے ہمیشہ انڈیا کی علامت رہی ۔ کوئی امن کی کتنی بھی آشا لگا لے، خوشی کے گیت گا لے لیکن نیلی وردی کی جیت کے لیے دعا کرنا ہمارے لیے ہرگز ممکن نہیں تھا مگر پاکستان میں سپر لیگ کے افتتاح کے بعد ہمیں یہ اصول بھی توڑنا پڑا ۔

 

آج کل ایک بار پھر پاکستان میں سپر لیگ کا موسم چل رہا ہے ۔ ایسے موسم میں ہم جیسے کرکٹ سے نابلد لوگ بھی اس وائرس کی زد میں آ کر کچھ نہ کچھ کرکٹ فیور کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

 پی ایس ایل کے بہت فائدے ہیں ۔ تفریح کے شوقین عوام پاکستان میں میچز دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور سنجیدہ طبیعت ماہر معاشیات اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ پی ایس ایل پاکستان کے جی ڈی پی میں بہتری لا رہا ہے۔

ہمارے لیے اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ کہ کوئی بھی ٹیم جیت جائے، دل سے خوشی ہوتی ہے اور ہم. اس کے سپورٹرز سے بےتکلفی سے ٹریٹ مانگ لیتے ہیں۔ 

ہم کس ٹیم کے سپورٹر ہیں، یہ اتنا بڑا راز نہیں ۔ ویسے تو ہم سب ہی ٹیموں کے ساتھ ہیں لیکن کراچی ہمارا پیارا شہر ہے ۔اپنے کراچی کے ساتھیوں کا جوش دیکھتے ہیں تو بے اختیار نعرہ نکلتا ہے، کراچی جیتے گا۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم باقی شہروں کے لیے نیک تمنائیں نہیں رکھتے ۔

ہماری نیک نیتی پر شبہ اس لیے بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہم شاعر مشرق سے عقیدت کا لحاظ رکھتے ہوئے پورےدل سے سیالکوٹ کی فتح کی دعا مانگ رہے تھے، جس کی ٹیم ایونٹ میں شامل ہی نہیں ۔

کوئٹہ تو ہمارا پڑوسی ہے، آخر وہیں سے ہمیں ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔ پورے پاکستان میں کوئٹہ والے ہی ہیں ، جو دل سے ہم کراچی والوں کے لیے " شالا تتی ہوا نہ لگے۔ " کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ کوئٹہ کی برفباری سے کراچی میں ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو ان کی جیت سے ہم خوش کیوں نہ ہوں گے ۔

 

پشاور سے محبت ہمیں اپنے پختون بھائیوں کی وجہ سے ہے ۔ کراچی میں اس کثیر تعداد میں پختون فیملیز موجود ہیں کہ کبھی کبھار تو یہ چھوٹا سا پشاور ہی لگتا ہے ۔ چھوٹا سا پشاور اس لیے کہ ہمارے بڑے سے کراچی میں چھوٹے چھوٹے بہار، دلی، پشاور ، بہاولپور اور بےشمار مزید شہر بھی آباد ہیں ۔ 

 

ملتان اولیاء کی سرزمین ہے، اس کی جیت پر خوش ہونا تو یوں بھی ہمیں ثواب کا کام لگتا ہے ۔

ویسے ہم ہر اس ٹیم کو سپورٹ کر لیتے ہیں، جس میں شاہد آفریدی المعروف لالہ ہوتا ہے ، جو ہمارے بھائی کا فیورٹ ہے ۔ اب بھائی کا بھائی بھی بھائی ہی ہوتا ہے اور بھائی کی جیت تو پھر دل خوش کر ہی دیتی ہے ، ویسے بھی ہمیں کسی اور کھلاڑی کا نام ہی یاد نہیں ۔ 

 

اسلام آباد ٹھہرا ہمارا دارلحکومت ، حکومت تو زبردستی بھی پروٹوکول لے لیتی ہے ۔ اسلام آباد والے یوں بھی پی ایس ایل میں سب سے آگے ہیں دراصل انہیں حکومت گرنے سے پہلے جیبیں بھرنی آتی ہیں ۔ہمارا مطلب ہے انہیں کم اوورز میں زیادہ رنز لینے کی عادت ہے ۔

سب سے آخر میں  لاہور رہ گیا۔  لاہور بہت پیارا شہر ہے لیکن کراچی والے ہو کر لاہور کی جیت کے لیے دعا کرنا بلا شک و شبہ ولی ہونے کی دلیل ہے ۔ ( اسی بات کو آپ  الٹ بھی سکتے ہیں  ۔ )مجموعی طور پر کراچی اور لاہور میں  اولیاء کی تعداد  بہت کم ہے ۔ اس لیے جہاں پورے ایونٹ کے دوران تمام ٹیمیں  کپ جیتنے کی فکر میں  ہوتی ہیں وہیں لاہور  اور کراچی نیچے سے نمبر ون آنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ ان کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ غلطی سے جیت کر پی ایس ایل میمز بنانے  والوں  کا کاروبار ٹھپ نہ کروا دیں۔

ان دونوں پر ہنسنے والے کیا جانیں ، بڑے لوگ جیت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ درویش صفت قلندرز اپنی خودی میں  مست رہتے ہیں  اور  دیگر ٹیموں سے مقابلہ کنگز کی شان نہیں  ۔ عوامی تفریح کا خیال رکھنا بادشاہوں کی ذمہ داری ہے ۔

 یہ دونوں  ٹیمیں تو محض خیر سگالی کے جذبات  لیے دوسروں کو کھیلنے کا موقع دیتی ہیں ۔آخر دوسرے شہروں  کی مہمان ٹیموں کو شکست دینا اچھے میزبانوں  کا شیوہ تو ہر گز نہیں ۔

 

یوں تو پی ایس ایل کے پاکستان  میں  ہونے کی وجہ سے بیرونی دنیا کو امن کا پیغام بھی جاتا ہے لیکن سیکورٹی کی وجہ سے روٹ بدل دینے  سے عوام کو جھنجھلاہٹ اور ہزار خدشات ضرور لاحق ہو جاتے ہیں۔  اللہ سے یہی دعا ہے کہ 

اسلام آباد والے پی ایس ایل میں  کاردگی دکھانے کے ساتھ حکومتی معاملات پر بھی توجہ دیں تا کہ یہ صحت مند ایونٹ ملک میں مکمل امن کے ساتھ بناء کسی خوف کے وقوع پذیر ہو اور آئندہ کے لیے معاشی اور عوامی بہبود کا سبب بنے۔

 

#عائشہ_تنویر