سانجھ

2019-07-02 20:08:06 Written by عائشہ احمد

سانجھ 

از قلم 

عائشہ احمد 

 

مندر کی گھنٹیاں ٹن ٹن بج رہی تھیں۔اور لوگوں کا رش بڑھ رہا تھا۔بڑے سے بھگوان کے سامنے لوگ ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ٹینا بھی آنکھیں جھکائے کھڑی تھی۔اس کے دل میں ہزاروں خواہشات ہلچل مچا رہی تھیں۔اس نے ایسے ہی ہلکی سی گردن موڑ کر ساتھ کھڑے ویوک شرما کی طرف دیکھا۔وہ اس کا شوہر ہی نہیں تھا بلکہ محبوب بھی تھا۔جسے اس نے سب سے زیادہ چاہا ھا۔اسے پانے کے لیے اسے بہت سے رشتے کھونے پڑے تھے۔لیکن اسے پرواہ نہیں تھا۔ویوک ہی اس کی کل کائنات تھا۔ویوک بھی سرجھکائے پوجا میں مصروف تھا۔اس کے دل میں کیا تھا۔وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ْْلیکن اس کے دل میں بہت کچھ تھا جسے وہ مانگنے آئی تھی۔وہ ہر اتوار کو وہ مندر آتی تھی،ویوک کبھی کبھار آتا تھا۔اس نے ذہن میں آنے والے خیالات کو جھٹکا اور پھر سے عبادت میں مصروف ہوگئی۔"اے بھگوان۔۔!دیکھ تو سب کی سنتا ہے۔تیرے ہوتے ہوئے ہمیں کسی بات کی چِنتا نہیں ہوتی۔اسی لیے بار بار تیری چوکھٹ پہ آجاتے ہیں۔ہمارے من میں جو کچھ ہے اس سے تو جانکاری رکھتا ہے۔پھر میری مراد بھی پوری کر دے۔میری گود ہری کر دے۔میری گود ہری کر دے۔"اس کے لب دھیرے دھیرے بول رہے تھے۔اس نے جیسے ہی آنکھیں بند کیں وہ جیسے پرانی یادوں میں کھو سی گئی تھی۔ٹینا راجھستانی تھی اور ویوک ممبئی سے تعلق رکھتا تھا۔دونوں نے طوفانی قسم کا عشق کیا تھا۔اور جلدی ہی ان کی شادی بھی ہو گئی۔ ویوک کے گھر والے راضی نہیں تھے۔اس لیے کہ وہ اونچی ذات سے تعلق رکھتے تھے۔لیکن ویوک پر عشق کا بھوت سوار تھا۔پھر جوان خون تھا۔گھر والے اس کے آگے ہار گئے۔لیکن ویوک کے گھر والوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ٹینا ایک ائیر لائن میں جاب کرتی تھی۔اسی سفر کے دوران دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔جبکہ ویوک آن لائن جاب کرتا تھا۔دونوں نے شادی کے بعد ایک فلیٹ کرائے پر لیا تھا۔لیکن ٹینا کو ڈر تھا کہ کہیں ویوک کے گھر والے بدلے کے طور پر ان دونوں کے بیچ کوئی غلط فہمی نہ کروا دیں۔اس لیے اس نے کمپنی سے بات کی جس نے اس کا تبادلہ اپنی قطر میں موجود کمپنی میں کر دیا۔ویوک کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔اس لیے اس نے گھر والوں کو قطر جانے کے بارے میں بتایا جس پر اس کی ماں آگ بگولا ہوگئی۔لیکن ویوک نے پرواہ کیے بغیر ٹینا کا ساتھ دیا۔ٹینا کے لیے یہ ایک فخر کا لمحہ تھا کہ اس کا محبوب اسے کس قدر ٹوٹ کر چاہتا ہے،غرض وہ دونوں قطر آگئے ،جہاں اس نے ایک ولا میں رہائش اختیار کی۔یہ ولا مختلف ممالک سے آنے والوں لوگوں کو رہائش مہیا کرتا تھا۔ٹینا اور ویوک نے بھی چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر لیا۔اور دونوں وہاں رہنے لگے۔ٹینا خوش تھی۔اس کی چھوٹی سی زندگی تھی۔ان کی شادی کو چھ ماہ ہوگئے تھے۔اور انہوں نے کبھی اولاد کے بارے میں سوچا نہیں تھا۔اسی ولا میں ایک پاکستانی فیملی رہتی تھی۔فہد اور افشاں تھے ان کے نام۔دونوں کی ایک چھوٹی سی بیٹی تھی۔جسکا نام مناہل تھا۔۔فہد قطر کارگو پر سپروائزر تھا۔دونوں کے گھر آمنے سامنے تھے۔اور مناہل باہر کھیلنے کے لیے آتی تھی،تو افشاں بھی اس کے ساتھ باہر آتی اور سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنی بیٹی کو کھیلتے دیکھتی۔مناہل دو سال کی تھی۔ٹینا کو وہ نبھی سی بچی بہت پسند آگئی تھی۔وہ بھی اس کے ساتھ کھیلتی تو اسے اچھا لگتا۔دونوں میں دوستی ہوگئی تھی۔مناہل اسے دیدی کہتی تھی۔ویوک بھی بہت خوش تھا۔اسے بھی مناہل بہت اچھی لگی تھی۔جلد ہی مناہل اور ویوک کی بھی دوستی ہوگئی۔اب جب بھی ویوک اور ٹینا باہر جاتے تو مناہل کو بھی ساتھ لے جاتے۔یہی سے ٹینا میں اولاد کی خواہش جاگی۔اس سے پہلے دونوں کو خیال نہیں تھا۔ویوک بھی چاہتا تھا کہ ان کی اولاد ہو۔

دونوں گھروں میں آنا جانا ہوا۔ویوک افشاں کی سادگی اور ا سکے دوپٹے لینے سے خوش تھا۔وہ افشاں کی بہت عزت کرتا تھا۔ٹینا کے مسلمانوں اور پاکستانیوں کے بارے میں جو خدشات تھے ۔وہ دور ہوگئے تھے۔ 

"گھر چلیں۔۔؟،اس نے چونک کر دیکھا تو ویوک اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلا رہا تھا۔وہ کچھ نہیں بولی اور چپ چاپ اس کے ساتھ چل دی۔

 ٭٭

مرد بھنورے کی طرح ہوتا ہے۔کبھی ایک پھول پر تو کبھی دوسری شاخ پر،اس کی طبیعت میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔وہ مستقل مزاج نہیں ہوتا۔اور وفا تو بالکل نہیں ہوتی۔بے وفائی کرنے میں وہ کسی نجومی کی طرح ماہر ہوتا ہے۔،بتاتا کچھ ہے۔کرتا کچھ ہے کہتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔وہ ایک وقت میں بس ایک ہی بات سوچتا ہے،عورت کی طرح وہ خود کو کئی سوچوں میں گم نہیں رکھتا،بلکہ جو سوچتا ہے کر گزرتا ہے،اس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔اور عورت ابھی سوچ رہی ہوتی ہے جو کام ،مرد وہ کر گزرتا ہے۔یہ بات ٹینا نے شادی کے ایک سال بعد جانی تھی۔ورنہ اسے تھا کہ ویوک شرما سے زیادہ کوئی وفادار نہیں ہے۔دنیا میں کوئی مرد اپنی بیوی سے زیادہ پیار نہیں کرتا جتنا ویووک شرما کرتا ہے۔لیکن ٹینا شرما کی یہ بھول تھی۔جب ناشتے کی میز پر دونوں میں ان بن ہوئی۔ٹینا کا خوشیوں کا محل ایک لمحے میں زمین بوس ہوگیا تھا۔ 

ٹینا شرما کو ویوک کا رویہ بدلا بدلا لگا۔وہ نہ صحیح طرح سے اس سے بات کرتا تھا۔نہ ڈھنگ سے کھانا کھاتا تھا۔ٹینا جب بھی پوچھتی تو وہ اکھڑ سے لہجے میں بولتا۔ٹینا کا دل ٹوٹ سا جاتا۔ٹینا کو زیادہ شک تب ہوا جب وہ کسی سے چوری چوری فون پہ بات کرتا تھا۔ایک مہینہ اسی طرح چلتا رہا،آخر کار ٹینا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ایک صبح دونوں میں شدید جھگڑا ہوا۔

"تم مجھے بتاتے کیوں نہیں ہو کہ کیا وجہ ہے،تم گھر سے اتنے لا تعلق کیسے رہ سکتے ہو۔جب سے وہ قطر شفٹ ہوئے تھے۔وہ انگلش میں ہی زیادہ بات کرتے تھے۔اس لیے کہ ٹینا اور ویوک کی جاب ایسی تھی کہ جہاں انگلش ہی بولی جاتی تھی۔

"میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔"،ویوک اکھڑ لہجے میں بولا۔تو ٹینا یہ سن کر آگ بگولا ہو گئی۔

"بیوی ہوں میں تمہاری۔حق ہے مجھے پوچھنے کا۔"،ٹینا زہر خنداں لہجے میں بولی۔

"سننا چاہتی ہو تو سنو۔۔۔!،میں واپس انڈیا جا رہا ہوں۔ماما بیمار ہیں،انہیں میری ضرورت ہے۔سمجھ آئی۔اور وہ مجھ سے اس شرط پہ ملیں گی کہ اگر میں تمہارے بغیر ان سے ملنے آوں۔"،ویوک شرما غصے سے بولا اور وہاں سے چلا گیا۔اور پھر اس شام وہ سچ مچ واپس لوٹ گیا۔کبھی بھی واپس نہ آنے کے لیے۔ٹینا نے اسے بہت روکا تھا لیکن وہ نہیں رکا۔ٹینا نے اس کے ساتھ جانے کی ضد کی لیکن وہ نہیں مانا۔مرد صرف بے وفا ہی نہیں ہوتا ظالم بھی ہوتا ہے۔وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

اس نے مندر میں پنڈت سے بھی دعا کی درخواست کی تھی۔ اور مندر کے مجاور نے اس سے اچھی خاصی رقم وصول کی تھی۔وہ جان چکا تھا کہ ٹینا کافی امیر ہے،اور ٹینا نے بھی رقم کی پرواہ نہیں کی تھی۔لیکن ٹینا ہر طرف سے مایوس ہو چکی تھی۔اس لیے کہ مندر کے مجاور نے اس سے بڑی رقم وصول کی تھی۔لیکن ویوک کی کوئی خبر نہیں تھی۔افشاں اسے تسلی دیتی لیکن اس کی کسی طرح تسلی نہیں ہو رہی تھی۔

ایک افشاں ہی تھی جسے وہ دل کی بات سنا سکتی تھی۔ایک دن وہ بہت زیادہ پریشان تھی تو افشاں سے ملنے گئی۔۔وہ جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو افشاں نماز پڑھنے میں مصروف تھی۔وہ وہی رک گئی۔اور اسے نماز پڑھتا دیکھنے لگی۔نماز کے بعد افشاں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔

"نماز میں بہت طاقت ہے۔ہمارے سارے مسائل کا حل نماز میں ہے۔اور دعا تو ان مسائل کی چابی ہے۔جو ہمارے سارے مسائل کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔"،افشاں کے یہ الفاظ اس کے ذہن میں گونجے۔وہ الٹے پاوں واپس لوٹ آئی۔اس نے وضو کیا۔اس لیے کہ اس نے کئی بار افشاں کو وضو کرتے دیکھا تھا۔جائے نماز تھا نہیں ۔اس نے ایک بڑی سی چادر لی اور قبلہ رخ بچا کر نماز ادا کرنے لگی۔اسے پوری نماز تو نہیں آتی تھی۔بس جیسے تیسے نماز پڑھی۔ اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔اور کافی دیر آنسوبہاتی رہی۔نماز پڑھ کر اسے کچھ سکون ہوا۔"ویوک واپس آئے گا۔اس دوران وہ کوشش کرتی رہی کہ ویوک واپس آجائے یا وہ اسے بلا لے۔لیکن ویوک تو پتھر کا ہوگیا تھا۔وہ یہی کہتا کہ مجھے اپنے گھر والے عزیز ہیں۔اور وہ تڑپ کر رہ جاتی۔

"تم تو کہتی ہو کہ ﷲ سنتا ہے۔جودعا مانگو وہ پوری کرتا ہے ،پھر میری دعا کیوں نہیں سنتا وہ؟" ۔ٹینا افشاں سے پوچھتی۔

"ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔بس کچھ وقت لگتا ہے۔" وہ ٹینا کو سمجھاتی لیکن ٹینا کو سمجھ نہیں آتی تھی۔وہ کبھی افشاں سے اسلامی عملیات کے بارے میں پوچھتی۔پھر ٹینا نے اسے سورہ فاتحہ اور درورود شریف کا ورد کرنے کو کہا۔

"لیکن مجھے عریبک نہیں آتی۔" ٹینا پریشان کن لہجے میں بولی۔تو ٹینا مسکرا دی۔

"تم اسے ہندی یا انگلش میں بھی پڑھ سکتی ہو۔ینا خوش ہو گئی تھی۔اب ٹینا نے زور و شور سے دورود اور سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کر دی تھی۔لیکن اسے سکون نہیں تھا۔ویوک اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔افشاں نے اسے انڈیا جانے کا مشورہ دیا۔ٹینا کو ئی مشورہ اچھا لگا ٹینا نے کمپنی سے کچھ دنوں کی چھٹی لی اور واپس انڈیا چلی گئی۔اس نے ویوک سے ملنے کی کوشش کی لیکن ویوک نے ا س سے ملنے سے انکار کر دیا۔ٹینابے بس ہو کررہ گئی تھی۔افشاں اس سے مسلسل رابطے میں تھی۔اور اسے مسلسل تسلی دے رہی تھی۔افشاں نے اسے بتایا کہ پاکستان میں ایک پیرصاحب ہیں جو فی سبیل اﷲ لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں وہ ا س سے بات کرے گی۔ٹینا خوش ہو گئی۔افشاں نے پیرصاحب سے فون پر بات کی اورٹینا کے بارے میں بتایا۔

"دیکھیے مسئلہ کافی گھمبیر ہے،اور اس کام کے لیے کافی دن لگ جائیں گے۔آپ اپنی دوست سے کہیے گا کہ وہ سو تولے چاندی بطور صدقہ

ہماری خانقاہ کو دے دیں۔اور انکا مسئلہ حل ہو جائے گا۔افشاں کو پیر کی بات سن کر جھٹکا لگا۔

 ٹینا کا فون آیا اور اس نے بے تابی سے پیر صاحب کے بارے میں پوچھا۔

"پیر صاحب کہہ رے تھے کہ کام ہوجائے گا۔بس تم درود پاک اور سورہ فاتح کی تسبیح جاری رکھو ۔"،افشاں نے دھیمے لہجے میں کہا۔

"کیا میرا کام ہوجائے گا۔۔؟،ویوک واپس آئے گا۔۔؟،ٹینا بے چینی سے بولی۔

انشااﷲ ۔۔۔۔!،افشاں نے آہستہ سے کہا____