بلیک میجک کلر

2019-04-06 07:27:01 Written by اعتزاز سلیم وصلی

بلیک میجک کلر

گیارہ سال۔۔1986سے 1997 تک مدان میں گیارہ سے تیس سال کی عمر کی لڑکیوں اور عورتوں کی گمشدگیوں کے کئی کیس آئے ان میں سے چند ایک حل ہوئے مگر اک سو بائیس کیس ایسے تھے جن کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔۔لیکن 1997 کی ایک صبح ان میں سے بیالیس کیس اچانک حل ہو گئے۔۔اور باقی کے اسی کیس بھی اِسی کڑی سے جوڑ دئیے گئے۔
٭٭٭
عدالت بھری ہوئی تھی۔کئی لوگ یہاں موجود تھے۔عدالت سے باہر بھی سینکڑوں لوگ موجود تھے جبکہ اس کیس کی ہر لمحے کی تفصیل نیوز چینل ہر بھی شیئر ہو رہی تھی۔۔وہ مجرموں کے کٹہرے میں موجود تھا اور اس کے چہرے پر سکون تھا۔جج نے اس کی جانب دیکھا اور کہا۔
’’کیا تم اپنے اعترافی بیان پر قائم ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘اس نے جواب دیا۔’’یہ بیان مجھ سے پولیس نے زبردستی لیا ہے۔میں نے تو ایک قتل بھی نہیں کیا۔‘‘جج نے وکیل کی طرف دیکھا۔وکیل مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا اور کہا۔
’’اگر مجرم بے گناہ ہے تو وہ بیالیس لاشیں کس نے دفن کی ہیں جن میں سے کچھ کے ڈھانچے ملے ہیں اور پولیس کو شاید خواب آیا ہو گا کہ وہاں اتنی تعداد میں عورتیں دفن ہیں۔۔جبکہ پولیس تو صرف ایک لڑکی کو تلاش کررہی تھی باقی سب ملزم کی نشاندہی پر ملی ہیں‘‘۔کیس میں جان باقی نہیں تھی۔کچھ دیر بعد عدالت کے فیصلے پر تمام لوگ کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے تھے۔
٭٭٭
1986 کی ایک رات
ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔روشنی کی ذرا سی بھی چمک دکھائی نہ دیتی تھی۔آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل نہ تھیں۔اس گہری سیاہ رات میں اسے خوف محسوس ہوا ۔دل کی دھڑکن اسے اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔۔اور اس اندھیرے میں ایک چہرہ چمکا۔۔بالکل ایسے ہی جیسے رات کے بعد سورج چمکتا ہے۔۔
’’بابا آپ؟‘‘وہ بے اختیار اس کی طرف لپکا۔
’’وہیں رکو۔‘‘آواز گونجی۔اس آواز میں ایک رعب تھا۔وہ رک گیا۔’’احمد میں تمہارے لئے آیا ہوں۔‘‘
’’آپ ہیں کدھر بابا؟‘‘
’’میں وہاں ہوں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔۔پر میں آج تمہارے لئے خاص طور پر آیا ہوں۔مجھے تمہیں ایک کام سونپنا ہے۔‘‘
’’کیا کام؟‘‘وہ چونک گیا۔
’’احمد کیا تم طاقتور ہونا چاہتے ہو؟اتنے طاقتور کے کوئی تمہیں چھو نہ سکے۔تم دنیا کے بہترین جادوگر بن جاؤ۔تمہارے جادوکا کوئی توڑ نہ ہو۔تمہیں کوئی زخم نہ لگے۔۔لگے بھی تو ایک سیکنڈ میں بھر جائے۔۔‘‘
’’ہاں۔۔‘‘اس نے اثبات میں سرہلایا۔
’’پھر تمہیں ایک کام کرنا پڑے گا‘‘
’’کیا؟‘‘
’’صرف ستر عورتوں کو مار دو اور ان کی رال چوس لو۔اس کے بعد تم اس دنیا کے طاقتور ترین انسان بن جاؤ گے۔‘‘یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا اور اس کی آنکھ کھل گئی۔رات کے اندھیرے کے بعد سورج نکلنے والا تھا۔خواب کی وجہ سے اس کا پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔۔کیا وہ اپنے باپ کی ہدایت پر عمل کرے؟یہ سوال اس کے دماغ میں بار بار آرہا تھا۔۔اور اگرکرے بھی تو کیسے؟۔۔
٭٭٭
مدان ،شمالی سماٹرا.. انڈونیشیا کا دارالحکومت ہے۔تقریباًاکیس لاکھ کی آبادی کے اس شہر کے مضافات میں واقع ایک گنے کے پلانٹ کے پاس موجود ایک گھر کا منظر ہے۔یہ گھر کی بیٹھک ہے۔یہاں باریک مونچھیں چہرے پر سجائے ،چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا احمد سورادجی موجود تھا۔اس کے سامنے شہر سے آئی ایک مسلمان عورت موجود تھی ۔
’’کیا چاہتی ہو مجھ سے؟‘‘۔احمد کی آواز کمرے میں گونجی۔
’’میرا شوہر بے وفا ہے۔۔وہ مجھے بدصورت کہتا ہے۔۔دوسری عورتوں کی طرف بھاگتا ہے۔میں حسین ہونا چاہتی ہوں۔آپ کے بارے میں بہت سنا ہے۔میرا مسئلہ حل کر دیں۔‘‘
’’کسی کو بتایا تو نہیں کہ تم یہاں آ رہی ہے؟‘‘
’’نہیں۔چھپ کر آئی ہوں۔‘‘اس کا جواب سن کر احمد کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھرے۔اس نے گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ اس کی بیوی تومینی تھی۔اس نے عورت کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’احمد ایک عمل کریں گے۔۔اس کیلئے تمہیں دفن ہونا پڑے گا۔چند گھنٹے کا کام ہے اس کے بعد تمہارا شوہر تمہارے قدموں میں ہو گا۔‘‘عورت نے اثبات میں سرہلادیا۔سورج ڈوب رہا تھا۔کچھ دیر بعد اندھیرا چھا گیا۔ہر طرف خاموشی تھی۔احمد عورت کو اپنے گھر کے پاس موجود گنے کے پلانٹ کے قریب پڑی خالی زمین کی طرف لے گیا۔یہاں ایک چھوٹا سا گڑھا پہلے کھودا گیا تھا۔یہ بالکل ایک قبر کی طرح تھا۔اس نے عورت کا سراپنے گھر کی طرف کیا اور اسے گڑھے میں لٹا دیا۔تھوڑی دیر بعد عورت پورا جسم مٹی میں دبا ہواتھا لیکن گردن اور سر باہر تھے۔وہ بالکل بے بس تھی۔۔لیکن شوہر کی خاطر یہ مشکل برداشت کررہی تھی۔اچانک اس کی گردن ایک رسی میں جکڑی گئی۔اس نے گھبر اکر آنکھیں کھول دیں۔احمد کے چہرے پر سفاکیت تھی۔عورت نے دیوانہ وار باہر آنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔اس کی سانس رکنے لگی۔رسی گردن کے گرد تنگ ہوتی چلی گئی۔کچھ دیر بعد وہ مرچکی تھی۔احمد اس کا ’سلیوا‘چوسنے میں مصروف تھا۔۔اس کا کام شروع ہوچکا تھا۔
٭٭٭
احمد سورادجی ،بارہ دسمبر 1952 کو مدان کے دیہاتی علاقے میں پیدا ہوا تاریخ پیدائش بعض جگہ پر دس دسمبر 1949 بھی لکھی گئی ہے۔اس کا باپ کالے جادو کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کیا کرتا تھا۔احمد خود مویشیوں کی نسل بڑھانے کا کام کیا کرتا تھا۔اس نے تین شادیاں کیں اور تینوں آپس میں بہنیں تھیں۔احمد نے باپ سے کچھ نہ کچھ جادو سیکھا تھا اس لئے دیہاتی علاقے کے کچھ جاہل اس کے مرید بھی تھے اور وہاں وہ مشہور تھا۔اس کے پاس آنے والوں کی بڑی تعداد خواتین کی تھی جو یا تو حسین ہونا چاہتی تھیں یا دولت حاصل کرنا چاہتیں یا پھر اپنے شوہر کو قدموں میں دیکھنا چاہتی تھیں۔احمد کو ’نصیب کیلیوانگ بھی‘کہا جاتا تھا۔۔کیلوانگ انڈونیشیا میں استعمال ہونے والا ایک تلوار کی طرح کا ہتھیار ہے۔۔
احمد بنیادی طور پر شمن مذہب کا پیروکار تھا۔شمن مذہب کے لوگ بدروحوں کو قابو میں رکھنے کے عقیدے پر یقین رکھتے تھے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس مذہب کے پیروکارقبائلی علاقوں میں دیکھے جاتے ہیں ۔جہاں کسی اور طریقے سے بیماری کا علاج ممکن نہ ہو وہاں شمن علاج کیا کرتے ہیں۔
احمد بھی انہی عقائد کی وجہ سے بدروحوں کو قابو کرنے کا عمل کیا کرتا تھا۔یہ سب حقیقت میں ممکن تھا یا وہ ڈرامہ کیا کرتا تھا۔۔یہ کبھی پتہ نہ چل سکا لیکن احمد کی زندگی کا ایک نیا موڑ تب آیا جب اس نے ایک رات اپنے باپ کو خواب میں دیکھا۔1986 کی وہ رات اس کی ساری زندگی بدل گئی۔
٭٭٭ 
چوبیس اپریل 1997 کی صبح اکیس سال کی سری کیمالا دیوی نے مدان کے مضافات کی طرف سفر کیا۔یہ سفر ایک رکشے میں تھا جس کا ڈرائیور پندرہ سال کا اینڈریاس تھا۔سفر کے اختتام پر ایک عجیب بات ہوئی۔کیمالا دیوی نے رک کر اینڈریاس سے کہا۔
’’میری ایک بات مانو گے۔۔درخواست کرتی ہوں تم سے۔‘‘
’’کیا؟‘‘نوجوان اینڈریاس نے پوچھا۔
’’میرے اس سفر اور جہاں میں پہنچی ہوں اس کے بارے میں کبھی کسی کو مت بتانا۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’کوئی بھی پوچھے ،مت بتانا۔درخواست مان لینا میری‘‘اینڈریاس نے اثبات میں سرہلادیا اور کیملا کو چھوڑ کر چلا گیا۔کیمالاوہاں سے سیدھی علاقے کے مشہورترین عامل اور کالے جادو کے ماہر احمد کے پاس پہنچی ۔احمد نے اسے ایک دن پہلے عمل کے بارے میں بتادیا تھا۔ایک بار پھر گنے کاپلانٹ اور وہی عمل۔کیمالا بھی آخری لمحات تک اپنی موت کا یقین نہ کرسکی۔احمد کا شکار ہونے والی لڑکیوں اور عورتوں میں کیمالا کا نمبر بیالیسواں تھا۔
اگلے کچھ دن جب کیمالا کہیں سے نہ ملی تو اس کے گھر والوں نے اس کی گمشدگی کی درخواست جمع کروادی۔۔اور ساتھ ہی ایک تصویر بھی اخبار میں دے دی جسے دیکھ کر اینڈریاس کو کیمالا کی آخری بات یاد آ گئی۔۔اس نے پولیس کو جا کراطلاع دے دی اور علاقے کے بارے میں بتادیا۔
اگلے دن پولیس نے پورے علاقے کی چھان بین کی اور نتیجے میں کیمالا کی لاش احمد کے گھر کے پاس دفن ملی جس کے نتیجے میں اسے پوچھ گچھ کیلئے اٹھا لیا گیا۔یہ علاقے کے لوگوں کیلئے ایک بڑا جھٹکا تھا کیونکہ وہاں رہنے والے اکثر لوگ اس کے مرید تھے۔۔پولیس کی تفتیش کے نتیجے میں احمد سورداجی نے کیمالا کے قتل کا اعتراف کرلیا اور ساتھ ہی اپنے باقی کے قتل بھی مان لئے۔اس کے اعتراف جرم نے پورے انڈونیشیا میں ہلچل مچادی۔ اس کی نشاندہی پر پورے پلانٹ کی کھدائی کی گئی تو کئی لاشیں اور ڈھانچے برآمد ہوئے۔۔اتنی اموات کی وجہ جب احمد سے پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا۔
’’مجھے بابا خواب میں آئے تھے اور بڑا جادوگر بننے کا طریقہ سکھایا تھا‘‘۔
اگلے کئی سال تک یہ کیس چلتا رہا۔۔اسے انڈونیشیا کا سب سے سنسنی خیز کیس کہا جاتا ہے کیونکہ احمد نے کورٹ میں جاکر اچانک بیان بدل دیا تھا۔’’مجھ سے جو کچھ بھی پہلے لکھوایا یا بلوایا گیا ہے وہ سب پولیس نے دباؤ ڈال کر لکھوایا ہے یا بلوایا ہے۔میں نے ایک قتل بھی نہیں کیا۔‘‘مگر ملنے والی بیالیس لاشیں اس کے جرم کا ثبوت تھیں اور اس کی مدد کرنے والی تینوں بیویاں بھی اعتراف کرچکی تھیں۔
اس دن چھوٹی سی عدالت میں سو سے اوپر لوگ تھے جبکہ عدالت سے باہر سینکڑوں اور ٹی وی کے سامنے انڈونیشیا کا ہر ٹی وی کی سہولت رکھنے والا بندہ بیٹھا تھا جب احمد سورداجی کو موت کی سزا سنائی گئی۔تمام لوگوں نے اس فیصلے پر کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔۔
10جولائی 2008 کو احمد کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے بٹھایا گیا۔اس کی آخری خواہش اپنی بیوی کو دیکھنا تھی جو پوری کر دی گئی اور سفید پٹی سینے پر باندھ کر اس تاریخ کے اس ظالم انسان کو مار دیا گیا۔اس کی بیوی تومینی کو بھی پہلے موت کی سزا سنائی گئی تھی جو بعد میں عمر قید میں بدل دی گئی۔
بلیک میجک کلر کی اس کہانی کے کئی پہلو ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
پولیس کے مطابق بیالیس لاشیں ملی تھیں جبکہ مزید اسی عورتیں بھی مدان کے مضافات سے غائب تھیں۔۔احمد نے اپنا ٹارگٹ ستر بتایا تھا جسے وہ پورا نہ کرسکا ۔۔وہ اسی عورتیں کہاں غائب ہو گئیں یہ کوئی نہیں جانتا۔۔
٭٭٭٭
اعتزاز سلیم وصلی