بگ بینگ تھیوری

2020-04-18 20:28:51 Written by گوگل۔سائنسی آرٹیکلز اینڈ انفارمیشن ویب سائٹس

اس تحریر کو پڑھتے ہوئے یہ دھیان میں رہے کہ۔۔۔یہ سب گوگل اور دوسری انفارمیشن سائٹس سے لی گئی معلومات پر مبنی ہے۔۔کیوں کہ میں معصوم کی عمر صرف چوبیس سال ہے اور یہ واقعہ آج سے اربوں سال پہلے کا ہے۔۔۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملحدین اس نظریہ کو بنیاد بنا کر خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں جبکہ جدید تعلیم یافتہ مذہبی لوگ اس نظریے کو مذہب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

بگ بینگ تھیوری کو سمجھنے کےلئے بہت سارے نظریات قائم کیے گئے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ۔۔۔تمام نظریات بگ بینگ کے مسائل کا جواب دیتے دیتے مزید نئے سوالات کھڑے کر دیتے ہیں۔ سو ابتداء کائنات کو سمجھنے کے لیے انسان جتنا زیادہ گہرائی میں جا رہا ہے اتنا ہی کائنات کی پراسراریت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سائنس کیا کبھی اس اسرار پر سے پردہ اٹھا پائے گی؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔

بگ بینگ کی تھیوری پڑھنے اور سمجھنے کے بعد آپ کے ذہن میں بہت سے سوالات بھی اٹھیں گے۔۔میں نے کوشش کر کے ان سوالات کے جوابات بھی آخر پر لگائیں ہیں ۔۔۔امید ہے اس تحریر سے ہم سب کو کافی کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔

ایک آخری بات جو آپ میں سے کہیں حضرات کو پہلے سے بھی پتہ ہو گی مگر کسی بھی انجان شخص کے ذہن میں بگ بینگ تھیوری پڑھتے ہوئے سب سے پہلے سوال بن کر آتی ہے وہ یہ کہ جب انسان جب کائنات کی پیدائش کے وقت موجود ہی نہیں تھا تو ہمیں کیسے پتا چلا کہ کائنات کی عمر ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال کے لگ بھگ ہے۔ اس بات کو ہم ایک سادہ مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ہم جب کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم اسے روکنے (Stop) اور پیچھے (Rewind) کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ ہم اسے دوبارہ بھی چلا سکتے ہیں۔ کونیات میں بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم کونیاتی دھماکے کی بات کرتے ہیں تو یہ ویڈیو والی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ ماضی میں جھانکنے کے لئے ماہر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب آپ نگاہ اٹھا کر آسمان میں رات کو ستارے دیکھتے ہیں تو دراصل ان کی روشنی آپ تک کروڑوں نوری سال(Light Year) کا فاصلہ طے کر کے پہنچ رہی ہوتی ہے۔اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ان ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لئے کروڑوں سال درکار ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اور بھی دور تک دیکھنے کے قابل ہوجائیں، تو دراصل آپ اور بھی پرانی، اور بھی زیادہ قدیم کائنات کا نظارہ کررہے ہوں گے۔ کائنات کی گہرائی میں دیکھتے چلے جائیے، اور ہوتے ہوتے ایک مقام وہ بھی آئے گا جو ہم سے اربوں نوری سال دور ہوگا؛ اور وہاں آپ اس کائنات کو اس کے اوّلین وقت میں دیکھ سکیں گے۔ ہبل خلائی دوربین کے ذریعے (جسے ایڈوِن ہبل کی خدمات کے اعتراف میں یہ نام دیا گیا ہے) ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ خلائے بسیط میں، کائناتی ماضی کے جھروکوں میں جھانک سکیں ۔خلاء میں ہم جتنا زیادہ دور تک دیکھ سکیں، ہم اتنا ہی قریب سے بگ بینگ کو بھی دیکھ سکیں گے۔ سائنس دانوں کے لئے بگ بینگ کی ابتداء کو دیکھنا تو بس ابتدائے عشق جیسا معاملہ ہے!

 

انسان شاید اس دنیا کی وہ سب سے متجسس مخلوق ہے، جو ہر وقت نہ صرف اپنے ماحول بلکہ اس وسیع کائنات کی ہر شے کو کھوجنے، اس کی حقیقت جاننے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ یہی کھوج اسے آج چاند ستاروں اور کروڑوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع کہکشاؤں تک لے گئی ہے۔

 

جو سوال ہمیشہ سے اس کی دماغ میں کلبلاتے رہے ہیں ان میں اول کائنات کے ان سربستہ رازوں کا حصول ہے جن میں سے کچھ سے پردہ اٹھایا جا چکا ہے اور بہت سو کی کھوج ابھی باقی ہے۔

 

ہزاروں سال سے جاری سائنسی تحقیق، سوال و جواب اور دریافتوں کا سلسلہ اپنی جگہ، مگر آج سے تقریباً چار سو سال پہلے یورپ میں جو سائنسی انقلاب برپا ہوا، اس کی وجہ سے ہزاروں سال پرانے نظریے اور مفروضے غلط قرار پائے، وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ فزکس میں نت نئے اصول وضع کیے گئے، اور ایسے آلات وجود میں آئے جن سے کائنات کی اصلیت اور ابتدا کو کافی حد تک سمجھنے میں مدد ملی۔

 

بگ بینگ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'بڑے دھماکے' کے ہیں۔ بگ بینگ دراصل وہ دھماکہ ہے جس سے ہماری یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔ اس نظریے کے مطابق کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے تمام مادہ ایک سوئی کے ہزارویں حصّے کے برابر نہایت خفیف جگہ میں قید تھا۔ اگر مادے میں بہت زیادہ توانائی ہو، دنیا کے کسی بھی ذریعے سے حاصل کردہ توانائی سے زیادہ، تو کششِ ثقل یعنی گریویٹی چیزوں کو اپنی جانب کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیلنے والی قوّت بن جاتی ہے۔

 

چنانچہ سائنس کے مطابق یہی بگ بینگ کا وہ نکتہء آغاز تھا، جب تمام مادہ ایک دھماکے جیسی صورتحال کے بعد انتہائی تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگا اور خلاء میں پھیل گیا۔ اس وقت اس کی رفتار اس قدر زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ کائنات تیزی سے پھیلنے لگی۔

 

آج اس 'بگ بینگ'، یعنی ہماری کائنات کے نکتہءِ آغاز کو 13.8 ارب سال ہو چکے ہیں۔ آپ میں سے اکثر لوگ یہ سوچیں گے کہ بھلا کائنات کی عمر کوئی کیسے بتا سکتا ہے؟ تو اِس کا جواب ہمیں "ہبل خلائی دوربین" نے دیا ہے۔ اس دوربین کی مدد سے لی گئی تصاویر میں ہمیں جو سب سے پرانی کہکشاں ملتی ہے، وہ زمین سے 13.4 ارب نوری سال دور واقع ہے۔

 

'نوری سال' دراصل وقت کا پیمانہ نہیں ہے بلکہ فاصلے کا پیمانہ ہے اور ایک نوری سال کا فاصلہ تقریباً 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے۔ یہ فاصلہ روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں ایک نوری سال ہی 10 کھرب کلومیٹر کے برابر ہے تو 13.8 ارب نوری سال کتنے کلومیٹر کے برابر ہوں گے. اگر ہم پیمائش کر سکیں کہ کسی دور دراز ستارے یا کہکشاں سے روشنی ہم تک آنے میں کتنے سال لگے ہیں، تو ہم اس طرح قدیم سے قدیم تر کہکشاؤں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اب تک ہم نے جس قدیم ترین کہکشاں کا مشاہدہ کیا ہے، وہ چوں کہ 13.8 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کی عمر اس کے آس پاس ہی بنتی ہے۔

 

چلیے کائنات کے وجود میں آنے کے بعد کے حالات پر واپس آتے ہیں۔

 

13.8 ارب سال پہلے نہ یہ سورج تھا، نہ یہ ستارے، نہ یہ کہکشاں، نہ یہ نظارے، بلکہ صرف دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بڑے بڑے ہائیڈروجن گیس کے بادل تھے۔ خلاء میں موجود ان بادلوں کے جن حصوں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی مقدار زیادہ تھی، ان حصّوں میں گیسز سکڑنے لگیں اور سکڑتے سکڑتے کافی گرم اجسام کی شکل اختیار کرگئیں جنہیں ہم "ستارے" کہتے ہیں۔ مزید برآں ان ستاروں کے آس پاس جہاں گیسز کی مقدار کم تھی، وہاں بھی گیسز سکڑتی گئیں اور گرم (ستاروں سے کم گرم) اجسام بنے جو ستاروں سے چھوٹے تھے، اور کسی اپنے سے بڑے نزدیکی ستارے کی بہت زیادہ کشش کی وجہ سے اس (ستارے) کے گرد مدار میں چکر لگانے لگے۔ ان اجسام کو ہم 'سیارے' کہتے ہیں۔

 

کئی ستارے آپس کی کشش کی وجہ سے جھرمٹ کی شکل اختیار کر گئے اور اس طرح کہکشائیں وجود میں آئیں۔ ہمارا سورج اور زمین جس کہکشاں میں ہے اس کا نام "ملکی وے" ہے۔ اس کا نام ملکی وے اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ اس کے بہت سے ستارے سفید نظر آتے ہیں، اس کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے "دودھ کی نہر یا راستہ" ہو۔ "ملکی وے" کا اردو ترجمہ ہے "دودھیا راستہ۔"

جب زمین بنی تو اپنے محور اور سورج دونوں کے گرد بہت تیزی سے چکر لگا رہی تھی اور آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی۔ زمین کی اپنی پیدائش کے وقت شکل بالکل ایسی تھی جیسے ہر جگہ آتش فشاں پھٹ رہے ہوں۔ لیکن جیسے ہی درجہ حرارت کم ہونے لگا تو زندگی بھی جنم لیتی گئی۔ تب نہ کوئی انسان تھا نہ جانور یہاں تک کہ سب سے چھوٹے جاندار یعنی بیکٹیریا تک کا وجود نہ تھا۔ لیکن تب بھی زمین پر ان سب کو جنم دینے والے عناصر یعنی معدنیات موجود تھے۔

 

پھر کیمیائی ارتقاء کا آغاز ہوا جس میں ان معدنیات کے چھوٹے خلیے ملے اور مالیکیولز بنے اور پھر ان لاکھوں مالیکیولز کے ملنے سے ایسے خلیے وجود میں آئے جو خود سورج کی روشنی استعمال کر کے اپنی خوراک بنانے کے قابل تھے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک بنیادی اصول تھا کہ مرنے سے قبل ہر خلیہ ایک سے دو ہو جاتا، اس طرح ان کی تعداد بڑھتی رہی۔

 

یہ بیکٹیریا ایسے جاندار تھے جنہیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہیں تھی، البتہ یہ خود آکسیجن پیدا کرتے تھے۔ چوں کہ ان کی تعداد کافی زیادہ تھی اس لیے زمین پر فضا میں آکسیجن کی مقدار بڑھنا شروع ہوگئی۔ فضا میں آکسیجن کی مقدار جیسے جیسے زیادہ ہوتی چلی گئی، ویسے ویسے کیمیائی ارتقاء (یعنی مادے سے خلیے بننے کا عمل) تھمتا گیا، یہی وجہ ہے کہ آج کوئی جاندار بے جان چیزوں سے نہیں بنتا۔

 

ارتقاء گھنٹوں، دنوں، یا سالوں پر محیط کوئی عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایسی طویل زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی کے جڑنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔ اب کیمیائی ارتقاء کے بعد حیاتیاتی ارتقاء یعنی چھوٹے جانداروں سے دوسرے بڑے جانداروں کے بننے کا عمل شروع ہوا۔ بیکٹیریا سے شروع ہونے والا ارتقائی عمل بہت سے خلیوں پر مشتمل جانداروں کی تشکیل کا سبب بنا، جن میں سب سے پہلے مچھلیاں پیدا ہوئیں، ان کے بعد یعنی خشکی اور تری دونوں میں رہنے والے جاندار (جن میں مینڈک بھی شامل ہے) بنے، پھر یعنی رینگنے والے جانور (جن میں چھپکلیاں، مگرمچھ وغیرہ شامل ہیں)، پھر پرندے، اور سب سے آخر میں ممالیہ جانور (بھیڑ، بکری، گائے، انسان وغیرہ شامل ہیں) بتدریج وجود میں آتے گئے۔

 

ان بھرپور معلومات اور تیز تر ٹیکنالوجی کے ذرائع میسر ہونے کے باجود آج بھی انسان کائنات کے سر بستہ رازوں کی گتھیاں مکمل طور پر سلجھانے سے قاصر ہے، کیوں کہ اس طویل ترین زنجیر کی کئی کڑیاں اب تک غائب ہیں۔ مگر تلاش اور جستجو کا سفر جاری ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں مزید نئے انکشافات کے بعد کائنات کی حقیقت، اصلیت، ابتدا اور انسانی ارتقا کو مزید گہرائی میں جا کر سمجھنا ممکن ہوگا۔

بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟

بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کچھ سائنسدانوں کے بقول بگ بینگ سے پہلے وقت ہی وجود نہیں رکھتا تھا تو اس کا مطلب ہے کچھ نہیں تھا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بگ بینگ کے کیسے ہو گیا؟ کیوں کہ کسی بھی واقعے (Event) کو ہونے کے لیے سپیس اینڈ ٹائم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے سائنسدانوں کے پاس کوئی حتمی جواب نہیں کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟

 

 

 

نقطہِ انطلاق (Singularity) کا ظہور کیسے ہوا؟ دوسری پہیلی یہ ہے کہ Singularity یعنی وہ نقطہ جس میں دھماکے کے نتیجے میں کائنات معرض وجود میں آئی، اس نقطے (Singularity) کا ظہور کیسے ہوا؟ اس سوال کا سائنسدانوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔

 

 

 

بگ بینگ کے فوراً بعد کیا ہوا؟

بگ بینگ کے فوراً بعد کیا ہوا؟ اب تک سائنسدان جو کچھ اندازہ لگا پائے ہیں وہ یہ کہ دھماکہ ہونے کے بعد ایک ملی سکینڈ کے بتیسویں حصہ میں کیا ہوا؟ مگر جیسے ہی سائنسدان ذرا پیچھے جاتے ہوئے ایک ملی سکینڈ کے اڑتیسویں حصے تک پہنچتے ہیں تو فزکس کو سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اس مقام پر درجہ حرارت اس قدر شدید تھا کہ Four Forces of Nature کا وجود ممکن نہیں۔ سائنسدانوں کے بقول اس مقام پر ایک ہی ایسی فرضی قوت (Hypothetical Force) تھی جس نے بعدازاں باقی چار Forces کو جنم دیا۔ اس "فرضی قوت" کا وجود ثابت کرنے کے لیے سائنسدانوں نے ایک مفروضاتی تھیوری بنائی ہے جیسے Grand Unification Theory یا (GUTT) کہا جاتا ہے۔ مگر جب سائنسدان مزید پیچھے جاتے ہوئے ایک ملی سکینڈ کے بیالیسویں حصے تک پہنتے تو اس مقام پر فزکس کے مروجہ تمام قوانین کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اور Break down ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس مقام پر ایک ایسی مہا تھیوری کی ضرورت پیش آتی ہے جو فزکس کے تمام قوانین کو ایک ہی تھیوری کے تابع کر دے۔ اس فرضی مہا تھیوری کو Theory of Everything یا (TOEE) کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تھیوزیر ابھی تک سائنسدانوں کے دماغوں میں تو ضرور ہیں مگر تجرباتی طور پر کوئی وجود نہیں رکھتیں۔

 

 

 

ضدِ مادہ (Anti Matter) کا وجود:

1928ء میں ماہر طبیعیات Paul Dirac نے ایک نظریہ پیش کیا کہ قدرتی طور پر مادے (Matterr) کے وجود کے ساتھ ساتھ ضدِ مادہ یعنی Anti-Matter بھی اتنی ہی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ جب بھی مادہ اور اور ضدِ مادہ آپس میں تعمل (Interact) کرتے ہیں تو فنا (Annihilate) ہو جاتے ہیں۔ Paul Dirac اپنے اس نظریے کو تجرباتی طور پر ثابت نہیں کر سکے چنانچہ 1995ء میں CERN میں ایک تجربہ کے دوران ہائیڈروجن ایٹم کا ضدِ مادہ یعنی اینٹی ہائیڈروجن Anti-Hydrogen Atom کو پیدا کر کے ضدِ مادہ ((Anti-Matter) کے وجود کو تجرباتی طور پر ثابت کر دیا گیا۔ مگر یہاں ایک ایسا سوال کھڑا ہو گیا جس نے آج کے دن تک سائنسدانوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ وہ سوال یہ ہے کہ اگر قدرتی طور پر مادہ اور ضدِ مادہ یکساں مقدار میں پایا جاتا ہے تو بگ بینگ کے نتیجے میں جب مادہ وجود میں آیا تو ظاہر سی بات ہے کہ اتنی ہی مقدار میں ضدِ مادہ بھی وجود میں آیا ہوگا۔ درجہ حرارت شدید ہونے کی وجہ سے مادہ اور ضدِ مادہ نے آپس میں تعمل (Interaction) بھی کیا ہو گا جس کا نتیجہ فناہی (Annihilation) ہے۔ اس فناہی کے نتیجے میں کائنات کا اپنی موجودہ حالت میں وجود ناممکن ہے۔ اس لیے یہ پہیلی آج تک حل نہیں ہو پائی کہ بگ بینگ کے وقت ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے کسی طرح کائنات میں مادے کی مقدار بڑھ گئی اور ضدِ مادہ غائب ہو گیا اور کائنات کا اپنی موجودہ حالت میں ظہور ممکن ہوا۔

 مسئلہِ توازن (Fine Tuning Problem):

جب کسی جگہ کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو دھماکے کے بعد وہاں پر موجود نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے یا اُس نظام زندگی میں ایک توازن اور ترتیب آ جاتی ہے؟ جی ہاں! بگ بینگ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے جس کو "مسئلہِ توازن" Fine Tuning Problem کہا جاتا ہے۔ اگر ہماری کائنات ایک بہت بڑے دھماکے سے معرض وجود میں آئی ہے تو پوری کائنات میں حیران کن حد تک وہ توازن، یکسانیت، ترتیب اور ربط کیسے قائم ہوا کہ جس کی وجہ سے پہلے ہائیڈروجن اور ہیلیئم بنے۔ پھر مزید بھاری عناصر بنے جن سے سیارے، ستارے اور کہکشائیں بنی اور بالآخر زندگی کا ظہور ہوا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ماہرین طبیعیات نے ایک تھیوری بنائی ہے جسے Multiverse Theory کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ہماری کائنات اکیلی نہیں بلکہ ان گنت کائناتوں میں سے ایک کائنات ہے کہ جس میں اتفاقی طور پر وہ تمام حالات بن گئے جو زندگی کی پیدائش کے لیے موزوں تھے۔ اس تھیوری کو سائنسدانوں کی بہت بڑی تعداد کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ کیونکہ ہماری کائنات کے علاوہ کسی اور کائنات کا وجود ہے؟ اس کو کسی بھی طور مشاہداتی یا تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے سائنسدانوں کے بقول Multiverse Theory کی حیثیت ایک سائنسی افسانے سے زیادہ نہیں۔

 

سیاہ مادہ (Dark Matter):

ایک مسئلہ یہ ہے کہ کشش ثقل (Gravity) ہماری زمین اور نظام شمسی کے باقی سیاروں کی حد تک تو ٹھیک کام کرتی ہے مگر کہکشاؤں اور دیگر پیچیدہ ڈھانچوں پر پوری طرح نافذ (Apply) نہیں ہو پاتی۔ صرف کشش ثقل کی بنیاد پر کہکشاؤں کا وجود ناممکن ہے کیونکہ کشش ثقل کی قوت ایک کہکشاں کو جوڑ کر اکٹھا رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سائنسدانوں نے ایک نظریہ پیش کیا کہ خلا (Space) محض خالی جگہ کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں ایک ایسا مادہ موجود ہے جو نظر نہیں آتا۔ اسی لیے اس مادے کو سیاہ مادہ (Dark Matter) کہا جاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے کہکشاؤں کا وجود برقرار ہے۔ سائنسدانوں کے بقول کائنات کا 85 فیصد حصہ Dark Matter پر مشتمل ہے۔ لیکن یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ Dark Matter کا وجود براہ راست تجرباتی طور پر ثابت نہیں ہو پا رہا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ کائنات کا 85 فیصد حصہ کیا ہے؟ بہت سے ماہرین طبعیات Dark Matter کے نظریہ سے اختلاف کرتے ہوئے متبادل نظریات پر کام کر رہے ہیں جیسے کہ Modified Newtonian Dynamics یا MOND اور String Theory پر کام کرنے والے سائنسدانوں کی طرف سے پیش کیے جانے والا Emergent Gravity کا نظریہ مگر ابھی تک کوئی بھی نظریہ بشمول Dark Matterr براہ راست تجرباتی طور پر ثابت نہیں ہو پایا۔ ماہر طبیعیات Jim Peebles کے بقول "یہ بات باعث ندامت ہے کہ کائنات میں موجود مادے کا غالب ترین حصہ ابھی تک محض ایک مفروضہ ہے".

 

 

 

چپٹے پن کا مسئلہ (Flatness Problem):

ہماری کائنات بظاہر بلکل چپٹی (Flat) اور ہموار ہے۔ جس طرح ایک ربڑ کی شیٹ کو دونوں کناروں سے کھنچنے سے وہ اسی طرح چپٹے انداز سے کھنچتی چلی جائے گی، بلکل اسی طرح ہماری کائنات بھی بگ بینگ کے بعد چپٹیے انداز میں معرض وجود میں آئی اور اسی انداز سے پھیل رہی ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ بگ بینگ کے بعد کائنات میں مادے کی کثافت (Density) کا بہت نازک توازن قائم ہوا۔ اگر کائنات کی کثافت موجود کثافت سے زیادہ ہوتی تو کائنات کی کشش ثقل اس کو اندر کی جانب جھکا دیتی اور آہستہ آہستہ ایک وقت آتا جب کائنات منہدم ہو جاتی اور اگر کائنات کی کثافت موجودہ کثافت سے کم ہوتی تو کائنات بیضوی شکل میں باہر کی طرف مڑتی چلی جاتی اور آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو کر ختم ہو جاتی۔ دونوں صورتوں میں کائنات کا موجودہ حالت میں وجود کسی بھی طور ممکن نا تھا۔ سو بگ بینگ کے نتیجے میں کائنات کا چپٹا پن کیسے قائم ہوا؟ اس مسئلے کو Flatness Problem کہتے ہیں۔

 

افقی مسئلہ (Horizon Problem):

"افقی مسئلہ" (Horizon Problem) کیا ہے؟ اس کو یوں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ایک دھماکہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ درجہ حرارت اس دھماکے کے مرکز میں ہوتا ہے۔ جیسے جیسے دھماکے کا اثر پھیلتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اس کا درجہ حرارت کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ مگر ہماری کائنات جس میں ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں کا فاصلہ لاکھوں نوری سال (Light Year) کا ہے۔ جبکہ کہکشاؤں کی کم سے کم تعداد 100 ارب ہے۔ عقل یہ کہتی ہے کہ دھماکے کے بعد جب یہ کائنات بنی اور پھیلانا شروع ہوئی تو بیرونی حصوں کا درجہ حرارت نسبتاً کم ہوتے چلا جانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ کائنات کے دو مختلف کونے جن کا آپسی فاصلہ کائنات کی مجموعی عمر سے زیادہ ہے، یہ دونوں کونے ایک ہی درجہ حرارت رکھتے ہیں۔ ہاں ایسا ایک صورت میں ممکن ہے۔جس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ آپ گرم چائے کے کپ میں ٹھنڈا دودھ ڈال کے چھوڑ دیں، مکس نہ کریں۔ ٹھنڈا دودھ گرم چائے میں پھیلتا جائے گا اور کچھ دیر کے بعد دودھ اور چائے دونوں آپس میں مکس ہو جائیں گے اور کپ کا درجہ حرارت یکساں ہو جائے گا۔ کائنات کا درجہ حرارت یکساں ہونے کے لیے بھی بگ بینگ کے وقت ایسا کچھ ہونا ضروری ہے۔ یعنی بگ بینگ کے نتیجے میں جب مادہ وجود میں آیا تو اتنا وقت ہونا چاہیے تھا کہ جس میں تمام مادہ آپس میں مکس ہو جاتا تاکہ اس کے بعد وہ مادہ جیتنا مرضی پھیلتا چلا جاتا مگر اس کا درجہ حرارت یکساں ہوتا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بگ بینگ ہونے کے فوراً بعد جب مادہ کا پھیلاؤ شروع ہوا تو اتنا وقت نہیں تھا کہ مادہ آپس میں پوری طرح مکس ہو پاتا۔ البتہ ایک صورت میں ایسا ممکن تھا کہ مادے کے آپس میں مکس ہونے کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہوتی۔ مگر ایسی صورت میں آئن سٹائین کی Theory of Relativity غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ Theory of Relativity کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے تیز نہیں جا سکتی۔

 

چپٹے پن اور افقی مسئلے کو حل کرنے کے لیے چار سائنسدانوں نے 80ء کی دہائی میں Inflation Theory بنائی جو ریاضیاتی اعتبار سے ان دونوں مسائل کو کسی حد تک حل کرتی ہے مگر تجرباتی طور پر اس تھیوری کا وجود اب تک ثابت نہیں ہو سکا جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ Inflation Theory متنازع ہوتی جا رہی ہے۔ اس تھیوری کو بنانے والے چار سائنسدانوں میں سے ایک سائنسدان Paul Steinhardt بھی اس تھیوری کے خلاف ہو چکے ہیں اور اس تھیوری پر مزید تحقیق کرنے کو وقت کا ضیاع کہتے ہیں۔ پروفیسر Rupert Sheldrake جدید فزکس کے اس مجموعی المیہ پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں "جدید سائنس کی بنیاد ایک اصول پر کھڑی ہے، یعنی ہمیں ایک معجزہ دے دو اور اس کے بعد ہم ہر چیز کی وضاحت کر دیں گے۔ اور وہ معجزہ ہے مادے، انرجی اور وہ تمام قوانین جو ان کو چلاتے ہیں، ان سب کا یکدم " عدم وجود" (Nothingness) سے وجود میں آنا".

قصہ مختصر

 

بگ بینگ کی ابتداء ایک سربستہ راز ہے؛ اور جیسے جیسے ہمارا علم بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے یہ راز اور بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ سرِدست ہم پورے وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہماری کائنات ایک منفرد جگہ ہے۔ شاید ہماری کائنات، کئی دوسری کائناتوں میں سے ایک ہو۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بگ بینگ جس کے نتیجے میں ہماری کائنات ظہور پذیر ہوئی، وہ دوسرے کئی ‘‘بگ بینگوں’’ میں سے کوئی ایک ہو۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بگ بینگ تو ایک ہی رہا ہو مگر اس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی لاتعداد کائناتوں میں سے ایک، ہماری کائنات بھی ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کے ان لاتعداد کائناتوں میں کچھ جگہیں ایسی بھی ہوں جہاں اب بھی بگ بینگ وقوع پذیر ہورہا ہو؛ وہ کائناتیں ابھی اپنی ابتداء اور تخلیق کے مراحل ہی طے کررہی ہوں۔ لیکن فی الحال تو ہم صرف اپنی کائنات کے بارے میں ہی بات کر سکتے ہیں؛ اگرچہ اسے سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بقول آئن اسٹائن: ‘‘کائنات کی سب سے ناقابلِ فہم بات یہی ہے کہ یہ قابلِ فہم ہے۔’’

بحوالہ گوگل۔سائنسی آرٹیکلز اینڈ انفارمیشن ویب سائٹس