مفرور

2019-04-20 12:37:39 Written by اعتزاز سلیم وصلی

سیریل کلرز 

قسط نمبر 3

مفرور

یکم ستمبر 2013

 پرپنااگراہارا سینٹرل جیل،بنگلورکے اندر موجود قیدیوں کیلئے مخصوص ہسپتال کے ایک کمرے میں وہ بھی موجود تھا۔اس کی آنکھوں میں دیوانگی کی چمک تھی اورآج وہ بے چین دکھائی دیتا تھا۔وہ اس جیل میں پھڑپھڑا رہا تھا۔قید ہو کر رہنا اس کی فطرت میں شامل نہیں تھا۔وہ آزاد پرندہ تھا۔چالیس ایکڑ پر پھیلی اس جیل کی سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔یہاں اکثر ایسے مجرم رکھے جاتے تھے جن کے فرار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا تھا۔اس کمرے میں موجود شخص کا نفسیاتی علاج چل رہا تھا ۔۔اور اس نفسیاتی مریض نے جیل توڑنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔اس کے ہاتھ میں ہسپتال کے اس سیل کے تالے کی چابی دبی تھی جو اس نے خود تیار کی تھی۔اسے تیار کرنے میں ہسپتال میں استعمال ہونے والی مختلف چیزیں اس نے استعمال کی تھیں۔رات دو بجے کا وقت آ پہنچا۔وہ پچھلے دو ماہ سے یہ منصوبہ بنا رہا تھا ۔اسے پتا تھاگارڈز کی تبدیلی کا وقت آپہنچا ہے۔وہ تیزی سے حرکت میں آیا۔اس کے پاس صرف تیس منٹ تھے۔تالاکھلتے ہی وہ بھاگتا ہوا باہر نکلا۔باہر نکلتے ہوئے وہ بستر پر موجود بیڈ شیٹ لینا نہیں بھولا تھاجسے پھاڑ کر وہ رسی کی شکل دے چکا تھا۔دوسرے گارڈز ابھی تک نہیں آئے تھے اور پہلے سے ڈیوٹی پر موجود گارڈز جا چکے تھے۔۔انہوں نے ایک غلطی کی تھی۔۔بہت بڑی غلطی۔ہسپتال کے مین گیٹ کا لاک کھلا چھوڑ دیا تھا۔قسمت اس کے ساتھ تھی۔وہ گیٹ سے باہر نکلا اور سائیڈ پر موجود بیس فٹ اونچی دیوار کو دیکھا۔اس پر بغیر کسی سہارے کے چڑھنا ناممکن تھا۔وہ یہ بات جانتا تھا۔اس نے پاس ہی پڑے ایک بانس کو اٹھایا اور اسے دو دیواروں کے درمیان اس طرح فکس کردیا کہ وہ لچک نہ کھائے۔اس کے سہارے تھوڑا اوپر چڑھنے کے بعدوہ دیوار سے چپک گیا اور بڑھی ہوئی اینٹوں میں ہاتھ گھسا کر اوپر گھسٹ گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ دیوار کے اوپر تھا۔یہاں اس نے بیڈ شیٹ استعمال کی اور دیوار کے اوپر اینٹوں میں اسے پھنسا دیا ۔تھوڑی دیر بعد وہ یہ دیوار کامیابی سے پھلانگ چکا تھا۔اس نے بیڈ شیٹ نکالی اور آگے بڑھ گیا۔اب اس کے سامنے پھر دو رکاوٹیں تھیں۔پہلی رکاوٹ پندرہ فٹ اونچی دیوار تھی جس کے ساتھ جیل کی آخری دیوار جڑی تھی جو تیس فٹ اونچی تھی۔اس آخری دیوار کے اوپر تاروں کی باڑ لگی تھی جس میں کرنٹ دوڑتا تھا۔وہ گھسٹ کر پہلی دیوار کے اوپر چڑھا اور اس کے اوپر ہی قدم جما کر اگلی دیوار کی طرف بڑھ گیا۔اس بار پھر اس نے بیڈ شیٹ کا سہارا لیا۔ایک پتھر سے اوپر پھینک کر اسے تاروں میں پھنسا دیا۔اس کی مدد سے اوپر چڑھنے کے بعد اس نے آنکھیں بند کرکے تاروں کو ہاتھ لگایا۔۔۔کرنٹ نہیں تھا۔قسمت آج اس پر مہربان تھی۔جیل کے اس انفراسٹرکچر کا انچارج آج انہیں چیک کرنا بھول گیاتھا۔تیس فٹ اونچی دیوار چڑھ کر نے بیڈ شیٹ نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔وقت ختم ہوچکا تھا۔وہ تاروں سے الجھتا ہوا نیچے گرا۔یہاں اس پوری رات میں پہلی بار قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا اور وہ کمر کے بل گرا۔تاروں کی وجہ سے لگنے والے زخموں سے بھی خون رس رہا تھا۔کمر پر شدید چوٹ لگی۔ٹانگ بھی شدید زخمی ہوگئی۔اٹھنا ممکن نہیں تھا۔وہ گھسٹتا ہوا جیل سے دور جانے لگا۔۔

 بنگلور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اگلے دن ہنگامہ مچا ہوا تھا۔مشہور سیریل کلر جے شنکر دوسری بار جیل سے فرار ہو چکا تھا۔

٭٭٭

پانچ سال پہلے

 اس نے اپنا ٹرک ایک سائیڈ پرلگایاا ور ہائی وے پر موجود ایک تیسرے درجے کے ہوٹل میں داخل ہو گیا۔اس ہوٹل کا معیار گھٹیا تھا مگر یہاں اس جیسے چھوٹے طبقے کے کافی لوگ موجود تھے۔یہ تامل ناڈو کا علاقہ تھا۔ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد وہ باہر نکلا اور متلاشی نظروں سے اردگرد دیکھا۔ہوٹل کے مالک کا سائیڈ بزنس عروج پر تھا۔یہاں جسم کی نمائش کرتیں پندرہ سولہ سال کی لڑکیوں سے لے کر پینتیس سال کی عمر کی عورتیں موجود تھیں۔اس نے ایک کو اشارہ کیا۔یہ اٹھائیس سال کی معمولی سی شکل و صورت کی عورت تھی جس کی تجربہ کار نگاہیں اپنے اس گاہک کو بھانپ چکی تھیں۔جیسے ہی وہ پاس آئی ،اس نے بلاتکلف اپنا ہاتھ اس کی کمر پر رکھ کر کہا۔

’’دو گھنٹے کا کتنا لے گی؟‘‘

’’جتنا تم دے دوصاحب‘‘عورت کھنچی چلی آئی۔

’’پر یہاں ہوٹل میں نہیں۔۔دور چلتے ہیں کہیں؟‘‘

’’جگہ ہے آپ کے پاس؟‘‘

’’ہے ناں۔۔‘‘اس نے اپنے ٹرک کی طرف اشارہ کیا۔

 ’’چلو ۔۔‘‘وہ اس کے ساتھ چل پڑی اور یہ اس کی زندگی کا آخری غلط فیصلہ تھا۔وہ اس کے احتجاج کے باوجود کوئی پچاس کلومیٹر دور ایک ویرانے میں لے آیا۔یہاں اس عورت کو اپنی زندگی کے اذیت ناک وقت کاسامنا کرنا پڑا۔وہ انسان نہیں ،درندہ تھا۔عورت چیخی ،چلائی مگر سب کچھ رائیگاں گیا۔

 ’’مجھے جانے دو۔۔‘‘عورت نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔اس نے ٹرک سے ایک سیاہ بیگ نکالا اور زپ کھول کر ایک خنجر نکال لیا۔مزاحمت بیکار گئی۔کچھ دیر بعد اس کی لاش اس ویرانے میں پڑی تھی۔

ٹرک ڈرائیور اپنا کام کر کے جاچکا تھا۔انڈیا کے مشہور سیریل کلر ایم جے شنکر عرف سائکو شنکر کا یہ پہلا شکار تھا۔

٭٭٭

تئیس اگست 2009کی اس شام انتالیس سال کی پولیس کانسٹیبل ایم جیامانی ،کی ڈیوٹی ڈپٹی چیف منسٹر کی سکیورٹی پر تھی۔وہ کنگیام کے پولیس اسٹیشن میں ملازم تھی مگر اس دن اسے ایم کے سٹالن کے وزٹ کے دوران پیرومنلورو میں آنا پڑا۔

 وہ سڑک پر کھڑی اپنی ڈیوٹی میں مصروف تھی جب ایک شخص پیدل چلتا ہوا اس کے سامنے سے گزرنے لگا۔اس کے ہاتھ میں سیاہ بیگ تھااور وہ پرسکون انداز میں چل رہا تھا۔جیامانی نے اسے روک لیا۔

’’کدھر جارہے ہو؟‘‘

’’دوست کے پاس۔۔‘‘اس کا لہجہ عجیب تھا۔

’’اس بیگ میں کیا ہے؟‘‘

’’آپ کے کام کی چیز نہیں۔‘‘

 ’’کھولو اسے۔‘‘وہ غرائی۔اجنبی نے بیگ کھولا اور اندر ہاتھ ڈال لیا۔جیامانی کو چند لمحے لگے تھے سمجھنے میں۔یہ چند لمحے اس اجنبی کیلئے کافی تھے۔اس نے بجلی کی سی تیزی سے بیگ سے خنجر نکال کر جیامانی کی گردن پر رکھ لیااور اس کے ہولسٹر میں لگا ریوالور کھینچ لیا۔

 ’’کوئی حرکت کی تو میں گردن کاٹ کر یہیں پھینک دوں گا۔‘‘اور جیامانی جان چکی تھی وہ کون ہے۔دھرماپوری،کرناٹکا اورسیلم میں تیرہ کیس اس کے خلاف درج تھے۔وہ سائکوشنکر تھا جس کو پولیس ہر جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔اس کی تصویریں بازاروں میں لگی ہوئی تھیں۔یہ بیگ اور خنجر شنکر کی شناخت تھے۔ڈر اور خوف نے پولیس کانسٹیبل کو ساکت کر دیا۔شنکر اسے اغوا کرکے ایک ویرانے میں لے آیا۔یہاں جیامانی پر کئی بار قیامت گزری۔۔اور اسے جی بھر کے استعمال کرنے کے بعد شنکر نے اپنے مخصوص خنجر سے مار دیا تھا ۔

 ترپور میں پولیس نے شنکر کے خاکے بانٹ رکھے تھے۔وہیں کسی کی اطلاع پر انیس اکتوبر کو اسے گرفتار کرلیا گیا۔اس وقت اس پر تیرہ کیس درج تھے۔ پولیس کسٹڈی میں اس نے کئی انکشاف کئے ۔عورتوں کو اذیت دے کر مارنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

٭٭٭

 سترہ مارچ 2011 کی اس رات نوبجے کے آس پاس سیلم ڈسٹرکٹ کی پولیس سائکو شنکر کو ایک قتل کیس کی سماعت کے بعد واپس لارہی تھی۔پولیس وین میں اس کے ساتھ دو کانسٹیبل، چناسامی اور اس کا ساتھی بیٹھے تھے۔سیلم بس اسٹینڈ پرزیادہ رش کی وجہ سے وین رک گئی۔یہاں شنکر نے پولیس کو چکما دیا۔اس نے بندھے ہاتھوں سے وین سے چھلانگ لگا دی ۔زیادہ رش کی وجہ سے چناسامی گولی نہ چلا سکا۔۔اور شنکر سیلم کی گلیوں میں گم ہو گیا۔

 شنکر کا فرار بری ترین خبر تھی جس نے ہر طرف خوف پھیلادیا۔پولیس،میڈیا اور عوام کے دباؤ کی وجہ سے چناسامی نے اپنی غلطی اس طرح تسلیم کی کہ اس نے خود کو گولی مارلی۔

 جے شنکر وہاں سے کرناٹکا بھاگ گیا اور اپنے ساتھ تباہی لایا تھا۔ایک بار پھر اس کے ہاتھ میں سیاہ بیگ تھا۔۔جو کوئی بھی اس کے سامنے آتا وہ خنجر سینے میں اتار دیتا۔عورتیں ایک طرف،دھرماپوری میں اس نے بوڑھے اور ایک لڑکے کو بھی نہ بخشااور ماردیا۔

 بللاری،کرناٹکا میں شنکر نے تباہی مچادی۔صرف ایک ماہ کے دورانیہ میں اس نے آٹھ لوگوں کو قتل کیا جن میں چھ عورتیں شامل تھیں جنہیں زیادتی کے بعد مارا گیا تھا۔کرناٹکا اور تامل ناڈو کی پولیس نے اس کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارے مگر شنکر ان کے ہاتھ نہ آیا۔

 اپریل کے آخر میں شنکر کا سراغ ملا۔اس کا موبائل فون دہلی میں ٹریس ہوا تھا جس سے ممبئی کالز کی گئی تھیں۔پولیس کی ایک اسپیشل ٹیم بنائی گئی جنہیں شنکر کی گرفتاری کا ٹاسک دیا گیا مگر شنکر چھلاوہ تھا۔۔وہ آسانی سے ہاتھ آنے والا نہیں تھا۔

٭٭٭

 1977میں ایک گاؤں کنیان پٹی،سیلم ضلع ،تامل ناڈو میں پیدا ہونے والے جے شنکر نے انٹر کیا تھا۔پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہ تھی اس لئے انٹر کے بعد ٹرک ڈرائیور کے طور پر کمانا شروع کردیا۔شنکر شادی شدہ شخص تھا جس کی تین بیٹیاں تھیں۔

 شنکر نفسیاتی بیماری کا شکار تھا۔وہ جنسی جنونی تھا جو جنس کے حصول کیلئے کوئی بھی حد کراس کرسکتا تھا۔شروع شروع میں اس کا شکار ڈھابوں کے اردگرد پائی جانے والی جسم فروش عورتیں رہیں جن کو وہ اذیت دے کر مار دیتا۔۔رفتہ رفتہ اس کا رخ دوسری عورتوں کی طرف ہو گیا۔۔اور ایک وقت ایسا آیا جب شنکر کے سامنے کوئی بھی عورت آتی تو وہ اس کا جسم حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔اس نے کسی مخصوص عمر کی عورت کو نشانہ نہیں بنایا۔ایک تحقیق کے مطابق شنکر کا شکار ہونے والی عورتوں کی تعداد تیس ہے جبکہ بعض اخبارات یہ بھی لکھتے ہیں کہ تیس صرف وہ عورتیں ہیں جن کا کیس منظرعام پرآیا۔۔اصل تعداد نامعلوم ہے۔

 شنکر نے اپنا جرم چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔وہ سب کے سامنے جرم کیا کرتا تھا اس لئے پہلے سال ہی گرفتار ہوا مگراسے قید رکھنا بنگلور کی پولیس کیلئے چیلنج ثابت ہوا۔۔

٭٭٭

پہلے فرار کے دو سال بعد 4مئی  2011  کو جے شنکر ایک چوری شدہ موٹر سائیکل پر کرناٹکا کے ایک گاؤں ایلاگی جا پہنچا۔یہاں اس کی ہوس بھری نظروں نے کھیتوں میں کام کرنے والی ایک تنہاعورت کو دیکھ لیا۔شنکر اس کی طرف بڑھ گیا۔

 ’’مجھے پانی اور روٹی لینی ہے۔‘‘اس کی آواز سن کر چندرکلا ہوتاگی نے پیچھے مڑ کردیکھا۔

 ’’یہاں نہیں ہے۔‘‘اس نے انکار میں سرہلایا مگرپانی اور روٹی کا بس بہانہ تھا۔شنکر نے آگے بڑھ کراسے جکڑ لیا۔چندرکلا نے چیخنا شروع کردیا۔شنکر کی کوشش ناکام رہی۔چندرکلا کا شوہر اور باقی گاؤں والے بھاگتے ہوئے آئے اور انہوں نے شنکر کو پکڑ لیا۔ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کرنے کے بعد اسے قریبی پولیس اسٹیشن دے دیا گیا جہاں شنکر کو پہچان لیا گیا تھا۔

اسپیشل پولیس ٹیم اسے 5مئی کو اپنے ساتھ لے گئی۔

شنکر کو ستائیس سال کی سزا سنائی گئی تھی مگر 2013میں شنکر کا سنسنی خیز فرار ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔اس نفسیاتی مریض نے انڈیا کی محفوظ ترین جیل کو توڑ لیا تھا۔اس وجہ سے پولیس کے دس ملازمین کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔پولیس کے خیال میں شنکر کی کسی ملازم نے مدد کی ہے۔شنکر کی گرفتاری یا اطلاع پر پانچ لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا۔اس بار شنکر زخمی تھا اور چل نہیں سکتا تھا۔تیس فٹ سے اونچی چھلانگ لگانے کی وجہ سے اس کی کمر اور ٹانگوں پر شدید زخم آئے تھے۔اس کے علاوہ پولیس کے پاس اس کے سابقہ کارناموں کا طریقہ کار بھی تھا۔۔اس بار شنکر کا بچنا مشکل تھا۔

٭٭٭

 ’’میں تمہیں شہر سے باہر لے جاتا ہوں ۔اس طرح نہیں چل سکو گے۔‘‘وہ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا تھا جب ایک موٹر سائیکل سوار اس کے پاس آیا۔بنگلور کے کڈلو گیٹ کے قریب شنکر نے اپنے اس نامعلوم مددگار کی طرف دیکھا۔۔اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے ساتھ سوار ہو گیا۔اس کے فرار کا پانچواں دن تھا۔۔اور یہی اس کی آزادی کا آخری دن ثابت ہوا۔نامعلوم شخص پولیس کا مخبر تھا جو سیدھا اسے پولیس اسٹیشن لے گیا۔۔شنکر تیسری بار قید کیا جاچکا تھا۔۔

 شنکر کا علاج وکٹوریا ہسپتال میں کروایا گیاجہاں اس کی ٹانگ کا فریکچر ٹھیک ہوا اور اسے واپس جیل بھیج دیا گیا۔کمر کی چوٹ کی وجہ سے وہ ابھی چل نہیں سکتا تھا۔اس بار شنکر کی سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔اس کے سیل کا لاک اس کی پہنچ سے دور رکھا گیا تھااور وہ ہر وقت کیمروں کی نظر میں رہتا تھا۔۔یہاں شنکر ایک بار پھر فرار ہونے کی ناکام کوشش کی۔اس بار جیل انتظامیہ نے اسے سب سے الگ تنہاقید کردیا۔

 ستائیس فروری  2018  کو شنکر نے شیونگ بلیڈ سے اپنی گردن کاٹ کر ہمیشہ کیلئے آزادی حاصل کرلی۔انڈیا کا یہ خوفناک سیریل کلر خودکشی کرکے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔۔

٭٭٭٭