ری ویو ٹائم ان ناول ورلڈ

2020-05-22 16:39:09 Written by قرسم فاطمہ

ناول: پیرِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم

 

تحریر: عمیرہ احمد

 

تبصرہ نگار: قُرسم فاطمہ 

 

آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔ 

 

(المائدہ: ۳)

 

-ابتدائیہ : 

 

پیرِکامل حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کی صفات میں سے اولین صفت یہ ہے کہ اللہ نے آپ ﷺ کو کاملیت کے اعلیٰ و ارفع ترین درجے پر فائز کیا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی مبعوثیت کے بعد وہ سعید ساعتیں گردشِ ماہ و سال کی کروٹیں بدلتے بدلتے اس لمحۂِ منتظر میں سمٹ آئیں جس میں نعمت کو مکمل کردیا گیا اور 

 

قیامت تک کے لیے دینِ اسلام کو تمام کائناتِ ارضی کے لیے منتخب کیا گیا۔ روزِ اول سے لوحِ قلم پر ثبت کردیا گیا ہے کہ حضور ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس کا واضح ثبوت کلامِ پاک میں صاف اور دو ٹوک الفاظ میں موجود ہے مگر چودہ سو سالوں میں حضور ﷺ کے پیغامات میں مختلف فرقوں کے چند افراد نے اپنی طرز سے ترویج کرنے کی کوشش کی اور ہمیشہ بُری طرح ناکام ہوئے۔ ایسے بے شمار فرقوں میں سرِ فہرست ایک احمدی فرقہ بھی ہے جنہوں نے نہ صرف نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا بلکہ کثیر تعداد میں لوگوں کو یہ کہہ کر بھی گمراہ کیا کہ احمدی فرقہ بھی اسلام کا ایک فرقہ ہی ہے۔ 

 

-مرکزی خیال :

 

محترمہ عمیرہ احمد کے شاہکار ناول "پیرِ کامل" ﷺ کا بنیادی موضوع بھی ختمِ نبوت کا اقرار اور دفاع ہے۔ پیرِ کامل ﷺ اردو ناولوں میں اپنی الگ پہچان اور نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ پانچ سو صفحات پر مشتمل اس کہانی کے خزانے سے مذہب و روحانیت کی راہیں ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ صراطِ مستقیم پر صبر و شکر کے ساتھ چلنے کا عمل بھی سکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کے کردار اپنی ذات کی ترویج کے لیے مسلسل کوشاں نظر آئیں گے۔ کوئی ہدایت کا جگنو تھام کر توکل کے راستے پر چلتا نظر آئے گا اور کوئی گمراہی سے نیکی کے طویل سفر میں خود کو کانٹوں بھرے راستے سے گزارتا ہوا سامنے آئے گا۔ تمام کرداروں کی زندگیاں اور کہانیاں مختلف ہیں مگر ہر کردار کی زندگی کا محور و مقصد صرف ایک تلاش ہے، پیرِ کامل ﷺ کی تلاش! 

 

-مصنفہ کا اندازِ تحریر : 

 

عمیرہ احمد کے قلم کی سرِ فہرست خوبی یہ ہے کہ ان کی تحریروں کے موضوعات سحر زدہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ایک مصنف کی بے شمار تحریروں میں سے ایک تحریر ایسی ہوتی ہے جو نہ صرف مصنف کی پہچان بنتی ہے بلکہ اُسے عروج کی سیڑھیاں بھی پار کروادیتی ہے۔ پیرِ کامل ﷺ عمیرہ احمد کا ایسا ہی شاہکار ہے جس کی کہانی سے لے کر کرداروں تک تمام لوازمات امریت کے درجے پر فائز ہیں۔ اس کہانی کی اولین خوبی یہ ہے کہ دورانِ مطالعہ ایک لمحے کے لیے بھی قاری اس تحریر سے اپنی توجہ برطرف نہیں کرپاتا۔ اسلام اور دیگر فرقوں کے متعلق سوال اٹھانا اور اپنے الفاظ کے ذریعے واضح انداز میں سچ کو حق اور باطل کو جھوٹ کہنا یقیناً قابلِ تحسین عمل ہے۔ چند سال پہلے عمیرہ احمد نے پیرِ کامل ﷺ کی صورت میں جہاں ایک طرف اردو ناول کا اندازِ تحریر و بیاں تبدیل کیا وہاں ساتھ ہی ساتھ ختمِ نبوت کے موضوع کو بیان کرکے دنیا کو ایک بار پھر بتلادیا کہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہر فرد جھوٹا اور فاسق ہے۔ 

 

پیرِ کامل ﷺ عمیرہ احمد کی دیگر تمام تحریروں سے قدرے مختلف ہے۔ اس کہانی میں مصنفہ نے بیانیے پر زیادہ زور دیا ہے۔ کہانی میں مکالمہ مختصر اور بیانیہ زیادہ ہے۔ مصنفہ نے ناول کو اس انداز میں تحریر کیا ہے جیسے لکھاری قاری کو کہانی سنا رہا ہے اور قاری یوں محسوس کرتا ہے جیسے سینما کی اول فہرست میں بیٹھا کرداروں کو عین سامنے دیکھ رہا ہے۔ اس کہانی کے کردار قارئین سے اپنا تعارف خود نہیں کروارہے بلکہ مصنفہ جابجا بیان کررہی ہیں کہ یہ کردار ایسا ہے اور اس کا عمل ایسا ہے۔ اس کے علاوہ کہانی کو قدرے تیز رفتاری سے لکھا گیا ہے۔ پانچ سو صفحات میں انتہائی مختصر انداز میں نو سال سے طویل وقت کا عرصہ اس انداز میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہر سال میں ہر کردار کی زندگی مختلف اتار چڑھاؤ سے گزرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہانی کا زیادہ وقت مرکزی کردار "سالار سکندر" کو دیا گیا ہے۔ "امامہ ہاشم" کے کردار کو ابتدائی چند ابواب کے بعد مکمل طور پر روک کر دیگر تمام ابواب سالار سکندر کی زندگی پر اس مہارت کے ساتھ تحریر کیے گئے ہیں کہ ہر باب میں سالار کے ذریعے امامہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ ایسی کہانی ہے جس میں مرکزی کردار یعنی ہیرو ہیروئین کے درمیان صرف ایک طویل ملاقات تحریر کی گئی اور اس ملاقات کے چند اہم جملوں کے گرد مکمل ناول گھوم رہا ہے۔

 

-کردار : 

 

ناول کے مرکزی کرداروں میں سالار سکندر، امامہ ہاشم، جلال انصر اور ڈاکٹر سبط علی سرِ فہرست ہیں۔ 

 

زندگی میں کبھی نہ کبھی انسان پر ایسا وقت ضرور آتا ہے جب وہ ہدایت پانے کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ ہدایت کے دروازے ہر وقت ہر انسان کے لیے کھلے رہتے ہیں مگر پیرِ کامل ﷺ کی تلاش میں انسان کو آزمائشوں کا ایک طویل راستہ عبور کرنا پڑتا ہے۔ آخر میں صراطِ مستقیم کی منزل پر وہی انسان پہنچ پاتے ہیں جو توکل کا مشعل تھامے ہدایت کے تمام راستے صبر و شکر کے ساتھ عبور کرتے ہیں۔ 

 

-امامہ ہاشم کا شمار بھی ایسے انسانوں میں ہوتا ہے جو ہدایت کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کسی بھی آزمائش کے سامنے اُن کے مضبوط قدم ڈگمگا نہیں پاتے۔ امامہ کا کردار ایک مضبوط چٹان کی مانند ہے جس نے احمدی مذہب سے روگردانی کرکے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ حضور ﷺ کی محبت میں دنیا کی تمام آزمائشوں کو بھی ٹھکرا دیا۔ امامہ ہاشم نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ اس یقین کے ساتھ کیا کہ جو انسان اللہ کے راستے پر قدم دھرتا ہے، اللہ اس کے راستے کی تمام رکاوٹیں خود بخود دور کردیتا ہے۔ یقیناًایسے لوگ ہی اللہ کے انعام و اکرام کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ 

 

-زندگی میں اکثر ہم ایسے انسانوں سے ملتے ہیں جو بظاہر اُن تمام خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں جو ہم کسی بھی انسان میں دیکھنا چاہتے ہیں یا بذاتِ خود اپنانا چاہتے ہیں۔ مگر جوں جوں ہم ایسے انسانوں کے قریب ہوتے ہیں، اُن کی اصل فطرت ہمارے سامنے عیاں ہوتی رہتی ہے۔ جلال انصر اور سعد کا شمار بھی ایسے انسانوں میں ہوتا ہے جو بظاہر خوبیوں کا منبع نظر آنے کے لیے خود پر مذہب کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ وہ حق اور سچ پر ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس کچھ دیندار انسان ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی زندگی میں حقیقی رہنما کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سبط علی جیسے رہنما ایسے چراغ کی مانند ہوتے ہیں جن کے علم و عمل کی شعاؤں سے دین کی اصل روشنی ہر سُو بکھرتی رہتی ہے اور ان روشنی کی کرنوں سے کبھی ڈاکٹر فرقان جیسے ہزاروں افراد کی روح منور ہوتی ہے تو کبھی سالار سکندر جیسے ہزاروں افراد کی ڈوبتی کشتی کو کنارہ ملتا ہے۔ 

 

-اللہ کبھی کبھی کچھ انسانوں کو سب کچھ عطا کردیتا ہے۔ انسان چاہ بعد میں کرتا ہے، عطا پہلے کردیا جاتا ہے۔ مگر پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب نعمت و آسائشوں کی دولت سے مالا مال کرکے اللہ انسان کو آسمان سے اٹھا کر تمام تر نعمتوں سمیت پاتال میں پھینک دیتا ہے۔ اس وقت انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے کہیں بھی نہیں ہے۔ 

 

سالار سکندر کا کردار بھی ایسے انسانوں میں شامل ہوتا ہے جن کے پاس دنیا کی وہ تمام آسائشیں موجود ہوتی ہیں جن کی کوئی بھی انسان زندگی میں خواہش کرسکتا ہے۔ مگر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ وہ دنیا کی ہر نعمت کو مٹھی میں قید کرسکتا ہے سوائے سکون کے۔ اور اگر انسان یہ جان جائے کہ پیرِ کامل ﷺ کا دامن تھام کر ہی سکون کی وادی میں قدم رکھا جاسکتا ہے تو وہ کبھی سجدے سے سر نہ اٹھا سکے۔ 

 

سالار سکندر کی زندگی قدم قدم پر انسان کو یہ یاد دہانی کرواتی ہے کہ ہر خوشی اور ہر درد کی ایک انتہا ہے۔ اگر گمراہی کے اندھیروں سے نکل کر انسان روشنی کی کرنوں کی جانب سمت بدل لے تو کچھ شک نہیں کہ اللہ ایسے صالحین کو بے حد پسند کرتا ہے۔ 

 

کہانی کے وسط میں سالار سکندر اور امامہ ہاشم کے درمیان ہونے والا مکالمہ اس ناول کی وجہِ شہرت بھی ہے اور انسانی زندگی کا حاصل بھی۔ مصنفہ عمیرہ احمد نے سالار سکندر کے کردار کے ذریعے انسانی زندگی کا نچوڑ پیش کردیا ہے۔ خوشی کی انتہا سے درد کی انتہا کی طرف جاتے ہوئے انسان زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہوا بلآخر یہ جان جاتا ہے کہ سیدھا راستہ صرف حضور ﷺ کی سنت پر عمل پیرا کرنا ہے۔

آپ ﷺ ہی دراصل پیرِ کامل ہیں جو کاملیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ 

 

-اہم تحقیق : 

 

ناول پیرِ کامل ہر لحاظ سے مکمل اور جامع ہے ۔ کافی سالوں بعد اس ناول کا دوسرا حصہ آبِ حیات منظرِ عام پر آیا جس نے قارئین کو چونکا دیا۔ مگر پیرِ کامل میں ہی عمیرہ احمد نے انتہائی مہارت سے میں اس کے اگلے حصے کی پیشن گوئی کی ہے۔ 

 

اس کا واضح ثبوت ہمیں امامہ ہاشم کے خانہ کعبہ والے خواب کے منظر میں ملتا ہے جب وہ بیت الحرام میں اپنے سے چند قدم کے فیصلے پر بیٹھے شخص کو تلاوت کرتا دیکھتی ہے۔ وہ خوش الحان تھا اور اس کے برہنہ کندھے پر ایک نشان تھا۔ ڈاکٹر سبط کے گھر پر سالار سکندر کو دیکھنے کے بعد امامہ اس خواب کو یاد کرتی ہے اور فوراً کندھے کے اُس نشان کے بارے میں سوچتی ہے۔ جبکہ پیرِ کامل میں سالار کے کندھے پر کسی بھی چوٹ کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اس چوٹ کا تذکرہ ناول کے دوسرے حصے آبِ حیات میں تفضیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کے علاہ امامہ ہاشم کے گھر سے جانے کے بعد اس کے والد ہاشم مبین اور بھائی وسیم کا تذکرہ دوبارہ نہیں کیا گیا مگر ناول کے بالکل آخر میں وہ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر ختم نبوت کا اقرار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ بابا میری خواہش ہے میں آپ سے ملوں۔۔۔۔یہاں بھی مصنفہ نے واضح اشارہ دیا ہے کہ امامہ اپنے باپ سے دوبارہ ضرور ملے گی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پیرِ کامل میں کوئی بھی جملہ یا منظر غیر ارادی یا نا دانستہ طور پر نہیں لکھا گیا بلکہ ہر منظر کے پیچھے قدم قدم پر کوئی نہ کوئی مقصد ضرور نظر آیا ہے۔ 

 

-حرفِ آخر : 

 

پیرِ کامل ﷺ گمراہی سے نیکی کی طرف جانے والوں کی ایسی کہانی ہے جو آپ کو یہ باور کروائے گی کہ کامل پیر صرف حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ کی سنت کا دامن تھام کر انسان زندگی کے ہر کٹھن امتحان کو اس یقین کے ساتھ عبور کرسکتا ہے پیرِ کامل ﷺ آپ کو زندگی کے کسی بھی میدان میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ 

 

ناول پیرِ کامل ﷺ میں ہم سب کے لیے ہدایت ہے۔ آپ اس کہانی کو پڑھیے اور روشنی کی کرنیں سمیٹ لیجیے۔

 

-ختم شٗد