ایک نو آموز مصنفہ کے قلم سے معاشرے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والوں کی روداد... وہ خود کو ادھورا مرد سمجھتا تھا۔۔۔رزق حلال کے دروازے اس پر بند تھے۔۔۔ مگر کیا واقعی بند تھے؟ ایک مکمل جسم والے مرد کی روداد جس نے ایک دن ادھورا مرد دیکھ لیا۔۔۔
مکمل مرد
اس کی رگ رگ میں جیسے کرب کروٹیں لے رہا تھا۔ درد کی ایک لہر سی پیر سے اٹھتی اور جسم میں پھیل جاتی۔تیز دھوپ کی چبھن پر ان طعنوں کی تکلیف حاوی تھی جو تھوڑی دیر پہلے اس کے کانوں کے ذریعے جگر چھلنی کر رہے تھے۔حالانکہ طعنہ اور اس کی سماعتوں کا ربط تو اس وقت سے قائم تھا ،جب وہ طعنے اور طنز کے مفہوم و موجودگی کی ضرورت تک سے ناواقف تھا۔۔چلتے چلتے وہ کہاں نکل آیا تھا وہ خود بھی لاعلم تھا۔۔
وہ تو بس ایک ہجوم بلاخیز سے جان بچانے کے لئیے وہاں سے دیوار کود کر نکل بھاگا تھا۔جو اس کے مکان کوگھیرے ہوۓ تھا۔
وہ رات کے فنکشن سے تھکا ہارا کوئی اذانوں کے وقت گھر پہنچا تھا۔اور آتے ساتھ ہی بستر پر گرا تو دوپہر کے وقت برپا ہونے والے اس پرہنگام شور سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔
وہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا کہ درحقیقت وہ ہاتھوں میں ڈنڈے لئیے اس کے گرو اور دوسرے ساتھیوں کو روئی کی طرح دھنکنے والا اشتعال انگیز ہجوم چاہتا کیا ہے۔۔۔
وہ بس تیزی سے دیوار پھلانگ گیا شاید وہاں موجود لوگ اسے دیکھ بھی نہیں پائے تھے۔
لیکن اب جب وہ اپنے گھر سے ایک محفوظ فاصلے پر تھا تو حالات کا بہتر تجزیہ کرسکتا تھا۔۔وہ ٹوٹے پھوٹے نعرے جو اسے سنائی دئیے تھے ان کو جوڑ کر وہ ایک مکمل کہانی بنا سکتا تھا۔۔۔
نوشی جو ان کے گروپ کا نیا رکن تھا۔۔ وہ اس کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔۔۔بس گرو کو وہ کہیں مل گیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے آیا۔۔اس کی خوب روئی ،نزاکت اور رقص میں مہارت نے ان کے گروپ کو دنوں میں ہی دور و نزدیک شہرت عطا کردی تھی۔ایسے میں گرو اس کی اکثر فنکشن گول کرکے راتوں کو غائب ہوجانے والی عادت کو نظر اندازکردیا کرتا تھا۔۔
وہ رات کس وقت واپس آیا ۔۔واپس آیا بھی یا نہیں ۔وہ لاعلم تھے۔مگر کیا کانڈھ کیا تھا وہ اس ہجوم کی زبانی اسے معلوم ہوگیا۔
نوشی جب یہاں سے فنکشن مس کرتا تو اپنی الگ سے دہاڑی لگاتا تھا۔کل رات وہ جس شخص کے ساتھ نکلا تھا۔اسی کو شدید زخمی کرکے لوٹ لیا۔اور غضب یہ ہوا کہ سر کی شدید چوٹ سے وہ شخص جان بر نہ ہوسکا ۔ اب وہ مشتعل ہجوم جو ہر محفل میں رات بھر ان پر نوٹ نچھاور کیا کرتا تھا۔۔جو دراصل نوشی کے گاہک کے رشتے داروں اور محلے کے ان اوباش لونڈوں پر مشتمل تھا جو ایسے ہر موقع پر فی سبیل اللہ آنکھیں بند کرکے ملزم اور مجرم کو ایک ہی صف میں رکھ کر بطور ایڈونچر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
احمد جو کبھی احمد تھا اور اب ایمی بن چکا تھا دیوار پھلانگنے کی کوشش میں باہر رکھی اینٹوں پر کچھ اس بے ڈھب طور سے گرا تھا کہ ہر قدم پر گھٹنے اورپنڈلی کی ہڈیاں چیخ اٹھتی تھیں۔
حلق میں پیاس سے کانٹے سے پڑنے لگے تو۔۔۔اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی وہ کوئی اینٹوں کا بھٹہ تھا ۔۔جہاں فی الوقت صرف ایک ہی ذی نفس مصروف کار تھا ۔۔
اس نے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا بناکر بغور دیکھا وہ رنگین پیراہن میں کوئی عورت تھی جو مردانہ وار اس سخت موسم میں مشقت اٹھا رہی تھی ۔جھلسے ہوے چہرے اور سخت کوش ہاتھوں پیروں سے عمر کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔
جھریوں سے پاک چہرہ اگر اس کی عمر تیس بتاتا تھا
تو پیشانی اور آنکھوں کے گرد موجود تفکرات کی لکیریں اسے پچاس کے آس پاس کا ظاہر کرتی تھیں۔
ہل ہل کر اینٹیوں کا مصالحہ سانچے میں بھرتی اسے اینٹ کی شکل دیتی وہ تیزی سے اپنے کام میں مگن تھی جب وہ لڑکھڑاتا ہوا اس کے نزدیک جاگرا۔۔
"پانی۔۔ پانی پلادو"
"آۓ ہائے کون ہو تم ۔؟کہاں سے آئی ہو؟"
وہ بدک کر پیچھے ہٹی ۔اس کے پسینے میں تر بہتے ہوے باسی میک اپ اور زرق برق لباس سے پہلی نظر میں وہ اسے کوئی عورت ہی سمجھی تھی۔۔
لیکن اس کی آواز ۔۔
"تو تو زخمی ہے رے ۔۔کہاں سے آیا ہے؟"
"چل آٹھ چھاؤں میں بیٹھ یہاں تو بہت تیز دھوپ ہے"وہ اسے سہارا دیتی ہوئی نزدیک لگے درخت کے نیچے لے گئی۔جہاں اسی بھٹے کے کچھ اور مزدور مرد و زن بھی کھانے کے وقفے کا فائدہ اٹھاکر محو استراحت تھے۔
پانی پی کر احمد کی جان میں جان آئی تو بھوک کا احساس معدے کی دیواریں کھروچنے لگا۔
ساتھ بیٹھا مزدور ایک روٹی پر اچار کی قاش رکھے بڑے بڑے نوالے توڑ رہا تھا۔احمد کے منہ میں پانی بھر آیا اسے سہارا دینے والی عورت نے جانے کسطرح اس کی آنکھوں میں لپٹیں مارتی بھوک کو بھانپ لیا۔نتیجتا وہ اس وقت اس کے گھر میں ،پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھا چاولوں پر دال انڈیل انڈیل کر کھارہا تھا۔۔
"نام کیا ہے تمہارا بھائی؟کہاں سے آۓ ہو ؟"اس عورت نے اچانک پوچھا ۔
اسے جھٹکا سا لگا ٬بھائی ٬کا لفظ کانوں کو نامانوس سا محسوس ہوا ۔۔۔
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ بھائی بولنے والے کو ہزار صلواتیں سناتا ۔گرو نے یہی سکھایا تھا اسے ۔۔مگر تازہ تازہ پیٹ میں پہنچے اناج کی گرمی نے زبان پر تالا ڈال دیا۔بس اتنا کہہ سکا
"بھائی کہاں کے ہوئے ہم ۔۔بس ایمی ہوں میں ۔۔ایمی پکارو مجھے۔ہاں بہن کہہ سکتی ہو"
"ہا ہاۓ !یہ منہ تو دیکھو داڑھی مونڈھتے مونڈھتے سیاہ پڑگیا ہے۔۔اور کہتا ہے بہن کہو ۔۔میں تو بھائی بولوں گی ۔۔زنانہ کپڑے پہننے سے عورت کوئی نہیں بنتا۔۔جان مارنی پڑتی ہے ۔۔اور تجھے شوق کیا چڑھا ہے ایمی بننے کا۔۔ماں باپ نے تو کوئی سوہنا سا نام رکھا ہوگا ۔۔ڈھنگ کا کوئی کام دھندہ کرو ماں باپ کا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہوا"
بھٹہ مزدور عورت شروع ہوئی تو بولتی ہی چلی گئی۔
"شوق نہیں ہے مجھے عورت بننے کا "وہ اس کی تقریر سن کر تلملا ہی تو اٹھا تھا۔۔"قدرت نے جو مذاق کیا ہے ہم سے۔۔بس اسی کو بھگت رہے ہیں۔۔تم مکمل وجود والے کیا جانو ہم ادھورے لوگوں کا درد۔ارے چلنا مشکل ہے ہم لوگوں کا اس دنیا میں"
۔وہ جو اچنبھے سے اسے بولتے ہوے دیکھ رہی تھی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
"ارے جیسے نمونے تم بن کر گھوم رہے ہو ویسا حلیہ میں بنا کر نکلوں تو بھیڑئیے مجھے نوچ کر کھاجائیں تم تو پھر بھی زندہ ہو۔۔۔شکر کرو اکیلی جان پالنی ہے تمہیں میری طرح پانچ بچے پال کر دکھاؤ۔۔۔"عورت چمک کر بولی
"بھئی یا تو عزت پا لو یا پیسہ ۔۔اور تمہارے کام میں تو پیسہ بھی نہیں۔اس سے تو ہم بھٹہ مزدور اچھے۔۔ناچ گاکر بھی تو طعنے ہی سنتا ہے نا تو ؟تو مزدوری کرکے سن لے ارے کم سے کم تو خود تو اپنی عزت کرے گا ۔۔ ۔۔ویسے یہ بتا ۔۔یہ تمہارے مشٹنڈے ہاتھوں میں اینٹیں بنانے جتنی جان بھی نہیں ہے کیا؟"
"اس کے طعنے سن کر وہ بلبلا اٹھا تھا۔۔ ایک وقت کھانا کھلا کر وہ اسے طعنے مارے گی۔اسے کیا پتہ وہ زندگی میں کتنی ٹھوکریں کھاکر یہاں تک پہنچا تھا۔ماں باپ ہی اس کے وجود سے شرمسار تھے جب گرو نے اسے سہارا دیا۔اس نے ایک ایک کرکے اپنے تمام زخم اس کے سامنے کھول کر رکھ دئیے۔۔۔شاید بہت عرصے بعد کسی نے اسے اپنے برابر بٹھایا تھا۔ انسان سمجھا تھا تماشہ نہیں۔۔
"یہ دنیا بہت ظالم ہے بی بی۔۔یہ مکمل وجود رکھنے والے مرد ہم جیسوں کو انسان نہیں سمجھتے"وہ آنسو پونچھتا ہوا بولا ۔تو وہ جو اسے بغور دیکھ رہی تھی سر ہلاتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
"سچ کہتے ہو ۔۔پورا بدن رکھنے والےتمہارا درد کیا جانیں۔ذرا میرا ایک کام توکردے اب آہی گیا ہے تو ۔۔ویسے تو تنہا ہی کرلیا کرتی ہوں "وہ اسے لئیے ایک کمرے میں آگئی ۔اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں ایک چارپائی پرکوئی مردلیٹاہواتھا۔
عورت نے نزدیک جاکراس کے جسم پر پڑی چادر ہٹائی تو احمد دیکھ کر بوکھلا سا گیا۔کمر تک پڑی چادر سرکی تو ٹانگوں کی جگہ جھولتے پائنچے نظر آۓ۔
"یہ میرا مرد ہے ،لالو۔۔پچھلے دو سال سے چھت سے گرنے کے بعد ٹانگیں گنواۓ بیٹھا ہے۔
اسے بستر سے اٹھانے کے لئیے اپنی بڑی لڑکی کو ساتھ لگاتی ہوں۔۔تب پہیے والی کرسی پر بیٹھ کر اسی بھٹے کے مالک کے ساتھ حساب کتاب دیکھ لیتاہے۔۔"بھٹہ مزدور عورت کچھ اور بھی کہہ رہی تھی مگر احمد بس آنکھوں میں نمی لئیے اس "مکمل مرد" کو دیکھے جارہا تھا۔اسے اج اپنے ہاتھ اور پیر بہت پیارے لگے تھے۔۔۔آج اسے اپنا وجود ادھورا نہیں لگا تھا۔اس نے ہتھیلی کی پشت سے رگڑ کر آنسو پونچھے اور اس باہمت عورت کا ساتھ دینے کے لئیے آگے بڑھ گیا
نین تارہ