دو سو لفظی کہانی
وہ ملک کا ایک مشہور صحافی ہے
ہر صبح اس کی کہانی اخبار کی زینت بنتی
پھر وہ امریکا چلا گیا
کل میری بات ہوئ
چھوٹتے ہی کہنے لگا
پاکستان ایک شدت پسند ملک ہے
مذہبی شدت پسندی کا شاہکار
مجھے وہاں مجبوراً محرم میں حسینی بننا پڑتا اور ربیع الاول میں میلاد کے حق میں لکھتا
لیکن اب میں آزاد ہوں
کیونکہ میں آزاد معاشرے میں ہوں
میں خدا پر سوال اٹھاتا ہوں میں مزہب پر سوال اٹھاتا ہوں
مجھے کسی مولوی کا کوئ ڈر نہیں
میں کسی بھی سیاسی لیڈر کی ذاتی زندگی کا مزاق اڑا سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سنتا رہا اور پھر ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا
تب تو اس آذاد اور مہذب معاشرے نے آپ کو یہ حق بھی دیا ہوگا کہ
آپ پوپ پر سوال اٹھائیں
راہبوں اور راہباؤں پر سوال اٹھائیں
ہولو کاسٹ پر سوال اٹھائیں
شام کے بلکتے بچوں پر بھی سوال اٹھائیں اور فلسطین۔۔۔
یہاں تک پہنچا ہی تھا کہ اس نے میری بات کاٹ دی
اس کا چہرہ لال بھبوکا ہورہا تھا کف بہہ رہے تھے چیختی ہوئ آواز میں بولا
تم بنیاد پرست ملاؤں کے ایجنٹ ہو
تم شدت پسند ہو
تم تنگ نظر ہو
تم دہشت گرد ہو
تم دقیانوسی معاشرے کے دقیانوسی فرد ہو
تمہاری سوچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے اس کا گلا بیٹھ گیا اور میں سمجھ نہیں پایا
#عبدالودودعامر