سوشل میڈیا کی ترقی اور اس کے ہر ہر فرد کے ہاتھوں میں پہنچنے کے بعد ہر شخص اپنے محسوسات کو زبان دینے کے قابل ہوچکاہے۔چاہے اس کے پاس کوئی سامع موجود ہو یا نہ ہو۔۔اپنے خیالات اپنی ہی دیوار پر لکھ کر لوگوں نے جہاں مثبت پیغامات کی تشہیر کو اپنا مقصد بنایا ہے۔وہاں حسداور غرورجیسے منفی جذبات کو اپنی دیوار پر انڈیل کرجذباتی تسکین بھی حاصل کی۔
قارئین جو اس سے پہلے کہانی کو کہانی سمجھ کر پڑھا کرتے تھے۔۔ان کہانیوں پر تعریف و تنقید کے ذریعے اپنے پسندیدہ لکھاریوں کی نگاہ میں آنے کے لئیے بھی پر تولنے لگے۔کہ یہ انسانی فطرت ہے۔لیکن مسلہ تب پیش آیا جب وہ قاری بھی نقاد کا رول ادا کرنے لگا۔۔جو اردو کے پرچے میں،مرکزی خیال اور خلاصہ لکھنے والا سوال خالی چھوڑ آیا کرتے تھے۔کیوں کہ وہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتا تھا۔
عمیرہ احمد کا نام ڈائجسٹ پڑھنے والوں کے کے لئے نیا نہیں۔جس قدر ان کے مداح موجود ہیں تقریبا اتنے ہی ان کے نقاد بھی موجود ہیں۔۔فیس بکی کہنا شاید مناسب نہ ہوگا۔کیوں کہ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ان کے خلاف جو تنقیدی مواد سوشل میڈیا پر گردش کرتا ہے وہ کہیں ایک ہی جگہ سے نکلتا ہے۔
میں آج عمیرہ احمد کا مقدمہ نہیں لڑنے لگا کہ یہ کام وہ خود بہت بہتر طور پر کرلیتی ہیں۔۔میرا مقصد صرف قارئین و ناقدین کی کوتاہ نظری بیان کرنے کے ساتھ۔۔کچھ اچھے ناولز کی جانب آپ کی توجہ دلانا بھی ہے۔
ان کے چند مشہور ناول جن کے کرداروں کے نام اکثر آئی ڈیز پر نظر آتے ہیں۔
میری ذات ذرہ بے نشان
مذہب کا لبادہ اوڑھے ان منافقوں کی داستان جو حقوق اللہ کے نام پر حقوق العباد چھینتے چلے جاتے ہیں۔ اس ناول کو فہرست میں سب سے پہلے رکھنے کی وجہ ایک خاص ہے ۔کہ لوگ یہ جان سکیں ۔ مذہبی چورن بیچنے کا الزام لگانے والے کبھی اس ناول کو ہائی لائٹ نہیں کرتے۔۔جس میں عمیرہ احمد نے مذہبی منافقوں کو بے نقاب کیا۔۔ ۔۔اس ناول کا نقادوں کی کتاب میں ذکر نہیں پایا جاتا۔۔ کیونکہ یہ ان کے موقف کے خلاف جاتا ہے۔
سالار اور امامہ
اور کتنے افسوس کی بات ہے قادیانیت جیسے سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا پیر کامل۔۔محض لوگوں کو عشق و محبت کا ایک فسانہ لگا۔۔غلطی اس میں لکھاری کی نہیں ان نقادوں اور قارئین کی تھی جنہیں منٹو کی تحریر میں بھی صرف فحاشی نظر آتی ہے۔۔
علیزے اور عمر جہانگیر
امر بیل کو پڑھنے والوں کو اس میں کبھی این جی اوزکے راز فاش کرتے پیراگراف،چائلڈ لیبرکے قوانین کی قلعی کھولتے مضامین،اور بیوروکریسی کے اندر موجود کرپٹ عناصر کا بھانڈا پھوڑتے مکالمے نظر نہیں آتے۔۔جو آخر میں عمر جہانگیر کی موت کا سبب بنے۔"جو ہر ہیرو کی موت کا سبب بنتے ہیں" ۔
زینی
کے حسن کے جلووں کی تابانی کا ذکر کچھ یوں یاران ذوق و شوق کی محفلوں میں چھڑتا ہے کہ اس میں موجود حرام و حلال اور پھر سے بیوروکریسی و فلم نگری کے اندر موجود گندگی کا نمایاں کیا جانا۔۔پس پردہ چلاجاتا ہے۔۔
امامہ و سالار
پھر سے لوگوں کے لبوں پر متحرک ہوئے یہ نام جب عمیرہ احمد نے آب حیات لکھا۔مگر افسوس اسپائڈر مین اور ہیری پوٹر کی صلاحیتوں کو بڑی رغبت سے ہضم کرنے والی ہماری عوام کو سالار سکندر کا غیر معمولی آئی کیو لیول کھٹکنے لگا۔مسلہ پھر وہی تھا۔ کہ اس بار عمیرہ نے غریب ملکوں کی معیشت کو پنجوں میں دبوچے ان عالمی مالیاتی اداروں پر طبع آزمائی کی تھی جو سود در سود ہماری روحیں تک گروی رکھ چکے ہیں۔۔اب اگرنقادوں کی جانب سے تنقید میں عمیرہ و سالار کو فوکس نہ کیا جاتا۔۔تو ہوسکتا تھا کوئی سرپھرا سود کو برا سمجھنے لگ جاتا۔۔
عکس
مجھے ناول کا نام لکھنا پڑا کیوں کہ ان کرداروں کے نام زبان زد عام نہیں۔۔البتہ مقصد اس کا بھی بہت سوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہا۔
یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس بار عمیرہ نے چائلڈ ایبیوز کا الزام مدرسے سے ہٹانےاور اس کام کے مزید مراکز پرفوکس کرنے کی مذموم کوشش کی اور اسی پاداش میں رانداہء درگاہ قرار دی گئیں۔ہمارے نقادوں کی محافل سے۔۔
ایمان امید اور محبت
اللہ کی چاہ کے لیے اپنی چاہ چھوڑ کر بہترین پالینے والوں کی کہانی۔۔۔جو لوگوں کو ایک اور گرما گرم لو اسٹوری محسوس ہوئی۔۔
الف
مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے اور ایک احترام کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے عمیرہ احمد کے لئیے۔۔کہ اس درجہ مخالفت کے باوجود یہ اپنے معاشرتی برائیوں کو ہٹ کرنے کے مشن سے ایک
انچ پیچھے نہیں ہٹی ہیں اور ان کا اگلا ہی ناول ہھر سے ایک نئے متنازعہ موضوع پر آیا۔۔لیکن اس بار انہوں نے ایک ساتھ کئی موضوعات کو ہٹ کیا۔۔
فلم انڈسٹری کی چمک دمک کے پیچھے چھپے اندھیرے آشکارکرنے کے علاوہ۔۔
تیسری جنس پرروا رکھے گئے ناروا روئے۔
خواتین کے رزق حلال کمانے کے درمیان حائل رکاوٹیں۔۔
پرائیویٹ ہاسپٹلز کے طریقہ کار۔۔
اور ایسا بہت کچھ۔۔جو اگر آپ کو نظر نہیں آتا تو سوچیے
غلطی لکھاری کی ہے یا قاری کی
!!!