عیدی

2019-06-04 22:14:17 Written by اعتزاز سلیم وصلی

 

گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔’’یارچاچو ،قسم سے آپ بہت بورنگ شخص ہیں‘‘۔علی اصغر کی آواز بلند ہوئی۔

’’میں چھوٹے بھائی سے متفق ہوں‘‘علی اکبر نے اسٹیئرنگ کو گھماتے ہوئے چاچو کی طرف دیکھا جو اس طرح بیٹھے تھے جیسے یہ گفتگو کسی اور کے بارے میں ہو رہی ہو۔

’’چاچو‘‘اس بار علی اصغر چیخا۔’’کیا مسئلہ ہے تم دونوں کو؟ایک تو صبح مجھ سے گاڑی مانگ کر یونیورسٹی لے گئے پھر آفس سے لینے آئے ہو تو فرمائش دیکھو ،جی افطاری ہمیں ہوٹل میں کرواؤ۔نہ میاں نہ،اس مہنگائی کے دور میں یہ خرچہ میں افورڈ نہیں کر سکتا‘‘انہوں نے کھری کھری سنادیں۔’’اصغر تمہارالفظ ’بورنگ‘غلط تھا۔اس کی جگہ کنجوس شامل کر دو‘‘علی اکبر کے سنجیدہ انداز پر انہیں ہنسی آ گئی۔

’’اچھا چلو کسی ہوٹل کے قریب روکو۔کہیں تم لوگوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ان سوکھی کھجوروں پر نہ گزارا کرنا پڑے‘‘ان کی بات سن کر دونوں بھائیوں کے چہرے پر رونق آ گئی۔کچھ دیر بعد گاڑی شہر کے ایک مہنگے ہوٹل کی طرف مڑ چکی تھی۔ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ ایک جگہ ٹریفک رکی ہوئی تھی۔انہیں گاڑی روکنا پڑی۔افطاری کا وقت قریب تھا۔جب کافی دیر تک ٹریفک آگے نہ بڑھی تو وہ تینوں نیچے اتر کر دیکھنے لگے۔روڈ کے درمیان میں ایک بیس بائیس سال کا لڑکا اپنے سے دوگنا عمر کے شخص کے ساتھ جھگڑ رہا تھا۔وہ تینوں ان کی طرف بڑھ گئے۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔لڑکے کی بائک گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔اس کا چہرہ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ابھی کچھ دیر میں رونا شروع کر دے گا۔چاچو نے قریب جا کر اس سے پوچھا۔’’کیا مسئلہ ہے چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہی ہے پھر کیوں اتنا پریشان ہو نقصان سے تو بچ گئے ہو؟‘‘’’جی انکل نقصان سے بچ گیا ہوں مگر میری امی کی میڈیسن گھر کر ٹوٹ گئی ہیں۔موٹر سائیکل کی ہیڈلائٹ بھی۔۔اب ان سب چیزوں کا خرچہ کہاں سے لاؤں گا؟‘‘لڑکے ایک طرف اشارہ کیا۔وہاں واقعی میں کچھ میڈیسنز اور ہیڈلائٹ کے شیشے کے ٹکڑے پڑے تھے۔

’’اوہ‘‘ان کے منہ سے نکلا۔اس دوران کار والے شخص نے آگے بڑھ کر کہا۔

’’تیز رفتاری کا نقصان ہوا ہے جی ۔پیچھے سے آکر کراس کرنے لگا تھا اس لئے ٹکرا گیا گاڑی سے۔اب کہتا ہے میرا نقصان پورا کرو۔بھلا بتائیں اس میں میرا کیاگناہ؟‘‘لڑکے نے مڑ کر اسے جواب دینا چاہا۔اس سے پہلے بحث پھر شروع ہوتی۔چاچو نے جیب سے بٹوہ نکالا اور ہزار ہزار کے تین نوٹ لڑکے کو تھما دئیے۔

’’یہ لو بیٹا۔۔اور اب جاؤ‘‘لڑکا جانے لگا تھا کہ علی اصغر اور علی اکبر نے بھی جیب میں ہاتھ ڈالا۔یونیورسٹی سے بچا ان کا جیب خرچ دو ہزار کے قریب تھا۔

’’یہ لو بھائی۔ہماری طرف سے عیدی‘‘لڑکے کے چہرے پرخوشی اور تشکر کے تاثرات تھے۔وہ شکریہ ادا کرکے وہاں روانہ ہو گیا۔ٹریفک پھر چل پڑی۔ان کی گاڑی بھی ہوٹل کی طرف بڑھ گئی۔

                               ٭٭٭

وہی لڑکا اب اپنی بائک پر اس محلے میں داخل ہوا۔سیٹی بجاتے ہوئے گھر میں جا کر اس نے اپنا موبائل اٹھایااور کال ملائی۔

’’ہیلو سویٹی۔۔جب نماز تراویح شروع ہو جائے تم اپنی چھت پر آ جانا‘‘دوسری طرف سے سویٹی کی آوازسنائی دی۔

’’ٹھیک ہے آجاؤں گی‘‘۔اور رات ساڑھے نو بجے چھت پر ان کی ملاقات تھی۔لڑکے نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سارے نوٹ نکالے۔

’’یہ لو تمہاری عیدی‘‘لڑکی کا منہ کھل گیا۔

’’اتنے پیسے خرم؟کہاں سے لئے؟‘‘’’بس لگ گئے ہاتھ،تم انجوائے کرو جان‘‘کچھ دیر بعد جب وہ نیچے اتر گیا تو سویٹی کے سیل فون کی بیل بجی۔اس کے ہیلو کے جواب میں آواز سنائی دی۔’’سویٹی ،میں طارق۔۔کل پلیز پارک میں آجانا ،عیدی دینی ہے تمہیں‘‘اور اس نے حامی بھرلی۔خرم،طارق اور اس طرح کے تین چار اور سخی دل لوگوں کی وجہ سے اس کی عید اچھی گزرجاتی تھی___