امو جی

2019-07-03 20:12:33 Written by شعیب اعظم

امو جی 

از قلم 

شعیب اعظم 

 

پچھلے دو سال سے جب سے میری انجینئرنگ مکمل ہوئی تھی میں نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا لیکن قسمت نے تو جیسے طے کر رکھا تھا کہ مجھے خوب خوار کر کے ہی دم لے گی ۔ کہیں معمولی سی نوکری ملتی بھی تو تنخواہ کا یہ عالم ہوتا کہ میں انجینئر نہیں چوکیدار بھرتی ہوا ہوں ۔بڑی کمپنیز میں اپلائی کرتا تو جواب ندارد ۔ اپنے دیگر ساتھیوں کو دیکھتا تو سب ہی اچھی جگہ نوکری کر رہے تھے بس ایک میری قسمت ہی جیسے کورا کاغذ تھی ۔یہ دیکھ کر میرا مزید ڈپریشن بڑھ جاتا۔

 

جن دنوں میں شدید مایوس ہو چلا تھا کہ دل کرتا ڈگری کو آگ ہی لگا دوں انھی دنوں مجھے قطر کی ایک بڑی کمپنی سے اپائنٹمنٹ لیٹر موصول ہوا جو میرے لئِے کسی نوید سے کم نہ تھا ۔ مجھے ایک اچھی پوسٹ اور تنخواہ پہ رکھا جا رہا تھااور جلد ہی مجھے جوائننگ دینا تھی ۔

 

میں یہ خبر سنانے بھاگا ہوا امو جی کے پاس گیا جو برآمدے میں بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھیں۔ اس بیوہ عورت نے دن رات سلائیاں کر کر کے مجھے پالا تھا۔ اسکی زندگی کی ایک بڑی خوشی میری کامیابی تھی۔ لیکن میرے ملک سے باہر جانے کا سن کر وہ اداس زیادہ خوش کم تھیں ۔

 

میں انکا اکلوتا بیٹا تھا شاید اسی لیِے وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں ملک سے باہر جاؤں اور وہ یہاں اکیلی پڑ جائیں لیکن میں بھی کب تک بے روزگاربیٹھا رہتا۔ ایسا نادر موقع مجھے پھر کہاں ملنا تھا۔

 

امو جی بھی مجھے روک نہیں رہی تھیں کہ یہ میرے مستقبل کا سوال تھا اور وہ اپنے آنسوؤں سے مجھےامتحان میں نہیں ڈالنا چاہتی تھیں اسی لیے اپنی بھرائی ہوئی آنکھیں انھوں نے مجھ سے چھپانے کیلئے رخ پھیر لیا اور آواز کو حتیٰ الامکان نارمل رکھتے ہوئے بولیں ۔

" اللہ تجھے کامیاب کرے۔"

 

" آپ میرے ساتھ چلیں امو جی "۔ میرا دل یکدم اداس ہو گیا کیونکہ میری ماں اداس تھی۔

 

" ہم پرانے لوگ پرانی چیزوں سے روح باندھ لیتے ہیں یحییٰ پتر ۔ مرنے پہ ہی جدا ہوں تو ہوں ۔میں تیرے ساتھ اپنی روح یہاں چھوڑ کر چلی جاؤں گی تووہاں زندہ کیسے رہوں گی۔؟"

 

"اور یہاں میرے بغیر زندہ رہ لیں گی ۔؟"

میری بات پہ وہ خود پہ قابو نہ پا سکیں اور آنسو چھلکاتی جیسے میری ناسمجھی پہ ہنس دیں۔

 

"اولاد کو دانا دنکا چگنا سکھانا پڑتا ہے اور اس کیلئے اولاد گوڈے سے لگ کر نہیں بیٹھ سکتی۔اسے اڑنا پڑتا ہے۔اڑے گی نہیں تو دانہ پانی کیسے کمائِے گی۔تو بھی اڑ جا پتر لیکن واپس اپنے گھونسلے کو لوٹنا نہ بھولیں کہ کہیں یہ بوڑھی تیری راہ دیکھتی یونہی نہ ٹُر جائے۔" اپنی آنکھیں پونجھ کر وہ دکھی سا مسکرا دیں۔

 

 " چل جا اب ۔ماں کو نہ رلا ۔ ماں کو رلا کر جائے گا تو چین نہیں پائِے گا۔"

میری ماں پھر سے قرآن کھول کر پڑھنے لگیں۔ میں ان کے پاس سے خالی دل لوٹاتھا۔

 

 وہ اس گھر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھیں جہاں وہ بیاہ کر آئی تھیں اور اپنی ساری زندگی وہیں گزار دی تھی اور میرا دانا پانی شاید یہاں نہیں لکھا تھا۔ ہم دونوں اب ایک چھت تلے نہیں رہ سکتے تھے۔

 

میں نے جانے کی تیاری شروع کر دی لیکن دل پہ اک بوجھ آن پڑا تھا کہ اپنی بوڑھی ماں کو میں اکیلا بغیر کسی آسرے کے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔اب جب اسکے آرام کے دن ہیں میں اسے بے آرام کرنے جا رہا ہوں۔میرے دن رات اسی سوچ میں گزرتے تھے۔

 

ایک رات پانی پینے کیلئِے اٹھا تو امو جی کے کمرے سے آتی روشنی نے مجھے چونکا دیا ۔ ہولے سے اندر جھانکا تو جائِے نماز پہ انھیں زاروقطار روتے ہوئِے پایا ۔ وہ میرے جانے پہ مجھ سے چھپ کر اللہ کے آگے رو رہی تھیں۔ تہجد کی لاڈلی عبادت میں وہ اپنے رب سے اپنی بات منوانا چاہ رہی تھیں۔

میں مزید اپنی ماں کو روتے نہیں دیکھ سکا اور وہیں سے لوٹ آیا تھا ۔ اس رات امو جی کے آنسوؤں نے مجھے سونے نہ دیا ۔

" کیا نوکری تیری ماں سے زیادہ قیمتی ہے ۔" بس ایک سوال میرا اندر مجھ سے کرتا تھا۔

اگلی صبح ان کے بخار میں تپتے وجود نے مجھ سے وہ فیصلہ کروا لیا جو میں اتنے عرصے میں کر نہیں پا رہا تھا ۔میں نے قطر کی کمپنی کو ای میل کر دی کہ میں یہ نوکری نہیں کر سکتا ۔ انھوں نے مجھے مزید مراعات دینے کی بات بھی کی لیکن جو شے وہ مجھے نہیں دے سکتے تھے وہ میری ماں کا ساتھ تھا ۔ اور اس ساتھ کے لئے میں یہ نوکری ٹھکرا رہا تھا ۔ 

 

" ایسا مت کر پتر۔بار بار مقدر نہیں کھلا کرتے۔ ایسی نوکری پھر کہاں ملنی۔؟" امو جی کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ خوش تھیں لیکن وہ میری خوشی مقدم جانتی تھیں اسی لئِے میرے فیصلے پہ مجھے روک رہی تھیں۔ 

 

" بار بار تو ماں بھی نہیں ملا کرتی نا۔ میں وہیں رہوں گا جہاں میری ماں رہے گی۔ اللہ نے رزق دینا ہوا تو مجھے آپکی دعاؤں سے یہیں مل جائِے گا ۔" 

وہ میرا ہاتھ تھام کر کھل کر رو دیں ۔اتنے عرصے سےجن آنسوؤں پہ بندھ باندھ رکھے تھے آج ٹوٹ گئے تھے۔

 

" اللہ تجھے وہاں سے نوازے جہاں سے تیرا گمان بھی نہ ہو ۔"

انھوں نے میرا ماتھا چوم کر مجھے دعا دی ۔

 

اتنی اچھی نوکری میں اپنے ہاتھوں گنوا چکا تھا اور پھر سےنوکری ڈھونڈنے کی وہی خواری میرا مقدر بن گئی تھی لیکن میری ماں کو جو سکون ملا تھا میں اسی میں راضی تھا ۔

 

تین ماہ بعدایک روز اپنا ای میل اکاؤنٹ کھول کر میں نے ایک میل پڑھی تو بے یقینی سے میری آنکھیں ہی پتھرا گئیں ۔ مجھے ایک بڑی کمپنی سے میل آئی تھی اور اسی پوسٹ کیلئِے ہائر کیا گیا تھا جو میں نے قطر کمپنی کی ٹھکرا دی تھی ۔ لیکن جو بات مجھے حیران کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ میں نے تو اس کمپنی میں کبھی اپلائی ہی نہیں کیا تھا تو مجھے نوکری کیسے مل گئی تھی۔

 

تبھی یکدم امو جی کی دعا یاد آئی ۔ " اللہ تجھے وہاں سے نوازے جہاں سے تیرا گمان بھی نہ ہو ۔ "