یونیورسٹی کی لڑکیاں

2020-04-03 20:27:21 Written by Ghulam Zainab

 

                 یونیورسٹی کی لڑکیاں۔

وہ زمانے گئے جب لڑکیوں کی تعلیم صرف کلام پاک پڑھنا اور گھر داری سیکھنا تک ہی محدود تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ پانچ جماعتیں ہی کافی سمجھی جاتی تھیں۔ آج کے زمانے میں سکول کالج تک کی تعلیم ناکافی محسوس ہوتی ہے۔ اب لڑکیاں لڑکوں کے شانہ بشانہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اور ہر فیلڈ میں کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑتی نظر آتی ہیں۔

 آج کل یہ اصطلاح آپ کو عام سننے کو ملتی ہے، ارے یہ یونیورسٹی کی لڑکی ہے، یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ تو یہ لڑکیاں، یونیورسٹی کی لڑکیاں، بنتی کیسے ہیں اور انہیں اسے لقب سے کیوں جانا جاتا ہے؟ 

شروع میں جب یہ لڑکیاں کالج سے یونیورسٹی میں آتی ہیں تو کالج میں اچھی خاصی بولڈ بھی ہوں تو بھی یونیورسٹی آ کر ڈری ڈری سی، سہمی سی جہاں جگہ ملے چپ چاپ بیٹھی رہتی ہیں، پروفیسرز اور فیلوز کے ساتھ اس قدر تمیز سے پیش آتی ہیں کہ، تمیز دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ماحول و لوگوں سے مانوسیت ہونے لگتی ہے، جسے عام اصطلاح میں ' ہوا لگنا' کہتے ہیں۔ گروپس بنتے جس میں چمچ کے منہ والے کچھ لڑکے بھی ہوتے ہیں، جن کا کام ان ٹیڈی بکریوں کے پیچھے، ہاں جی کرتے کرتے پھرنا ہوتا ہے۔ اور کچھ گروپس خالصتاً لڑکیوں کے ہوتے ہیں، جن کا لڑکوں سے چھتیس کا آنکڑا شروع سے آخر تک چلتا رہتا ہے۔ 

یونیورسٹی میں آنے کے کچھ عرصے بعد تو ان کے لباس، چال ڈھال، بالوں کے ڈیزائنز میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ چادریں اور برقعے ایک دوپٹے سے تبدیل ہو جاتے ہیں جو کچھ لڑکیاں سر پر ڈالتی ہیں اور کچھ لڑکیاں بس تکلفاً سائیڈ پر ڈالے رکھتی ہیں، کہ دوپٹہ بھی کہتا ہے باجی کی لوڑ سی مینو الماری اچو کڈھن دی ؟؟ اپنی سکی سکی پولیو زدہ ٹانگوں پر ٹائیٹس اور گٹوں کو باہر کی دنیا دکھانے کے لیے لنڈی جینز اور کیپری پہننا، ان کا پسندیدہ پہناوہ ہوتا ہے۔ اور کچھ لڑکیاں تو دوپٹہ پہننے کی زحمت سے دوچار ہونا ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ 

   جو بال کبھی جؤوں کی آمجگاہ اور بدبو دار تیل سے لدے ہوتے تھے، جن بالوں کو کبھی لال سرکاری پونی سے باندھا جاتا تھا، وہ مختلف سٹائلز میں کٹوا کر کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں اور فری میں ارد گرد جوؤئیں سپلائی کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

 چہروں پر میک اپ کی اس قدر موٹی تہیں لیپتی ہیں کہ، جب ہاسٹل یا گھر جا کر منہ دھو کر شیشہ دیکھتی ہیں تو خود کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ میک اپ کی اس قدر عادی ہو جاتی ہیں کہ میک اپ کے بغیر یہ خود کو ہی پہچان نہیں پاتیں۔

چال ایسی مستانی، ادائیں ایسی دلبرانہ ہوتی ہیں ان کی کہ ریمپ پر چلتی ہوئی دیپیکا، کترینہ، ایشوریہ، سونا ، ان کو دیکھ کر ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں کہ بھیا اپنا کیریئر تو ختم بس۔

زبانیں تو ان کی پہلے ہی اتنی لمبی اور تیز ہوتی ہیں کہ قانون کے لمبے ہاتھ ان کی زبان کے سامنے چھوٹے پڑ جاتے ہیں، اور تلواریں ان کی زبان کی تیزی کے سامنے کند پڑ جاتی ہیں۔

  ایسی ایسی زبان و الفاظ استعمال کرتی ہیں کہ لڑکوں کے کئی سال سے گندے پڑے کان ، ان الفاظ کو سن کر صاف ہو جاتے ہیں۔ یار۔۔۔، آب وی ایسلی۔۔۔، وااااٹ ایور۔۔۔، آف کووورسسس۔۔۔، ان کے پسندیدہ انگلش کے الفاظ ہوتے ہیں، کیوں کہ اس کے علاوہ ان کو انگریزی آتی نہیں ہے۔

جن کو گھر میں اماں سے تھپڑوں اور کوسنوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، وہ یونیورسٹی آ کر ایسے ایسے نخرے دکھاتی ہیں کیا شہزادی کیٹ دکھاتی ہو گی۔ پارٹی کرنا ، مہنگے ہوٹلوں میں چائینیز، اٹالین کھانے کھانا ، برانڈز پر لگی ہر سیل کو اپروچ کرنا، لڑکوں کو ادائیں دکھا کر اپنی دوست کو کہنا کہ دیکھ وہ لڑکا مجھے دیکھ رہا ہے ، ، ان کے پسندیدہ مشاغل ہوتے ہیں۔ حالاں کہ وہ لڑکا بے چارہ اس سوچ میں غرق ہوتا ہے کہ اس،سمسٹر میں پھر فیل ہو گیا ہوں، اب کیسے فیس مانگنے کا جگاڑ کروں ابا سے۔ 

خ کو کھے،غ کو گین ، بول کر خود کو پتا نہیں کیوں، کیوٹ شو کرتی ہیں۔ بندہ ایک مارے الٹے ہاتھ کی ان کے ڈنٹ زدہ بوتھے پہ ۔

ان سے زیادہ جھوٹا ، مکار و شاطر، شاید ہی کوئی ہو۔ ایگزامز کے دنوں میں، پیپر کی تیاری کر کے اہنی دوستوں اور لڑکوں کو گمراہ کرتی ہیں کہ ہائے جانییییی۔۔۔!! میری تو تیاری ہی نہیں ہے، کچھ سمجھ نہیں آیا۔ میں تو پکا فیل ہوں گی۔

ان کی دوستیں بھی پھر ان کی ہی دوستیں ہوتی ہیں، وہ بھی ان کو انکی طرح چلاتی ہیں۔۔۔بیچ میں پستے ہیں تو صرف لڑکے، جو ان کی معصومیت، و اداؤں اور جھوٹی باتوں میں آ کر ہاتھ پاؤں کٹوا کر ، دماغ بیچ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر اپنے ابا سے تشریفات سینکواتے ہیں۔ بے چارے۔۔۔۔۔

پڑھائی کے معاملے میں اتنی چالاک ہوتی ہیں یہ، دن میں ہوا ہوائی بنی پھرتی ہیں اور رات کو پڑھائی کرتی ہیں۔ ایگزام کے ٹائم فل توجہ سے اپنا پیپر کرتی ہیں ، پیچھے والا لاکھ ان کی کرسی کے نیچے اپنے جوتے سے امداد طلب سگنلز بھیج دے، مگر مجال ہے جو یہ ٹس سے مس ہو جائیں۔

 

   اگر متوجہ ہو بھی جائیں تو انتہائی غصے والے ایکسپریشنز اور آواز سے غلط جواب بتا کر پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتی ہیں۔

اکثر لڑکیاں ہی فرسٹ، سیکنڈ ،تھرڈ اور ٹاپ ٹین پوزیشنز سیکیور کرتی ہیں۔ پھر بھی فرسٹ آنے والی لڑکی سے جیلس ہوتی ہیں اور رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ تب تک روتی رہتی ہیں جب تک اگلے سیمسٹر میں فرسٹ نہ آ جائیں۔ 

فرسٹ آنے پر ایسی آوازیں نکالتی ہیں جیسے جن چمڑ گئے ہوں یا کاک روچ دیکھ لیا ہوں۔ اور ایسے اچھلتی ہیں جیسے ان کے پاؤں کے نیچے سانپ ہو۔

اللہ کی بندیو۔۔انسانوں کی طرح خوش نہیں ہو سکتی کیاااا۔۔۔باندروں کی طرح کی حرکتیں ضرور کرنی ہیں ؟؟ 

( رزلٹ شیٹ پر سب سے لاسٹ میں لڑکے ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی کچن کی گند کی ٹوکری میں کاک روچوں کی دعوت چل رہی ہو۔ سب سے لاسٹ پر آ کر بھی لڑکے بھنگڑے ڈال رہے ہوتے ہیں )

سیلفیاں لینے کی بے حد شوقین۔ بات بات پر باندریوں اور بکریوں کی طرح چہرے سے چہرہ ملا کر سیلفیاں لیتی نظر آتی ہیں۔ 

       ہر انداز ہی نرالا ہے

   یونیورسٹی کی لڑکیوں کا 

    ہر شخص دیوانہ ہے

   یونیورسٹی کی لڑکیوں کا

  کیا چال ہے، کیا ڈھال ہے

   کیا ادا ہے، کیا ناز ہے

   انداز دلبرانہ ہے

   یونیورسٹی کی لڑکیوں کا

   ہر سیل پر

   ہر برانڈ پر

   ہر نئے فون کے ماڈل پر 

    ہے ان کی نظر

   ہر دم فیشن سے ہے کام

    یونیورسٹی کی لڑکیوں کا

     ہر جگہ ہے چرچا

    یونیورسٹی کی لڑکیوں کا۔

   

  

   

  جی تو یہ تھیں یونیورسٹی کی لڑکیاں۔ سب ایک سی نہیں ہوتیں، کچھ ایسی سب چھچھوری حرکتوں سے دور رہ کر اپنا وقت بہت اچھے سے گزار کر جاتی ہیں یونیورسٹی سے۔ مگر اکثریت ایسی ہی لڑکیوں کی ہوتی ہے جو اوپر بیان کی گئیں ہیں۔ جو یونیورسٹی پہنچتے ہی" مادر پدر آزاد" ماحول میں رنگ جاتی ہیں۔ 

بے شک یونیورسٹی ایسی ہی ایک جگہ ہے ، جہاں بندہ خود مختار ہوتا ہے، مادر پدر آزاد ہوتا ہے۔ مگر ہمیں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، اپنی اقدار کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں لمٹس میں رہ کر اپنی آزادی اور یونیورسٹی لائف سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ 

یونیورسٹی ، ہمارے لیے عملی زندگی کی ایک تربیت گاہ ہوتی ہے، جہاں ہم اکیلے اپنی پڑھائی، اور زندگی کے ہر مسئلے کو خود سنبھالنا، اور حل کرنا سیکھتے ہیں۔ 

اعلی تعلیم حاصل کریں، مزے کریں، اچھی نوکریاں حاصل کریں مگر اپنی تہذیب، اقدار اور دین کو مت بھولیں۔