ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-13 18:42:32 Written by نگاہِ حسیب

سلسلہ "ریویو ٹائم ان ناولز ورلڈ"

ناول "ام الیقین" از قلم "سمیرا حمید"

تبصرہ نگار "نگاہِ حسیب"

 

سمیرا حمید اردو ادب کا جانا پہچانا نام ہیں وہ اپنے مخصوص انداز اورسیدھا دل میں اتر جانیوالے خیالات کیلئے خاصی مقبول ہیں. انکا ناول "ام الیقین" مایوسی میں گھرے ہوئے لوگوں کیلئے ایک خاص پیغام ہے. "ام الیقین " نے اپنے نام سے لیکر آخر تک عوام کو اس کے سحر میں جکڑے رکھا اور بلاشبہ یہ ایک تحفہ ہے ان لوگوں کیلئے جو خود پر آنیوالے مشکل حالات سے نبرد آزما ہیں. میں یہاں مصنفہ کے اندازِ بیاں کو خاص طور پر داد دینا چاہوں گی کہ نہ صرف منظر کشی بہترین تھی بلکہ الفاظ کا چناؤ دریا کو کوزے میں بند کردینے جیسا تھا .

یہ دو لڑکیوں کی کہانی ہے جو مختلف ادوار میں گزریں. بہت خوبصورتی سے انکو ایک دوسرے سے مشابہت دی گئی اور مایوسی میں گھری لڑکی "ھدی" کو یقین کے جادو سے آشنا کیا گیا. ابتدا میں ھدی کو ایک ایسی لڑکی کے روپ میں دکھایا گیا جو نہ صرف خود پرست تھی بلکہ ظاہری نمودو نمائش کی اس قدر خواہاں تھی کہ اپنی حقیقت اور اللہ سے اپنا تعلق بھلائے بیٹھی تھی. یہ حقیقت سے قریب تر تھا کیونکہ بہت سے لوگ دنیاوی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ آخرت کی فکر بھلا چکے ہوتے ہیں. ھدی کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب وہ ایک موذی مرض میں مبتلا ہوئی اور اسے یہ احساس ہوا کہ اس نے جن چیزوں کو ہمیشہ فوقیت دی وہ آج اسے زندگی خرید کر نہیں دے سکیں گی. موت کے خوف نے اس سے باقی رہ جانیوالی زندگی کے سارے رنگ چھین لئے تھے. اسے دنیا کا ہر انسان خود سے زیادہ خوش قسمت نظر آنے لگا تھا کہ اسکے پاس زندگی جینے کیلئے وقت تھا اور ھدی کا وقت زندگی گزارنے کیلئے بھی محدود ہوگیا تھا. اسکی مایوسی میں شگاف لگانے والی ایک نوعمر بچی شیلے تھی وہ امید کے پھول لئے آئی اور اسے اللہ پر یقین کرنے کا نسخہ سمجھایا اور اس سے ھدی کو بہت ڈھارس ملی. اسکے اندر کی آواز نے اسے بلانا شروع کر دیا اور وہ جو مایوسی کے اندھیرے میں گھری تھی اس نے اسے ایک پر امید لڑکی دبیسا کی کہانی سنائی. 

دبیسا اس دور کی لڑکی تھی جہاں جذام (کوڑھ) جیسا مرض وبا کی طرح پھیلا ہوا تھا. اس مرض کو ایک لعنت سمجھاجاتا تھا اور یہ سوچ عام تھی کہ اللہ جن لوگوں سے ناراض ہوتا ہے انہیں اس بیماری میں ڈال دیتا ہے. دبیسا ایک تیز مزاج, نڈر اور پرامید لڑکی اپنے خاندان کی جان تھی. وہ بے باک لڑکی جہاں زبان کی تیز تھی وہیں لوگ اسکے کاٹ کھانے کی حرکت سے اس سے ڈرا کرتے تھے.بہت جلد دبیسا کو ایک بچے کی بددعا لگی جسے اس نے غصےکے عالم میں کاٹ ڈالا تھا. اسے اسی مرض نے آن گھیرا جس کے لاحق ہوتے ہی ساری دنیا نے اس سے تعلق توڑ لیا. اسکے حالات بدلتے چلے گئے لوگوں نے اسے کوڑھیوں کے ساتھ آبادی سے دور رہنے پر مجبور کردیا. ایسے میں لوگوں کا رویہ اور اپنے ہی خاندان کی بے بسی نے دبیسا کو بہت خاموش کردیا تھا. وہ یہ جان چکی تھی کہ اسکی زندگی آزمائش سے گزر رہی ہے جس میں اسے ہرحال میں سرخرو ہونا ہے. 

دبیسا کی مشکلات سن کر ھدی کو اپنی ناشکری کا احساس ہوا. یہ سچ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنی تکلیف بڑی لگتی ہے جب تک کہ وہ کسی دوسرے کی تکلیف نہ دیکھ لے. اسکے اندر کا انسان اسے مایوسی کی ان اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کی کوشش میں تھا جس میں وہ بری طرح غرق تھی. 

دبیسا کیلئے یہ آزمائش آسان نہیں تھی وہ مایوس بھی ہوئی اور خود کو اس بیماری کا حقدار بنائے جانے پہ ناخوش بھی. مگر بہت جلد اسکے اندر کے انسان نے زمین کے بجائے آسمان والے سے رجوع کرنے کی راہ دکھائی کہ بلاشبہ جب سب راستے بند ہو جائیں تب بھی اس باری تعالیٰ کی طرف جانیوالا راستہ ہمیشہ موجود رہتا ہے. اسنے جان لیا کہ ان سب کی بیماری لعنت نہیں نعمت ہے جس نے انہیں اپنے رب کے قریب ہونے کا موقع دیا. اس نے باقی مریضوں کو بھی اس بات کا احساس دلایا کہ وہ اس حال میں رب کے سب سے زیادہ قریب ہیں اور وہ اپنی لگن سے اللہ سے مدد طلب کریں تو یقیناً مایوس نہیں ہونگے. 

دوسری طرف ھدی نے اپنی زندگی کے بچے کچھے دن ضائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا اس نے اللہ اور اپنا تعلق بنانے کی ہر ممکن کوشش کی, اس نے اللہ کے ساتھ تجارت کرنا سیکھا,صدقہ وخیرات کی طرف دھیان کیا اور رفتہ رفتہ اسے سکون کی دولت نصیب ہونے لگی. وہ نہ صرف اپنی زندگی سے مطمئن ہوئی بلکہ اللہ پر کامل یقین کرنے لگی کہ وہی اسے اس بیماری سے نکالے گا.

دونوں لڑکیوں نے جب اپنی زندگی کی اس آزمائش میں اپنی سمت درست کر لی تو انہیں منزل صاف نظر آنے لگی وہ جان گئیں کہ راستہ کوئی بھی ہو وہ صرف اللہ کی طرف جاتا ہے پھر چاہے انسان اپنی مرضی سے جائے یا اللہ کی مرضی سے. 

اس کہانی کے جاندار جملے جیسے پڑھنے والے کی رگوں میں ایک نئی امید بھر دیتے ہیں. جیسا کہ

"انسان کو کوئی چیز مٹی سے سونا, سونے سے ہیرا اور ہیرے سے کوہ نور نہیں بناتی جتنی جلدی تکلیف بناتی ہے"

اور اسکے علاوہ 

"خدا نے ہمیں نہیں چھوڑا ... بلکہ اس نے ہمیں اپنے قریب کر لیا ہے"

مندرجہ بالا عبارات ہر اس انسان کی زخموں پر پھاہے کا کام کر رہی ہیں جو کسی بھی آزمائش سے گزر رہا ہو. 

ھدی اور دبیسا دونوں کو اپنے یقین کی منزل ملی,ادھر کوڑھ کے مرض کا علاج دریافت ہوا اور دوسری طرف ھدی کو زندگی بچانے والی دوا مل گئی. 

یہ کہانی بلاشبہ دل کوچھو جانیوالی اور انسان کی سوئی ہوئی حسیات کو جگا دینے والی ہے. زیادہ تر جگہوں پر مصنفہ نے کہانی کو خوبی سے سنبھالے رکھا. 

کچھ جگہیں جو کہانی میں کمزور نظر آئیں ان میں ھدی کا کردار ابتدا میں جس درجے کا خودپرست اور گھمنڈی دکھایا گیا وہ کسی بھی کردار کی انتہائی شکل تو ہوسکتی ہے مگر عام نہیں اگر اس کردار میں کچھ لچک دکھائی جاتی تو یہ تخیل سے ہٹ کر نظر آتا.اسکے علاوہ اگر ھدی کو اسکے اندر کی آواز نے جو باتیں سمجھائیں وہ حقیقی زندگی میں موجود مثالیں دکھا کر سمجھایا جاتا تو شاید اس کا اثر بڑھایا جا سکتا تھا اور اسے حقیقت سے مزید قریب کیا جاسکتا تھا. علاوہ ازیں دونوں کہانیوں کے ربط میں کافی جھول تھے اکثر جگہوں پر ایک سے دوسری کہانی میں اچانک سے داخل ہوجانا کچھ بے معنی سا لگا. اسکی وجہ سے کچھ جگہوں پر کہانی پر گرفت مصنفہ کے ہاتھوں سے نکلتی نظر آئی. اسی طرح دبیسا کی کاٹ کھانے والی حرکت کچھ عجیب سی تھی اور اسکا مقصد کچھ سمجھ نہیں آیا اسکی جگہ کوئی اور معقول وجہ بنائی جا سکتی تھی. یہ ایک اچھا پیغام دینے کی کوشش تھی لیکن اسے مزید آسان طریقے سے سمجھایا جا سکتا تھا.  

مجموعی طور پر یہ ایک سبق آموز کہانی اور انسان کی قلبی بیماریوں کیلئے بہترین علاج ہے. درحقیقت یہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر آزمائش کی گھڑی میں عام طور پر انسان غور و فکر نہیں کرتا اور جن پر نظر کرکے انسان اپنی آزمائش میں سرخرو ہو سکتا ہے. ایک بہت پیارا پیغام عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے جس میں کافی حد تک مصنفہ کامیاب بھی ہوئی ہیں.