دنیا کا سرد ترین مقام

2019-05-29 16:21:24 Written by گوگل

دنیا کا سرد ترین رہائشی گاؤں

 

oymyakon

 

دنیا کا سرد ترین رہائشی مقام روس کا ایک قصبہ اویمیا کون ہے جہاں درجہ حرارت منفی 52 تک چلاجاتا ہے، سردیوں میں یہاں سورج صرف 3 گھنٹوں کے لیے طلوع ہوتا ہے۔ آج ہم آپ کو اس سرد ترین گاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں۔

قطب جنوبی میں درجہ حرارت اس قدر کم یعنی منفی 92 ڈگری سینٹی پر بھی چلا جاتا ہے لیکن روس میں ایک گاؤں ایسا ہے جسے دنیا کا سب سے سرد ترین قصبہ(رہائشی مقام) قرار دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا سرد ترین رہائشی علاقہ ہے جہاں سردیوں میں سورج صرف تین گھنٹے کے لیے طلوع ہوتا ہےاور گرمیوں میں دن 21 گھنٹے تک ہوجاتا ہے۔یہ اویمیا کون قصبہ دریائے انڈیگر کے کنارے واقع ہے ،اس قصبے کی کل آبادی 800 افراد پر مشتمل ہے، یہ مستقل طور پر منجمد اور سرد ترین علاقہ ہے جو ہر وقت خوفناک سردی کی لیپٹ میں رہتا ہے جس کا درجہ حرارت منفی 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی نیچے چلاجاتا ہے۔ یہاں کی سردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی عمارت سے کھولتا ہوا پانی پھینکا جائے تو وہ زمین پر گرنے سے قبل ہی برف میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اس گاؤں میں سال 1924 میں تاریخ کا کم ترین درجہ حرارت منفی 71 تک ریکارڈ کیا گیا تھا،حیرت انگیز طور پر گاؤں کے مکینوں نے اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا ہے۔سال بھر برف کی چادر اوڑھے اس گاؤں کے مکینوں کی خوراک قطبی ہرن اور گھوڑے کا گوشت ہے جب کہ مشروب کے طور پر گھوڑے کے دودھ کا استعمال عام ہے شائد یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ غذائیت کی کمی کا شکار نہیں ہوتے۔

پورے گاؤں کے لیے ایک چھوٹی سی دکان ہے جہاں روزمرہ ضروریات کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں جب کہ راستے میں ایک پیٹرول پمپ بھی ہے جو سیاحوں کو اگلے سفر کے لیے تیار رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے مکین دن کا اکثر حصہ اپنی گاڑیاں سٹارٹ رکھتے ہیں کہ مبادا ایک بار گاڑی بند کی تو انجن مکمل طور پر ہی بند ہی نہ ہو جائے کیوں کہ سخت سردی کے باعث بیٹری ڈاؤن ہوجاتی ہے۔گاؤں اب بھی جدید سہولتوں سے محروم ہےیا یوں کہہ لیں کہ گاوں کے باسیوں نے خود کو ماحول کے مطابق ایسا ڈھال لیا ہے کہ وہ اپنی ضروریات بھی اپنے ماحول اور موسم سے پوری کرتے نظر آتے ہیں۔گھروں میں کوئلہ اور لکڑی کو جلا کر توانائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے اور گاؤں کے پاور ہاؤس میں لکڑی یا کوئلہ کی کمی درپیش آجائے تو گاؤں پانچ پانچ گھنٹے کے لیے تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ گاؤں میں کھیتی باڑی زمین کی کم یابی اور سخت موسم کے باعث نا ممکن ہے اس لیے پورے گاؤں میں قطبی ہرن، گھوڑے کی فروخت اور آئس فشنگ ہی روزگار کے ذرائع ہیں۔گاؤں میں ایک اسکول بھی ہے جو صرف منفی 50 سے زیادہ درجہ حرارت ہونے پر ہی بند کیا جاتا ہے یہاں سردیوں میں دن 3 گھنٹے تک کا ہوتا ہے جب کہ گرمیوں میں 21 گھنٹے تک کا بھی ہو سکتا ہے۔یہاں جون جولائی اور اگست مہینے گرم ترین مہینے ہوتے ہیں جہاں درجہ حرارت کم سے کم 20 سینٹی گریڈ اور زیادہ سے زیادہ 30 درجہ حرارت تک پہنچ جاتا ہے۔ اس گاؤں میں جدید سہولیات پہنچے بھی تو کیسے کہ یہاں موبائل کی بیٹری کو چارج کیے رکھنا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں، سخت سردی جب گاڑیوں کی بیٹری کو ڈاؤن کردیتی ہیں تو بے چارہ موبائل کس کھاتے میں آتا ہے۔ شادی بیاہ کی رسومات ہوں یا خوشی کے کئی اور مواقع یہاں کے مکین خوش ہونا نہیں بھولے، رنگین و سرد موسم میں روایتی رقص اور رسومات کی گرمی ایک الگ ہی ماحول پیدا کر دیتی ہے۔ جہاں خوشی کے لمحات منفرد و نرالے ہیں وہیں جنازے کی تدفین بھی کسی کٹھن مر حلے سے کم نہیں اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیےکئی فٹ گہری قبر کھودنا پڑتی ہے جس کے لیے دہکتے کوئلوں کی مدد سے تہہ در تہہ جمی برف کو پگھلایا جاتا ہے۔برف باری کے دوران بھی زمین کی سطح تک پہنچنے کے بعد کھدائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کئی فٹ گہرائی میں مردے دفنا دیئے جاتے ہیں جس میں اکثر تین دن سے ایک ہفتہ تک کاعرصہ بھی لگ جاتا ہے۔موسم کی سختیوں نے یہاں برسوں سے رہائش پذیر مکینوں کو سخت جان بنا دیا ہے موسمی تغیرات نہ تو یہاں کی معمولات زندگی کو روک پایا ہے اور نہ ہی اس سرزمین سے مکینوں کی محبت کو کم کر سکا ہے۔

بشکریہ رئیلٹی ٹی وی