میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں

2019-05-25 19:48:29 Written by عبدالودود عامر

میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں

فرشتے کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے ہے اور میری عجیب سی کیفیت ہے یہ کیفیت میری تب ہوئی تھی جب ننھی زینب کی تصویر بھی دیکھی تھی ۔
اس کیفیت میں میرے اوپر عجب سی بے حسی طاری ہوجاتی ہے میں غائب دماغی کی حالت میں ہوجاتا ہوں 
لوگ اس حوالے سےسوشل میڈیا پہ مہمات چلاتے ہیں اور جب میری آنکھوں کے سامنے ایسی کوئی پوسٹ یا تحریر گزرتی ہے تو میں آنکھیں چرا کے نکل جاتا ہوں نہ تو میں کوئی پوسٹ کر پاتا ہوں اور نہ ہی کوئی کمنٹ
اور ایسی ہی کیفیت میری ہر دکھ میں طاری ہوتی جب کسی اپنے کو دکھ ملتا ہے جب سوشل میڈیا پہ کوئی دوست کسی اپنے کے بچھڑنے کا بتاتا ہے تو نہ جانے مجھ پہ ایسی بے حسی کیوں طاری ہوجاتی ہے میں ان سے نظریں چراتا ہوا کہیں آگے نکل جاتا ہوں کبھی کبھی میں جھنجھلا کر سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کئی بار ان کے غم کا بٹانے کو الفاظ لکھتا ہوں اور پھر مٹا دیتا ہوں کہ میرے الفاظ بہت چھوٹے ہیں ان کا غم بہت بڑا ہے اور ننھی فرشتے کی بار بھی ایسا ہوا کئی بار کچھ لکھنے کی کوشش کی لیکن ہر بار رہ گیا تنگ آکر ایک گروپ میں گیا اور مسلسل فنی پوسٹس اور کمنٹس کرتا رہا بالکل اس شخص کی مانند جو کسی دکھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خود کو نشے میں ڈبو دیتا ہے۔
اور دکھ کی یہ کیفیت یونہی نہیں طاری ہوئی 
میں نے پڑھا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور اپنا زمانہ جاہلیت کا واقعہ سنانے لگے کہ جب ان کی بیٹی ہوئی تو وہ سفر میں تھے جب گھر واپس آئے تو بیوی نے اس ڈر سے کہ کہیں اسے زندہ درگور نہ کردوں نہیں بتایا بیٹی نے اپنی عادتوں سے دل موہ لیا تو بیوی نے بتا دیا بیٹی تب تک کچھ سالوں کی ہوچکی تھی باپ سے بے انتہا محبت کرتی تھی لیکن جاہلانہ خیالات اور نظریات نے زور مارا اور سنگدل باپ ایک دن اسے گھر سے باہر لے گیا جنگل میں لے جاکر گڑھا کھودا مٹی باہر نکالنے میں بیٹی اپنے ننھے ہاتھوں سے مدد کرنے لگی باپ کے چہرے پہ مٹی لگی تو بیٹی اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی گڑھا جب مکمل ہوگیا تو باپ نے بیٹی کو اس می دھکیلا اور اوپر سے مٹی ڈالنا شروع کردیا جب بیٹی کا دم گھٹنے لگا تو وہ بابا بابا چلانے لگی مگر سنگدل باپ نے اسے زندہ درگور کر ہی دیا یہاں تک سنایا تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انکھوں سے آنسو جاری ہوچکے اور آپ پہ غم کی کیفیت طاری ہوچکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹیوں سے حسن سلوک کے زریعے بتایا کہ بیٹیوں کا مقام کیا ہے 
اور آج رمضان المبارک میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے دارلحکومت میں فرشتوں سی معصوم فرشتے لٹ گئی خدا کی ایک خوبصورت ترین تخلیق کو تار تار کردیا گیا اس کا باپ اس کی لاش پہ نوحہ کناں ہے کیوں کہ جب وہ رپورٹ درج کرانے جاتا ہے تو آگے ایک بے حس ایس ایچ او فرعونیت کے عالم میں بے نیازی سے کہتا ہے کہ اس کی دس سالہ بیٹی اپنے کسی شناسا کے ہاتھ بھاگ گئی ہو گی
خدایا ایسے بے حس لوگ بھی بیٹھے ہیں یہاں جو خود کو امت محمدیہ کا فرد کہلوانے پہ مصر ہیں ابھی یہ غم اس باپ کا کم نہیں ہوتا کہ ایک چینل پہ پٹی چل جاتی ہے کہ یہ جو غمزدہ باپ ہے اس کی فریاد سننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ افغانی ہے 
اور دور کھڑی اقبال کی روح نوحہ کناں ہے کہ اس نے کن کے متعلق کہا تھا کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے ۔۔۔
نصف صدی قبل امام العصر اور مفکر قران فرما گئے تھے کہ معاشرے کی باگ دوڑ جو لوگ سنبھالے ہوئے ہیں وہ ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جس کی ہمدردیاں مظلوم کی بجائے مجرم کے ساتھ ہونگی اور بالکل درست فرما گئے تھے 
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے مجرم کو فی الفور سزا سنائی جائے عبرت کا نشاں بنا دینا چاہیے لیکن ہمارے معاشرے میں عدالت کا نظام اتنا فرسودہ ہے کہ مجرم ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ابھی چند ماہ قبل ہمارے اپنے علاقے میں ایک درندہ پکڑا گیا جو ایک زہنی طور پہ معذور بچی کو تاتار کرنا چاہ رہا تھا لوگوں نے خود انصاف کرنے کی بجائے اسے پولیس کے حوالے کردیا اور اب ہمارا قانون اسے کچھ کہنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ  جرم تو کر ہی نہیں پایا شاید ایک آدھ سال میں وہ معاشرے کے اندر پھر سے دندناتا پھرے 
ہم تعفن زدہ معاشرے میں رہتے ہیں ہم امت محمدیہ تو دور کی بات زمانہ جاہلیت کے سنگدل مردوں سے بھی گئے گزرے ہیں وہ تو محض زندہ درگور کرتے تھے ہمارے معاشرے میں تو ننھی بچیوں کو تار تار کردیا جاتا ہے اور ہمارا لولہ لنگڑا قانون الٹا ایسے مجرموں کو تحفظ دیتا ہے 
قانون کے محافظ بجائے مجرم کو پکڑنے کے فریاد رس کے زخموں پہ نمک چھڑکتے ہیں 
یہ سارے حالات دیکھتا ہوں تو میرے دل سے بے اختیار آہ نکلتی ہے تصور ہی تصور میں ننھی کلیوں سے معافی مانگتا ہوں ان کے معصوم چہرے سونے نہیں دیتے میں سوچتا ہوں کہ ہماری اس بے حسی پہ روز قیامت پوری قوم مجرموں کی طرح کھڑی ہوگی اور ہمارے پاس اپنی صفائی کے لیے کچھ نہ ہوگا ہر دن وہ بچیاں مجھے سونے نہیں دیتیں 
میری بچیو 
میں کس کے ہاتھ تمہارا لہو تلاش کروں 
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے 

#عبدالودودعامر