گھٹن زدہ ماحول سے نجات حاصل کرنے کی چاہ میں اپنے آبائی دیس واپس آنے والی ایک لڑکی کی کتھا......
شب ناتمام
یخ بستہ ٹھنڈے کاریڈور میں قدم بڑھاتے ہوئے میرا ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
یہ رچرڈ کے ساتھ میری پہلی میٹنگ تھی۔اس کے متعلق تمام تفاصیل میرے اس بھاری بھرکم فولڈر میں موجود تھیں
جسے میں پہلے ہی بہت باریک بینی کے ساتھ پڑھ چکی تھی۔اس کے متعلق ایک ایک بات میرے حافظے میں محفوظ تھی۔۔۔۔
اپنے پروفیشنل کیرئیر کی ابتدا میں ہی رچرڈ جیسے کیسز پر کام کرنا کہیں مجھے اپنے کام سے بدظن ہی نہ کردے۔۔میں نے ببیزاری سے سوچا
رچرڈ کی تحلیل نفسی کے ذریعے یہ اندازہ لگانا کہ وہ واقعتاً اپنے احساس جرم کے شدید دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے پاگل ہوچکا ہے؟ یا یہ جیل کی سختیوں سے بچنے کا کوئی حربہ ہے۔۔
یہی اس سیشن کا مقصد تھا۔
میرے پاس موجود فائل کے مطابق ،
وہ ایک کیتھولک نظریات کا حامل عیسائی تھا۔جسے عدم تشدد کی تعلیم گھٹی میں پلائی جاتی تھی۔
ایک ورکشاپ جو اس کے گھر میں ہی قائم تھی اس کی گزر اوقات کا ذریعہ تھی۔یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں زندگی زیادہ تیز رفتار نہیں تھی۔۔تیز رفتار اور مسابقانہ زندگی کے ہیجان اور اس کے مابعد ذہنی اثرات سے لوگ محفوظ تھے۔ ایسے میں اس قسم کے کیسز کا وقوع پذیر ہونا ایک سوالیہ نشان تھا۔۔
تفصیلات کے مطابق ایک روز اس نے اس وقت اپنی "سیاہ فام "پڑوسن کو پانے کے پے درپے وار کرکے قتل کردیا ۔۔
جب وہ اپنے دو بچوں کو سلانے کے بعد ٹی وی لاؤنج میں موجود تھی۔۔۔۔
ملزم کے بقول ملزمہ برے کاموں میں ملوث تھی۔۔وہ معاشرے کی ایک ایسی برائی تھی جسے ختم کرنے کا حکم اسے خدا نے براہ راست ان سرگوشیوں کی صورت میں دیا جو ہر وقت اس کے کانوں میں گونجتی تھیں۔۔۔۔۔
وہ آوازاسے حکم دیا کرتی تھی اور وہ بس ایک اچھے انسان کی طرح اس کی تعمیل کرتا تھا ۔۔۔۔اسے یقین تھا وہ نامعلوم ذریعہ آمدنی رکھنے والی، بھڑکیلے لباس پہن کر مردوں کے ساتھ گھومنے والی ایک فاحشہ تھی ۔۔۔۔
وہ بدی کا استعارہ تھی اسے ختم کرڈالنا گناہ نہیں بلکہ نیکی تھی۔۔۔
اور اب وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔اس کے دونوں ہاتھ ایک ہتھکڑی میں جکڑے ہوۓ تھے۔ہمارے درمیان موجود ٹیبل پر ایک ڈسپوزیبل گلاس میں پانی موجود تھا ۔میں نے اپنا فولڈر ٹیبل پر رکھتے ہوئے رچرڈ نیلسن کا جائزہ لیا۔کندھوں تک بڑھے ہوۓ سنہرے بال جو پیشانی سے اس حد تک اڑچکے تھے کہ اسے گنج پن کا نام دیا جاسکتا تھا۔چندھی چندھی نیلی آنکھیں جنہیں وہ بغور سکیڑے میرا جائزہ لے رہا تھا۔ سفید انڈے جیسی بے رنگ جلد پر دھوپ سے جھلسنے کے سیاہ دھبے موجود تھے۔اس کے ہلاکت خیز ہاتھ گود میں رکھے ہوئے تھے جن سے اس نے ایک نہتی عورت پر پانے کے قریب دس وار کئیے تھے۔جس سے اس کا چہرہ ناقابل شناخت ہوچکا تھا۔پڑوسیوں نے اس کے بچوں کی ہذیانی چیخیں سن کر رچرڈ نیلسن کو اس گھر سے فرار ہوتے ہوئے دیکھا اور وہ موقع پر گرفتار ہوا۔۔نہ جانے ایسے لوگوں کو بچوں اور عورتوں کے بارے میں ہی کیوں سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔میں نے سوچا۔۔
اس چھوٹے سے کمرے میں ایک سپاہی دروازے پر چوکس کھڑا تھا ۔۔اس کی موجودگی سے مجھے گوناگوں سکون کا احساس ہوا۔۔۔
میں نے فائل کا سرسری جائزہ لیکر اسے بند کردیا اور رچرڈ سے سوالات کا آغاز کردیا۔اس بات کا اندازہ لگانا بہت ضروری تھا کہ جرم کے پیچھے کوئی ذاتی وجہ تو موجود نہیں جبکہ بعض پڑوسیوں کے بیانات کے مطابق رچرڈ ایک تنہا شخص تھا، اس بات کا بہت زیادہ امکان موجود تھا کہ مقتولہ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکامی پر مشتعل ہوکر اس نے مقتولہ نینسی کو جان سے مارڈالا ہو۔۔
سیشن ختم ہونے پر میں نے ایک مکمل رپورٹ بناکر کیس کے انچارج آفیسر کے حوالے کردی ،جس کے مطابق ملزم پاگل ہونے کا محض ڈرامہ کر رہا تھا بظاہر اس میں ذہنی مریضوں والی کوئی علامات موجود نہیں تھیں ۔۔سوائے اس کی آنکھوں کے جن میں عورتوں کے خلاف نفرت ابل ابل کر باہر آرہی تھی۔
ہاسپٹل سے باہر نکلتے ہوئے میری نگاہ ایک چھوٹے سے بچے پر پڑی جو بار بار بال کو کک کرتا اور وہ اس کی ماں کے پیروں کے پاس جاکر رک جاتی۔۔۔تب وہ خوشی سے قلقاری مارکر پھر بال لینے بھاگتا ۔۔۔
میں نے مسکرا کر اس منظر کو دیکھا اور رچرڈ کی گفتگو ذہن میں گھومنے لگی۔۔
"گناہ کا استعارہ عورتیں "
کیا یہ بچہ بھی بڑا ہوکر ایسی ہی سوچ رکھے گا ؟"
میرے ذہن میں عجیب سا خیال پیدا ہوا۔۔
اور میں سر جھٹک کر آگے نکل گئی۔۔کیس بہت واضح تھا مجھے سو فیصد یقین تھا کہ رچرڈ کو کم از کم بھی الیکٹرک چئیر نصیب ہوگی وہ اس سے کم کا مستحق ہی نہیں تھا۔۔۔اس کیس کو عدالت میں لگے دو ماہ کا عرصہ گزرچکا تھا۔۔۔نینسی کا وکیل رچرڈ کو سزا دلوانے کے لئیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا تھا اور نینسی کا قاتل انجام سے قریب تھا جب میں نے وہ نیوز سنی۔۔۔نیوز کاسٹر بہت جو ش و خروش سے بتارہی تھی کہ کافی عرصے سے پھانسی کی سزا کالعدم قرار دینے کی جو تحریک سرگرم تھی آخر کار اپنے مقاصد میں کامیاب رہی۔۔مجرموں کے لئیے انتہائی سزا موت سے ہٹا کر اب عمر قید کردی گئی تھی۔میرے ذہن میں ان دو بچوں کے سہمے ہوے چہرے پھر گۓ جن کی ماں ان کے سامنے قتل کردی گئی۔غصے کے شدید احساس نے مجھے یوں مغلوب کیا کہ میں نے یکدم ہی تبدیلی آب کا فیصلہ کرلیا۔ دنیا اتنی بھی بری نہیں مجھے بس تبدیلیء ماحول کی ضرورت ہے۔میں نے خود کو تسلی دی
دل جیسے یکدم ہی اس ماحول سے اچاٹ ہوا۔۔
"مام!میں پاکستان جارہی ہوں۔۔۔پورے دوہفتے کے لئیے"
کھانے کی ٹیبل پر میں نے نےاچانک اعلان کیا ۔
مام نے بس ایک نظر مجھے دیکھا تھا ۔انہوں نے وجہ نہیں پوچھی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کام کے دباؤ سے بچنے کے لئیے میں اکثر کبھی اپنی بہن کے پاس اٹلی تو کبھی اپنے دودھیال پاکستان چلی جایا کرتی ہوں۔
جہاں تایا جی کا پورا خاندان ایک بڑی سی حویلی میں مقیم ہے پاکستان جاکر صحیح معنوں میں احساس ہوتا ہے کہ حکومت کرنا کسے کہتے ہیں۔
امریکہ میں ہم ہر کام خود کرنے کے عادی ہیں یہاں تک کہ ہم اپنے کپڑے بھی خود ہی دھولیا کرتے ہیں۔۔اور پاکستان میں پانی کا گلاس بھی خود اٹھ کر پینا ممنوع تھا نتیجتاً میری تمام کزنز اپنے بڑھتے وزن سے پریشان مجھ سے اسمارٹ رہنے کے گر پوچھتی ہوئی پائی جاتی تھیں ۔جنہیں میں بردباری سے ٹال دیا کرتی تھی۔۔۔۔ اگر انہیں اہنے معمولات کی تفصیل بتائی جاتی تو شاید وہ صدمے سے بے ہوش ہوجاتیں ۔اپنے گھر کے کام خود کرنا ان کے نزدیک ایک آہانت آمیز عمل تھا۔
مجھے امریکہ سے آئے ہوئے ایک ہفتہ ہوچلا تھا ۔۔ ۔
آج میں اپنی ملازمہ سدھوری کے ساتھ کھیتوں کی جانب نکل آئی تھی۔مین ہٹن کی مشینی زندگی کے مقابلے میں اندرون سندھ کے یہ کھیت جیسے میرے لئیے دنیا کے دو الگ ہی سرے تھے۔
کھیتوں میں چاول کی پنیری نے جڑ پکڑ لی تھی اور حد نگاہ تک پھیلے ہلکے ہرے رنگ کے خوشنما قالین جیسے کھیت تیز چمکیلی دھوپ میں ٹھنڈک کا احساس دلا رہے تھے۔کھیتوں کے کناروں پر آم کے درختوں کی قطاریں تھیں جو تایا نے حد بندی کے واسطے لگوا رکھے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئیے بنائی گئی چار فٹ گہری نہر بہہ رہی تھی ۔
میں اس وقت نہر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی سدھوری سے اس کے منگیتر کے قصے سنتے ہوئے تایا کی کہی گئی باتوں کے متعلق سوچ رہی تھی ۔۔
ان کی باتوں سے لگتا تھا وہ میرے اور رب نواز کے مستقبل کو اکٹھا دیکھتے ہیں اور عنقریب اس حوالے سے ماما سے بات بھی کرنے والے ہیں۔۔۔اور میں اس حوالے سے ماما کا ممکنہ ردعمل سوچ رہی تھی ۔گر پاپا حیات ہوتے تو شاید وہ سوچتے بھی مگر ماما۔۔۔وہ تو شاید سنتے ہی انکار کردیتیں۔
"آپ کو معلوم ہے بی بی جی !قاسم میرا اتنا خیال رکھتا ہے ۔۔۔کہتا ہے ،سدھوری!تو بس ایک بار میرے گھر آ جا پھر یہ حویلی کی چاکریاں تجھے ہرگز نہ کرنے دونگا"
وہ مسکراتے چہرے کے ساتھ کہتے ہوئے اچانک چپ ہوگئی جیسے کچھ غلط کہہ جانے کا احساس ہوا ۔اسے شاید یوں لگا کہ میں حویلی کے ذکر پر برا مان جاؤں گی، میں نے اس کی بات پر کچھ یوں ظاہر کیا جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔
اور ادھر ادھر کی گفتگو چھیڑ دی۔ سورج دھیرے دھیرے مغرب کی جانب اپنا سفر طے کررہا تھا جب میں نے دور پگڈنڈی سے ایک سرخ لباس میں ملبوس عورت کو تیز تیز قدموں سے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا ۔نزدیک پہنچ کر اس نے زوردار آواز میں سلام کیا۔اور حال احوال پوچھتی ہوئی ٹماٹر چننے کے لئیےکھیتوں میں جاگھسی۔چالیس پچاس سالہ وہ عورت ایک بیوہ تھی جس کا شوہر اس کے لئیے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اور چار چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑگیا تھا۔
اس کے جانے کے بعد سدھوری نے بتایا۔
"کتنی محنتی لگتی ہے یہ عورت ۔۔"میں نے اس کی پھٹی ہوئی ایڑھیوں اور ماتھے کی سخت جھلسی ہوئی جلد سے اندازہ لگایا.
"ہاں بی بی جی۔۔بس شوق ہے کچھ اسے"سدھوری نے منہ بنایا۔
"حالانکہ بڑے سائیں اور سائیں رب نواز نے بڑی ہی کوشش کی کہ یہ زمین انہیں بیچ دے اور خود تمام عمر خرچے سے بے نیاز ہو جائے ۔۔مگر نہ ۔۔کہتی ہے
زمین میرے بچوں کا آسرا ہے چند سال میں بڑا لڑکا خود زمین پر محنت کرے گا ہنہہہ !تب تک کریں فاقے
"
ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے جب ایک زوردار فائر انتہائی قریب سے سنائی دیا تھا ۔یہاں پرندوں کے شکاریوں کی رائفلوں کے دھماکے اکثر گونجا کرتے تھے مگر اس آواز میں اور اس دھماکے میں بہت فرق تھا۔ہم نے بے اختیار کانوں پر ہاتھ رکھ لئیے۔۔۔ اس فائر کی بازگشت تھمی بھی نہ تھی کہ ایک اور فائر سنائی دیا ۔
"ادی !یہ سائیں رب نواز ہونگے پکھی مارنے آئے ہوں گے۔"سدھوری نے اندازہ لگایا۔
"پتہ نہیں"میں کچھ بے چین سی ہوئی
اسی وقت رب نواز دکھائی دیا اس کا رخ برابر والے کھیتوں میں تھا جہاں ٹماٹر کاشت کئیے گئے تھے۔
میں بھی تجسس کے مارے اس کے پیچھے چل پڑی۔۔کھیت میں کنارے پر اگی سرکنڈوں کی باڑھ سی اندر دیکھنے سے روک رہی تھی۔ اچانک مجھے ٹھٹک کر رک جانا پڑا ۔وہ سرخ اور ہرے کپڑوں کا ڈھیر کوئی پرندہ ہرگز نہیں تھا۔
قریب ہی ایک تنکوں کی ٹوکری میں کچھ ٹماٹر بکھرے پڑے تھے۔
رب نواز اسے پیر سے ٹٹول کر دیکھ رہا تھا کہ زندگی کی رمق باقی ہے یا نہیں۔
اچانک میرا جی الٹنے لگا زمین ،آسمان نگاہوں کے سامنے گھومنےلگے ۔میں ابکائیاں لیتی ہوئی وہیں بیٹھ گئی۔
انسانیت کی اس درجہ تذلیل نے یکدم ہی میرے ہاتھ پیر بے جان سے کردئیے تھے۔رب نواز جو میرے ردعمل سے کچھ پریشان سا ہوگیا تھا نزدیک آ کر بولا ۔۔۔
"حرامزادی !منہ کالا کرنے آئی تھی وہ بھی ہاری کے ساتھ۔۔۔۔ناک کٹوادی ہماری"رب نواز نے نفرت سے زمین پر تھوک دیا پھر سدھوری کو جھڑکتے ہوۓ بولا ۔
"تم لوگ شام کے وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟جاؤ بی بی کو گھر لے کر جاؤ"
لڑکھڑاتے قدموں اور چکراتے سر کو قابو کرتے ہوئے میں نے واپسی کے لئیے قدم آگے بڑھائے تو نظر نہر کے قریب آڑی ترچھی پڑی دوسری لاش پر گئی ۔۔
ایک نوعمر لڑکا ،ہاتھ میں پھاؤڑا لئیے اپنی ماں کے برابر محبوبہ سے ملنے آیا تھا جو بیس گز کی دوری سے ٹماٹر چنتے ہوئے یقینا محبت کا کوئی گیت سنا رہی ہوگی۔۔۔کم از کم یہ منظر نامہ تو یہی بتارہا تھا ۔۔۔
یہ لڑکا کرشن ہے بی بی جی! چندو میگھواڑ کا بیٹا"
واپسی کے سفر میں سدھوری نے سرگوشی کی تھی۔کیا
"اب رب نواز پکڑا جاۓ گا ماما؟"میں نے رات کو ماما کو تمام تفصیل بتاکر فون پر سوال کیا تھا۔
اور وہ تلخ سی ہنسی ہنس کر بولیں ۔
"دونوں کارو کاری کرکے مارے گۓ ہیں ثوبیہ!
اول تو پولیس تمہارے تایا کے خلاف حرکت میں آئے گی نہیں ۔۔یہ کیس پنچائیت میں جائے گا اور پنچائیت رب نواز کو شاباش دے گی کہ اس نے گاؤں کی عزت خراب ہونے سے بچا لی ۔۔۔جب وہ یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھے گا تو اس کی واہ واہ ہو جائے گی۔
میں نے فون رکھ کر سر ہاتھوں میں تھام لیا۔کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا ۔۔۔رات بہت گہری تھی روشنی کی کوئی کرن تک
نمایاں نہیں تھی۔ میں نے کھڑکی بند کردی۔میں ذہنی سکون کے لئیے یہاں آئی تھی مگر اب مجھے پہلی فرصت میں چھٹی منسوخ کرکے واپسی کی اطلاع دینی تھی۔
میں مانتی ہوں بزدلوں کی طرح منہ چھپا کر بھاگ رہی ہوں ،لیکن اپنے سسٹم کو اچھی طرح جانتی ہوں کہ جہاں سے آئی ہوں اور جہاں جارہی ہوں ۔۔۔۔وہاں قاتلوں کو مختلف صورتوں میں مقتول کے ہی پیسوں سے پالنے کا رواج ہے ۔۔
کبھی علاج کے نام پر تو کبھی انعام کے نام پر۔۔ ۔۔۔
بس ایک امید ہے دل میں کبھی تو عمل کا ردعمل سامنے آئے گا ۔۔۔پانی سے ارزاں خون کبھی تو دامن قاتل پہ داغ چھوڑے گا ۔۔امید ہے بس___
ماہ رخ ارباب