زخمی درخت

2020-08-12 21:33:21 Written by راؤ برہان

زخمی درخت

 

ایک وسیع و عریض  ریگستان میں اس گھنے درخت کو دیکھ کر اسعد کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔وہ بے یقینی کے عالم میں اس درخت کی جانب بڑھا اور درخت کے قریب پہنچتے ہی اس کی حیرت دو چند ہوگئی۔درخت کا موٹا تنا ایک جانب سے کٹا ہوا تھا اور اس کٹی ہوئی جگہ سے لہو بہہ رہا تھا۔آگ اگلتے سورج،بھٹی بنی ہوئی ریت اور پانی کی عدم دستیابی کے باوجود وہ درخت سرسبز و شاداب تھا۔اسعد نے اب بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ درخت بنیادی طور پہ چار بڑی شاخوں پر مشمل ہے۔ایک شاخ حیرت انگیز طور پہ باقی شاخوں کے برعکس خزاں رسیدہ تھی،اس کے پتے نجانے کب کے جھڑ چکے تھے،ٹی بی کے مریض کے چہرے کی طرح پیلی پڑتی یہ شاخ کسی بھی وقت درخت سے ٹوٹ سکتی تھی۔اچانک اسے ایک زوردار پھنکار سنائی دی،وہ گھبرا کے پیچھے ہٹا اور پھنکار کے ماخذ کی طرف دیکھا۔پھر جو کچھ اسے نظر آیا اس نے اسے منجمد کردیا۔درخت کو چاروں طرف سے بڑے بڑے خوفناک اژدہوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا اور وہ اپنی لال زبانوں سے درخت کو ڈسنے میں مصروف تھے۔جہاں جہاں ان کا ڈنگ لگتا درخت کی چھال وہاں سے بالکل کسی انسان کی طرح نیلی پڑ جاتی۔اسعد نے گھبرا کر نگاہیں نیچی کیں تو ایک اور خوفناک منظر اس کا منتظر تھا۔مٹیالے رنگ کے موٹے موٹے چوہے اردگرد سے بے نیاز ہوکر اس درخت کی جڑیں کترنے میں مصروف تھے،ان کی ننھی ننھی تھوتھنیاں خون سے رنگین تھیں اور درخت کی جڑوں سے خون ٹپک رہا تھا۔درخت کے تنے پر بھی بہت سے بدنما اور مختلف رنگوں کے حشرات الارض رینگ رہے تھے،جنہیں دیکھ کراس کے جسم نے بے اختیار ایک جھرجھری لی۔

”آؤ آؤ نوجوان! کیا ہوا؟، رک کیوں گئے؟“ یہ الفاظ سنتے ہی اسعد نے بے اختیار ادھر اُدھر دیکھا مگر دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔خوف کی ایک تیز لہر اس کے بدن میں دوڑ گئی۔”یا خدا! یہ کس طلسم ہوش ربا کا شکار ہو گیا ہوں میں؟“  اس نے بے اختیار سوچا۔”ادھر اُدھر کیا دیکھ رہے ہو؟، میری جانب دیکھو،میں تم سے مخاطب ہوں۔“ دوبارہ وہی بوجھل آواز گونجی اور اسے لگا کہ یہ آواز اسی درخت سے آئی ہے۔”مگر درخت پہ تو کوئی انسان نہیں ہے اور ایک درخت بھلا کیسے بول سکتا ہے؟“ اسعد نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی۔”اس قدر حیرت زدہ کیوں ہو رہے ہو؟ جب انسانوں کی زبان حق کہنے سے گونگی ہوجائے تو رب ذوالجلال بے زبانوں کو بھی زبان عطا کر دیتا ہے۔“درخت نے کہا۔

”تت۔۔۔تم۔۔۔ تم کون ہو؟ اور۔۔۔۔ مم۔۔۔۔مجھ سے کک۔۔۔۔کیا چاہتے ہو؟“ اسعد ہکلاتے ہوئے بولا۔”جو دینے کے عادی ہوتے ہیں وہ کسی سے کچھ نہیں چاہتے،آج کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد مجھے تمہارے سامنے حال دل بیان کرنے اور اپنی داستان سنانے کا موقع ملا ہے،کیا تم میری آپ بیتی سنو گے؟“ درخت نے جواب کے ساتھ ہی سوال کردیا۔اسعد کا دل چاہا کہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہو مگر نجانے کیوں وہ وہاں سے ہل نہیں سکا،اسے زخموں سے چور اس درخت کی کہانی سننے میں دلچسپی محسوس ہوئی۔درخت جیسے اس کے دل کی بات جان گیا تھا۔اس لیے ایک لمحے کے توقف کے بعد یوں گویا ہوا:-

”آج سے تقریبََا ایک سو بیاسی سال پہلے کی بات ہے،جب میرے وجود کے لیے کوششوں کا آغاز کیا گیا،بہت سے مالی آئے،اپنے لہو سے ایک لق دق صحرا میں ایک درخت اگانے کی کوشش کی،بہت سے لوگوں نے ان کا ساتھ دیامگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔صحرا کے باسیوں نے ہمت نہ ہاری،بار بار کوشش کی،لاکھوں قربانیاں دیں،مشکلات و مصائب کے پہاڑ ان پر ٹوٹے مگر وہ گرتے پڑتے اس ریگستان کو سبزہ زار بنانے کی کوششوں میں لگے رہے،بلآخر قدرت کو ان کی حالت زار پہ رحم آیا اور انہیں ایک زمانہ شناس اور کامل باغباں ملا۔ایک سو گیارہ سال کی کوشش کے بعد اس باغباں کی بدولت آج سے تہتر سال قبل وہ ایک ننھا سا پودا اگانے میں کامیاب ہوئے۔اس باغباں نے خون پسینے سے اس پودے کو سینچنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کمزور سا پودا ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔لیکن اس باغباں نے اس پودے کو درخت بناتے بناتے اپنی جان وار دی۔اس درخت کو دوبارہ ویسا باغباں نہ مل سکا۔اس کے بعد وہی ہوا جو بنا مالی کے چمن کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔ لوگوں نے اس درخت کو اجاڑنا شروع کر دیا،وہی درخت جس کی نشوونما دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں تھی،سوکھنے لگا۔زہریلے اژدہوں نے اس پہ اپنا تسلط جمالیا،خونخوار حشرات الارض اور جڑیں کاٹنے والے وحشی چوہوں نے اسے کمزور کرنا شروع کردیا،اس کا وجود خارزاروں کی نظروں میں کھٹکنے لگا،آستین کے سانپوں نے دشمنوں کے ساتھ مل کر اس درخت کا ایک حصہ کاٹ ڈالا۔لیکن اس کے باوجود بھی جب وہ درخت ہرا بھرا رہا تو اس کی ایک اور بڑی شاخ اس سے جدا کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔اس درخت کی ٹہنیوں پہ گیت گاتے خوش الحان پرندے کوچ کر گئے اور ان کی جگہ الوؤں نے لے لی۔

جب باغباں ہی صیاد کے ساتھ مل جائیں،جب کانٹے چننے والے ہی کانٹے بچھانے لگیں، جب آبیاری کرنے والے ہی لہو چوسنے لگیں تو کوئی بھی درخت اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکتا مگر۔۔۔ وہ درخت قائم رہا۔اسے برقرار رکھنے والی چیز بس ایک ہی تھی۔۔۔ ”شہیدوں کا لہو“ جس سے اس درخت کو سینچا گیا تھا،اس کی جڑیں ایک مضبوط نظریے کے حصار میں تھیں،لیکن اب اس نظریے کو بھی مٹانے یا بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس درخت کی جڑیں کاٹ کر پھینکی جاسکیں۔وہ تہتر سال پرانا درخت تمہارے سامنے ہے۔“

خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا۔اسعد سحر زدہ سا کھڑا تھا۔”جانتے ہو میرا نام کیا ہے؟“ درخت نے سوال کیا۔”کیا درختوں کے بھی نام ہوتے ہیں؟“ اسعد نے سوچا مگر اس سوچ کو الفاظ کی شکل میں ڈھال کر زبان تک نہ لا سکا،کچھ کہنے کے بجائے اس نے بس سوالیہ نظروں سے درخت کی جانب دیکھا۔”میرا نام۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان ہے“ درخت نے آہستہ سے کہا۔اسعد کو جیسے ایک جھٹکا سا لگا، وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس درخت کی جانب دیکھنے لگا۔”وہ باغباں جنہوں نے مجھے پروان چڑھایا،کوئی اور نہیں بلکہ محمد علی جناح تھے،جن کو دنیا قائد اعظم کے نام سے جانتی ہے۔یہ خوفناک اور زہریلے اژدہے جو اپنا زہر میری رگوں میں اتار رہے ہیں مفاد پرست،ضمیر فروش اور ننگ وطن سیاستدان ہیں۔۔۔۔ یہ میرا لہو بہاتا زخم سقوط ڈھاکہ کی یادگار ہے،مغربی پاکستان میرے وجود کا وہ حصہ تھا جو مجھ سے کاٹ دیا گیا۔یہ جو سوکھ کر کانٹا بنی شاخ دیکھ رہے ہو،یہ میرا صوبہ بلوچستان ہے،آج یہاں وہی حالات ہیں جو کسی دور میں بنگال کے تھے،

علیحدگی پسند تنظیمیں،نامساعد حالات،دشمن کی سازشیں،حکمرانوں کا عقل و بصیرت سے عاری ہونا، وہ اسباب ہیں جن کی بدولت بلوچستان کے بہت سے لوگ دشمنوں کی کٹھ پتلی بن چکے ہیں،وہ تو خود کو پاکستانی بھی تسلیم نہیں کرتے۔

جب میں اس شاخ سے بھی محروم ہونے کا سوچتا ہوں تو میرا رواں رواں کانپ اٹھتا ہے۔۔۔۔ یہ چوہے جو میری جڑیں کتر رہے ہیں وہ غدار ہیں جو چند پیسوں کے عوض دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔ یہ زہریلے حشرات الارض جنہوں نے میری پہچان مسخ کردی ہے،وہ تمام لوگ ہیں جو کرپشن،رشوت خوری، ملاوٹ،بے ایمانی،چوری،قتل وغارت گری،دہشت گردی،اقربا پروری،چور بازاری،دھوکہ دہی اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔میں   جھلساتی دھوپ،تیز آندھیوں،طوفان باد و باراں اور تمام حوادث ِ زمانہ کا مقابلہ کر سکتا ہوں مگر۔۔۔اپنے وجود سے چمٹے ان دشمنوں کو نجانے کب تک جھیل سکوں گا۔۔۔مجھ میں اب اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ زیادہ عرصہ تک تن تنہا ان سے لڑ سکوں۔۔۔نہیں رہی اب مجھ میں اتنی سکت۔۔“ ایک آنسو ڈھلکا اور تنے سے لڑھکتا ہوا درخت کے لہو سے بنے تالاب میں گم ہوگیا۔

”آپ تنہا نہیں ہیں میرے وطن،میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔۔ میرے جیسے لاکھوں جوان آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔ آپ کے محافظ ہیں۔۔۔ ہم ان اژدہوں کو نوچ کر تیرے پاک وجود سے الگ کردیں گے۔۔۔۔ ہم تیری خزاں رسیدہ شاخ پر پھر سے بہار لائیں گے۔۔۔۔ ہم ان خطرناک حشرات الارض اور جنگلی چوہوں کو دوبارہ ان کی بل میں دھکیل دیں گے۔۔۔ہم اپنی جوانیاں تیرے تقدس پر لٹادیں گے۔۔۔۔ہم اپنا لہو بہا کر بھی تجھے سیراب کریں گے۔۔۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے نام پر تجھے حاصل کیا گیاہم اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیں گے مگر تجھ پر آنچ نہ آنے دیں گے۔۔۔۔۔آپ تنہا نہیں ہیں۔۔۔۔میرے وطن! میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔“ اسعد نے بڑ بڑاتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔

وہ صحرا،وہ زخمی درخت،وہ اژدہے،کچھ بھی نہیں تھا۔اس نے سامنے لگے کیلنڈر کی جانب دیکھا جہاں اگست کے مہینے میں چودہ کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔”تو کیا یہ سب ایک خواب تھا؟“ اس نے سوچا مگر پھر خود ہی اپنے خیال کی نفی کردی۔”نہیں یہ خواب نہیں تھا،یہ آگہی تھی،یہ پیغام تھا۔۔۔میرے وطن کا پیغام۔۔۔ ہر محب وطن پاکستانی کے نام۔“اس نے اپنے ملک سے کیے ہوئے عہد کے بارے میں سوچا اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ ایک نئے عزم کے ساتھ۔ اسی وقت کہیں پاس ہی سے ایک پرجوش اور جذبات سے بھرپور آوازسنائی دی۔

؎  اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اٹھا

تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں 

ختم شد