ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-31 19:02:26 Written by عندلیب زہرا

پیرکامل

 

’’ہر انسان کو زندگی میں کبھی کبھی پیر کامل کی ضرورت پڑتی ہے۔کبھی نہ کبھی انسانی زندگی اس موڑ پر آ کر ضرور کھڑی ہو جاتی ہے جب یہ لگتا ہے کہ ہمارے لبوں اور دل سے نکلنے والی دعائیں بے اثر ہو گئی ہیں۔سجدے اور ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھ رحمتوں اور نعمتوں کو اپنی طرف نہیں موڑ پا رہے۔یوں لگتا ہے جیسے کوئی تعلق ٹوٹ گیا ہے۔۔

پھر آدمی کا دل چاہتا ہے کوئی اور اس کیلئے ہاتھ اٹھائے،کسی اور کے لب اس کی دعا اللہ تک پہنچائیں۔۔پھر انسان پیر کامل کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔‘‘

یہ سطور عمیرہ احمد کے شاہکار ناول پیرکامل کی طرف مجھے پوری گہرائی کے ساتھ پیرکامل کی طرف مجھے متوجہ کر گئیں اور اس ناول کے اصل تعارف کا باعث بنیں۔

ایک اچھے لکھاری کی کیا خوبی ہے ،وہ ہر موضوع پر قلم اٹھا سکے،قاری کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے سکے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس کی تحریر پر اثر ہو۔اس کے قلم کی ہر جنبش کے ساتھ قاری ہنسے ،روئے،متجسس ہو،پرسکون ہو،مضطرب ہو۔یقینا یہ ایک مشکل امر ہے پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک ،لکھاری کے قلم کے ساتھ ساتھ قاری بھی ہم سفر ہو۔

ناول پیر کامل،مصنفہ عمیرہ احمد۔۔یقینا کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔’زندگی گلزار ہے‘ سے جو شہرت کا سفر شروع ہوا ،اس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑی۔عمیرہ احمد نے لکھنے میں نیا انداز متعارف کروایا۔گویا پاکستان میں ناول نگاری نے روایتی انداز سے نکل کر جدت کی طرف ایک قدم بڑھایا۔مقصدیت اور خاص سوچ کو پروان چڑھایا اور لب و رخسار،زلفوں ،آنکھوں سے ہٹ کر بھی کچھ سوچنے کی دعوت دی۔عمیرہ احمد نے لکھا ،بہت لکھا اور خوب لکھا لیکن ہر فن کار اپنا شاہ کار ضرور تخلیق کرتا ہے۔ایسا شہ پارہ جو اس کی اپنی ہی تخلیقات کی روشنی کو اپنے ہی ہنر سے ماند کر دے۔۔اور پیر کامل ایسا ہی شاہکار ہے۔عمیرہ احمد کہتی ہیں کہ یہ ناول ادبی حلقوں میں موضوع بحث بنا رہا۔اس پر تنقید ہوئی یقینا ناول نگاری کی رو سے اس میں کچھ سقم ہو سکتے ہیں لیکن موضوع کے اعتبار سے میرے نزدیک ایک بہترین کاوش ہے جس میں ایسے موضوع کو پیش کیا گیا ہے جو دور حاضر کی ضرورت ہے۔۔بالخصوص نئی نسل کیلئے۔

قادنیت محض ایک عقیدہ نہیں،نظریہ نہیں بلکہ ایک فتنہ ہے۔پوری امت ِ مسلمہ کیلئے،ہمارے نبی کی پاک کی شان میں گستاخی ،عنوان سے لے کر آغاز اور پھر انجام تک ،مصنفہ کا قلم عشق رسول میں ڈوبا ہوا ہے۔

میرے ہاتھوں اور میرے ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں

میں نے اسم محمد کو لکھا بہت اور چوما بہت۔۔

اس ناول نے مجھے آغاز سے ہی اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔عام ڈگر سے ہٹ کر بہت ہی سلیس انداز میں لکھا جانے والا ناول جس میں عمدہ انداز میں موضوع کو پیش کیا گیا ہے۔یہ ناول مثلث کی طرز پر تحریر کیا گیا ہے۔اس کے ایک کونے میں اللہ کی ذات کی تلاش ۔۔رابطہ ہے۔دوسرے کونے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے۔تیسرا کونا دنیاوی خواہشات،دنیاوی فتنے اور آزمائشیں ہیں۔مجھے یہ ناول پڑھ کر احساس ہوا کہ میں خوش قسمت ہوں۔جس نے ماں کی گود میں توحیدو رسالت کے سارے اسباق ازبر کر لیے ہیں۔مسلم گھرانے میں جن لینے والے ہم سب مسلمان ختم نبوت پر یقین رکھنے والے کتنے بانصیب ہیں۔وہ لوگ جو اس عقیدے کو اپنانا چاہتے ہیں یا اپنا چکے ہیں۔۔ تڑپ،اضطراب،آزمائشیں اور پھر ان کا انعام ،بامراد تو وہی ٹھہرتے ہیں جو اس عقیدے کو پوری روح کے ساتھ اپنے دل میں اتار لیتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔

امامہ ہاشم اور سالار سکندر اس کے مرکزی کردار ہیں۔امامہ ہاشم،نوجوان لڑکی ایک ایسا کردار ہے جو یقین اور قوت ایمانی سے مالا مال ہے جو ہدایت کا ننھا سا موتی مٹھی میں دبائے ہر امتحان میں بغیر ٹھوکر کھائے بغیر پسپا ہوئے صراط مستقیم پر گامزن ہے جو اپنے ہر خواب ،محبت، خاندان ،خونی رشتوں کی قربانی صرف اس لئے دے رہی ہے کیونکہ اس کا ہر خواب ۔محبت،خاندان رسول کریم کی محبت کے مقابل کھڑے ہیں۔امامہ ہاشم جو قادیانی فرقے کے مضبوط رہنما کی بیٹی ہے جو خود کو اپنی دانست میں مسلمان سمجھتا ہے۔حالانکہ وہ ایسا ہے نہیں۔اور امامہ اپنے خاندان ،منگیز اسجد کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔ڈاکٹر بننا اور اسجد سے محبت اس کے دو خواب ،دو خواہشیں ہیں جن کے حصول کی منزل دور نہیں۔اس کے سکون میں پہلی دراڑ تب پڑتی ہے جب اس کی قریبی سہیلی جویریہ اس خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ وہ مسلمان ہو کر جنت میں اس کی ہم قدم ہو۔امامہ ششدر رہ جاتی ہے۔عمیرہ احمد کی کردار نگاری کی خوبی یہ ہے کہ دو متضاد کردار مکالمہ بول کر قاری پر لکھاری کی سوچ واضح کر دیتے ہیں۔جویریہ کی دھیمی طبیعت کے سامنے تحریم کا جارحانہ انداز ،نفرت اور بیزاری ہے جو وہ قادیانی فرقے کیلئے رکھتی ہے۔ایسے میں امامہ کا استفسار،اپنا موقف دلائل سے ثابت کرنا ،پھر اپنے عقیدے کی کتابیں لا کر قائل کرنے کی کوشش کرنا ،یہیں سے عمیرہ احمد کہانی میں ٹرننگ پوائنٹ لا کر قاری کو چونکا دیتی ہیں۔اپنی تحریروں میں مکالمہ نگاری سے کرداروں میں جان ڈال دیتی ہیں۔امامہ اور تحریم کے مابین ہونے والے مکالمے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔عمیرہ احمد نے جس عرق ریزی سے قادیانی فرقے کے عقائد ،نظریات اور ان کے مقاصد کا جائزہ لیا ہے اور عوام بالخصوص نوجوان نسل کے سامنے رکھا ہے ۔وہ قابل تعریف ہے۔

امامہ ہاشم کے والد ہاشم مبین کا کردار بھی بہت مضبوط اور نمایاں ہے جو ایک راسخ العقیدہ شخص ہے اور اس کے عقیدے کی بنیاد دنیاوی مفاد پرستی پر مبنی ہے۔امامہ کے بدلتے اطوار سے وہ کھٹک جاتا ہے لیکن تبدیلی کا جو سرچشمہ امامہ کے اندر پھوٹا ہے وہ آہستہ آ ہستہ بڑھتا جا رہا ہے۔ہدایت کے اس سفر میں اسے رہبر ملتے ہیں اور یہاں تک کہ اس تبدیلی اتنی زور آور ہو جاتی ہے کہ وہ پوری کی پوری دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتی ہے۔امامہ اور سالار کے کرداروں کی سوچ اور شخصیت واضح کرنے کیلئے باقی کردار تخلیق کئے گئے ہیں۔چاہے وہ ہاشم مبین ہو،یا ڈاکٹر سبط علی ،جویریہ ،تحریم ،اسجد ،جلال ،غرض کہ اس کہانی کے ہر پہلو نے امامہ اور سالار کے کردار نمایاں کرنے میں مدد دی ہے۔امامہ فطرتاً مضبوط ارادوں کی لڑکی ہے اور نبی پاک سے محبت اسے مزید استقامت عطا کرتی ہے۔شاید اس لئے وہ ہر آزمائش اور امتحان کو عبور کرتی جار ہی ہے۔جب دل بدلتا ہے تو نظر سوچ اور روح بھی بدل جاتی ہے۔یہی حال امامہ کا ہے۔تبدیلی کا سفر بتدریج جاری ہے۔اسجد سے جلال تک کا سفر۔۔کیا محض عقیدے کی تبدیلی اتنی طاقتور ہو سکتی ہے کہ انسان سرتاپا بدل جائے ؟یہ بات مصنفہ کا قلم بخوبی بیان کرتا ہے۔امامہ کی مناجات ۔۔التجا ۔۔آنسو اس کی رسول پاک سے محبت کوکتنی رقت انگیز کیفیت میں تحریر کیا گیا ہے۔’میرے مقدر کی تیرگی کو مٹادے‘۔ان سطور کے ساتھ روح کا بالیدگی کا عمل بخوبی بیان کیا گیا ہے۔جلال کو پسند کرنے کی وجہ اس کا نعت رسول مقبول پڑھنا ہے اور سالار کے سامنے وہ برملا اپنی سوچ کا اظہار کرتی ہے۔عمیرہ احمد نے اپنے ناول کے ذریعے نام نہاد ٹھیکے داروں کا پرچہ بھی چاک کیا ہے۔جلال اور سعد ،دو ایسے ہی کردار ہیں جو بظاہر تو مسلمان ہیں ویسے ہی جیسا ہونا چاہیے لیکن خلوت ،سوچ ،روح کثافتوں سے پر ہے۔وہ اسلام کی اصل روح کو اپنے اندر اتار ہی نہیں سکے۔اس لئے ان کا درس ،ان کا کردار منافقت کا عکاس ہے۔عمیرہ احمد نے اس ناول کے ابتدائی حصے میں قادیانی فرقے کے نظریات کو بیان کیا ہے۔ان کی کتب،جھوٹے نبی کی دروغ گوئی،پیش گوئی اور چھوٹے بچوں کو یتیم خانے سے حاصل کرنا اور نظریات کی تشہیر کیلئے استعمال کرنا گویا یہ فتنہ اسلام کے خلاف کیا مقاصد رکھتا ہے اس ناول میں بخوبی بیان ہے۔

عمیرہ احمد کو مکالمہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔مضبوط مکالمے سین کو جاندار بنا دیتے ہیں۔ہاشم مبین اور امامہ کے مابین ہونے والے مکالمے دونوں اپنے اپنے نظریات کی انتہا اور مضبوطی کو بیان کر رہے ہیں۔’دوزخ میں کھڑا ہو کر دوزخ سے ڈرانے والا شخص‘ان سطور میں ہاشم کا کردار کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔بہترین ناول نگار ہر منطقی انجام پر یقین رکھتا ہے اور عمیرہ احمد نے ہر کردار کو منطقی انجام سے دوچار کیا ہے۔مجھے امامہ کی مضبوط قوت فیصلہ نے متاثر کیا ہے۔امامہ کے بالمقابل سالار سکندر کا کردار ہے۔غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔بلندآئی کیو لیول رکھتا ہے۔امامہ کے مقابلے میں سالار سکندر کا کردار مصنفہ نے زیادہ باریک بینی سے پیش کیا ہے۔اس کی مردانہ وجاہت ،نشست و برخاست،باڈی لینگوئج۔۔ہر بات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔امامہ ہاشم بہت ذہین و فطین نہیں بس ہتھیلی میں ہدایت کا ننھا سا موتی ہے۔سالار سکندر جو غیر معمولی آئی کیو لیول کا حامل شخص ہے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی تہی دامن ہے۔دونوں اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اپنے اندر کے اٹھتے سوالوں کے متلاشی ہیں۔دونوں میں ٹاکرا ہوتا ہے۔ایک دوسرے کے مخالف۔۔ایک دوسرے کے الٹ ۔لیکن جب ایک منزل کی جانب رواں ہوتے ہیں تو سب کچھ ریت کی طرح بھربھرا ہو جاتا ہے اور بس محبت باقی رہ جاتی ہے۔ایمان کی دولت۔۔سالار کا کردار تخلیق کرتے ہوئے عمیرہ نے بچپن سے آغاز کیا ہے۔اس کی غیر معمولی ذہانت و وجاہت اس کے تکبر کا سبب ہے۔

ایلیٹ کلاس کا پروردہ جہاں عیب ،عیب نہیں ہے۔امامہ اور سالار بے چین فطرت رکھتے ہیں۔امامہ حق کی تلاش میں مضطرب رہتی ہے۔سالار اپنے اندر کے سوالوں کے جواب کیلئے منتشر رہتا ہے۔وہ جاننا چاہتا ہے کہ انتہا کے بعد کیا ہے۔اس کے خیالات ملحدانہ ہے۔رب سے اس کا رسمی واسطہ بھی نہیں۔چیریٹی خیرات پر اس کا یقین نہیں۔اپنی طاقت اور ذہانت کے بل بوتے پر وہ دنیا تسخیر کرنا چاہتا ہے جب خدا اسے اس کی اوقات یاد دلا دیتا ہے۔فلیٹ کی تنہائی،اپنوں سے دوری،بے بسی کی حالت،گندگی کا احساس ،۔۔یہ سطور میں نے سراسیمہ کی حالت میں پڑھی تھیں۔۔اور یقینا باقی پڑھنے والے بھی اس کیفیت سے دو چار ہوئے ہوں گے۔زندگی میں کبھی کبھی ہم اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے۔

جس طرح تحریم سے گفتگو امامہ میں تبدیلی کا باعث بنی ،اسی طرح یہیں سے سالار سکندر کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔اسے اپنے دل کی بے چینی کا تدارک چاہیے وہ اپنی ذات کی طرف سفر کررہا ہے مگر اندھیرے میں بغیر رہبر کے ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔سالار سکندر کے کردار کے ساتھ قاری بھی ہم قدم ہیں۔اس کا بچپن،نوعمری،گرل فرینڈ،خودکشی،ریڈ لائٹ ایریا جانا اور نت نئے ایڈونچر ۔۔ہم اس کے ہم سفر ہیں جب ایک ایڈونچر کی طرح وہ امامہ سے نکاح کر لیتا ہے۔ایک اچھا ناول نگار قاری کو چونکا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پیر کامل میں ایسے بہت سے مقامات آتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے،بھروسہ نہیں کرتے،لیکن سچ ہے انسان کیوں نہیں کر سکتا،اگر رب نہ چاہے۔۔اس ناول میں رومینس نہ ہونے کے برابر ہے۔عمیرہ احمد نے زبردستی ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔رات کے وقت۔۔سفر،تنہائی،آپس کے مکالمے،منظر نگاری کمال کی ہے۔دونوں کا کردار ایک دوسرے کے سامنے کھل کر آ جاتا ہے۔سالار کی ڈھٹائی قارئین پر واضح ہو جاتی ہے تو امامہ کا اللہ اور رسول پر اعتقاد، یقین جو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔اس مقام پر سالار کے ساتھ قاری بھی گنگ ہو کر رہ جاتا ہے جب امامہ برجستہ کہتی ہے۔’’مجھے یقین تھا تم مجھے کہیں اور نہیں لے جاؤ گے‘‘۔

وہ اس بات پر ہنسا۔’’مجھ پر یقین تھا۔۔کیوں؟میں ایک برا لڑکا ہوں‘‘

’’مجھے تم پر یقین نہیں تھا اللہ پر یقین تھا میں نے اللہ اور اپنے پیغمبر کیلئے سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔یہ کبھی نہیں ہو سکتا وہ مجھے تم جیسے آدمی کے ہاتھوں رسوا کرتے۔یہ ممکن ہی نہیں تھا‘‘۔اس ناول میں رموز و اوقاف کا خیال رکھا گیا ہے۔اس باب میں عمیرہ احمد نے امامہ کا کردار بالکل پس پردہ کر دیا ہے۔۔اور پھر ان کا سارا زور قلم سالار کے کردار کو پیش کرنے میں صرف ہوا ہے۔یہاں ان کی ناول نگاری میں مجھے عدم توازن محسوس ہوا۔کسی قدر سقم بھی۔۔لیکن قارئین کی دلچسپی کسی مقام پر کم نہیں ہوئی۔آغاز میں سالار کا کردار بے رحم،غیر جذباتی اور خود پسند لگا۔اس ناول میں عمیرہ احمد نے انسانی نفسیات کو بخوبی بیان کیا ہے ۔۔

انسانی کمزوریاں۔۔جبلت،بشری تقاضے۔۔کہنے کو یہ ایک ناول ہے لیکن اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ایلیٹ کلاس ،مذہبی نظریات،معاشرتی روئیے۔۔عمیرہ احمد نے ہر پہلو پر قدم اٹھایا ہے اور خوب اٹھایا ہے۔ناول میں اکثر مقام ایسے ہیں جب قاری نے کردار کے ساتھ آنسو بہائے ہیں،اس کے ساتھ سفر کیا ہے۔اس کا درد اپنے دل میں محسوس کیا۔جب سالار شدید خوف کے عالم میں اپنے دوست کے ہمراہ امامہ کی تلاش میں ریڈ لائٹ ایریا جاتا ہے۔۔اور جب اس کو علم ہوتا ہے کہ امامہ وہاں نہیں ہے۔ایسے میں لکھاری کا قلم جذبات نگاری کے بہاؤ میں ہمیں بھی بہا لے جاتا ہے۔

’’وہ طوائف کے کوٹھے پر جانے والا پہلا مرد تھا‘‘یہ جملہ کہ اس کو شعور دیا گیا ہے آگہی نہیں دی گئی۔گہری مفاہمت رکھتا ہے۔ان مردوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو نفس کی لذت کیلئے وہاں آتے ہیں۔انسان کی نفسیات ہے کہ وہ کسی لمحے میں قید ہو جاتا ہے۔کوئی واقعہ یا رویہ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔امامہ کی بالیاں اور ان میں لٹکتے موتی سالار کی یادداشت میں کوئی پل بن کر ٹھہر جاتے ہیں۔نیویارک کے فلیٹ میں گرل فرینڈ کے لاکٹ میں جھولتا موتی،دوست کے ڈیش بورڈ میں رکھی بالیاں۔۔

انسان اللہ کی ذات کے سامنے کس قدر بے صبر ہے اس کا اظہار مصنفہ کے قلم نے قدم قدم پر کیا ہے۔

What is next to Ecstasy,

And what is Next To Pain,

Nothingness

مارگلہ کی پہاڑیوں پر تنہائی،تکلیف۔۔بے بسی کے عالم میں سالار اپنے سوالوں کا جواب پا لیتا ہے۔عمیرہ احمد نے اپنے قلم سے صوتی اثرات پیدا کئے ہیں۔ان کا قلم سرسراہٹ ،خوف کی کیفیت خوب بیان کرتا ہے۔مصنفہ نے اماں سعیدہ کے کردار کے ذریعے مزاح نگاری کو بیان کیا ہے۔اماں سعیدہ جو سن رسیدہ،کھری خاتون ہیں اپنی بیٹی آمنہ جو دراصل امامہ ہاشم ہے سے سچی محبت کرتی ہے۔سالار اور ان کی ملاقات حادثاتی طور پر ہوتی ہے۔کچھ کردار اس میں روشن مینار کی طرح سامنے آتے ہیں۔ڈاکٹر سبط علی،فرقان۔۔خاص طور پر ڈاکٹر سبط علی،ان کی گفتگو اصل نچوڑ ہے جو عمیرہ احمد کا قلم لکھنا چاہتا ہے۔رب سے تعلق،شکر گزاری،قربت ،ہدایت۔۔ان الفاظ میں انہوں نے اصل اسلام اور باعمل مسلمان کا نقشہ بیان کیا ہے۔

سالار کا کردار جامد نہیں ہے بلکہ اس ناول میں ہر کردار متحرک ہے۔انتہا پسندی ہر کردار اور روئیے میں جھلکتی ہے۔ماسوائے ڈاکٹر سبط علی کے۔۔سالار کا کردار نشیب و فراز ،نفسیاتی تبدیلیوں کے ساتھ سفر کرتا ہوا اس سانچے میں ڈھل جاتا ہے جو عمیرہ نے اپنے کرداروں کیلئے متعین کیا ہے۔پیر کامل موضوع کے حساب سے مختلف،مشکل اور خشک تھا۔رومانیت کی گنجائش بہت کم نکلتی ہے لیکن مصنفہ جس ہنر کے ساتھ قاری کو لے کر چلی ہیں ،قابل تعریف ہے۔سالار اپنی ذات کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔امامہ اپنی ذات کا وہ سرا پاچکی ہے جس کیلئے سالار دربدر ہے اور سالار کی ذات کی کشمکش اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب دوران سفر اسے فرقان کے ذریعے پیر کامل تک رسائی ہوتی ہے اور یوں اس کی ذات کی تمام الجھنیں سلجھ جاتی ہیں۔اسے امامہ اپنے سے کئی قدم آگے نظر آتی ہے۔اور امامہ کی یاد کسک،تڑپ ،اضطراب بن کر اس کا ساتھ دیتی ہے۔دعا میں،عباد ت میں وہ امامہ کا تذکرہ کرتا ہے۔سالار کے الفاظ امامہ کیلئے محبت و عقیدت کی کس معراج پر ہیں۔

’میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا مگر میں عام بشر ہوں گناہ گار بشر،میری ذلت اور پستی کی انتہا اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ میں یہاں کھڑا ،حرم پاک میں کھڑا،ایک عورت کیلئے گڑگڑا رہا ہوں مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر۔ایک اور مقام پر سالار کی محبت ملاحظہ کریں۔’’میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں‘‘

ہم کتنے کامیاب ،ذہین ہوں ،ہمیں درست رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جو پیر کامل تک لے جائے جو رب کی ذات کو ہمارے اندر اتار لے۔جیسے امامہ ہاشم اسے احمق لگی تھی جو بغیر سوچے سمجھے گھر سے نکل پڑی۔ بعد میں اسے یقین آگیا تھاکہ واقعی حضرت محمد کی محبت میں اس حد تک گرفتار ہو سکتا ہے کہ سب چھوڑ دے۔ہاں چھوڑ دے۔۔

اس ناول میں عمیرہ احمد نے ڈرامائی عنصر کو بخوبی شامل کیا ہے۔مارگلہ کی پہاڑیاں،طوائف کا کوٹھا۔۔امامہ اور سالار کا نکاح پھر ڈرامائی عنصر کو موثر بنانے کیلئے صوتی اثرات کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ڈرامائی موڑ اس وقت عروج پر ہوتا ہے جب اماں سعیدہ کی بیٹی کی شادی ملتوی ہوتی ہے اور ڈاکٹر سبط علی سالار سے درخواست کرتے ہیں ایسے میں اس کی نرمی ،مکالمے،عامی ہونے کا احساس قاری کو دلگیر کر دیتا ہے۔

’’میری خواہش دیکھیں میں نے اللہ سے کیا مانگا؟ایک ایسی لڑکی جسے کسی اور سے محبت ہے جو مجھے اسفل السافلین سمجھتی ہے ‘‘اور امامہ کی سوچ۔۔

’’اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں میری نہیں،ہر بار مجھے پلٹا کر اس کی طرف بھیجا گیا‘‘اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔امامہ اولوالعزم ہے لیکن رسول پاک سے محبت اسے ہر اس مقام پر جھکا دیتی ہے جہاں وہ جھکنا نہ چاہے۔عمیرہ احمد کے قلم میں رومانیت ،نرمی اوروہ رچاؤ محسوس نہیں ہوتا جو خاتون ناول نگار کے قلم میں نظر آنا چاہیے لیکن سالار اور امامہ میں رومینس بناتے ہوئے ان کا قلم ماحول کی پاکیزگی کے ساتھ جذبات کو بہت خوبی سے بیان کرتا ہے۔لب و عارض کی بجائے موتی سے رومانوی تاثر پیدا کرناعمیرہ احمد کا کمال ہے۔’’سالار بالکل ساکت تھا۔یوں جیسے اسے یقین نہ آیا ہو۔چند لمحو ں کے بعد اس نے بڑی نرمی سے امامہ کے گرد بازو پھیلائے۔

’’یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے‘‘اس ناول میں عمیرہ احمد نے مختلف پہلوؤں بیان کیا ہے۔سوچ کا تصادم دکھایا ہے۔نظریات پر قلم اٹھایا ہے۔طبقات کی شورش بھی بتائی ہے اور مذہبی نکات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔انسانی نفسیات کی الجھی گرہیں بھی سلجھائی ہیں لیکن یہ عام شوریدہ دھارے ایک ہستی ،ایک منزل تک پہنچ کر پرسکون جھرنے بن جاتے ہیں جب انہیں ہدایت کا موتی مل جاتا ہے اور پیر کامل کی ذات۔۔

امامہ کے مکالمے پڑھیے جو حاصل ہیں۔

’’میری خواہش ہے بابا،کہ میں زندگی میں ایک بار آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتا دوں کہ دیکھ لیجئے میرے چہرے پر کوئی ذلت کوئی رسوائی نہیں۔میرے اللہ اور میرے پیغمبر نے میری حفاظت کی ،مجھے دنیا کیلئے تماشا نہیں بنایا۔‘‘

ناول اپنی معنویت کے اعتبار سے مکمل ہے۔اسے ہر لائبریری،بک شیلف اور مسلمان کے دل کی زینت بننا چاہیے۔

                                                                                                              ختم شد

عندلیب زہرا