تو نشانِ عزم عالیشان

2019-04-12 20:30:31 Written by طاہر سراج

 

جوش ایمانی اور جذبات کی حدت سے پر ایک قلم کا شاخسانہ

جو ازل سے مقدر ہو وہ ہو کر رہتا ہے--

رحمانیت اور شیطانیت کے نظریات کی کشمکش آدم کے دور سے چلی-- اور زمانہ اخیر میں عجیب رنگ سے ظاہر ہوئی--

تلواروں کی جھنکاروں اور تیروں کے زناٹوں کی آوازیں مدہم پڑ چکی تھیں- ایک کے بعد ایک ملک ہارتی جا رہی ایک امت- کہیں زمین ہار بیٹھی تو کہیں نسل نو کے ہاتھوں نظریات میں مزاحمت کا سامنا--

پچھلی صدی کے وسط تک دوسری عالمی جنگ کے بعد تو دنیا کو یقین تھا کہ آئندہ دنیا دو ہی نظریات کے زیرسایہ چلنے والی ہے-- "سرمایہ داری" اور "کیمونزم"…!!! یاد رہے سرمایہ داری یا کیمونزم نہیں بلکہ سرمایہ داری اور کیمونزم--

طرفین میں دو عفریت تھے امریکہ اور روس-- بے پناہ جنگی طاقت-- لاتعداد وسائل- کون ہے جو سامنے ٹھہرنے کی جرات کرے؟ نخوت و غرور کے پردوں میں لپٹی حکومتیں اور دجالی نظام کے پیروں کاروں کے سامنے کون ٹھہرتا ؟ یورپ یا ایشیا؟

اور عین اسی وقت ہندوستان جیسے ایک قطعہ ارض پر ایک نعرہ دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کے طول و عرض میں پھیل گیا- پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ--

دنیا ذہنی طور پر کیمونزم اور سرمایہ داری کے نظام ہائے کیلئے تیار ہو چکی تھی-- دنیا کے مختلف خطوں میں ان نظام ہائے کیلئے زمین تیار ہونا شروع ہو چکی تھی-- کہیں بھاڑے کے دانشور سرخ سویرا کی رٹ لگا رہے تھے اور بطور فیشن ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے تھے تو کہیں سرمایہ داری نظام کا طاغوت انسانی حقوق کے مکروہ پردوں میں دانت تیز کر رہا تھا-- مذہب ایک پھبتی سے زیادہ کچھ نہ تھا-- مسلمان ایک مفلوک الحال مخلوق سے زیادہ کوئی درجہ نہ رکھتے تھے-- خلافت عثمانیہ اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی-- کہ عین اسی لمحے اللہ پاک کی تدبیر حرکت میں آئی اور ان طاغوتی و دجالی طاقتوں کے بیچوں بیچ پاکستان بن گیا-- نعرہ تکبیر اللہ اکبر--

ایک چھوٹی سی رحمانی طاقت وجود میں آچکی تھی جو کہ درحقیقت آنے والے دنوں میں شیطانی طاقتوں کیلئے بہت بڑا خطرہ بننے والی تھی-- اور شیطانیت اس خطرے کو بھانپ گئی تھی-- اس لئے جب تھوڑے ہی عرصے بعد شیطانی سلطنت اسرائیل قائم ہوئی جن کا مقصد کئی صدیوں سے گریٹر اسرائیل کا قیام تھا-- اور یہودی ذہن کی فتنہ پردازیوں کے سامنے سرمایہ داری اور کیمونزم نے بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جانا تھا-- اس کے پہلے وزیر اعظم بن گوریان نے کہا ہمیں خطرہ صرف پاکستان سے ہے-- جبکہ اس وقت روس اور امریکہ جیسے دو طاغوت صفحہ ہستی پر پوری طاقت سے موجود تھے مگر یہود کو خطرہ صرف پاکستان سے تھا--

جس خطے کو یہود نے آکٹوپس کی طرح جکڑنا تھا اس خطے کے پانیوں کے کناروں پر پاکستان ایک دفاعی حصار کی طرح آن کھڑا ہوا-- اللہ پاک نے ارض مقدس کو جغرافیہ بھی باکمال دیا--

یہود کو کبالہ جادو کے زور پر پچیس سو سال قبل ہی آج کی صورتحال اور امریکہ کا قیام وغیرہ پتا تھی-- اس حوالے سے اس کی تیاری بہت پرانی تھی-- اس لئے پاکستان بنتے ہی روس اور امریکہ جیسی سپر پاورز بھارت کو چھوڑ کر بے سرو سامان پاکستان سے تعلقات گانٹھنے بھاگیں--

بھلے ہمارے اپنوں کی طوطا چشم حرکتوں نے ہر شعبے میں پاکستان کو نقصان پہنچایا-- مگر اللہ کے فضل و کرم سے بحیرہ عرب کے کنارے کھڑے اس قلعے میں دفاع واحد شعبہ تھا جس میں پاکستان آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور تمام تر بے سروسامانی کے باوجود ایٹمی قوت بن گیا--

حضور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مسلمان امت کی مثال ایک جسم کی سی ہے اس کے ایک حصہ کو تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے(مفہوم) ایک دوسری حدیث پاک کا مفہوم و مطلب ہے کہ کفر ایک ملت ہے اور مسلمان ایک ملت ہیں(مفہوم)-- اور پاکستان اس ملت کا کنٹونمنٹ ہے--دفاعی حصار ہے-- کنٹونمنٹ اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں اسلحہ رکھا جاتا ہے-- دوسرے لفظوں میں آپ پاکستان کو امت مسلمہ کا اسلحہ خانہ بھی کہہ سکتے ہیں--

کوئی بھی ملک معیشت اور تعلیم وغیرہ کے بعد اپنے دفاعی امور کو مضبوط کرتا ہے-- تو معاشی طور پر عرب ممالک وغیرہ مضبوط بنیادوں پر ہیں تعلیم میں ترک انڈونیشیا ایران وغیرہ اپنا کام کر رہے ہیں-- جبکہ امت کا دفاعی سامان حرب پاکستان ہے-- پاکستان بننے کے فورأ بعد امریکی سفارت کاروں نے اپنے خطوط اور دستاویزات میں اسی خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس خطے کے لوگ بھارت کی نسبت زیادہ جنگجو اور جوشیلے ہیں اور ان کی فوج پرعزم ہے اس لئے ان پر اثرونفوذ بڑھانا ضروری ہے-- مگر اللہ کی تدبیر کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایٹمی طاقت بن گیا--

علامہ محمد اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ--

نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا--

اور روما کی سلطنت کے جدید گماشتے امریکہ روس اور اور اسرائیل اس سوئے ہوئے شیر کو بھانپ چکے ہیں--اس لئے ان کا سارا زور اس مملکت خداد پر رہا- مگر بقول مولانا ظفر عی خان
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن 
پھونکو سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

کیا کیا چرکے اپنے زر خرید پالتوؤں کے ذریعے اس مملکت خداداد کو نہ لگائے گئے-- مگر پاکستان الحمدللہ اپنے قدموں پر کھڑا رہا--

وہ دنیا جو 1947 تک کیمونزم اور سرمایہ داری کی بات کرتی تھی-- اور یہ دونوں نظام ایک مفلوک الحال مملکت کے بننے سے پریشان تھے- وہ پریشانی بلاوجہ تو نہ تھی-- ان میں سے ایک شیطانی طاغوت کو اسی پاکستان نے آگے چل کر دھڑام سے زمین بوس کر دیا-- لینن اور کیمونزم کے نظام کا مصنوعی نطفہ روس زمین پر آرہا-- اور ان شاء اللہ امریکہ اور اسرائیل کا انجام بھی اللہ کی اسی سرزمین کے ہاتھوں انجام کو پہنچے گا--اور کسی دانشوری کی ناقابل علاج بیماری میں مبتلا شخص کو میری یہ بات سمجھ میں نہ آئے تو جان رکھو روس امریکہ سے بڑی طاقت تھی-- اوپر میں نے امریکی سفارت کاروں کی دستاویزات کا ذکر کیا ہے-- اور نہ ہی اسرائیل کا وزیر اعظم بن گوریان پاگل کا بچہ تھا کہ جسے روس امریکہ سے خطرہ نہیں تھا مگر اسرائیل بننے کے بعد اس کی پہلی ہی تقریر میں پاکستان سے ڈر اس کی زبان پر آگیا تھا-- اوپر میں نے کبالہ جادو کی پچیس سو سال پرانی حشرکاریوں کا ذکر بھی کیا ہے-- امریکہ کا مجسمہ آزادی عشتار دیوی جو کہ آسمانی صحائف کے مطابق طوائفوں اور بدمعاشوں کی ماں ہے اسی اسرائیل کا دیا ہوا تحفہ خاص ہے-- تو جان رکھو اللہ کے شیرو کہ روس کی طرح امریکہ اور اسرائیل کا انجام بھی اسی پاکستان کے ہاتھوں ہو گا ان شاء اللہ--

لکھنے کو بہت کچھ ہے ذہن میں پوری ایک فلم چل رہی ہے-- مگر تحریر شاید زیادہ طویل ہو گئی ہے- اس لئے اختصار کے پیش نظر آخر میں وہ بات کہہ کر ساری گفتگو کو سمیٹ رہا ہوں جو سن کر آپ کے دل ٹھنڈک سے بھر جائیں گے-- کہ پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سرزمین سے ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں--

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹھنڈی ہوائیں کہاں سے آتی تھی ؟ جو علامہ اقبال جیسا مرد قلندر کہتا پھرتا تھا

"ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے

پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے

وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے

میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے

میرا وطن وہی ہے , میرا وطن وہی ہے _____

طاہر سراج