ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-08 18:51:51 Written by سمعیہ مغل

#تبصرہ

#بائے_سمعیہ_مغل

#پیر_کامل

 

#تعریف

 

عمیرہ احمد کا پہلا ناول ہے جو میں نے پڑھا ہے۔ واقعی بہت اچھا لکھا ہے میں پڑھ کر حیران بھی ہوئی کہ عمیرہ جی کہ پاس اتنی معلومات ہیں۔ بہت زبردست ہے یہ بات۔ سب سے پہلے تعریف کروں گی اور پھر تنقید۔ 

 

ہر کردار کو بہت اچھے سے بیان کیا ہے عمیرہ جی نے۔ زبردست ناول ہے الفاظ نہیں ہیں بیان کرنے کے لیے۔ 

ایک غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا گھر چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ امامہ کے لیے یہ قدم تکلیف دہ تھا۔ مگر اس نے اپنوں پر اللّٰه تعالیٰ اور حضرت محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کو ترجیح دی۔ گھر سے جا کر بھی وہ جلال انصر جیسے انسان کو نہیں سونپی گئی جو واقعی ویسا نہیں تھا جو باہر سے نظر آتا تھا۔ امامہ نے اسلام کو چنا تو اسے بھی محفوظ رکھا گیا۔ وہ کسی غلط ہاتھ میں نہیں گئی۔ اس نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ 

 

جو لوگ پیسوں کی خاطر سچے دین کی بجائے غلط رستہ اختیار کر لیتے ہیں ناجانے ان کا آخرت میں کیا انجام ہو گا۔ ہاشم جیسے لوگ نہ جانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں تو وہ پیسوں سے اپنی زندگیاں سوار نکھار لیں گے مگر آخرت میں کیا کریں گے جب پیسہ کام نہ آئے گا۔ اسی طرح وسیم بھی اچھا نہیں تھا۔ کیسے اس نے امامہ کے ساتھ برا کیا تھا۔ وہ بھی اس بارے میں علم رکھتا ہو گا کہ اس کے گھر والوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے۔

 

انسان کا آئی کیو لیول ایک سو پچاس سے زائد ہو یا ایک سو پچاس ہو ، آئی کیو لیول تب تک کسی کام کا نہیں جب تک ہم اللّٰه تعالیٰ کو یعنی اپنے رب کو پہچان نہ پائیں۔ جب سالار کے راستے میں مشکل آئی اس کا آئی کیو لیول اس کے کام نہ آیا۔ اسے کئی موقعے دیے اللّٰه تعالیٰ نے اور بالآخر اس نے بھی اپنے مقصد کو پہچان لیا۔ تمام برے کام چھوڑ دیے۔ اور اس کی پکار بھی سن لی گئی۔ اسے امامہ بھی مل گئی۔ سالار نے مسجد کے باہر ایک عورت کو پیسے دیے تھے حالانکہ وہ ریڈ لائٹ ایریا میں بھی جاتا تھا۔ یہ پڑھ کر اچھا لگا کہ اس نے فقط پیسے ہی دیے اس کے ساتھ کہیں جانے کو راضی نہیں ہو گیا۔ یہ ایک اچھی بات تھی۔ صنوبر کے پاس جاتے ہوئے یقیناً اس کی کیفیت بہت بری ہوئی ہو گی۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان کی قسمت بدل دی گئی ہے۔ صنوبر کو دیکھ کر یقیناً اسے بھی ایسا ہی محسوس ہوا ہو گا۔ خود تو وہ جاتا رہتا تھا مگر جب بات امامہ یعنی اپنی بیوی کی آئی تو وہ کتنا ڈر رہا تھا۔ یہ بھی بات اچھی تھی کہ اس نے وہاں جانے سے بھی توبہ کی۔ 

 

اس نے کئی بار خودکشی کی کوشش کی جو کہ نہایت احمقانہ حرکت تھی۔ جانے انجانے میں ہی سہی مگر ایسا کرنے سے واقعی انسان کی جان چلی جائے تو اس کے ساتھ نا جانے دوسری دنیا میں کیا ہوتا ہو گا۔ ماں باپ کو بھی تکلیف ملتی ہے اور رب بھی ناراض ہوتا ہے۔ کبھی بھی غصے میں بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیئے۔ ایک بھی غلط قدم ہمیں گرا دیتا ہے۔ اور پھر اٹھنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات اپنے ماں باپ کو بھی اس نے پریشان کیا۔ 

 

سالار کے گھر والے اس کے بہن بھائی کس قدر اس سے دور تھے۔ بےشک رابطے ہوتے رہیں لیکن اگر دل میں ہی فاصلہ رہے تو بہن بھائی بس نام کے ہی رہ جاتے ہیں۔ اگر خاندان ساتھ رہے تو ہی انسان مکمل رہتا ہے۔

 

جلال انصر کے ماں باپ کی سوچ انتہائی بری تھی۔ وہ ایک لڑکی کی مدد نہ کر سکے اور جلال انصر کے لیے اپنا مستقبل زیادہ اہم تھا۔ اس کے ماں باپ اس کو اس لیے پڑھا رہے تھے تا کہ وہ مستقبل میں ان کے لیے کچھ کر سکے۔ پتہ نہیں چند ماں باپ میں ایسی سوچ کیوں پائی جاتی ہے۔

 

سعد کا کردار بھی ایسا ہی تھا۔ دوسروں کو اسلام کی تلقین دینا اور خود بھی برے کاموں میں دھنسے ہونا۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بخش دیے جائیں گے۔ فقط دوسروں کو اسلام کی تلقین دینے یا نمازوں کی طرف بلانے سے ہی سب کچھ نہیں ہو جاتا اپنے اندر بھی جھانکنا پڑتا ہے۔ خود کو نکھار سنوار کر ہی ہمیں دوسروں کو سمجھانا چاہیے۔ جس طرح وہ سالار کو سمجھاتا تھا یہ بات وہم و گمان میں بھی نہیں آئی تھی کہ وہ بھی گرلفرینڈ رکھ سکتا ہے۔ جب اس نے سالار سے شکوہ کیا تھا کہ وہ بھی کلب جانا چاہتا ہے تو اس کے ردعمل سے مجھے محسوس ہو ہی گیا تھا کہ ضرور سعد میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے۔ سالار نے بلکل اچھا کیا اسے رنگِ ہاتھوں ںےساختہ ہی پکڑ لیا۔ کم از کم اس کے سامنے تو اصلیت آ گئی۔ 

 

اس کے برعکس سالار کا دوست فرقان تھا۔ وہ بھی بہت زبردست تھا۔ دل کا صاف تھا اور وہ ایک بہترین دوست ثابت ہوا تھا۔ نہ ہی وہ سعد کی طرح تھا نہ ہی جلال انصر کی طرح۔ اس نے سکول کھول رکھا تھا جو کہ ایک شاندار بات تھی۔ وہ ہر لحاظ سے اچھا اور شریف لڑکا ثابت ہوا تھا۔ 

 

سبط علی کا کردار بہت زبردست تھا۔ انہوں نے بنا کسی معاوضے کے امامہ کو اپنے گھر رکھا۔ اس کا خیال رکھا اور بیٹی کا درجہ دیا۔ اس کے لیے سب کچھ کیا۔ سعیدہ نے بھی امامہ کو اپنی بیٹی کی جگہ دی۔ اچھے لوگوں کی یہی تو نشانی ہوتی ہے کہ ان کے دل میں رحم اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے۔

 

#تنقید

 

سالار سے جو ریاضی کا سوال پوچھا گیا تھا اس کا جواب جو سالار نے دیا تھا میں نے بہت بار حل کیا مگر میرا جواب کبھی وہ نہیں آیا جو سالار نے دیا تھا۔

 

امامہ آئی سپیشلسٹ بننا چاہتی تھی۔ مجھے عجیب لگا یہ۔ وہ تو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتا رہی تھی اگر وہ ہارٹ سپیشلسٹ یا برین سپیشلسٹ بننا چاہتی تو زیادہ ٹھیک لگتا۔ نا جانے کیوں مگر آئی سپیشلسٹ عجیب لگا۔

 

کیا واقعی فون پر نکاح ہو سکتا ہے؟ نکاح میں امامہ کا ولی اور سالار کا ولی بھی شامل نہ تھا۔ یہ درست نہیں تھا ناول میں۔ فون پر نکاح اور وہ بھی دونوں کے ولی کے بغیر۔

 

حیرت تو اس بات کی بھی ہے کہ سالار کے دوست عاکف کی گرلفرینڈ کا اصلی نام بھی امامہ ہی تھا اور اس کے ایئر رنگز بھی امامہ جیسے ہی تھے۔ خیر بھی ہے یہ چیزیں تو چھوٹی موٹی ہی ہیں مگر ناول کی  تعریف والا پلڑا بھاری ہے۔ 

 

ختم شد