بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے

2020-04-13 10:28:48 Written by Ghulam Zainab

بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔

 

بھوک کی بہت سی اقسام ہیں۔ مالدار ہونے کی بھوک۔ شہرت، دنیاوی آسائشوں و خواہشات کی بھوک۔نفسانی خواہشات کی بھوک۔ من پسند نوکری، رشوت دے کر خریدنا۔ اقتدار کی بھوک وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کی بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔

  غربت بھوک کا سبب بنتی ہے۔ سب سے بڑی ہے پیٹ کی بھوک۔ ہر برائی کی جڑ ۔ جس کو مٹانے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔ آداب و تہذیب کو بھلایا جا سکتا ہے۔ 

     

ملک میں مہلک وبا پھیلی تھی، جس کے باعث ملک بھر میں کاروبار زندگی ٹھپ ہو گیا تھا۔ ہر ذی نفس اپنے گھر تک محدود ہو گیا تھا۔ اونچے اور درمیانے طبقے کے لوگوں نے ضرورت کا سامان جمع کر لیا تھا۔ مگر ایسے میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو عام دنوں میں ہی ایک دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی مشکل سے پوری کر پاتا تھا، کہاں اس مشکل وقت میں یہ طبقہ راشن جمع کر سکتا تھا۔ مگر اس مشکل وقت میں بھی کچھ فرشتہ صفت لوگوں کے ضمیر ، اپنی نیکی کو کیش کروانے اور تصاویر میں قید کرنے کے لیے جاگے ہوئے تھے۔ ملک کے نامور امیروں نے اپنے علاقے کے غریبوں کے لیے راشن بانٹنے کا نیک کاروبار شروع کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے نچلے طبقے کے لوگوں میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ ذیادہ سے ذیادہ سامان اس کو مل جائے، تا کہ اپنے خاندان کے پیٹ کی آگ کو کچھ ٹھنڈا کر سکے۔ صبح ہی نامور امراء کے گھر کے باہر ضرورت مندوں کی بھیڑ لگ جاتی۔ لوگ وبا سے واقع ہونے والی موت کو پس پشت ڈال کر، بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے لیے بھیڑ کی صورت جمع ہو جاتے اور ایک دوسرے منہ پر کھانستے، چھینکتے۔۔ اور انتظار کرتے کہ کب حفاظتی لباس میں ملبوس ، اپنے فرشتوں جیسے چہرے کو ماسک کے پیچھے چھپائے عالی مقام، عظیم شخصیت اپنے گھر کے دروازے پر، ملازموں کے جھرمٹ میں ، نمودار ہوں اور کب انہیں راشن تقسیم کریں۔ جیسے ہی فرشتہ صفت شخصیت نمودار ہوتی، لوگ ایک دوسرے کو دھکے دیتے، روندتے و کچلتے ہوئے ، راشن حاصل کرنے کی جلدی میں آگے بڑھتے۔ اور سامان پر جھپٹ جھپٹ پڑتے۔ ایسے میں فرشتہ صفت شخصیت ، ان لوگوں میں راشن بانٹتے ہوئے، چھاتی پھلا کر، چہرے پر تکبرانہ مسکراہٹ سجا کر ، تصاویر بنوانا بالکل نہ بھولتے۔ اس دوران کچھ لوگ تو اس شخصیت سے مرعوب ہو کر، اور ساتھ تصویر بنوانے کے شوق میں عزت نفس کو ایک طرف رکھ کر فخر سمجھتے ہوئے تصاویر میں یہ قیمتی لمحات قید کرواتے۔ اور کچھ لوگ حالات کے ہاتھوں بہت مجبور ہو کر، اپنی عزت کو سولی پر لٹکا کر، اپنی زندگی کا ایندھن لینے جاتے اور نظریں جکھائے، اپنے بے بسی اور آنسوؤں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے، سر کو جھکا کر یہ مرحلہ سر کرتے۔ 

کچھ قسمت کے دھنی، راشن پا کر اپنے گھروں کی طرف دوڑ پڑتے اور کچھ بد قسمت، اپنی قسمت آزمانے کسی اور فرشتے کے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیتے۔

    آج بھی اللہ بخش کو راشن نہ مل پایا۔ وہ تھکے قدموں سے ، گھر میں بیٹھے روٹی کا انتظار کرتے پانچ بچوں کا سوچتے ہوئے، اپنے بوسیدہ کوٹھری جیسے مکان کی طرف چل پڑا۔اس کی بیوی کچھ عرصہ پہلے اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ وہ دہاڑی دار مزدور تھا۔ وبا کے باعث سب اپنے گھروں تک محدود تھے، ایسے میں کون اسے کسی کام کے لیے بلاتا۔ سوچوں میں غرق وہ کب اپنے گھر پہنچ گیا اسے پتا ہی نہ چلا۔

"کیا جواب دوں گا۔۔؟ کیسے بہلاؤں گا بچوں کو؟"ابھی وہ جواب سوچ رہا تھا کہ اس کا ہمسایہ انور ہاتھوں میں اشیاء خورد و نوش کے پیکٹ اٹھائے بڑی مشکل سے دروازہ بجانے لگا۔ اس کے پیچھے اس کی بیوی بھی ایک دو شاپر اٹھائے کھڑی تھی۔ اللہ بخش نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔  

" او اللہ بخشا، تجھے آج پھر کچھ نہ ملا۔" انور نے سامان زمین پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں بھائی، آج بھی قسمت میں نہیں تھا۔ پر اللہ خیر کرے گا، بنائے گا وہ کچھ سبب۔" اللہ بخش نے تھکے ہوئے لہجے میں سامان کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس دوران انور کی بیوی دروازہ کھلنے پر بچوں کے ساتھ سارا سامان سمیٹ کر اندر لے گئی۔ 

  "ہا۔ہا۔ہا۔ سبب بنانا پڑے گا اللہ بخشا !!" انور کے چہرے سے خوشی ٹپک ٹپک پڑ رہی تھی۔ 

"کیسے ؟" اللہ بخش نے حیرانی سے پوچھا۔

  انور قریب آیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا۔ "تجھ سے ہمدردی ہو رہی ہے اس لیے بتا رہا ہوں۔ تو اپنے گھر کی زنانی کو بھیج راشن لینے، زنانیوں کو مل ہی جاتا ہے راشن"۔ انور نے آنکھ ماری۔

"پر۔۔۔پر۔۔۔میری بیوی تو۔۔۔ "اللہ بخش جواب دینے ہی لگا تھا، انور بات کاٹ کر بولا۔

" او بھولے، تیری بڑی بچی ہے نا، اس کو بھیج دے۔"

 "نہیں نہیں، اللہ انتظام کر دے گا۔"اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔

" تیری مرضی ہے، میں نے تو مدد کر دی تیری۔"یہ کہہ کر انور اپنے دروازے میں چھپاک سے غائب ہو گیا۔

دروازہ بجانے لگا، مگر دروازہ کھلا تھا۔ وہ اندر داخل ہوا، اور کنڈی لگا دی۔ دروازے کی آواز سن کر بچے بے صبری و اشتیاق سے بھاگتے ہوئے باپ کی طرف آئے، مگر خالی ہاتھ دیکھ کر ان کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

وہ گرنے کے انداز میں پاس پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس کی بڑی بیٹی نے اس کو پانی دیا۔ 

"ابا آج بھی۔۔؟اب اور برداشت نہیں ہوتا ابا۔۔" بیٹی نے اتنے کرب سے کہا کہ اس کا ہاتھ کانپ گیا۔ وہ پھر سوچ میں پڑ گیا۔ حالات، بے روزگاری، بھوک، بچے، اور۔۔اور پھر انور کی بات۔ اس کے دماغ میں گردش کرنے لگے۔ اور پھر پیٹ کی آواز سن لی گئی۔ 

  اس نے سوچ لیا۔ کپکپاتی آواز میں بڑی بیٹی کو بلایا۔ انور کی بات، اپنے الفاظ میں دہرائی۔ بیٹی ہچکچائی۔ "ابا۔۔میں۔۔کیسے ؟ مجھ سے نہیں ہو گا۔"

"مجھے معاف کر دینا پتر، پر اپنے بہن بھائی کی شکلیں دیکھ۔"اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

" ٹھیک ہے ابا مجھے لے چلنا صبح" اس نے حامی بھر لی دل کو کڑا کر کے۔

   صبح وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کسی اور امیر شخصیت کے گھر کے باہر کھڑا تھا۔ اس نے بیٹی کو عورتوں جھمگھٹے کی طرف بھیج دیا اور خود مردوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ شاید آج دونوں کے ہی ہاتھ بھرے ہوں سامان کے پیکٹ سے۔ ایک دم وہی روز کی دھکم پیل شروع ہو گئی۔ لوگ اس کو دھکے دیتے آگے بڑھ گئے مگر اس کی آنکھیں بیٹی کو حصار میں لیے رہیں۔ دل کیا، بلا لے اسے واپس، مگر پھر پیٹ نے دہائی دی۔ 

  لڑکی دھکوں کی زد میں آتے آتے، راشن تقسیم کرتے لوگوں کے نزدیک پہنچ گئی۔ اتنے دن بعد، کھانے کی چیزیں دیکھ کر اس کے بدن میں پھرتی سی بھر گئی۔ ایک دم پوری طاقت سے اس نے اپنے گرد لوگوں کو دھکا دیا اور اس شخص تک پہنچ گئی جو راشن کے پیکٹ دے رہا تھا۔ جب اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو اسے لگا کہ آدمی نے اس کے ہاتھ کو پکڑا ہے۔ اس کا دل ایک دم ڈوب گیا، دل کیا کہ سامان پھینک کر بھاگ جائے، مگر بھوک کے احساس نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ تصاویر بنیں، مرحلہ پورا ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کھانے کا سامان تھا۔ اس احساس نے اس کے دماغ سے سب سوچیں زائل کر دیں، اس کے جسم میں طاقت سی بھر گئی۔ وہ دوڑتی ہوئی باپ کے پاس گئی۔ اور پرجوش آواز میں کہنے لگی۔

"ابا آج گھر میں کھانا پکے گا۔ ہم کھانا کھائیں گے۔ 

اگلی بار بھی مجھے ساتھ لانا۔ میں ایک بار میں ہی سیکھ گئی کہ کیسے پہنچتے ہیں منزل تک۔بس ذرا عزت نفس اور تہذیب کو ہی تو ایک طرف رکھنا پڑتا ہے نا۔۔ پر کھانا تو مل جاتا ہے نا۔"

 وہ اپنی بیٹی کی خوشی و جوش سے بھری باتیں سنتا گھر کی طرف چل دیا۔ اسے سب بھول گیا بس یاد رہا تو یہ کہ جلدی سے گھر جا کر کھانا بنانے کی تیاری کی جائے۔