منا۔۔بغیر داڑھی کے

2019-06-30 19:23:28 Written by عطاء الرحمن ربانی

بنا داڑھی کا منا"

 امی دیکھیں نا بھائی مجھے تنگ کر "رہا ہے ۔۔"بیٹا! آخر بھائی نے کیا کہہ دیا؟"
"امی وہیں سے چلائیں."کہتا ہے ابھی تک تمہاری داڑھی نہیں آئی حالانکہ تو مجھ سے صرف ڈیڑھ سال چھوٹا ہے۔۔
امی: (بھائی کو ڈانٹتے ہوئے) بری بات بیٹا۔۔تمہارا چھوٹا بھائی ہے۔ کیا ہوا اگر اس کی داڑھی نہیں آئی تو۔۔ پڑھائی میں تو تم سب سے اچھا ہے۔
(منا کو حوصلہ دیتے ہوئے) بیٹا تمہارا بڑا بھائی ہے، اس کی باتوں کا برا نہ منایا کرو۔ جاؤ شاباش اپنی پڑھائی کرو۔ 
منا: (منہ بناتے ہوئے) امی آپ بھی نا بھائی کو کچھ نہیں کہتی، ہر بار مجھے ہی برداشت کرنے کا کہ دیتی ہیں۔
امی: (منا کا سر سہلاتے ہوئے ) بیٹا تمہیں یہاں تک کون لایا؟
منا:(جھٹ سے) اللہ
امی: میری جان بے فکر رہو ، تمہیں آگے بھی اللہ لے کے جائے گا۔(یہ سنتے ہی منا کمرے کی طرف چل دیتا ہے اور ماں اس کو جاتے ہوئے دیکھتی ہے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھاکے کچھ کہتی ہے)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمرے میں منا کی تمام تر توجہ کتاب پہ ہے ، وہ حسب معمول کتابوں کی دنیا میں گم ہے، اس کی ایک ہی دھن ہے کہ اپنے بڑے بھائی کی طرح بورڈ میں پوزیشن لینی ہے، ڈیٹ شیٹ دیکھ کے بڑبڑاتا ہے کہ انگلش کے پیپر میں صرف تین دن رہ گئے ہیں، اتنے میں بھائی کا وہاں سے گزر ہوتا ہے اور وہ اسی انداز میں داڑھی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور منا پھر اونچی آواز لگاتا ہے: امی دیکھیں نا۔۔۔بھائی پھر تنگ کر رہا ہے، جب امی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا تو منا بے بس ہو کے کہتا ہے کہ ابو آنے دو، سب کچھ ان کو بتا دوں گا۔

امی: (تین دن بعد جیسے ہی منا گھر میں داخل ہوتا ہے)میرا لال ! پیپر کیسا ہوا؟
منا: (خوشی سے) امی بہت اچھا ہو، سارے سوالوں کے جواب مجھے آ رہے تھے، اور امی آپ کو پتا ہے صبح جاتے ہوئے جو میں نے راستے میں پڑھا تھا نا، وہی پیپر میں آیا ہوا تھا۔
امی: میں نے دو رکعت نفل پڑھ کے اپنے لال کے لئے دعاکی تھی، اچھا یہ بتاؤ باقی دوستوں کا پیپر بھی اچھا ہو؟
منا: جی امی، بس صدام تھوڑا پریشان تھا، اس کے لئے بھی دعا کیا کریں۔
امی: کیوں نہیں پتر، اچھا شاباش جا کے یونیفارم اتارو، ہاتھ منہ دھو کے آؤ اور کھانا کھاؤ۔
منا: جی امی
(کھانے کے دوران)
منا: امی ایک بات تو بتائیں،
امی: ہاں منے پوچھ
منا: امی جی میری داڑھی بھی نہیں ہے اور میری آواز بھی بہت پتلی ہے، جسم بھی کمزور ہے، کیا میں کبھی کسی اچھے مقام تک پہنچ جاؤں گا؟
امی: بیٹا ایسی باتیں نہیں سوچتے۔۔۔
منا:(لقمہ واپس رکھتے ہوئے) امی بتائیں نا۔۔۔۔
امی: میرا لال بہت اونچے مقام تک جائے گا، اور ایک بات بتا، تو نے کونسی کشتی لڑنی ہے جو تجھے مضبوط جسم چاہئے، تو بس بڑھائی کر اور بڑا افسر بن جا،میں نے سنا ہے جو پڑھائی میں اچھا ہوتا ہے وہ بڑا افسر لگتا ہے۔
(یہ ساری باتیں بھائی چھپ کے سن رہا ہوتا ہے، اچانک سامنے آ کے کہتا ہے، امی افسر لگنے کے لئے کم از کم شکل تو ہو نا، اب منا بمشکل 12 سال کا لگتا ہے حالانکہ یہ مجھ سے صرف ڈیڑھ سال چھوٹا ہے، اسی دوران ایک طنزیہ مسکراہٹ بھائی کے چہرے پہ نمودار ہو جاتی ہے)
امی: (غصے سے)تجھے میں نے کئی بار کہا ہے کہ منے کو اس طرح کی باتیں نہ کیا کر، یہ اللہ کی دین ہے۔۔۔۔ اور جا کے منہ ہاتھ دھو کے آ اور کھانا کھا، پتا نہیں کہاں کہاں پھرتا رہتا ہے۔۔
بھائی: امی جی میں نے کھانا سکول کے باہر والے ڈھابے سے کھا لیا تھا ، اس منے کو کھلائیں تا کہ یہ بڑا ہو اور اس کی داڑھی آ جائے (یہ کہ کے بھائی بھاگ جاتا ہے)
امی: (تسلی دیتے ہوئے) بیٹا اس کی باتوں پہ توجہ نہ دیا کر۔۔۔ تیرا بھائی ہے ، تجھ سے مزاق کرتا ہے، بہت پیار کرتا ہے تجھ سے، شاباش میرا بچہ۔
(یہ کہ کے ماں اٹھ جاتی ہے ، جاتے ہوئے منے کو کہتی ہے کہ کھانے کے بعد سو جانا، باہر نہ نکلنا، بہت تیز لو چل رہی ہے)
امی کے جانے کے بعد منا دسترخوان پہ بیٹھاپتا نہیں کن سوچوں میں گم ہوجاتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منا: امی آپ کو پتا ہے نا کہ کل میرا رزلٹ ہے؟
امی: اوہ میں تو بھول ہی گئی تھی، ابھی جا کے دو نفل پڑھ کے اپنے لال کے لئے دعا کرتی ہوں۔
منا: امی صدام کے لئے بھی دعا کرنا، اس کا انگلش اور ریاٖضی کا پرچہ ٹھیک نہیں ہوا تھا۔۔
امی: ہاں، اس کے لئے بھی کر لوں گی۔
(اتنے میں بڑی بہن کمرے سے نکل کے آتی ہے اور منے کے پاس بیٹھ جاتی ہے)
منا: آپی کل میرا رزلٹ ہے۔
آپی: اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے ، میرا منا اتنی زیادہ محنت کرتا ہے، اس کی تو پوزیشن آ ہی جائے گی، اور منے یاد رکھنا، جب پوزیشن آ جائے نا تو پھر مٹھائی لے کے گھر آنا، وہ سامنے والی دکان سے ۔
منا: آپی بس پوزیشن آنے دیں، پھر ان شاء اللہ مٹھائی کی دکان ہی اٹھا کے لے آؤں گا۔
آپی: اچھا ٹھیک ہے، اب جا کے میرے لئے سلانٹی لے کے آؤ۔
منا: ابھی لایا
آپی: وہ بڑا والا پیکٹ لانا اچھا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج گیارہ بجے منا کا رزلٹ آنا تھا ، منا بہت پریشان تھا، کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں منا کا بھائی کمرے میں داخل ہوتا ہے )
بھائی: منے پریشان نہ ہو، تیری پوزیشن آئے گی، میرا بھائی ہے ہی اتنا محنتی کہ اس سے آگے کوئی نہیں نکل سکتا۔
منا: (بھائی کے اس شفیقانہ لہجے پہ منا خوشگوار حیرت میں ڈوب جاتا ہے) بھائی بس آپ کی دعائیں ہونی چاہیں۔
بھائی: بلکل دعائیں ہر وقت تمہارے ساتھ ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو بڑا ہو گیا ہے اور تیری داڑھی آ گئی ہے، ( اس کے ساتھ ہی بھائی کے چہرے پہ قہقہے سج جاتے ہیں)
منا: امی! دیکھا، بھائی ابھی بھی تنگ کر رہا ہے۔
امی:(جلد ی سے دروازے سے داخل ہوتی ہیں اور بھائی بھاگ کے دوسرے کونے میں چلا جاتا ہے) کیوں تنگ کر رہے ہو میرے لال کو؟
بھائی: امی یہ تو ہے ہی لال، اور جب غصہ کرتا ہے تو پھر ٹماٹر کی طرح لال ہوجاتا ہے۔۔۔ ہاہاہاہاہا
امی آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ میں نے منے کی اتنی تعریف بھی تو کی ہے۔
(اتنے میں فون کی گھنٹی بجتی ہے، آپی بھاگ کے فون اٹھاتی ہے)
فون کا ریسیور رکھ کے آپی بھاگ کے کمرے کی طرف آتی ہے اور امی کو بتاتی ہے کہ منے نے نویں کلاس میں بورڈ میں تیسری پوزیشن لی ہے اور کل جانا ہے انعام لینے۔ یہ سنتے ہی امی منے کو گلے سے لگا لیتی ہے ، آپی اور بھائی بھی مبارکباد دیتے ہیں۔
بھائی: امی جان! منے کی پوزیشن کی خوشی میں مٹھائی میں لاؤں گا۔
امی: جلدی جاؤ، منہ کیا دیکھ رہے ہو، میں جا کے سب کو بتادوں۔
(شام کو دسترخوان پہ جب ابو بھی آ چکے ہوتے ہیں )
امی: میں کہتی تھی نا کہ میرا لال پوزیشن لے گا، دیکھ لیا نا
ابو: (منے کی طرف دیکھتے ہوئے) بیٹا اسی طرح محنت سے پڑھنا، تم نے بڑے ہو کے کسی اونچے مقام پہ جانا ہے۔۔۔۔
بھائی: (منے کے ساتھ سرگوشی کرتے ہوئے) میں تو کہتا ہوں کہ ماؤنٹ ایورسٹ پہ چلے جاؤ، اس اونچا کوئی مقام نہیں ہے دنیا میں۔۔۔( سرگوشی کے بعد بہت سنجیدگی کے ساتھ دوبارہ کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا لیتاہے)
امی: میرا بیٹا تو ہے ہی افسر ۔۔۔
آپی: منے افسر بن کے مجھے بھولنا نہیں ہے، ورنہ اتنا ماروں گی نا کہ یاد رکھو گے، افسر ہو گے تو اوروں کے لئے ۔۔۔
بھائی: ہاں بلکل، ہمارے لئے وہی بغیر داڑھی کے منا ہے۔۔ اور کون سا یہ ابھی افسر بن گیا ہے؟ ابھی تو نو کلاسیں ہوئی ہیں۔۔۔ اور اس کی جو پوزیشن آئی ہے نا، یہ میری بے عزتی کی وجہ سے آئی ہے، اگر میں اس کی بے عزتی نہ کرتا نا تو اس کی پوزیشن نہ آتی۔۔۔( قہقہے بلند ہوجاتے ہیں) 
ابو: خبردار جو کسی نے منے کی بے عزتی کی تو، چلو شاباش جاؤ اور سو جاؤ، صبح مہمان بھی آئیں گے مبارکباد دینے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(منا ،آپی اور بھائی لڈو کھیل رہے ہیں۔ منا باری کرتا ہے اور چار کاہندسہ سامنے آتا ہے)
بھائی: چلو منے ، شاباش گوٹی سٹاپ سے آگے نکالو، کب تک سٹاپ پہ کھڑے رہو گے
منا: بھائی خیال سے، یہ افسروں کی گوٹی ہے، یہ مرنے کے لئے نہیں آئی بلکہ آپکی گوٹیوں کو مارنے کے لئے آئی ہے۔
بھائی: ہاہاہا
خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں
ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار اس سے ہے
ذرا گوٹی آگے لگاؤ نا، پھر بتاتا ہوں، ساری افسری اس لڈو پہ نکل جائے گی۔
آپی: میں نے سنا ہے کہ کثرت اور شدت سے اگر کوئی چیز مانگی جائے تو وہ مل جاتی ہے، منے تو افسری کی دعا کیا کر ، افسر بن جائے گا۔
بھائی: آپی!اب لڈو میں بھی بھی آپ نے وہی باتیں شروع کردیں۔۔۔۔
منا: یہ لو، چلا لی گوٹی
(بھائی باری کرتا ہے اور اس کو بھی چار کا ہندسہ آ جاتا ہے)
بھائی: افسری سمیت یہ گوٹی اٹھاؤ، (قہقہے گونج اٹھتے ہیں)۔ میری بات مانو، اس گوٹی پہ رنگ کے ساتھ داڑھی اور مونچھیں بناؤ، پھر یہ نہیں مرے گی۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہا
منا: (زور سے)امی دیکھیں بھائی نے پھر وہی باتیں شروع کر دی ہیں۔۔۔ جاؤ میں نہیں کھیلتا تمہارے ساتھ۔
(منا کمرے سے نکل جاتا ہے ۔ آپی اور بھائی دونوں منے کے پیچھے بھاگتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہم مذاق کر رہے تھے لیکن منا نہیں سنتا)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(آج منے کی گریجویشن مکمل ہو رہی تھی، وہ بہت خوش تھا لیکن اس کی داڑھی ابھی تک نہیں ائی تھی اور آواز بھی اسی طرح پتلی تھی، منے کے بھائی نے بھی گریجویشن کر لی ہوئی تھی اور وہ ایک اچھے کالج میں لیکچرار تھا۔ )
(آج منا زندگی کے دوراہے پہ کھڑا تھا، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے، صرف تعلیم اس لئے جاری نہیں رکھ سکتا تھا کہ اس کی مالی حالت پتلی تھی اور والدین کو بھی اس کے سہارے کی ضرورت تھی۔ صرف جاب بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پڑھائی اور منے کا چولی دامن کا ساتھ تھا، اسی اثنا میں اسے اسی ادارے کے پرنسپل کی کال آتی ہے جہاں سے اس نے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے)
پرنسپل: السلام علیکم
منا: وعلیکم السلام سر
پرنسپل: تمہارے لئے ایک خوشخبری ہے
منا: وہ کیا سر؟
پرنسپل: ایگزیکٹو بورڈ نے فیصلہ کیاہے کہ تم اسی ادارے میں تدریس کے فرائض سر انجام دو گے ۔
منا: سر بہت نوازش آپ کی۔۔۔ لیکن سر ایک مسئلہ ہے۔۔۔
پرنسپل: ہاں بولو ! کیا مسئلہ ہے؟
منا: سر وہ میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھنی ہے، تو کیا یہ ممکن ہو گا کہ میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکوں؟
پرنسپل: بلکل، آپ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہو، یہ تو اچھی بات ہے، انسان کی تعلیم وتعلم کا سلسلہ کبھی بھی نہیں رکنا چاہئے۔
منا: بہت شکریہ سر
(صبح کی چائے پہ خاندان کے سارے افراد موجود ہیں، آپی بھی اپنے میکے آئی ہوئی ہیں)
ابو: تو پھر ہمارے منے نے چودہ جماعتیں پڑھ لیں، بہت خوشی کی بات ہے اور۔۔۔
(آپی درمیاں میں بات کاٹتے ہوئے)
آپی: ابھی کل کی توبات ہے، یہ اتنا چھوٹا سا ہوتا تھا، وقت کا پتہ ہی نہیں چلا، اب منا بھی گریجویٹ ہو گیا ہے۔
بھائی: آپی ابھی کون سا یہ بڑا ہو گیا ہے، ابھی بھی تو چھوٹا ہی ہے، داڑھی تو اس کی اب بھی نہیں آئی۔۔۔ 
(اب کی بار منا بھی خاندان کے باقی افراد کے ساتھ قہقہے لگاتا ہے)
منا: ابو جان! ادارے کے پرنسپل نے کال کی تھی ۔۔۔
بھائی: ( بات کاٹتے ہوئے) کہیں یہ تو نہیں کہ دیا کہ دوبارہ چھٹی جماعت میں داخلہ لےلو، اس لئے کہ تم شکل سے گریجویٹ لگتے ہی نہیں۔۔
امی: بس بھی کردو، ہر وقت ایک ہی بات کی رٹ لگائی ہوتی ہے۔۔۔ 
منا: (بھائی سے مخاطب ہو کر) جی نہیں، مجھے ادارے میں پڑھانے کے لئے کہا ہے ۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہوں۔
ابو: یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔
امی: میں کہتی تھی نا کہ میرے بیٹے کے لئے نوکری ملنا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، دیکھ لیا نا۔۔۔
بھائی: امی آپ تو کہتی تھی کہ یہ افسر بنے گا، یہ ایک خیراتی ادارے کا استاد لگ گیا ہے۔۔۔۔۔ 
امی: افسر بھی بن جائے گا۔ میں پھر سے نفل پڑھنا شروع کرتی ہوں۔
آپی: خیراتی ادارے کا استاد ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
منا: یہ مکمل طور پہ تو خیراتی ادارہ نہیں ہے ، استطاعت رکھنے والے طلبہ فیس دیتے ہیں ، جبکہ غریب طلبہ کا انتظام خیرات سے کیاجاتا ہے۔
بھائی: منے! تم یہ بتاؤ کہ تمہیں کون سے پیسوں سے تنخواہ دیں گے؟ ٖفیس یا خیرات؟
منا: بھائی آپ بات کو پھر کسی اور طرف لے کے جا رہے ہیں۔۔۔۔ میں آپ سے بحث نہیں کرتا۔۔۔
ابو: دیکھو بیٹا، تم نیکی کا کام کر رہے ہو، تمہاری نظر تنخواہ پہ نہیں ہونی چاہئے۔
منا:جی ابو، بہتر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(ایک دن ادارے کی کینٹین میں منا اپنے دوست فیضی کے ساتھ چائے پی رہا تھا، باتوں باتوں میں فیضی اسے بتاتا ہے)
فیضی: یار پاکستان نیوی میں افسر رینک کی نوکریاں آئی ہیں، تیری تعلیمی قابلیت ان کے مطابق ہے، کوشش کرلے۔
منا: یار تجھے معلوم ہے نا کہ اس کے لئے بہت سفارش چاہئے ہوتی ہے۔ وہ یاد ہے نا جب وزارت داخلہ میں درخواست دی تھی، سب مراحل طے ہو گئے تھے، میں میرٹ لسٹ میں بھی دوسرے نمبر پہ تھا لیکن وہان بیس نمبر والے کو منتخب کیا گیا تھا اس لئے کہ اس کا ابو کسی محکمے کا بڑا افسر تھا۔ میں کہاں سے سفارش لاؤں گا۔ اس لئے خوامخواہ وقت نہیں برباد کرنا چاہئے۔
فیضی: تیرے بھلے کی بات ہے۔ کیا پتا قسمت میں یہی لکھا ہو۔اس لئے کوشش تو کر لے۔
منا: تجھے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میرا وقت ضایع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
فیضی: چل یار۔۔۔جیسے تیری مرضی
(اگلے دن منا اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا ہے کہ عبداللہ آ جاتا ہے۔ عبد اللہ بھی اسی ادارے میں ٹیچر ہے۔ اسے لیکچر دینے کا بہت شوق ہے۔ ایم فل انگلش کر رہا ہے۔منا اس کے لیکچر سے بچنے کے لئے اس کی بات کی کبھی بھی مخالفت نہیں کرتا)
عبداللہ: کیا کر رہے ہو بھائی؟
منا: کل کی کلاس کی تیاری کر رہا ہوں۔ آپ سنائیں کیسے آنا ہوا؟
عبداللہ: تمہارے پاس انٹرنیٹ اور پرنٹر کی سہولت موجود ہے، اس لئے پاکستان نیوی میں آن لائن اپلائی کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں۔
منا: (عبداللہ کے لیکچر سے بچنے کے لئے) جی بتائیں، میں آپ کے لئے اپلائی کر دیتا ہوں۔
عبداللہ: دھیان سے فارم فل کر نا۔۔(عبداللہ مطلوبہ معلومات فراہم کرتا ہے اور منا اس کے لئے فارم بھرتا ہے)۔
منا: یہ لیں،یہ رہی آپ کی رول نمبر سلپ۔
عبداللہ: شکریہ، لیکن ایک بات بتاؤ۔
منا: جی پوچھیں
عبداللہ:تو نے خود اپلائی کیا ہے؟
منا: نہیں
عبداللہ: کیوں بھئی؟ یہ تو بہت اہم پوسٹ ہے۔۔۔۔۔(عبداللہ کا لیکچر شروع)
منا: وہ اصل میں اس کے لئے سفارش درکار ہوتی ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ میرے پاس ایسی کوئی سہولت نہیں ہے، اس لئے۔۔۔
عبداللہ: (با ت کاٹتے ہوئے) فورسز میں سفارش نہیں چلتی، آپ قابلیت کی بنیاد پہ منتخب ہو سکتے ہیں۔۔۔۔
منا:(لیکچر سے بچنے کے لئے) جی میں ابھی اپلائی کرلیتا ہوں۔
عبداللہ : ابھی میرے سامنےکرو۔
منا: جی ہو گیا
عبداللہ: یاد رکھنا چار دسمبرکو ٹیسٹ ہے۔ اکھٹے جائیں گے، اور ہاں تیاری کر کے آنا
منا: جی بہتر
(چونکہ منے کو اس پوسٹ میں دلچسپی نہیں ہوتی، اس لئے منا اسے حاشیہ خیال سے نکال دیتا ہے اور معمول کے کاموں مصروف ہو جاتا ہے۔ چار دسمبر کو صبح عبداللہ دفتر میں آتا ہے اور دروازے سے ہی کہتا ہے )
عبداللہ:چلو لڑکے، وقت بہت کم ہے
منا: کہاں جانا ہے اتنی صبح صبح؟ ابھی میری کلاس ہے دس منٹ بعد، آپ کسی اور کو لے جائیں۔
عبداللہ: (قدرے غصے میں)میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ فورسز میں ایسانہیں ہوتا کہ آپ اپنی جگہ کسی اور کو ٹیسٹ کے لئے بھیج دیں،چلو جلدی کرو۔
منا:(اب اس کے ذھن میں سب کچھ آ چکا تھا، چونکہ وہی لیکچر کاڈر، اس لئے جامنے کے لئے حامی بھر لی) بس دو منٹ میں آیا۔
(عبداللہ اور منا دونوں ٹیسٹ کے لئے جارہے ہیں، راستے میں عبداللہ مختلف سوالات پوچھ رہا ہے ، بغیر تیاری کے جوابات دینے کی پاداشت میں منے کو ہر بار عبداللہ کی طرف سے سخت بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا، منا اس گھڑی کو کوس رہا تھا جب اس کے پاس عبداللہ آیا تھا، خیر ٹیسٹ دینے کے بعد دونوں دوبار ہ گاڑ ی میں بیٹھے، منا خوش تھا کہ آئندہ اسے عبداللہ کے ساتھ بھرتی سینٹروں کی خاک نہیں چھاننی پڑے گی)
عبداللہ: تمہارا ٹیسٹ کیسا ہوا
منا: اچھا ہو گیا
عبداللہ:(تقریر شروع کرتے ہوئے) تم خوامخواہ ڈر رہے تھے، دیکھا کتنا آسان تھا پرچہ۔۔۔ اور وہ بڑی بڑی مونچھوں والا کوتوال تونقل کرنے ہی نہیں دے رہا تھا، یہی تو فورسز کا حسن ہے۔۔۔۔۔(تقریر جاری رہتی ہے)
(دس تاریخ کو رزلٹ آتا ہے اور پر اسرار طور پہ منا بھی پاس ہوجاتا ہے۔ اب منا بھی اس پوسٹ کے لئے دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے)
منا: (عبداللہ سے)اس کے بعد کے مراحل کیا ہیں؟
عبداللہ : جسمانی اور نفسیاتی جائزے ہوں گے اور اس کے بعد طبی معائنہ ہو گا۔ ان سب مراحل میں کامیاب ہونے کے بعد پینل انٹرویو ہو گا اور پھر فائنل لسٹ آویزاں کر دی جائے گی۔
منا: (جسمانی جائزے کے لئے اپنے آپ کو غیر موزوں سمجھتے ہوئے منے نے تقریبا اپنے آپ کو نااہل ہی قرار دے دیا اور بہت بد دلی سے کہا) اچھا
عبداللہ: بارہ تاریخ کو بھرتی سینٹر جانا ہے ۔ وہیں جسمانی صحتیابی کی چانچ پڑتا ل ہو گی۔
(منے نے ناکامی کے ڈرسے خاندان کے تمام افراد کو اس مہم جوئی سے لاعلم رکھا)
(حیران کن طور پہ منا تمام مراحل میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ ایک دن وہ اپنے دوست سکندر کے کمرے میں نماز پڑھ رہا ہوتا ہے ، تشہد میں بیٹھتے ہی فون کی گھنٹی بجتی ہے،سلام پھیر کے فون اٹھاتا ہے)
نیوی کا افسر: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، میں پاکستان نیوی سے کیپٹن اصغر بٹ بات کر رہا ہوں
منا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، جی سر
کیپٹن اصغر بٹ: آپکو مبارک ہو آپ پاکستان نیوی میں بطور سب لیفٹیننٹ سلیکٹ ہو چکے ہیں۔ دس تاریخ کو آپ نے کراچی میں پی این ایس رہبر میں آنا ہے۔ آپ اپنا اپوائنمنٹ لیٹر کل بھرتی سینٹر سے وصول کر لیں۔
منا: خیر مبارک ہو، بہت شکریہ
(منا فورا گھر جاتا ہے ، امی ، ابو،آپی اور بھائی کو بتاتا ہے۔ سب گھر والے بہت خوش ہوتے ہیں۔ دس تاریخ کو منا ٹریننگ کے لئے کراچی چلا جاتا ہے ، چھے ماہ بعد ٹریننگ مکمل ہو جاتی ہے اور منا سرکاری نمبر سے بھائی کو کال ملاتا ہے)
بھائی: السلام علیکم 
منا: وعلیکم السلام
بھائی: کون؟
منا: بغیر داڑھی کے افسر بات کر رہا ہوں۔۔۔
بھائی: (خوشی سے چلاتا ہے اور سب گھر والوں کو بلا کے کہتا ہے ) افسر کا فون آیا ہے،افسر کا فون آیا ہے۔