ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-17 16:34:45 Written by ارم ناہید

ناول : سفال گر

مصنف: عمر سعید 

تبصرہ نگار: ارم ناہید

خالقِ کائنات نے انسان کو بہترین صنائی بخشی ہے صورت ,رونگ ورپ خدوخال , اسکے بعد کی قدرت انسان کو سونپ دی گئی ہم میں سے ہر شخص معاشرے میں کسی نہ کسی روپ میں سفال گر ہی ہے جہاں وہ اپنی ذات سے جڑے کسی کردار کی بناوٹ اور اُٹھان میں شامل ہوتا کردارسازی کے عمل میں درکار اجزا ترکیبی (مذہب, اخلاقی قدریں, روایات فلسفہ محبت) میں ذرا سی کمی بیشی شخصیت کو بے ڈھب بنا چھوڑتی یا پھر بعض مرتبہ سفال گر کی بے توجہی کا شکار ہو کر مسخ ہو جاتی اور پھر اسکی یہ بد ہیتی بدنمائی ہمیشہ اس کےساتھ رہتی

 

اس خوبصورت فکر انگیز تھیم کے ساتھ مصنف عمر سعید کے قلم سے لکھا گیا یہ ناول جس میں

 کہانی کے کچھ آغاز میں ہی پارک کا ایک منظر اُبھرتا جہاں پارک میں موجود ایک لڑکی دو پرسرار اجنبی ہاتھوں کو اپنی جانب بڑھتا ہوا پاتی اور وہ ہاتھ اسے gloxinia ( پھول) پیش کرتے وہ لڑکی نہیں جانتی تھی اس پھول کو پکڑتے ہی اسکی سوچنے کی صلاحیت سلب ہونے والی محبت کا آکٹوپس اسے جکڑبے والا پرنیاں آئزک اس کہانی کا ایک معصوم کردار کسی حد تک بزدل بھی اپنی منہ زور محبت اپنی بےخودی کے ہاتھوں خسارے کا سودا کر بیٹھنے والی پرنیاں جس نے بہت سے رشتے, محبتوں, اور حتی کہ اپنے مذہب پر ایک محبت کو ترجیح دی اور اسی کو زندگی کاحاصل سمجھا تھا جسکی پوری کائنات یکجا ہوکر ایک ہی وجود ایڈم گرانٹ میں جا سمٹتی ہے وہی گرانٹ ایک موقعے کے عوض اُسے بے مول کردیتا ہے پھر آسمان اپنی مہربانیاں اس پر سے سمیٹ لیتا ہے کرب کی بلائیں تواتر سے اترنے لگتی ہیں اپنے گھر سے بے گھری , دھتکار, نفرت ,کردار کشی لیکن یہ تکلفیں تو کچھ نہ تھیں جو دکھ اُسے گرانٹ نے سونپا تھا یقیں ٹوٹنا کیا ہوتا مان ٹوٹنا کیا ہوتا ہے اس لمحے اسے ادراک ہوتا آسمان سے زمین پر گر جانے والے لوگ اتنی تکلیف سے نہیں گزرتے جس کرب سے وہ لوگ گزرتے جن کا وجود آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا احساس جرم اور خود اذیتی کا شکار ہوکر وہ کبھی اپنوں کا سامنا نہ کرنے کی سزا اپنے لیے تجویز کرتی ہے گرانٹ کو دل سے نکال دینے کے اقرار کے بعد بھی وہ کبھی اسے اپنے دل سے نہ نکال پائی "محبت وہ جنس ہے جسے کبھی موت نہیں آتی یہ آب حیات کے چشمے میں کھلنے والا کنول ہے"

عمر کا انجانے میں اپنی ماں کے کردار پر شک کرنا اور پرنیاں پر جب عمر کے شبہات ظاہر ہوتے ہیں تو مایوسی کی آخری حد کو پہنچ کر خودکشی ہی اسے آخری راستہ نظر آتا. اس لمحے قاری محسوس کرسکتا اپنے چشمِ تصور میں وہ تکلیف لا سکتا جو پرنیاں گھر چھوڑنے کے بعد اپنے بیمار باپ اور بوڈھی ماں کو دان کر جاتی ہے 

ایڈم گرانٹ (احمد ابرہیم) اس کہانی کا مرکزی کردار جس کو اسکا شوق اسپرنگ فیلڈ سے لاس اینجیلس لایا جس نے خواہش کی تھی ہالی وڈ کے آسمان کا سب سے روشن جگمتا ستارہ بننے کی خواہش غلط تو نہ تھی ہاں مگر منزل تک پہنچنے کی عجلت اور اپنایا گیا طریقہ غلط تھا اپنی خواہش کی تکمیل میں اس نے اپنے باپ ابراہیم کو جس طرح موت کے حوالے کیا پرنیاں کے ہستی کو جلا کر خاکستر کر دینا جنوں دیوانگی کی حد کو پا جائے تو انساں کو پھر کچھ دکھائی نہیں دیتا خالص رشتے , بے ریا جذبے انسان ان سب کو روندتے ہوئے نکل جاتا اپنے شوق کے رستے میں ایستادہ ہر رکاوٹ پار کرتا جاتا اور پر تقدیر ہنستے ہوئے اسکی ہر تدبیر پر حاوی ہوجاتی اور ایڈم گرانٹ بھی تقدیر نے پٹخ دیا تھا جب ادراک ہوا اس کے پاس کچھ نہیں رہا تو اسے اپنی بخشش کا واحد راستہ صوفیہ کی صورت نظر آیا اسے لگا تھا صوفیہ کو بھٹکنے سے بچا کر وہ خدا کو راضی کر لے گا اور پھر اس نے صوفیہ کے لیے لاشعوری طور پر وہ طریقہ اپنانے کی غلطی کی جو اسکے باپ ابرہیم نے اپنایا تھا سختی مارکٹائی , خدا کے غضب سے ڈراتا , وہ یہ بتا ہی نہ پایا اللٰہ صرف مارتا یا جلاتا نہیں ہے محبت کرتا ہے معاف بھی کرتا اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے لیکن اُسے بھی تو خدا کا یہ تصور نہیں دیا گیا تھا بیماری کے دوران ایڈم گرانٹ کی قابلِ ترس حالت, نسیانی کیفیت , پرنیاں سے آخری ملاقات اور موت کے وقت کی تلخی کا ذکر ,اور پھر اُن ان گنت خطوں کا تذکرہ جو گرانٹ نے  پرنیاں کے نام لکھے تھے یہ محبت نامے گواہ تھے محبت کے سفر میں پرنیاں اکیلی نہ تھی خدا اس سے ناراض نہ تھا خدا نے اسے گرانٹ کے دل سے نہیں نکالا تھا, ان خطوط کا تذکرہ عجلت میں کیا گیا کچھ تشنگی سی باقی رہی مصنف کو اسے تھوڑا مزید لکھنا چاہیے تھا ایڈم گرانٹ کے کردار کو پڑھتے ہوئے آپ کے جذبات بیک وقت کئی رنگ اپنائیں گے غصہ ,کبھی طیش, ہمدردی کبھی ترس لیکن آپ نفرت نہیں کر پائیں گے اس کردار سے

اس ناول کی سب سے اچھی بات یہاں کسی کردار کو فرشتہ نہیں دیکھایا گیا یہاں سب کردار غلطیاں کرتے سدھارتے عام انسان ہی ہیں.البامارسیلو اس کہانی کے شروع میں ایک دہکتا ہوا کردار محسوس ہوتا جو آگے چل کے شعلہ روپ ظاہر ہوتا ہے البا جیسے لوگ محبت نہیں کرتے وہ محبت کے نام پر اجارہ داری چاہ رہے ہوتے زبردستی کا تسلط ایڈم گرانٹ کو پورن گرافی کی طرف لے جانے میں اور پرنیاں اور ایڈم گرانٹ کے درمیان جو دوری کی خلیج حائل ہوتی ہے وہ البا مارسیلو کی محبت کے ہی تجربات تھے ایسے فریب نظر لوگ اپنی خودغرضی اپنی انتہا پسند جبلت کو محبت کا نام دیتے اور پھر آخر اپنے جیسے کسی انتہا پسند کے ہاتھوں انجام پاتے .. البا کی بے باکی اسکی جنسی بےراہ روی دوسری طرف پرنیاں کا جذبوں میں شرمیلا پن جھجھک یہ چیز مشرقی اور مغربی معاشرے کی قدروں کا فرق اجاگر کرتی ہے

حکیم بیگم اس کہانی کا سب سے خوبصورت کردار جس نے سکھایا انسان کو اچھائی اور برائی کے پیمانوں پر پرکھے بغیر اپنایا جائے محبت دی جائے یہی انسانیت کی معراج اپنے آس پاس کے لوگوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس طرح اس نے پرنیاں کو پناہ دی اور عمر کی پرورش اور تربیت جن خطوط پر کی ہر وقت اپنے اناڑی پن کا اقرار کرتی اپنے بنائے گئے برتنوں کے بےڈھب پن پر دل برا کرتی چٹی ان پڑھ حکیم بیگم کی سچ لگن اور بےریا پن کا صلہ ہمیں عمر کی صورت دیکھنے کو ملتا.عمر اور صوفیہ اس کہانی کے دو ایسے کردار جو امید کا استعارہ ہیں 

عمر اس کہانی میں وہ کڑی ہے جو بکھرئے دور کردیے گئےکرداروں کو جوڑتا ہے اپنی ماں پرنیاں کی اصل حقیقت جان لینے کے بعد اسے اپنے خونی رشتوں سے ملانے کی لے کی گئ اسکی کوشش پرنیاں اور ایڈم گرانٹ کا دوبارہ روبرو ہونا دعا کی طاقت پر اسکا ایمان اور یقین صوفیہ کو بھٹکنے سے بچا لیتا ہے دعا کی اصل روح کیا ہے ناول میں بہت خوبصورتی سے سمجھایا گیا ہے آپ کی دعائیں تب قبولیت کو پہنچتی ہیں جب انہیں اللّہ کی سپردگی میں سونپ کر شک نہ کیا جائے

 صوفیہ جس نے پیدا ہوتے ہی اپنی ماں البا کو اپنی ذات سے بےزار اور لاتعلق پایا اور پھر گرانٹ کی مذہب کے نام پر اس بچی پر کی گئ بے جا سختی اور تشدد اسے خدا سے متنفر کر دیتا ہے صرف ایڈم گرانٹ کو تکلیف دینے کے غرض سے وہ خدا سے بغاوت کی لیے نکل کھڑی ہوتی ہے اس کا خدا سے تعارف ہی ایسے کروایا گیا تھا نفرت منفی رویوں اور محرومیاں کا شکار صوفیہ اسکی جگہ کوئی بھی ہوتا تو ایسے ہی ہوتا

عمر سعید کا اسلوب تحریر زبان پر عبور الفاظ کی تراکیب ,چناؤ ,تراکیب استعمال , استعارے منظری نگاری جہاں بہت سے قارئین کو مسحور کرتا وہیں ایک عام قاری کے لیے یہ ایک مشکل اسلوب تحریر بھی ہوسکتا جو استعاروں کی زبان سے ناواقف جو خالص زبان سے نابلد جو سادہ اور سہل الفاظ کے چناؤ کو پسند کرتا عمر سعید کی موضوعاتی معلومات پر دسترس بلاشبہ قابلِ رشک لیکن مختلف جگہوں, عمارتوں اور لوگوں کے انگریزی میں نام ہالی وڈ کے کردار, فلمیں اُن کے مکالمے ایک عام قاری کو الجھائیں گے اور پھر سالومن کی توجہ حاصل کرنے کے لیے Macguffin شیشے اور جو Goya کی پینٹنگ کا تذکرہ یہاں پر پہنچنے تک قاری اپنی دلچسپی ٹوٹتے ہوئے بھی پاتا طرز تحریر کو مشکل پسندی سے بھی تعبیر کر سکتا جہاں جزئیات اس کہانی کی خوبصورتی وہیں اکثر قارئین تفصیل کو طوالت سے بھی متصل کرتے یہ چند چیزیں ہیں جو قاری کی دلچسپی کو ضرور ڈگمگاتی ہیں اسکے علاوہ جہاں تک کرداروں کا تعلق وہ بلاشبہ غیر ہم کہہ سکتے کرداروں کے ساتھ پھرپور انصاف کیا ہے مصنف نے اور صحیح معنوں میں حق ادا گیا ہے کہانی کا جو لوگ واقعتا اچھی تحریروں کی کھوج میں رہتے ہیں ان لوگوں سے اتنا ہی کہوں گی

پاپولر فکشن میں ایک بہترین تحریر آپ کی منتظر ہے..