ری ویو ٹائم ان ناول ورلڈ

2020-05-19 18:49:59 Written by Muhammad Kabir Abbasi

ناول:تاوان.

تبصرہ نگار:کبیر عباسی.

 

آج کل ہر طرف ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ ڈائجسٹس کا معیار بہت گر گیا ہے. مجھے اس نظرئیے کے متعلق ہمیشہ تحفظات ہی رہے. اب یہ نظریہ کس حد تک درست ہے، اسی سوال کو مد نظر رکھ کر میں نے طاہر جاوید مغل کے شہرہ آفاق ناول تاوان کا مطالعہ گزشتہ برس شروع کیا.

میں کس نتیجے پر پہنچا؟ یہ آپ اس تبصرے کے آخر میں ہی جان پائیں گے. 

تاوان نے ماہنامہ سرگزشت کے قارئین کو مئی 1993 سے 2004 تک قریباً گیارہ سال اپنے سحر میں جکڑے رکھا.یہ ناول کتابی شکل میں بھی سترہ حصوں میں دستیاب ہے. سرگزشت جیسے نسبتاً کم معروف پرچے میں شائع ہونے کے باوجود اس ناول کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ تمام "مردانہ ڈائجسٹس" کے قسطوار ناولز میں نمبر ون نہ سہی کم ازکم ٹاپ تھری میں ضرور آتا ہے.اس ناول سے متعلق کوئی بھی پوسٹ لگائی جائے، ادھر ادھر کے کونے کھدروں سے وہ لوگ بھی امڈ امڈ کے اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع ہو جاتے ہیں، جو عام حالات میں کہیں بھی نظر نہیں آتے. 

اس ناول کی ابتدا کی داستان بھی خاصی دلچسپ ہے. جبار توقیر مرحوم جاسوسی ڈائجسٹ میں گمراہ ناول لکھ رہے تھے. وہ اس دوران وفات پا گئے.خیر گمراہ تو وصی بدایوانی نے آگے مکمل کر لیا، لیکن اس کی مقبولیت دیکھ کے ادارہ جے ڈی پی نے اس کا دوسرا حصہ لکھوانے کا سوچا. گمراہ میں پنجاب کی دیہاتی زندگی کی بہت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے اور طاہر جاوید مغل نے بھی پنجاب کی دیہاتی زندگی کا بڑے قریب سے مطالعہ کیا ہے اور یہ چیز ان کی تحریروں میں بھی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے. سو گمراہ کا دوسرا حصہ لکھوانے کےلئے معراج رسول صاحب کی جوہر شناس نظر مغل صاحب پر ہی جا ٹھہری. حالانکہ اس وقت مغل صاحب جے ڈی پی کےلئے نئے نویلے رائٹر ہی تھے. 

تاوان کی پہلی قسط ہی معراج رسول صاحب کو بےحد پسند آئی اور انہوں نے جان لیا کہ اس تحریر کو مقبول ہونے کےلئے گمراہ کا ٹیگ لگانے کی یکسر ضرورت نہیں، یوں تاوان کا بطور الگ ناول آغاز ہوا.

مغل صاحب اس کے آغاز کے متعلق ایسے اہنے خیالات کا اظہار فرماتے ہیں.

 

"غالباً 1992 میں وہ دسمبر کی ایک چمکیلی لیکن سرد دوپہر تھی جب میں نے ایک عجیب جذبے کے تحت قلم اٹھایا اور تاوان کی پہلی سطریں قلم بند کیں . اس وقت مجھے ہرگز معلوم نہیں تھا کہ یہ کہانی ایسے کئی سرد موسموں سے گزرے گی . میری کئی گرمیاں ، بہاریں اور برساتیں اسی کہانی کے سنگ بیتیں گی .جہانی استاد میری انگلی تھامے گا...مجھے ساتھ لے کر نگر نگر گھومے گا اور ان گنت ہنگاموں کا سامنا کرے گا ."

 

قارئین کا سفر بھی اس ناول کے ساتھ کچھ ایسا ہی رہا ہو گا.کئی موسم اس کے سنگ گزرے ہونگے.زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہوئے ہونگے لیکن جس نے ایک بار یہ ناول شروع کیا ہو گا، انتظار کے باعث اس کا مہینہ کٹنا مشکل ہو گیا ہو گا، ہر ماہ اس کے قدم بے اختیار سرگزشت کی تلاش میں اٹھنے لگے ہونگے اور وہ تاوان مکمل کئے بغیر رہ نہیں سکا ہو گا. 

 

کوئی نکل پایا نہ پائے گا، بےدر کے اس گنبد سے

کوئی سمجھ پایا نہ پائے گا، جیون ایک پہیلی ہے. 

 

یہ شعر تاوان کے آخری الفاظ کی حیثیت رکھتا ہے اور شاید پورے ناول کی تشریح بھی... 

وہ خزاں کی ایک سرد شام تھی جب میں نے تاوان کا پہلا حصہ تھاما اور اس کے مطالعے میں غرق ہو گیا. میں نے مغل صاحب کی لاتعداد کہانیاں پڑھی ہیں لیکن جیسے تاوان کے آغازنے اپنے سحر میں جکڑا، جیسی لفاظی اس کے آغاز میں استعمال ہوئی، ویسی شایدان کے کسی اور ناول میں نظر سےنہیں گزری.

تاوان کابنیادی جینرا ایکشن اور رومانس ہےالبتہ حسب ضرورت، مزاح، فلسفے،سیکس، اور ڈرامے وغیرہ کا تڑکا بھی خوب لگایا گیا ہے.

مغل صاحب کی تحریروں کی سب سے خاص بات مضبوط کردارنگاری ہے اور تاوان میں ان کی یہ خوبی کھل کے سامنے آئی ہے. شنکر شکرا جیسا ایکشن و خباثت کا بادشاہ ہو یا قبائلی علاقے کا آسیب کہلانے والا عیسی جان، کینیا سے درامد شدہ بونوں کی فورس رکھنے والا قادر زمان ہو یا ہفت پہلو پیچ در ہیچ شخصیت رکھنے والا شیخ عاصم، نابغہ روزگار ہستی سائیں عالی ہو یا جہانی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے والا اس کا یار غار صفدر، وادی موت کا پر اسرار کردار سانوس ہو یا افریقہ کا ساحر بو کارلو، ہر دم چٹکلے چھوڑنے والا جذباتی سا زریں گل ہو یا نشے میں چور رہنے والا انوکھا آزادی پسند کردار بوٹا سنگھ،شفیق سے ایس ایس پی ساہی صاحب ہوں یا بھوتنی کا برکت شاہ، عالمی بردہ فروش کنگ براؤن ہو یا امریکی ارب پتی کلارک،پراسرار صلاحیتوں کا مالک، لڑکیوں کا شکاری مومل ہو یا آدم خور مائیکل، ظلم کے ایندھن میں تپ کے فولاد ہو جانے والا پروفیسر اللہ دتہ ہو یا عشق پیشہ الماجد،حیدرآباد کا خوفناک نظر آنے والا معصوم سا درندہ ہو یا افریقہ کا معصوم نظر آنے والا خطرناک درندہ ماسٹر اسقی، جہانی سمیت قارئین کو انگشت بدنداں کر دینے والا اشرف چیتا ہو یا کھانے کا دشمن عالم قریشی، وفا و ایثار کا پیکر غزالہ ہو یا اہنے حسن کی بجلیاں ہر ایک پر گراتی الو کی پٹھی سروج، معصوم سی گلثوم ہو یا روایتوں کی باغی ناشا، افریقہ کی سائنسدان ویرا ہو یا حیدرآباد دکن کی نوابزادی شاہین،مردانہ مزاج رکھنے والی ضدی اور اڑیل طبع کی مالک قدسیہ ہو یا اپنی ہی ذات کی پیچیدگیوں میں گم میڈم شہرزاد،افریقہ کی تاریکیوں میں چھپا پراسرار کردار مونابہ ہو یا عرب کے ریگستانوں میں پوشیدہ شہزادی ساشا.. یہ سب اور ان جیسے کئی اور لازوال کردار ناصرف تاوان کے صفحات پر ہمیشہ کےلئے امر ہو گئےبلکہ قارئین کی ایک کثیر تعداد کے ذہنوں پر بھی ہمیشہ کےلئے انمٹ نقوش چھوڑ گئے.یہ نام پڑھ کےتاوان کے قارئین کے ذہن کے یقیناً دریچے وا ہو گئے ہونگے اور ان کرداروں سے منسلک یادوں نے ان کے دل میں میٹھی سی کسک بھر دی ہو گی.

مغل صاحب کی دوسری بڑی خوبی ان کی انتہائی شاندار منظرنگاری ہے. اس ناول میں مغل صاحب نے قارئین کو پنجاب کے کھیت کھلیانوں کی بھی خوب سیر کرائی اور عرب کے ریگستانوں کی بھی، تاریک براعظم افریقہ کے جنگلات سے کہیں دل دہلایا تو کہیں شمالی علاقہ جات کے برفزاروں سے ٹھٹھرایا، سری لنکا کی بارشوں سے کہیں من میں جلترنگ بجائی تو کہیں ماریطانیہ اور لندن کی زیرزمین پراسرار دنیا سے دل لبھایا.غرض قارئین نےبھی جہانی استاد کی انگلی پکڑ کے نت نئے جہانوں کی سیر کی اور ساتھ ہی جہانی اور اس کے ساتھیوں کے معرکوں سے خوب خون گرمایا.

اس ناول میں دنیا کے بہت سے خطوں کے بارے میں قارئین کو آگاہی ملی.ہر خطے کے رسوم و رواج، وہاں کی ذبان و جغرافیہ پر مغل صاحب کا ہوم ورک لاجواب رہا.

موضوع کے لحاظ سے یہ روایتی ناول ہی رہا، جیسا کہ اکثر "مردانہ ڈائجسٹس" کے قسطوار ناولز کا موضوع انتقام یا جرائم کی بیخ کنی ہوتا ہے تو اس میں بھی یہی موضوعات احاطہ تحریر میں لائے گئے لیکن اس کے باوجود تاوان میں قارئین کی دلچسپی کا ہر سامان موجود ہے. رگوں میں لہو ساکت کردینے والا تجسس بھی ہے، اور خون میں شرارے بھر دینے والی سنسنی بھی، دھیمی سی آنچ پر سلگتا رومانس بھی ہے اور جذبات کو ابھار دینے والے بے باک سینز بھی، حسن کی رعنائیاں بھی ہیں اور بد باطن لوگوں کی بدصوتیاں بھی،خون گرما دینے والا ایکشن بھی ہے،اور زبان و بیان کی چاشنی سے بھرپور دل میں اتر جانے والے فلسفے بھی، آنسو بھی ہیں اور قہقے بھی، ہڈیوں میں گودا منجمد کر دینے والے خوفناک واقعات بھی ہیں اور انسانیت کا درد محسوس کرانے والے مناظر بھی، جدید ٹیکنالوجی کا ذکر بھی ہے اور قدیم علوم بھی، 

غرض اس ناول میں مغل صاحب نے ہر وہ چیز کمال خوبی سے شامل کی جو اس طرز کے ناولز کا خاصہ ہوتی ہے. 

 

مگر.. 

 

اس کے باوجود تاوان پڑھ کے مجھے اتنا لطف نہیں آیا جتنا باقی بہت سے میرے ہم ذوق قارئین کو آیا.

اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ 

کسی بھی تحریر کا شاید کامل ہونا ممکن نہیں ، مصنف جتنی بھی محنت کرے اتنی طویل تحریر میں کہیں ناں کہیں کمی کجی رہ ہی جاتی ہے.مجھے اسے تحریر میں جو چیز سب سے زیادہ کھلی، وہ واقعات میں ذہانت و منصوبہ بندی کے بجائے اتفاقات کی بھرمار تھی. جہانی نے جو کام کرنے کی بھی ٹھانی کسی اتفاق نے اس کی انگلی تھام کے اسے کامیاب کر دیا. گو کہ سائیں عالی کے پراسرار کردار کی صورت ان اتفاقات کی بھی کسی حد تک توجیہہ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے، قدرت کے ہاتھ کا بھی ذکر کیا گیا لیکن اس وجہ سے واقعات بڑی حد تک predictable ہو گئے، اور اتنا سسپنس نہ رہا جتنا میں پسند کرتا ہوں. 

اتنا طویل ناول ہو اور اس میں جھول دیکھنے کو نہ ملیں یہ شاید ممکن ہی نہیں سو اس ناول میں بھی بہت سے جھول دیکھنے کو ملتے رہے جنہوں نے کافی حد تک میرا جی مکدر کیا. 

کرداروں کی بھرمار کی وجہ سے بہت سے کرداروں کے ساتھ بھرپور انصاف نہ ہو سکا. کئی عام کردار جہانی کی الجھنوں میں دب کے رہ گئے. جیسے فریال جیسا اہم کردار جو جہانی پر جان چھڑکتی تھی، افریقہ سے واپسی پر کہیں گم ہی ہو گیا. ناشا کی ناقابل یقین سے انداز میں لاہور میں اینٹری ڈالی گئی اور ایک دو اہم واقعات کے بعد ناشا بھی غائب کر دی گئی.

ڈائجسٹس بالخصوص مردانہ ڈائجسٹس کی قسطوار کہانیوں میں کہانی کو چلانے کےلئے مصنف کی خواہش و سوچ سے زیادہ اس کی مقبولیت کو اہمیت دی جاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ کہانی طویل سے طویل تر ہوتی جاتی ہے اور ایسے میں لامحالہ کہانی پٹری سے اتر کے ادھر ادھر ڈولنے لگتی ہے. گو کہ تاوان کو مغل صاحب نے بڑی حد تک سنبھالے رکھا لیکن اس کے باوجود تحریر کئی بار ڈی ٹریک ہوئی. جہانی کی کہانی کے بیچ میں کئی اور کرداروں کی کہانیاں پیش کی گئیں جو اپنی جگہ انتہائی دلچسپ رہیں لیکن بظاہر کہانی کے ساتھ ان کا اتنا جوڑ نہیں تھا. 

یہ تو تھیں وہ چند ظاہری وجوہات جن کی وجہ سے مجھ سمیت کوئی بھی قاری کہانی سے بیزار ہو سکتا ہے لیکن اس میں دلچسپی کا اتنا سامان تھا کہ یہ ساری وجوہات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں. 

یہ سب چیزیں تو "مردانہ ڈائجسٹس" کے تقریباً ہر طویل ناول میں ہوتی ہیں اور میرے پسندیدہ ترین ناول سرکش میں بھی تھیں. 

 

تو... 

 

پھر کیا وجہ ہے کہ تاوان نے مجھے اتنا لطف نہیں دیا کہ میں یہ ڈیڑھ برس میں بمشکل مکمل کر سکا؟ 

 

میرے خیال میں اس کی چند مزید وجوہات ہیں. 

تاوان سے پہلے میں مغل صاحب کے دوسرے ناولز جو تاوان کے بعد لکھے گئے، جیسا کہ دیوی، للکار، پرواز، انگارے وغیرہ پڑھ چکا تھا. ان سب کے واقعات بڑی حد تک تاوان سے مماثل رہے. اور انداز بیان تو یکساں ہونا ہی تھا.مغل صاحب کے علاوہ بھی میں بےشمار طویل ناولز پڑھ چکا تھا. سو واقعات کے لطف میں فرق تو آنا ہی تھا. الفاظ کی تاثیر کم تو ہونی ہی تھی. 

ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے. جیسے آپ کسی تحریر میں پہلی بار قتل ہوتے دیکھتے ہیں تو اس کی سنسنی آپ کو عمر بھر یاد رہتی ہے، پہلی بےوفائی کا پڑھتے ہیں تو اس کا درد عمر بھر آپ کو کسک سے دوچار رکھتا ہے، پہلا ظلم عمر بھر آپ کو دہلائے رکھتا ہے، آپ کے پسندیدہ کردار کی پہلی بے بسی تادیر آپ کے ذہن ہر نقش رہتی ہے. ایسے ہی جیسے پہلی محبت آپ کبھی نہیں بھول سکتے. پھر تو چل سو چل... صبح محبت ہوتی ہے شام کو بیوفائی اور اگلی صبح ہم سب بھول چکے ہوتے ہیں۔

یہی بات کہانیوں کی بھی ہے، جو ہم نے بھلے وقتوں میں پڑھ لیں ذہن پر نقش رہ گئیں، اب ان سے زیادہ معیاری مگر ملتی جلتی کہانی کبھی ہمیں وہ لطف نہیں دے سکتی اور پھر ہم کہنے لگتے ہیں کہ معیار کم ہو گیا. معیار تو کم ہوا ہے لیکن یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ ہمارا معیار زیادہ بڑھ گیا ہے. 

اور دوسری اہم بات کہ اب نہ ہمارے پاس ویسا پرسکون وقت رہا ہے اور نہ اتنی فراغت کہ ہم طویل مطالعے سے اس طرح لطف اندوز ہو سکیں جیسے ماضی میں ہوتے تھے. اب نظریں کتاب پر ہوتی ہیں اور دل سوشل میڈیا کی طرف کھنچ رہا ہوتا ہے، ایک ذرا سی بیپ ہمیں کتاب کے جہان سے نکال کے دوسرے جہان میں لے جاتی ہے. وہ جادوئی جہان کسی قدر نیا ہے سو دلکش ہے، کتاب تو پرانی دوست ہے اور بقول شاعر

نئے جب دوست ملتے ہیں، پرانے بھول جاتے ہیں. 

ہم بھی کتابوں کو بھول رہے ہیں مگر قاف قلم جو کہ ہمارے اسی نئے اور دلکش جہان میں کتاب کو شامل کرنے کی سعی کر رہی ہے، کے اس سلسلے میں شاید ہمیں کوئی تبصرہ اچھا لگے اور ہم اس ناول کی چاہ کرنے لگیں. شاید اس ناول میں آباد دنیا ہمارے ہاتھوں میں موجود اس جہاں سے کہیں زیادہ دلکش اور انوکھا ہو.. مگر شرط یہی ہے کہ ہم اس جہان کو کھوجنے کےلئے دروازہ تو کھولیں، ایک نظر اندر تو جھانکیں، اگر اس دنیا میں دم ہوا، ہمارے لئے کچھ انوکھا ہوا تو یقیناً ہم اس کے سحر سے بچ نہیں پائیں گے. 

 

ختم شد.