ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-30 19:24:13 Written by ماریہ سحر

"سمیرا حمید لفظوں کی ساحرہ ہیں"... ان کو پڑھ کر کوئی بھی یہ بات کہہ سکتا ہے لیکن ام الیقین پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف لفظوں کی ہی نہیں دلوں کی، جذبوں کی بھی ساحرہ ہیں. ام الیقین صرف دو لڑکیوں کی کامیابی کی داستاں ہی نہیں، ظلمت کے خلاف ایک جنگ ہے. ظلمت چاہے اپنی ذات کے اندھیروں کی صورت ہو یا معاشرے میں پیوست شدہ نہ دِکھنے والی جہالت کی شکل میں ہو. محاذ چاہے اپنے خلاف ہو یا کسی بھی بیرونی طاقت کے خلاف اس پہ لڑنا آسان نہیں ہوتا مگر ہمت، حوصلے، سچائی اور اخلاص کے ہتھیار اپنے پاس رکھنے والے ہی وقت کی چھلنی سے چھن کر آگے پہنچ پاتے ہیں، کامیاب کہلاتے ہیں. 

انہی ہتھیاروں سے لیس اس کہانی کے دو کردار دبیسا اور ھدٰی اپنی اپنی کامیابی وقت کے پنوں پر رقم کرتے ہیں. 

دبیسا کی داستان قدیم یونان کی داستان ہے. ھدی کی داستان کی جڑیں جدید امریکہ میں پیوست ہیں. جدت اور قدامت کی یہ دونوں داستانیں اس خوبصورتی سے ایک دوسرے کے ساتھ گندھی ہوئی ہیں کہ دبیسا کی کہانی کا چٹخارہ ھدی کی کہانی کی چاشنی کو ختم نہیں ہونے دے رہا. قاری جب قصہ گو کے ساتھ جذبوں میں اور کہانی کی روانی میں بہہ جاتا ہے تو لفظوں کا غیر معمولی استعمال بھی بے جا نہیں لگتا، مبالغہ آرائی نہیں لگتی. 

سمیرا نے کردار سازی، منظر نگاری، اور مکالمہ سازی پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہوئے ایک خوبصورت کہانی تشکیل دی ہے. کہنے کو یہ ایک فکشن ناول ہے مگر اس کے سبھی کردار ہمیں اپنے ارد گرد جیتے جاگتے سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں. سمیرا کا قلم رمز شناس ہے زمانہ شناس بھی. انہوں نے معاشرت کی بنیادوں میں بری طرح گھر کر چکی برائیوں کے نہایت آرام سے بخیے ادھیڑے ہیں اور پھر ان کے مرہم کا سامان بھی کیا ہے حل بھی بتایا ہے. جیسے انہوں نے زمانہ قدیم کے پتھروں کو آج کے انسان کی زبانوں سے انکی سوچ سے تشبیہہ دی ہے. سائنس نے دنیا کو جو جو کچھ بھی دان کیا اسکی مثال نہیں ملتی. ٹیکنالوجی نے دنیا کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے. گو! کل کے انسان کی نسبت آج کے انسان کی زندگی بے حد آرام دہ اور با سہولت ہے مگر اسی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کرنے والوں نے کسی حد تک منفی اثرات بھی ڈالے ہیں زندگی پر. کل بھی فرسودہ سوچ کے حامل لوگ موجود تھے دنیا میں اور آج بھی موجود ہیں. 

 

دبیسا اور اس کی کہانی کا ہر کردار قدیم یونان کی فصاحت، بلاغت اور فہم گوئی کا منہ بولتا ثبوت ہے. یوں محسوس ہوتا ہے کہ سمیرا نے اس کہانی میں لفظوں کے چناؤ کا خاص خیال رکھا ہے. کردار سازی کی بات کی جائے تو دبیسا کے مضبوط، پر امید کردار سے لے کر اس کے والد، اس کی والدہ، سہیلیاں، سہیلیوں کی مائیں، ہمسائے رشتے دار، شہر کے لوگ، جذامی ضعیفہ اور خرطوم تک سب ہی نہایت منفرد کردار کے حامل لوگ ہیں. ایک دوسرے سے یکسر مختلف. یہاں کہانی کے مصنوعی پن کا احساس تک جاتا رہتا ہے قاری کے ذہن سے. دبیسا اور اسکے والد کی گفتگو نے کہانی کو چار چاند لگا دیے ہیں. "والد.... آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ آپ ایک زندگی سے دوسری زندگی میں پہنچ جائیں گے"... دبیسا کے اسکے والد کے ساتھ حد درجہ مضبوط تعلق کی نشاندھی کرتا ہر ہر لفظ... دبیسا کا تعلق اسکے اپنے خاندان سے ہو، اسکے شہر کے لوگوں سے ہو، گھاٹیوں کے جذام زدہ مریضوں سے ہو، اپنے پرندے سے ہو یا پھر اپنے خالق سے... ہر پہلو میں قاری کو ایک معطر سی شفافیت چھلکتی دکھائی دیتی ہے. 

سمیرا نے روایتی، روتی دھوتی، اپنے شہزادے کا انتظار کرتی ایک نازک اندام حسینہ کا خاتمہ بالخیر کر دیا ہے، اور اچھا بھی ہے. اب معاشرے کو ایک ایسی ہی مضبوط، جرآت مند با کردار لڑکی کی ہی ضرورت ہے جیسی دبیسا تھی. قدیم یونان کی منظر نگاری اس دلچسپی سے کی گئی ہے کہ کہیں بھی قاری کو ایک لمحے کو بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ بیت المقدس کے ہمسایہ شہر میں نہیں ہے. یا وہ دبیسا اور اس کے والد کے ساتھ ان گھاٹیوں میں پاؤں لٹکا کر نہیں بیٹھا، یا وہ سمندر سے آتی ان لہروں کو اور ان کی آوازوں کو سن نہیں پا رہا. حتیٰ کہ کوڑھیوں کو لگنے والے پتھر بھی خود پر برستے محسوس کرتا ہے. دبیسا کی کہانی جس طرح سے آگے بڑھتی ہے قاری خود کو اس کہانی میں جیتا جاگتا پاتا ہے اور یونان کی اس اعلی قدامت کا حصہ بنتا جاتا ہے. 

 

وہیں دوسری طرف جدید زمانے میں مست ایک لڑکی ھدی جب کینسر سے نبرد آزما ہوتی ہے تو کیسے اپنے زمانے کے خداؤں اور اپنی ذات کے بت کدوں سے لڑتی ہے. یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ سمیرا نے آج کے دور کی ہر چھوٹی بڑی چیز کی مثال کو کہانی میں نگینے کی طرح جڑا ہے. بے شمار سلیبریٹیز کا ذکر.. خوبصورت اقوال، انگریزی کے لفظوں کا متناسب استعمال اور جدید ٹیکنالوجی کا مثبت و منفی اثر... ان سب کا بجا ذکر. کینسر فائٹر عرفان خان (مرحوم) کے الفاظ اور علی بنت کی باتیں سب امید بانٹتے لفظوں میں گھول دیں ہیں. یہاں ھدی کا اور اس کے گروپ کے کردار، ماما پاپا کے کردار، لائم اور شیلے تک کے کردار بھی اپنی انفرادیت رکھتے ہیں. ھدی کی جنگ دبیسا کے برعکس خارجی سے زیادہ داخلی عوامل پر مشتمل رہتی ہے. وہ خود سے اپنی سوچوں سے اپنی ہی ضد سے برسر پیکار ہے تب جب نگران فرشتہ اسے اس کا آپ یاد کروانے کےلیے ظاہر ہوجاتا ہے اور اسے زمانوں پہلے کی ایک باہمت لڑکی کی کہانی سناتا ہے. یہ سب کس قدر طلسماتی ہے! 

دنیا کے سبھی مذاہب کےلیے سمیرا کا قلم صرف اور صرف عزت و احترام ہی لکھتا ہے اور یہ انسانیت کی سب سے اونچی معراج ہے. ھدی کا وہ مسجد میں رات گزارنا اور دوسری خواتین کے کسے جانے والے طعنے کہ "یہ بیماری اس کے گناہوں کا نتیجہ ہے"... یہ غلط سوچ ہمارے معاشرے میں اس قدر گھر کر چکی ہے کہ بڑے سے بڑے انسان بھی اس بات کو سچ سمجھنے لگ گئے ہیں. تو گویا! زمانہ قدیم کے پتھروں نے اور روپ دھارن کر لیا ہے مگر وہ اب بھی انسان کو لہو لہان کرنے کےلیے موجود ہیں. 

شیلے کا ھدی کو پھول دینے کا اسرار کہانی میں اپنی ایک الگ دلچسپی لیے ہوئے ہے. والد کا پھولوں کی ٹوکری لے کر دریا کنارے پر روز بیٹھنا بھی بے حد حسین علامت ہے. 

دبیسا کو جب جذام ہوتا ہے اور ھدی کو کینسر تو دونوں اپنے اپنے زمانوں میں اپنی اپنی جنگ لڑ کے خدا کی چاہت کو شفا کو زمیں پر لے آتی ہیں. کہانی بے حد clarity سے آگے بڑھتی ہے اپنے اختتام کی طرف. جب دبیسا کا قافلہ اللہ کے نبی عیسیٰ سے کوڑھ کا علاج کروا کے پلٹ رہا ہوتا ہے اور والد اس کے استقبال کےلیے پانی میں پھول بہانے لگتے ہیں. ویسے ہی ھدی کا کانگو کے ہسپتال میں آنکھیں کھولنا... 

سمیرا نے امید کی یہ خوبصورت داستان تحریر کرکے بہت سے دلوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے... 

 

ماریہ سحر