آواز

2020-08-16 19:47:07 Written by سید فہد حسین شاہ حسینی

 

آواز بھی کیا عجب شے ہے جو فقط کانوں کو چھو کر  گذر جائے تو اندر  تک رسائی کر جاتی ہے احساس مچلتے جاتے ہیں حواسوں پر اثر کرتی ہے۔ کچھ آوازیں وہ بھی ہیں جو سماعتوں کو کچھ لمحوں کے لیے مسرور کردیتی اور لبھاتی ہیں کوئل جب نغمے گنگناتی ہے باغوں میں سردی کی صبح  میں، تیتر جب اپنی بولی کرتا ہے، مینا جب خوش ہوکر گاتی ہے، بلبل جب آپس میں باتیں کرتی ھیں، چڑیا جب شام کو گھر لوٹ کر اپنے  بچوں سے باتیں کرتی ھیں۔  مگر کچھ آوازیں ایسی بھی ہیں جو وحشت سے بھرپور ہوتی ہیں کبھی اندھیرے میں کسی ویران قصبے سے گزرتے ہوئے مینڈک کی ٹر ٹر تو کبھی اپنے ہی خیالوں میں بیٹھے بیٹھے چھپکلی کی آواز کو سنتے ہوئے جو وحشت و تنہائی سی محسوس ہوتی ہے۔ 

 

 

آواز اثر انداز ہوتی ہے گزر تو جاتی ہے سماعتوں سے ٹکراتی ہوئی مگر اُسکی تاثیر صدیوں تک رہ جاتی ہے، آواز کا سفر بھی تو دیکھیں زرا واہ کیا کمال ہے ! کئی منزلیں مشقتیں اور مرحلے طے کرتی ہوئی آتی ہے، آواز پھیپھڑوں کی ھوا کے تحرک سے گلے سے لگ کر منھ میں آکر زباں کی منتظر ہوتی ہے,  تب زباں آواز کو نقشہ دیتے ہوئے لفظ تعمیر کرتی ہے مگر زباں جو محتاجِ عقل ہے وہ عقل جو ذہن میں سمایا ہوا ہے جو احساس سے محسوس کرتے رویوں تاریک راہوں کی ظلمتوں سسکتے بھلکتے معصوموں کی چیخوں مسکینوں کی تنگدستیوں  مظلوموں کے آنسووں بیچاروں کے چہروں کی بیبسیوں کمزوروں کی آرزیوں بےبس و ناتواں کی پکاروں کو محسوس کرتا ہے وہی زبان پر طاری ہوتا ہے مگر جب بھی کسی کی کیفیت آواز حق ہوکر بلند ہوجاتی ہے تو صاحب اختیاروں  کی کرسیوں محلوں کے دروازوں قاضیوں کے کلبوں جرنیلوں کے حواسوں کو جنجھوڑ دیتی ھے. اور وہ اگر آوازِ داؤد ھو اگر تو چرند پرند پر سکتا طاری ھو جاتا ہے, آوازِ اذان  بلال اگر نا سنی جائے تو عالم ملکوت تک الجھن سی رہ جائے وقت رک جائے، آواز علی ھو بلند جب تو باب خیبر لرز جائے حارث و انتر و مرحب پاش پاش ھو جائیں، اور آواز سرورِ کونین جب بلند ھو تو جبریل کا استاد بھی حضورِ سرکارِ دوعالم میں حاضر ھو جائے، آواز سیدہ جب بلند ھو جائے تو کُرسی یار غار لرز جائے، آواز ابو الفضل عباس بلند ھو تو کربلا سناٹے میں آجائے، آواز حسین ابن علی جب نیزے پر بلند ھو تو فرقان ھو جائے، اور دربار یزید میں لہجہ علی میں  سیدہ زینب کی آواز بلند ھو جائے تو تخت یزید ہل جائے، آواز میں اک عجیب درد اور قوت ہے اچہے بھلوں کو نیست و نابود کر جائے۔ آواز جب عرب کے لونڈوں کی ابتر ابتر ھو کر اٹہے فضائے حجاز میں اور تمسخر اڑائے سید الانبیاء کا تو غیرتِ پرودگار کو جلال آجائے اور کوثر عطا ھو جائے،اور

 

 کبھی آواز نوح سے تکلیف ھوتی ہے اھل و عیال کو تو غرق ہوجاتے ہیں سارے، کبھی آواز ابراھیم  سے الجھن ھوتی ہے نمرود کو تو نار نمرود روشن ہوجائے، کبھی آواز موسیٰ سے ھوتی ہے گھبراہٹ فرعون کو تو محل میں حملا بھرپا ہوجاتا ہے،تو کبھی آواز گریائے یعقوب سے یوسف لوٹ آتا ہے،تو کبھی آواز حبیبِ خدا سن کر وادئ طائف میں پتھر برسائے جاتے ہیں، کبھی آواز حق کی بات پر شیر یزداں زنجیروں میں جکڑا جاتا ھے، کبھی آواز اصول انسانیت پر سرِ  حسین دڑ سے جدا ھوتا ہے کبھی پورا گھرانا عظمت انسانیت پر قربان ھوتا لیکن آوازِ حق ھمیشہ بلند ھی رھتی ہے۔ مگر اُس آواز کا ساتھ دینا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں اُس آواز پر اپنے خون تک کے رشتے خوفزدہ و باغی بن جاتے ہیں ابو جہل و ابو لہب بن جاتے ہیں جو کبھی آواز کے ہمنوا ہوجائیں تو کبھی علی تو کبھی ابو ذر تو کبھی حر تو کبھی مختار تو کبھی مالک اشتر بن جاتے ہیں۔ ظالم طاقتور ہوکر بھی خوفزدہ رھتا آیا ھے اور آج بھی خوف میں مبتلا ہے، مظلوم  کمزور ہوتے ہوئے بھی غیور نڈر شجاع بیباک ھوتا ہے۔  

 

تاریخ اگر رشک کرتی ہے خود پر تو فقط اُس آوازِ حق اور علمِ بقائے انسانیت پر کیوں کے سچی اور کھری آواز کی لہریں صدیوں تک سنائی دیتی ہیں۔  مگر جو آوازیں اُلجھنوں رویوں محرومیوں ذلتوں ناانصافیوں ظلمتوں کے بعد نکلتی ہیں وہ محلوں کی دیواروں کو عبور کرتے ہوۓ بادشاہوں کے بستروں پر پونچھ جاتی ہیں اور انکے سکون چھین لیتی ہیں اگر وہ آواز ظلم و بربریت و ناانصافیوں کے خلاف اٹھتی ہیں تو صاحب اقتداروں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیتی ہیں لیکن یہ آواز اگر دب جائے تو آہ بن جاتی ہے اور وہ جب نکلتی ہے تو آسمانوں کو چیرتی ہوئی عرش عظیم سے جا ٹکراتی ہیں پھر تخت اُلٹ جاتے ہیں تاج بکھر جاتے ہیں ریاستیں ٹوٹ جاتی ہیں کوٹ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں طاقتیں کمزور ہو جاتی ہیں وحشت و درندگی کی رات ہوجاتی ہے۔ آواز کو دباؤگے اگر چاہے فرعون بن جاؤ نہیں زندہ رہ پاؤگے، اس معاشرے میں رہتے ہوئے بھی جہاں جدّت کا زمانہ ہے وہاں کوئی بے یارو مددگار ہوکر مرجائے جہاں کسی کو کتے کے کاٹنے یہ سانپ کے ڈسنے کی ویکسین نہ مل پائے جہاں کوئی بھوکھا مرجائے جہاں کسی کے بچے کچھ لقموں کے لیے ترس رہے ہوں جہاں پانی جانوروں کے پینے سے بھی بدتر ہو جہاں سڑکیں اُکھڑی ہوئی ہوں جہاں زمینیں بنجر ہوتی جارہی ہوں جہاں لوگ ہجرت کرتے جارہے ہوں جہاں زمین کو سمندر نگلتا جارہا ہو فقط اس لیے کے دریا کا پانی بند کرکے کربلا رچائی گئی ہو جہاں بچوں کی تعلیم کی کوئی فکر نہ ہو اسکولوں میں باڑے ہوں دھیرے ہوں جہاں یونیورسٹیاں تعمیر نہ ھو پائیں جہاں روز بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی جارہی ہوں معصوم کلیان مرجھائی جارہی ہوں جہاں ہسپتالوں میں کسائی بیٹھے ہوئے ہوں اور عام سے دوائی نہ ملتی ہو جہاں کتنی عورتیں بچے کی پیدائش پر مرجاتی ہوں جہاں قانون نافذ کرنے والے رکھوالے عزت و جان و مال کے خود لُٹیرے بنے ہوئے ہوں جہاں انصاف بک جاتا ہو جہاں قاضی فیصلے کرنے میں غیر جانبدار نہ ہوں جہاں مال و ملکیت والا ہی عزتدار ہو جہاں دیس کے بچے محفوظ نہ ہوں ہر شام کوئی قیامت آتی ھو  جہاں اپنی دھرتی پیروں تلے کھسکتی جارہی ہو غیر قانونی قبضے ہوتے ہوں جہاں جہاں روز ظلم کی ایک نئی داستاں رقم ہوتی ہو جہاں فصل تباہ کیے جاتے ہیں جہاں خورد و نوش کی چیزیں بےپناہ مہنگی ہوں جہاں بجلی پانی گیس انٹرنیٹ کی سروسز کا کوئی معیار نہ ہو  جہاں کسی شے میں کوئی انصاف نہ ہو اور جینا محال ہو جھوٹ کی بازار گرم ھو اور پل  ذھنی اذیت ھو  لوگ اس جینے سے مرجانے کو ترجیح دیتے ہوں اُس وقت کوئی اگر آوازِ حق بلند کرے اور اپنے حقوق کی بات کرے تو وہ واجب القتل ہوجاتا ہے اُسکو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے آواز بند کرو کیوں کے آواز چبتی ہے ہمکو یہ آواز منتخب نمائندوں وزیروں مشیروں کاموروں کو بُہت تکلیف دیتی یہ انکا سکون تباہ کردیتی ہے۔ یہ آواز انکو کہتی ہے تم لُٹیرے ہو تم چور ہو تم اس دھرتی کے دلال ہو یہ آواز اُنکو غیرت دلاتی ہے جو کئی سال پہلے مر چکی ہے یہ  آواز انکے کانوں سے ہوتے ہوئے انکے کلیجوں تک جاتی ہے تو کلیجے پھٹتے کو آتے ہیں یہ آواز انکو اپنے ڈھیروں کوٹوں دفتروں اوطاقوں میں بیٹھنے نہیں دیتی یہ آواز انکو اپنی آنکھیں خود سے ملانے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ کوئی اس آواز کو دبا نہیں سکتا جتنا دبانا چاہوگے اتنا شور بڑھیگا تم لوگوں کا جینا حرام ہوگا۔ قیصر و کسریٰ نہیں رہے، فرعون کی خدائی نہ رہی، نمرود کی بادشاہی نہ بچ سکی، یزید تباہ ہوگیا تو تم کیا چیز ہو ۔ اپنے قبلے درست کرلو ابھی وقت ہے راہ راست پر آجاؤ تو بہتر ہے نہیں تو ہم تو ویسے ہی برباد ہیں ہمارے پاس اب کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا مگر تمہارا بُہت کچھ ہے ابھی جب یہ سب چلا جائیگا تو بُہت پچھتائو گے۔ آوازِ حق کو دباؤ گے پاش پاش ہو جائو گے۔ تاریخ میں ابلیس سے بدتر کہلاؤ گے۔

مصنف: سید فہد حسین شاہ حسینی