ری ویو ٹائم ان ناول ورلڈ

2020-05-21 19:40:13 Written by مسز فاروقی

مقابلہ ری و یو ٹائم ان ناولز ورلڈ        

          اُم الیقین     

  تنقید نگار : مسز فاروقی

 

 ’’ جو زمین پہ نہیں ہوتا۔ وہ آسمان سے ہوتاہے۔ یقین رکھیں ۔ضرور ہوتا ہے ۔‘‘  

 

 ایک جملہ۔ ایک امید۔ ایک اعتقاد۔ایک یقین ۔ اُم الیقین۔۔۔ کیا کچھ پنہاں نہیں ہے اس ایک جملے میں جو ناامید دلوں پہ کسی نرم ، ٹھنڈی پھوار کی طرح برستا اور امید کے لاتعداد جگنو ان کی مٹھی میں تھما دیتا ہے۔ دل اور اس میں سویا یقین، اس ایک جملے سے بیدار ہوتا ، اپنے رب کو مسکرا کر دیکھتا اور زندگی کے لئے پھر سے جی اٹھتا ہے ۔

 یہ 2018 کا سال تھا ۔ میں پچھلے دو ماہ سے ڈپریشن کا شکار تھی، چند دن ہسپتال رہ کر گھر آ چکی تھی۔ ادویات زیر ِ استعمال تھیں لیکن افاقہ خاص نہ تھا ۔ بس ایک تمنا ، ایک ہی خواہش ۔ زندگی کوآگ لگا دوں کہ یہ ختم ہو جانے لائق ہے ۔ یہ مصیبتوں کا گھر اور تکلیفوں کا گڑھ ہے ۔ تب میرے لئے سب سے زیادہ قابلِ نفرت دو ہی چیزیں تو تھیں۔۔ ایک میں اور دوسری زندگی ۔

کوئی رشتہ مجھے عزیز نہیں رہا تھا کیونکہ کوئی مجھے ، میری تکلیف کو سمجھ نہیں رہا تھا ۔ تو پھر میں کہاں جاتی ، کس کو سناتی ۔۔ ؟ اللہ ! وہ پاس تھا لیکن بہت دور لگتا تھا ۔ وہ سب کر سکتا تھا لیکن خاموش دیکھتا تھا ۔ ہر طرف سے مایوس دل کے لئے میر ے رب نے ایک پیغام بھیجا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مجھے کس چیز کی تلاش ہے ۔ میری شفا خود میرے اندر تھی اور مجھے اسے پانا تھا ۔

 ’’ زندگی سے منور آپ کی آنکھ، جو یہ سطر پڑھ رہی ہے۔ وہ باقی جسم سے بس اتنا کہہ دے ’’ اپنی زندگی اور تندرستی کی قدر کیجیے۔‘‘

 اُم الیقین کی ھدی ، زندگی سے مایوس ھدی ، جو مرنا نہیں چاہتی تھی لیکن مر رہی تھی ۔ میں جینا نہیں چاہتی تھی لیکن جی رہی تھی ۔ ہم دونوں میں ہی رب کی مرضی سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی۔ ہم دونوں نہیں جانتی تھیں کہ خدا کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب ’ بیمار ‘ ہوتا ہے۔ ہم دونوں اللہ کی رحمتوں کے سائے میں تھیں پھر بھی مایوس تھیں۔ ھدی ! کینسرکی مریض ، ایک داستان کا فرضی کردار ۔ میں ! ڈپریشن کی مریض ، زندگی کا ایک حقیقی کردار ۔ پھر ہمیں سکھایا گیا ، بتایا گیا ، سب سمجھایا گیا ۔ دبیسا ، یہ اس کا نام تھا جو اندھیرے میں ہمارا چراغ تھی۔ بیمار اور لاچار دبیسا ، کوڑھ زدہ اور لعنتی دبیسا۔ جو خدا کی مرضی کو زمین پہ لانے کا یقین رکھتی تھی اور اس کے اسی یقین نے معجزہ کر دکھایا۔ وہ خدا کی مرضی کو زمین پہ لانے میں کامیاب ہو گئی ۔ یہی میرے لئے رب کا پیغام تھا کہ مجھے اس جیسا بننا تھا ۔ ڈپریشن کی اس جنگ کو لڑنا تھا ، ہار نہیں ماننا تھی بالکل ویسے جیسے ھدی نے ہار نہیں مانی تھی کیونکہ اس کائنات میں اگر کوئی شے قیمتی ہے تو وہ بس ’ زندگی ‘ ہے ۔

 یہ میری زندگی کی کہانی تھی ۔ اور میری زندگی کا فرشتہ وہ تھی ۔ وہی جو داستان گو تھی ۔ سمیرا حمید ، اُم الیقین کی خالق۔ وہ میری زندگی کا پرندہ بنی تھی۔ مایوسی کے آسمان پہ اڑتا امید کا پرندہ۔ میری زندگی کی کہانی کو نیا چہرہ ایک داستان نے دیا ۔ ایک ناول ، ایک کتاب ، میرے لئے ایک تحریک بنی ۔ لفظ ایسے بھی اثر چھوڑتے ہیں کہ کسی مرتے کو زندگی دے جاتے ہیں ۔ لکھاری ایسا بھی لکھ سکتا ہے کہ اس کاحرف حرف کسی کی زندگی کی پیشانی پہ چراغ بن کر چمک سکے ۔ اس کی مثال ’ میں اور ام الیقین ‘ ہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جہاد بالقلم ایک افضل جہاد ہے ۔ میں نے اور مجھ جیسے کئی قارئین نے اسے آنکھوں دیکھا ، دل سے جانا اور دماغ سے مانا ہے ۔

 اُم الیقین ایک امیر ترین لڑکی ھدی کی کہانی ہے جو انسٹا سیلبرٹی اورفیشن ٹرینڈ سیٹر ہے ۔ جو اپنی تمام تر دولت اور آسائشات کے باوجود زندگی کے چند ماہ اپنے لئے خرید نہیں سکتی۔ وہ کینسر کا یکدم شکار ہوتی ہے ، اتنا اچانک کہ زندگی محض سات ماہ تک سکڑ کر آ جاتی ہے۔ ماما ، پاپا اور اس کے سبھی پیارے کینسر جیسی بیماری کے سامنے بے بس ہیں ۔ زندگی تمام ہونے جا رہی ہے اور اس کے تمام لوازمات بے معنی ۔ کچھ اہم ہے تو وہ بس ’ زندگی ‘ ہے ، صرف زندگی۔ اور وہی اہم چیز ھدی کے لئے کم پڑ گئی ہے ۔ ایسے میں مایوس ھدی کے لئے صدیوں قبل کی دبیسا حوصلہ بنتی ہے ۔ نڈر اور بیباک دبیسا ! جو کوڑھی ہو چکی ہے۔ دنیا جس پہ تنگ ہے ، وہ لعنت زدہ ہے ، وہ آبادی سے ویرانی میں جا بستی ہے ۔ اس کے لئے کوئی امید اب دکھائی نہیں دیتی ۔ جو اللہ کی رحمت سے دور ہو کر اس کے غضب کی حقدار مانی جاتی ہے، دراصل وہی اللہ کی رحمت کے قریب ہے ۔ وہ ’کوڑھی ‘ اس بیماری کے لئے سچے دل سے ، پورے یقین سے خدا سے دعا گو ہوتی ہے ۔تب آسمان والا ، زمین والوں کے لئے اس کا علاج اپنے ہی بندے کے ہاتھوں بھیجتا ہے ۔ 

 اس داستان میں کئی جہاں آباد ہیں ۔ یہ زندگی کے کچھ سچے فائٹرز  موت سے لڑنے والوں کے پیغامات بھی لاتی ہے اور ان کے جذبات ہم تک پہنچاتی ہے۔ کہیں ہمیں علی بنت کا قول دکھتا ہے تو کہیں ہولی بوچر کا خط۔ یہ کہانی ایک تحریک دیتی ہے ۔ امید دلاتی ہے ۔ زندگی سے محبت اور لڑنے کی ہمت سکھاتی ہے ۔ اس کی سمندر کی گہرائی میں اترے بنا ہم موتی نہیں سمیٹ کر لا سکتے بالکل اسی طرح اس ناول کو پڑھے بنا ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ یہ کیسے ہم سب کی زندگی بدل سکتا ہے۔  

 سمیرا حمیدکا جملوں کی ادائیگی میں ہم آواز لفظوں کا چناؤ، کرداروں کے دوبدو اور جاندار ڈائیلاگز ، کہانی کا بہاؤ اور مناظر کی بھاگتی دوڑتی ریل، کہانی کی خوبصورت بنت اور بے مثال کردار نگاری ، یہ تمام عوامل مل کر عام داستان کو خاص بلکہ خاص الخاص بناتے ہیں اور یہی سمیرا حمید کا خاصا ہے ۔

 وہ داستان جو میرے لئے آب ِ حیات ہے اس کے کئی پہلو پہ میں نے تنقید بھی سنی ۔ مصنف اپنی کہانی لکھ کر جب قاری کے سپرد کرتا ہے تو اس کے نزدیک وہ مکمل اور جامع ہوتی ہے تاہم تنقید ہر قاری کا حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا ، نہ ہی ہر ایک کا اس سے متفق ہونا ضروری ہے۔

 ’’ شیلے اور فرشتے اس حقیقی کہانی کا فرضی حصہ لگتے ہیں۔‘‘ یہ میری ایک ادبی قسم کی کزن ہے جو کہہ رہی ہے ۔

جو لوگ تصوف کو نہیں مانتے وہ ’’ شیلے اور ھدی کے فرشتے ‘‘ جیسے علامتی کرداروں کو ناقابل ِ فہم قرار دیتے ہیں  اللہ کی رمزیں اللہ ہی جانے ۔ انھیں شیلے کا سب کینسر کے مریضوں سے ملنا اور فرشتے کا دبیسا کی زندگی کو کھولنا ، حقیقت سے دور لگتا ہے۔اس پوائنٹ سے آپ کا یا میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ، یہ محض وہ تنقید ہے جو ادبی حلقوں میں گردش کرتی رہی ہے ۔

 ’’ سمیرا کی کہانی کا ہر کردار ہی بھاری بھر کم ڈائیلاگز بولتا اور دانشمندی بکھارتا ہے۔ کیا ہر کردار کی ایسی گفتگو دکھانا ضروری ہوتا ہے ۔‘‘ ایک دوست نے منہ بنا کر تبصرہ کیا ۔ ہر مصنف کا ایک اندازِ تحریر ہوتا ہے جس سے وہ ہٹنا نہیں چاہتا کہ یہی اس کی تحریر کی پہچان گردانی جاتی ہے۔ کچھ کو یہ انداز کھٹکتا اور کچھ کو بھاتا ہے ۔

 ناول کی واحد بات جو بطور قاری مجھے پسند نہیں آئی وہ دبیسا کی کہانی کے آغاز میں وہ بدتمیزیاں تھیں جو وہ عمروں کے تفاوت کے باوجود کرتی رہی تھی ۔ جیسے والد کو باندھ کر گھوڑے پہ بٹھا کر گھاٹیوں کی طرف لے جانا ، چچا سے بداخلاقی سے بات کرنا ۔ دبیسا کی ساری گستاخیوں کے باوجود سب کا اس کی باتوں پہ ہنسنا اور خاص کر یہ جملے کہ ’’ اس کی حرکتیں بچکانہ ، بے وقوفانہ تھیں ۔ باتیں دلیرانہ ، دلبرانہ ۔‘‘ نہ مجھے اس کی حرکتیں بچکانہ لگیں نہ باتیں دلبرانہ ۔ اس کے قول و فعل میں بس ایک گستاخی کا پہلو نمایاں تھا جسے میں دلیری نہیں سمجھتی۔ معذرت کے ساتھ 

 اُم الیقین ہم تک کئی پیغام لے کر آئی ہے ۔ تو اگر آپ بیمار ہیں چاہے جسمانی ، روحانی یا ذہنی ، یہ کتاب آپ کے لئے ہے تاکہ آپ صابر اور بہادر بن سکیں ۔ اور اگر آپ صحتمند ہیں تو بھی یہ کتاب آپ کے لئے ہے کہ اس میں آپ کے لئے شکر ہے۔ آپ مایوس ہیں اور اس مایوسی سے نکلنے کے لئے سنجیدہ ہیں تو ام الیقین پڑھیں ، بے مقصدیت کا شکار ہیں اور زندگی کو مقصد دینا چاہتے ہیں تو بھی اس کتاب کو کھولیں ۔ یہ آپ پہ بہت کچھ کھول دے گی ۔

  سمیرا حمید کو ان کے رب ، ہمارے رب نے یہ داستان ایک امانت کے طور پہ سونپی ، آپ کی اور میری امانت ، جسے سمیرا نے بنا کسی خیانت کے اس کے حقداروں تک پہنچا دیا ۔  

  خوش رہیں کہ مسکرانا بھی صدقہ ہے ۔

 ﴾۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔﴿