بد کردار

2019-07-04 20:02:29 Written by حفصہ صدف

بدکردار 

از قلم

حفصہ صدف 

  سب نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا کہ وہ اپنی جگہ ہی بیٹھے بیٹھے کچھ جم سی گئی۔۔۔ ۔ بھائی جان، بھیا، بڑی بھابھی ، سوہنی بھابھی۔۔۔ نظریں تھیں کہ زمین میں گڑ گئیں اور گردن کچھ اور جھک گئی بلکہ ڈھلک گئی ۔ ۔۔۔ کیا نہیں تھا ان نظروں میں ۔ ۔۔۔ ملامت، طنز، دھتکار ، پھٹکار ، کوسنے ، طعنے ، نفرت، تضحیک۔ ۔۔۔ ۔ وہ سب بیک وقت اسے احساس دلا رہے تھے کہ وہ جینے کے قابل نہیں ، زمین میں گاڑھ دیے جانے کے قابل ہے۔ بدکار ، بدکردار، بدذات ہے۔ناقابل ِبھروسہ، ناقابل ِ اعتبار ہے۔ عزت کی عزرائیل بنی بیٹھی ہے ۔ وہ مزید تاب نہ لاسکی تو اندر بھاگ گئی۔پھر بھائی جان نے بآواز بلند چلا کر کہا ۔ ’’ کل سے اس کا نوکری پہ جانا بند۔ بلکہ گھر سے نکلنا ہی بند۔۔۔ ۔‘‘ اور وہ کمرے میں بیٹھی پتھرائی نظروں سے سامنے بیٹھی آپی کو دیکھنے لگی جو مزے سے کتاب پڑھ رہی تھیں ۔کتاب پڑھتے ہوئے اسے سبق پڑھا رہی تھیں کہ دیکھ لو یہی ہونا تھا ۔۔۔ سالوں قبل میرے ساتھ ہوا ، اب تیری باری ہے ۔ میں تو سولی چڑھ کر مر چکی ، اب تُو مر ۔۔۔ ’’ یہ شروع ہی نہ ہوتا گر میری کوئی سنتا۔ نہ نوکری کی اجازت ملتی نہ یہ گل کھلتا۔۔۔ ‘‘ بڑی بھابھی کے دل کو کتنا سکون ملا تھا وہ محسوس کر سکتی تھی ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے وہی تو تھیں جو ایک کی دس لگا لگا کر بتا رہی تھیں ۔ ’’ فون پہ کہتا ہے کہ طاہرہ کا کولیگ ہوں۔۔ ۔ شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ۔ رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں۔۔۔ ۔ گھر بسانا چاہتا ہوں ۔۔۔ لو بھئی اب نوکریاں کریں گی تو ایسے آئے دن کولیگ تو کبھی کولیگ کے بھائیوں ، کزنوں ، ان کے دوستوں کے رشتے تو آئیں گے ہی ۔لڑکی اشارہ دے تو اگلا کیوں نہ ہمت بڑھائے۔ ‘‘ اسے لگا کہ نجانے کتنے اشارے وہ دیتی رہی ہے۔ کتنوں کو راہ دکھاتی اور کتنوں کو بہکاتی رہی ہے ۔ کتنی بدکردار وہ تھی اور کتنی بدکردار وہ بنا دی گئی تھی ۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا لیکن پہلے جب جب ہوا بات ایک آدھ جملہ پہ رکی اور اسی پہ ختم ۔۔۔ وہ رشتے جان پہچان کے تھے جو اس کے کم بھیا ، بھابھی کے زیادہ جاننے والے تھے۔ سوبات وہیں دب گئی ۔ لیکن اس بار کا رشتہ تو سراسر اس کی پہچان کا تھا جس سے ڈھیروں آشنائی گھڑ لی گئی اور کتنی قربت بنا کر جتا لی گئی۔ جرم تھا تو صرف ایک اور حد تھی کہ بہت سی ۔۔۔ برادری سے باہر رشتے طے نہیں ہوتے تھے پھر بھلے ساری زندگی طے نہ ہوں ۔ برادری کی عزت تھی ، ذات کا معاملہ ۔۔۔ یونہی تھوڑا ہی کسی راہ چلتے کے حوالے کر ڈالتے ۔اس سے بہتر تھا کہ گھر بٹھایا جائے ، بوڑھا کیا جائے لیکن برادری سے باہر ۔۔۔ نہ نہ ۔۔۔ بالکل نہیں ۔ بڑی باجی کی دفعہ تو ماموں کا پانچویں پاس بیٹا دل وجان سے حاضر تھا سو لگ گئیں ٹھکانے ۔۔۔ آپی کی باری آئی تو تایا کے منیب نے صاف انکار کر دیا کہ مجھے تو لڑکی کی صورت ہی پسند نہیں تو کیسے کرلوں ۔۔۔ پھر اس نے تو کی من پسند صورت سے لیکن آپی اب تک اپنی صورت کو رگڑتی ، ملتی ، گھلتی رہیں ۔ ۔۔ پر یہیں بیٹھی رہیں ۔ اس کے لئے بہت سے رشتے آئے خاندان سے باہر کے لیکن اندر سے تو اسی شیدا حلوائی کا آیا تھا جو تیسری فیل تھا ۔۔۔ وہ ایم اے کر رہی تھی اس کے لئے کیسے مان جاتی ۔ نہ کوئی تال نہ میل ۔ بھائیوں نے بہتیرا سمجھایا ، ڈرایا لیکن انکار اقرار میں نہ بدلا ۔ ’’ اب ایسا مہاراجا کہاں سے لائیں جو ایم اے نہ سہی ، بی اے تو ہو ۔۔۔ لڑکے چند جماعتیں پڑھ کر کام دھندے سے لگ جاتے ہیں اور لڑکیاں ہیں کہ پڑھے جاتی ہیں ۔ ۔۔۔‘‘ سوہنی بھابھی بڑ بڑاتیں اسے سناتیں ۔ وہ ڈھیٹ بنی سنتی رہتی۔ ’’ اسی لئے تو شیدے کو انکار کیا ، نجانے کب سے یاری لگا رکھی ہو گی یہاں ۔۔۔؟‘‘ دونوں بھابھیاں منہ ہی منہ میں بھن بھن کرتیں گونگی بن جاتیں اور وہ سب سن کر بہری ۔ گنتی کے چند بچے جو ٹیوشن پڑھنے گھر آتے تھے ان کی بھی چھٹی کر دی گئی ۔ ’’ کیا خبر خود تو آتے ہیں ، محلے میں سے بھی کسی کا پیغام لاتے ہوں ۔‘‘ ہاں جیسے سارے جہاں کو کوئی کام ہی نہ تھا سوائے اس کے آگے پیچھے پھرنے کے۔ ’’ نام دیکھو طاہرہ ۔۔۔ طہارت تو نام کو نہیں ۔‘‘ اور وہ اپنے وجود پہ نجاست کہاں سے ڈھونڈتی جس کی ذات ہی نجس بنا ڈالی ہو۔ پھر پل پل اسے اوپر سے نیچے تک تولا جاتا ، جانچا جاتا ۔ کہاں پہ ہے ، کیا کر رہی ہے ، گھر کے اندر کہاں جا رہی ہے ، کیا پڑھ رہی ہے ، کیا لکھ رہی ہے ۔۔۔ ’’ زیادہ مسکرانے نہیں لگ گئی ۔۔۔؟‘‘ ’’ یاد آ رہا ہو گا کوئی تو مسکرا دیتی ہے ۔۔۔‘‘ اور وہ رونے لگ جاتی۔ ’’ لو جی اب رونے کیوں لگ گئی ۔۔۔؟‘‘ ’’ یاد یں رلا بھی تو دیتی ہیں ۔۔۔‘‘ بھابھیاں کھی کھی کر کے ہنسنے لگتیں ۔ ’’ چھت پہ کیوں جاتی ہے ۔۔۔؟‘‘

 ’’ وہاں بھی ہو گا کوئی ۔۔۔‘‘ اس نے چھت پہ تو کیا دروازے تک جانا ہی چھوڑ دیا ۔ ’’ نجانے کیسی کیسی کتابیں پڑھتی ان سے گل کھلانے سیکھتی ہے ۔۔۔‘‘ اس نے اپنی ساری کتابوں کو نارِ جہنم دکھایا ۔ ’’ یہ طاہرہ کی نمازیں کچھ لمبی نہیں ہوتی جارہیں ۔۔۔؟‘‘ وہ مصلہ بچھائے نماز میں ان کی آواز سنتی ۔ ’’ نمازیں تو لمبی ہوئیں کہ نہیں، دعائیں بڑی لمبی ہو گئی ہیں ۔۔۔ نجانے کیا مانگتی ہو گی ۔۔۔؟‘‘ کانوں کی کھسر پھسر اس کے کانوں کا پیچھا کہاں چھوڑتی تھی ۔۔۔؟ ’’ مانگتی ہو گی اسی کا ساتھ جو گھر بسانا چاہتا تھا ۔۔۔‘‘ اب اس کے خدا سے تعلق کو بھی شک کی نگاہ لگ گئی تھی ۔ ’’ رات اپنی آنکھوں سے اسے تہجد پڑھتے دیکھا ہے میں نے ۔۔۔۔ ‘‘ بڑی بھابھی یوں منہ پہ ہاتھ رکھے بتا رہی تھیں کہ جیسے تہجد پڑھتے نہیں ، بدکاری کرتے دیکھا ہو ۔چھوٹی بھابھی کا بھی منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور اسی کھلے منہ سے وہ اسے سارا دن تاڑتی رہیں ۔ پھر رات بھیا نے اسے کڑی نظروں سے گھورتے ہوئے کھانا کھایا اور آخری نوالے پہ کھنکار کر بولے ۔ ’’ ا ب میں نہ سنوں کہ تو رات کو اٹھی ہے ۔۔۔ تہجد یا کچھ بھی پڑھنے ۔راتوں کو اٹھنے کی ضرورت ہی کیا ہے بھلا ۔‘‘ غسل خانے میں دیر ہو جاتی تو دروازہ دھڑ دھڑایا جاتا ۔ پھر ہزار سوال جواب ۔۔۔ کیا کر رہی تھی ۔ اتنی دیر کیوں لگا دی ۔گھنٹہ بھی کوئی اندر گزار تا ہے ۔ اور تو اور پورا غسل خانہ چھانا جاتا ایسے جیسے کچھ برآمد کر کے ہی دم لیا جائے گا ۔ ’’ اندر کیا کیا جاتا ہے ۔۔۔کیوں جایا جاتا ہے ۔۔۔؟‘‘ وہ تپ کر جواب دیتی ۔ ’’ جواب نہ دے ، زبان کٹو ا دوں گی ۔۔۔‘‘ بھابھی اس کی چوٹی پکڑ لیتیں ۔ ’’ کیوں ان کے منہ لگتی ہے ۔۔۔؟ بولنے دیا کر انھیں ۔ پہلے میری جان عذاب میں تھی اب تیری ہے ۔ میں تو اسی انتظار میں ہوں کہ بیٹیوں کے ساتھ کیا کریں گی ۔۔۔۔؟ ‘‘ آپی کبھی کبھار جیسے زبان ادھار پہ لاتیں اور کچھ بول لیتیں ۔شاید ان کی زبان بھی بھابھی نے کٹواد ی تھی ۔تبھی وہ کام کاج کر کے ایک طرف پڑی بس ہونٹ ہلاتی رہتیں ۔۔۔ خود سے باتیں کرتیں یا جیسے کوئی ورد ۔۔۔ و ہ بھی خاموشی سے بس عبادت میں لگ گئی ۔۔۔ ’’ وظیفے کرتی ہو گی شادی کے ۔۔۔۔‘‘ اس کے ہلتے لب اور گرتے تسبیح کے دانوں پہ تمسخر ۔۔۔ شک ، طعنے ، تشنے ۔۔۔ اس کی زندگی میں اب یہی سب بچا تھا ۔ ایک رشتہ اس کے کسی جاننے والے کا کیا آ گیا وہ بدکار بنا کر سنگسار ہی کر دی گئی ۔ کوڑے مار کر ایک طرف کرتے ، روز یوں تو نہ مارتے ۔پھرخاندان بھر کے رشتوں میں بھی سو ناک چڑھتے ، نکلتے ۔۔۔ کم عمر سے نہیں بیاہنا ، ان پڑھ تو بالکل نہیں ۔ کام مندا ہے ۔۔۔ اونہہ ۔۔۔۔ گھرانہ بڑا ہے، چخ چخ رہے گی ۔۔۔مکان اپنا نہیں ، کنگلا ۔۔ہونہہ۔۔۔۔ تو جی طے ہوا کہ انھیں بیاہنا نہیں اب اسے ستانا ہی تھا ۔ ’’ میں ان پڑھ تھی ، تو پڑھی لکھی ۔۔۔ کچھ تو آواز اٹھاتی ۔‘‘ آپی نے اس روز اسے زمین پہ لیٹے دیکھتے کہا۔ ’’ آواز اٹھانے کہاں جاتی ۔۔۔؟ کوئی عدالت ، منصف ، وکیل ۔۔۔؟ ‘‘ آپی کے پاس سوال تھے جواب نہیں ، مسائل تھے حل نہیں ۔ پھر نمازیں ، دعائیں اور لمبی ہوتی گئیں ۔۔۔ بھابھیاں بولتی جاتیں ، بھائیوں کے کان بھرتی جاتیں ، پابندیاں تھیں کہ لگتی رہیں ، دل تھا کہ مرتا گیا ۔ وہ کملاتے کملاتے کملی ہی ہو گئی ۔ سورج کب جاتا ہے ، چاندکب آتا ہے ۔ دن رات کب بدلتے ہیں ۔ موسم کون سے جاری و ساری ہیں ۔ اس نے دیکھنا اور غور کرنا چھوڑ دیا ۔ کائنات کی ہر شے متحرک ہے۔ تحریک زندگی ، جمود موت ہے ۔وہ اب جامد ہو گئی تھی۔ ’’ آئے ہائے کب سے نماز میں کھڑی ہے ۔ اب بس کر دے ۔۔۔‘‘ اندر باہر ہوتے یہی آواز کانوں میں پڑ رہی تھی ۔ ’’ کھڑی کہاں ، سجدے میں پڑی ہے ۔‘‘ اس نے سننا بند کر دیا ۔ ’’ نہ آیا اب کوئی ۔۔۔۔ بس کر ، چل کر روٹی بنا ۔۔۔‘‘ اس کا رونا بند ہوا۔۔۔ ۔ ’’ وے طاہرہ ۔۔۔۔ بس کر دے اب ۔‘‘ اور مانگنا بھی بند۔۔۔ وہ پڑی ہے اور پڑی ہی ہے ۔ ’’ ہائے نی طاہرہ ۔۔۔ اٹھ جا ۔۔۔ کیا مانگے جا رہی ہے ۔۔؟ ‘‘ اب وہ کبھی نہیں مانگنے والی ۔ بھابھی نے سجدے میں پڑی طاہر ہ کو جھنجھوڑا ، وہ ایک طرف لڑھک گئی اور ان کی چیخ نکل گئی ۔ ’’ ہائے طاہرہ ۔۔یہ کیا ۔۔۔؟ ‘‘ اور وہ کب سے سجدوں میں پڑی ایک ہی شے تو مانگتی تھی ۔۔۔۔ رہائی ۔۔۔ پہلے اس گھر سے ، پھر زندگی سے ۔ ٭ ٭ ٭ ٭