امرتسر کا جانو رام اور محمد بخش

2020-04-23 21:02:32 Written by میاں محمد اشرف عاصمی

امرتسر کا جانو رام اور محمد بخش

تقسیمِ ہند کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی

تحریر : میاں محمد اشرف عاصمی 

پیشکش: محمد بلال رضوی

 

آم کے درخت پر طوطے میٹھے گیت گا رہے تھے اور ساتھ ہی کنویں سے بیلوں کی جوڑی پانی نکال کر چھوٹی کھتیوں کو سراب کر رہی تھی۔جانورام کے ساتھ اُس کی بیوی نیتو بھی کھیتوں میں آج آئی ہوئی تھی۔اُسے آج کچھ تازہ سبزیاں کھیتوں میں سے لینا تھیں۔جانو رام نے اپنے ڈیرئے پہ پہنچ کر بھینسوں کا دودھ دوہنے کے لیے چارہ ڈالا۔جانو رام نے یہ تینوں بھنسیں بڑئے شوق سے پالی تھیں۔ بھوری بھینس میں تو جیسے اُس کی جان تھی۔جانو رام کا باپ مرتے وقت گزارہ قابل زمین جانو رام کے نام کر گیا تھا۔ جانو کی ایک ہی بہن تھی جسے اُس کے باپ چھوٹو رام نے اپنی زندگی میں ہی چار گاؤں چھوڑ کر ایک قصبہ دولت پور کے نام کا تھا وہاں درپن مانڈئے کے ساتھ بیاہ دیا تھا ۔ درپن مانڈئے ساہو کار تھا اور گندم، چاول کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ جسے آڑھت کہا جاتا ہے۔

 

درپن مانڈئے کا بیٹا گوتم اپنے قصبے کا شیر جوان تھا۔ ایک ہی ایک بیٹا تھا درپن مانڈئے کا۔آج گوتم اپنے مامے سے ملنے بیلی پور آرہا تھا اِس لیے نیتو تازہ سبزیاں لینے خود کھیتوں میں جانو رام کے ساتھ ہی آئی ہوئی تھی۔جانو رام کو بھگوان نے ایک بیٹی اور ایک بیٹا عطا کیے تھے بیٹا دو ماہ اور چار دن کے بعدمرگیا تھا۔ بہتیرا روئی تھی نیتو۔ بیٹی بیٹے کے بعد ہوئی تھی اب وہ سولہویں سال میں تھی۔نیتو کو اپنے ننھے معصوم بیٹے کی موت نے بہت عرصہ تکلیف میں رکھا۔ زمانے کے مرہم نے بیٹے کی موت کے زخم کو تھوڑا بہت مندمل کر دیا تھا۔آج گوتم آ رہا تھا تو نیتو کے دل کے زخم اپنے بیٹے کی یاد میں پھر ہرئے ہوگئے تھے۔نیتو سوچ رہی تھی کہ اگر بھگوان اُس کے راجیش پتر کو زندہ رکھتا تو وہ اب گوتم سے دو سال ہی چھوٹا ہونا تھا۔گوتم کیساتھ اُس کی ماں بھی آرہی تھی۔ دوپہر کا کھانا اِن لوگوں نے اکھٹے کھانا تھا۔جانو رام نے دو دیسی مرغوں کا گوشت تتار کروایا تھا۔ دہی کے آلو اور بیگن کا بھرتھہ اور دیسی گھی کی روٹیاں خاص طور پر تیار کروائی تھیں۔نیتو نے چار پائیوں پہ نئی چادریں بچھوادیں تھیں۔جانو رام نے اپنی بہن سنیتا کو کہلا بھیجا تھا کہ کافی عرصے سے درپن مانڈئے سے ملاقات نہیں ہوئی وہ کچھ وقت نکال کر آجائے۔سورج جس وقت عین سر پہ تھا کہ دولت پور سے درپن اُسکی ماں سُنیتا اور گوتم اپنے ذاتی ٹانگے پر سوار ہوئے اُنکا رخ بیلی پور کی طرف تھا۔ گھوڑا کیا تھا پوری شاہی سواری تھی۔ آدھے گھنٹے میں ہی وہ دولت پور گاؤں کے اندر داخل ہو رہے تھے۔جیسے ہی وہ جانو رام کے گھر کے باہر پہنچے تو جانو رام ، نیتو اور اُن کی بیٹی اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ سُنیتا اپنے بھائی کے قدموں کو چھونے لگ گئی۔کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے باپو کے گھر آئی تھی۔گوتم کن اکھیوں سے اپنی ماموں زاد ریشم کو دیکھ رہا تھا۔ ریشم کا حسن اُس کے نہ صرف تن پہ تھا بلکہ ریشم تو من کی بھی بہت ہی خوبصورت تھی۔ریشم شرم سے سر جھکا کر کھڑی ہوگئی۔درپن مانڈئے اور جانو رام دیس کی باتیں کرنے لگ گئے۔ درپن مانڈئے نے جب جانو رام کو بتایا کہ مسلمان ہم سے الگ وطن بنانا چاہ رہے ہیں تو جانو رام نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ یہ اُن کا حق ہے۔درپن مانڈئے کسی گہری سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں بعد گویا ہوا دیکھو جانو رام ،مسلمانوں کا الگ وطن ہم کیسے برداشت کر پائیں گے ؟ اور بھارت ماتا کی تقسیم کیسے ہونے دیں ؟۔ جانو رام نے خاموشی سادھ لی تھی۔ پھر درپن مانڈھے نے کہا کہ مسلمان تو سات سمندر پار سے آئے تھے اُن کا ہندوستان تو نہیں ہے۔ جانو رام گہری سوچ میں تھا اور آہستہ سے بولا لیکن اِنھی مسلمانوں نے اِسی ہندوستان پر ایک ہزار سال تک بھی تو حکومت کی تھی۔ درپن کو جانو رام کی جانب سے مسلمانوں کی مسلسل وکالت بہت بُری لگ رہی تھی۔درپن نے اونچی آواز میں کہا کہ مسلمانوں نے لوٹ مار بھی تو بہت کی ہے ہمارے ہندوستان میں۔جانورام درپن کے لہجے سے سمجھ گیا کہ درپن کو جانو رام کی باتیں بہت بُری لگی ہیں۔جانو رام کے آباواجداد امرتسر میں ہی رہے تھے۔ امرتسر میں ہی جانو رام کی بہت جان پہچان تھی۔اُسکی دوستی محمد بخش سے بچپن سے تھی اور وہ اُن کے ساتھ کافی محبت رکھتا تھا۔ جانورام نے کبھی بھی محمد بخش کے ساتھ چھوت چھات والا سلوک نہیں کیا تھا جانو رام ہمیشہ کہا کرتا کہ محمد بخش ہم دوست ہیں یاری میں ایسی باتوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔محمد بخش کی بیلی پور گاؤں میں کریانے کی دکان تھی اور وہ بہت ملنسار اور خدا ترس تھا۔محمد بخش کی بیوی شادی کے ڈیرھ سال بعد ہی فوت ہوگئی تھی اُس کا یک بیٹا دین محمد بیس سال کا ہو چلا تھا وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ دکان پہ ہی ہوتا تھا۔ دن گزر رہے تھے گرمیاں جیسے ہی آئیں پتہ چلا کہ انگریز ملک چھوڑ کر جا رہا ہے اور ہندوستان کا بٹوارا ہو رہا ہے۔ پاکستان کے نام کی گونج میں بہت شدت آ چکی تھی۔ محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے مطالبے میں جان پیدا کر دی تھی۔ اِسی لیے جب تقسیم کی بات چلی تو پتہ چلا کہ امرتسر پاکستان کا حصہ ہے درپن مانڈئے اور نیٹو نے بہتیرا جانو رام کو سمجھایا کہ وہ ہندوستان میں سب مل کر رہیں گے اور امرتسر کو چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن جانو رام کی جان تو گویا امرتسر میں تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ امرتسر پاکستان میں جائے یا ہندوستان اُسے امرتسر کو نہیں چھوڑنا۔ فسادات پھوٹ پڑئے تھے۔ ہندو مسلم قتل و غارت شروع ہو گئی تھی امرتسر میں سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔اسی دوران اعلان ہوگیا کہ امرتسر پاکستان میں نہیں بھارت کا حصہ رہے گا۔ محمد بخش اور اُسکا بیٹا دین محمد فسادات کی لپیٹ میں تھے۔محمد بخش کی دکان کو لوٹ لیا گیا تھا۔ جانو رام نے محمد بخش اور اُسکے بیٹے کو اپنے گھر چھپا لیا تھا۔جانو رام کا خیال تھا کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے وہ محمد بخش اور اُس کے بیٹے کو پاکستان روانہ کردئے گا۔فسادات کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پوری ہندوستان میں پھیل گئی تھیں۔ سنیتا اپنے بھائی جانو رام کی خریت کی بابت بہت فکر مند تھی ۔ وہ لوگ دولت پور سے درپن ماندئے، سُنیتا اور اُن کا بیٹا گوتم اپنے ٹانگے میں سوار رات کے اندھیرئے میں بیلی پور جانو رام کے گھر پہنچ گئے۔رات گہری ہو چکی تھی جب وہ جانو رام کے گھر آئے تو نیتو نے فوراً اُن کے کھانے کا بندوبست کیا۔ سنیتا بھائی اور اُس خاندان کو سلامت دیکھ کر بھگوان کے آگے جھک گئی۔ تھوری دیر کے بعد درپن مانڈئے کو ساتھ والی کوٹھری میں سے کسی کے کھانسے کی آواز ائی تو ۔ جانو رام کا ارنگ اُڑ گیا۔ درپن مانڈئے اور گوتم کہنے لگے کہ کون ہے جانو رام نے کہا کوئی بھی نہیں ہے۔لیکن درپن مانڈئے کا شک دور نہ ہوا تھا۔اُس نے تھوری دیر بعد اُسی کوٹھری کا رخ کیا تو اُسے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔ درپن مانڈئے نے جانو رام کو آواز دی جانو رام یہ کون ہیں ۔ اتنے میں نیتو بھاگی ہوئی آگئی اُس نے ہکلاتے ہوئے کہا کہ یہ محمد بخش اور اُس کا بیٹا ہے جان کے خوف سے چھپے ہیں جلد چلے جائیں گے۔درپن مانڈئے کا خون کھولنے لگا اُس نے ڈنڈا پکڑا اور محمد بخش اور اُسکے بیٹے دین محمد کو مارنے لگ گیا اور ساتھ ہی درپن نے جانو رام کو بھی مارنا شروع کردیا۔ جانو رام کو وہ چیخ چیخ کر کہ رہا تھا کہ تم نے ایک مسلے کو پناہ دی ہے اچھوت کو پناہ دی ہے۔جب جانو رام پر گوتم اور درپن نے ہاتھ اٹھایا تو جانو رام کی بیٹی ریشم چیختی ہوئی اپنے باپ کے ساتھ آکر لگ گئی۔ گوتم نے جانو رام کو مارنے کے لیے ریشم کو الگ کرنا چاہا لیکن ریشم الگ نہ ہوئی۔گوتم ریشم کو اُٹھا کر ساتھ والی کوٹھری میں چھوڑنے آگیا۔ اتنے میں حالات نے پلٹا کھایا دین محمد نے اپنی حفاظت کے لیے کچھ خنجر ساتھ رکھے تھے اُس نے خنجر درپن مانڈئے کے دل کی جگہ مارا درپن مانڈئے تڑپنے لگا۔ گوتم ریشم بد نیت ہو چکا تھا اُس نے موقع جانا کہ سب اُدھر مصروف ہیں اُس نے ریشم کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی ٹھان لی ۔ ریشم کی آواز دین محمد تک بھی پہنچ چکی تھی دین محمد نے آکر ریشم کو گوتم سے آزاد کرویا ایک ہی خنجر کا وار گوتم کی گردن پہ لگا اور گوتم وہیں ڈھیر ہوگیا۔ جانو رام کا خون بہت بہہ چکا تھا اُس نے محمد بخش کو کہا محمد بخش تو نیتو ریشم اور میری بہن سنیتا کو لے کر بھاگ جا ،پاکستان چلا جا۔ لیکن دین محمد اور محمد بخش جانو رام کو اِس حالت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ جانو کو اپنے یار محمد بخش کی کمزوری کا پتہ تھا اُس نے کہا محمد بخش تمھیں اپنے نبیﷺکاواسطہ اِن کو لے کر جان بچا لے۔

ساتھ دو گھوڑے بندھے ہوئے ہیں وہ لے جا۔باہر کافی شور بپا تھا لوٹ مار ہو رہی تھی۔محمد بخش اوردین محمدنےتینوں خواتین کو اپنےساتھ لیااورگھوڑے پرسوار ہو گئے تین دن اور تین راتیں وہ چھپتے چھپاتے لاہور بارڈر پر پہنچ گئے۔بارڈر پر پہنچتے پہنچتے محمد بخش کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ اور سنیتا سکھوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔ یوں محمد بخش بارڈر سے چند کوس پہلے ہی اپنے مالک کے پاس چلا گیا اور مرتے وقت اُس نے دین محمد سے قسم لی کہ وہ نیتو اور ریشم کا خیال رکھے گا۔چند دن وہ واہگہ بارڈر میں مہاجرین کے کیمپ میں رہے ۔ نیتو اور ریشم نے اپنی وضع قطع مسلمانوں والی بنالی۔ اِن تینوں کو بھاٹی گیٹ لاہور میں ایک مکان الاٹ کردیا۔نیتو نے ریشم سمیت اسلام قبول کرلیا۔ریشم کی شادی دین محمد سے کردی گئی۔یوں جانو رام کا خاندان اور محمد بخش کا بیٹا ایک ہی خاندان کی صورت میں لاہور میں قیام پذیر رہے۔