ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-06-06 19:02:21 Written by عائشہ فردوس

عکس

اک اچھوتے موضوع کو لکھی گئی انوکھی تحریر.... 

 

چائلڈ ابیوز جیسے گھناونے موضوع پر پہلی بار قلم اٹھایا گیا اور یہ جرات صرف عمیرا احمد ہی کرسکتی تھی۔ 

 عکس وہ ناول جسمیں مذہب یا مذہبی نظریہ دور دور تک نظر نہیں آتا اور یہ عمیرہ احمد کے قارئین کے لئے کچھ حد تک حیرت انگیز ہے۔

اس بار عکس میں عمیرہ نے سماج اور معاشرتی برائی کو نوک تحریر پر لایا ہے ۔

ہاں عمیرہ احمد کا من پسند ماحول سول سوسائٹی ہے۔۔ 

ہمارے معاشرے میں child abuse جسطرح ان سنا ان دیکھا کر دیا جاتا ہے ایسے لگتا ہے کہ ہو تا ہی نہیں ۔۔۔مگر یہ اک تلخ حقیقت ہے اور اس کے شکار پھر نارمل زندگی نہیں گزار سکتے۔

 

اور اک سفاک سماجی حقیقت یہ کہ ایسے کیسز میں وکٹم کو ہی اکثر offenders بنا یا جاتا ہے اس پر بھی انھوں نے لکھا ہے اور اگر یہ victimنچلے طبقہ سے ہو اورoffender اونچے طبقہ سے تو پھر کھیل آسان ہے..... معاملہ ہی ختم! 

عکس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔ 

مگر عکس نے کہانی بدلی، زندگی بدلی۔۔۔ اس کے ذریعہ عمیرہ نے اک نیا رخ سامنے لایا کہ۔۔۔ زندگی اس کے بعد بھی آگے بڑھ سکتی ہے

 روتے روتے زندگی گزارنے کے بجائے اس نے اپنی زندگی کو تبدیل کیا۔۔

یہ عزم و ہمت کی کہانی چڑیا سے عکس مراد علی کی ، سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھی لڑکی سے ملنے والی سلامتی تک...  

 

گو کہ میں نے لکھا کہ مذہب کہیں نہیں ہے مگر ایسا عمیرہ احمد کے پاس ہو سکتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔نہیں ناں

 

تو خطبہ حجتہ الوداع کو یاد کیجیے اور عکس مراد علی کی عزت کی لڑائی.... کہ عزت واکرم سب کے لئے ہے ۔

 اسلام میں سیاہ و سفید سب برابر ہے

یاد کیجئے رسول اللہ ﷺ کا نظریہ اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو سزا وہی ہوتی۔۔۔۔ 

 

عکس مراد علی " شہد کی دلدل"...یہ کردار معاشرے کےاس دوہرے معیار کے خلاف سینہ سپر ہوتا ہے اور بے حد مثبت انداز میں۔۔ کہیں کوئی تلخی نہیں کوئی بغاوتی انداز نہیں۔۔۔۔ 

عکس میں

دو کردار اور انکی محبتیں بہت نمایاں ہیں بے حد مماثلت رکھتے ہوئے بھی الگ ہے 

اک

چڑیا اور نانا

شیردل اور مثال

دونوں کی محبت بے انتہا ہے۔۔

مگر شیر دل اور مثال باپ اور بیٹی کی محبت سے ذیادہ طاقتور چڑیا اور نانا کی محبت ہے

شیر دل مثال کے کمزور لمحوں میں ساتھ نہیں ہوتا ،جبکہ وہ اسکا سہارا بن سکتا تھا اور اسکا مثال سے تعلق بھی استوار ہوچکا تھا۔

دوسری طرف چڑیا کے لئے اسکا نانا ہمیشہ کھڑا رہا۔۔۔ اور اسکی بیک بون رہا۔۔۔ اس نے ہر ممکن کوشش چاہے معاشی ہو یا اخلاقی کی چڑیا کو ایک ذمہ دار باعزت اور نفع بخش شہری بنا نے کے لئے جو کامیاب بھہ ہوئی 

 عکس میں سیول سوسائٹی کی

کی منافقت اور اعلی ظرفی دونوں بھی ہے

عکس مراد علی جیسا مضبوط کردار عمیرا احمد ہی لکھ سکتی

یہ کہانی بظاہر حقیقت سے تھوڑی دور نظر آتی ہے

خاص کر چڑیا کی محنت تو ٹھیک ہے اسکا سلجھاپن اسکی صلاحیت اسکی ذہانت و فطانت اسکی شرافت و نجابت

اسکی معاملہ فہمی اسکی دانشمندی 

اپنے آپ میں مثال ہے۔۔شہر بانو کا کردار کچھ خاص اثر نہیں چھوڑتا ...وہ مغربی ماحول کی پرورش یافتہ اپنے آپ کو grow نہیں کرسکی ۔۔۔لگتا ہے عمیرہ نے اس کردار کی اٹھان پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ 

 عجیب لگتا ہے کہ وہ جس تنہائی اور کرب سے گزری اپنی جذباتیت سے بیٹی کو بھی اسی میں دھکیلا ۔

شہباز کی بہن نے اپنے بھائی کو

بچانے کی کوشش میں اک نسل کو ذہنی مریض بنا ڈالا جس کی چنگاری خود اسکی پوتی مثال تک جا پہنچی

شہرین اور شہر بانو دونوں نے بھی سمجھوتے نہیں کئے ۔۔

 دونوں نے جذباتی طریقے سے حالات کو سنبھالا اور دونوں کی اس غلطی کا خمیازہ دونوں کی بیٹیوں کو بھگتنا پڑا۔۔

شہرین اگر حقیقت پسند ہو جاتی تو شہر بانو نارمل رہتی ۔۔اور شہر بانو ذرا سا وقت رشتہ کو دیتی تو مثال ٹھیک رہتی۔

 اور ہماری Queen عکس نے آخر میں سب ٹھیک کیا

کہانی غیر حقیقی مگر سبق آموز ہے۔

اور معاشرے کے گھناونے جرم کو سامنے لاتی ہے۔جس پر ہم نے عزت و شرافت کا پردہ ڈالا رکھا ہے۔

تمام تر پسندیدگی کے باوجود عکس مجھے اسلے تصوراتی لگی کہ اک سماج میں جہاں اسکول جاتے ہوئے بچیوں کی تعلیم اس لئےچھڑوا دی جاتی ہے گھر بٹھا دیا جاتا ہے کہ اسے چھیڑا جا رہا تھا۔

 اس سماج میں اک جنسی ہراسانی کا شکار لڑکی کا چڑیا سے عکس کا سفر ڈرامائی لگتا ہے ۔

مگر امید افزا ہے کہ کبھی تو معاشرہ بدلے گا

چڑیا کو عکس بنانے میں سارا کردار نانا کا ہے

اور یہ بے شک عمیرا احمد کے بہترین کرداروں میں سے ہے

اک معمولی انسان کو جس عظمت کی چوٹی پر بٹھایا ہے۔یہ پڑھ کر کہیں کرشن چند کا کالو بھنگی یاد آتا ہے۔ عکس کی ساری قوت اس کے نانا میں ہےاور شہر بانو کی ساری کمزوری شہباز علی کی بزدلی کی وجہ سے ہے۔ مثال اس لئے ابنار مل ہوئی ہے کہ اسے شیر دل کا ساتھ تب نہیں ملا جب ضرورت تھی۔۔عکس اور شیر دل کی محبت بھی اپنے ڈھکے چھپے انداز میں بہت دل آویز ہے ان کے مکالمات انکی گفتگو اک دوسرے کو زچ کرنا اور شیر دل کی عکس کے رشتے کو توڑنا ہنساتا ہے غرض کے عکس کے سارے کردار اپنے تمام تر خوبیاں اور کمزوریاں کے ساتھ ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہے۔ عکس کے کردار کا جو پہلو مجھے بہت پسند آیا وہ شہر بانو کو قبول کر لینا۔۔

یہاں عمیرہ احمد عکس کے کردار کو اس بلندی پر لے جاتی ہےجہاں اسکو دیکھنا ہے تو سر سے ٹوپی گر نا لازمی ہے۔

عکس اور شیر دل کی انوکھی محبت انکی ذہنی مطابقت بہت خوبصورتی سے لکھی گئی

کہانی کا پلاٹ کچھ ہٹ کر ہے گویا کوئی پزل ہے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر کہانی بنتی ہے اور اس میں ان کا تخلیقی ہنر کمال پر نظر آتا ہے

 او ر آئینہ دراصل علامت ہے۔

جہاں ہم خود کو جھانک سکتےہیں۔

اس آئینہ میں سب کرداروں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے

اور عکس ناول بھی دراصل اک آئینہ ہے

جہاں سماج کا وہ عکس نظر آتا ہے جسے ہم سننے دیکھتے ہوئے انجان بنے پھرتے ہیں۔۔۔

اور اس آئینے سے نظر چرائے پھرتے د یکھنے کی ہمت نہیں کرتے اور عمیرہ نے ایسی ہمت کی ہے کہ خود بھی دیکھا ہے اور ہمارے سامنے بھی رکھ دیا ہے

 

عائشہ فردوس 

انڈیا