یقین کامل

2019-07-06 19:59:46 Written by فیضان متین

یقین کامل

از قلم 

فیضان متین 

 

نوید ! نوید! جلدی اٹھ بھائی” فرخ نے نوید کو تقریباً جھنجھوڑتے ہوئے اٹھایا۔۔

"کیا ہوگیا بھائی! سب خیریت ہے؟”

"یارمیرا بیگ نہیں مل رہا جس میں اوریجنل ڈاکومنٹس تھے؟”فرخ نے رو دینے والے انداز سے کہا۔

"کیا ؟ ارے نیچے دیکھ سیٹ کے ، یہیں ہوگا ۔” نوید جو بیچ والی برتھ پہ سورہا تھا اچھل کے نیچے آگیا اور دونوں مل کے فرخ کا بیگ ڈھونڈنے لگے۔

نوید اور فرخ کلاس فیلو تھے اور دونوں اسلام آباد سے انٹرویو دے کر ٹرین میں حیدرآباد جارہے تھے۔ 

 اس وقت رات کے چار بج رہے تھے اور ٹرین روہڑی اسٹیشن پہ رکی تھی۔ انھوں نے کمپارٹمنٹ میں موجود ہر مسافرسے بیگ کا پوچھا لیکن سب نے انکار کردیا۔ ٹرین سے نیچے اتر کر اپنے کمپارٹمنٹ کے پاس پٹریوں پرکافی تلاش کیا لیکن بیگ وہاں بھی موجود نہیں تھا۔ اتنے میں ٹرین چلنے کا سائرن بجنے لگا- دونوں مایوسی سے ٹرین میں چڑھے۔۔ سامنے پولیس کھڑی دکھی تو فرخ نے فوراً جا کر سارا واقعہ سنایا ۔۔

پولیس: "اچھا تو بیگ کسی نے چوری کیا ہے یا نیچے گرا ہے؟”

 

فرخ: "یہی لگتا ہے کہ بیگ سر کے نیچے سے کھسک کے کھڑکی سے باہر جا گرا ، کیوں کہ کھڑکی میں کافی اسپیس تھی” 

پولیس: "اچھا تو کیا تھا بیگ میں”

فرخ: "سراس میں میرے سارے اصلی ڈاکومنٹس ، والٹ ، این آئی سی اور اے ٹی ایم کارڈ رکھا تھا”

پولیس: "اور یہ گرا کہاں؟”

فرخ: "سرصادق آباد تک میں جاگا ہوا تھا اور سر کے نیچے بیگ تھا ،پھر پتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی ۔۔ روہڑی پہ آنکھ کھلی تو بیگ غائب تھا”

"روہڑی سے پہلے کا علاقہ ہمارے پاس نہیں ہے ، وہ آپ کو پنجاب ریلوے میں کمپلین لکھوانی ہوگی، سوری” یہ کہ کر وہ پولیس والے آگے چلے گئے۔

فرخ بوجھل قدموں سے کمپارٹمنٹ کی طرف جارہا تھا کہ اچانک اسے کچھ خیال آیا۔ وہ باتھ روم کی طرف مڑ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باتھ روم جاکر فرخ نے وضو کیا۔۔۔۔ کمپارٹمنٹ میں آکر برتھ کے بیچ والی جگہ پر اپنی چادر بچھائی اورنماز کی نیت باندھ لی۔۔

نماز کی ادائیگی کے بعد فرخ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ، "یا اللہ ! میری ساری امیدیں دم توڑ گئی ہیں ، اب واحد تیرا ہی آسرا ہے ۔۔ تونے کسی حال میں مجھے بے سہارا نہیں چھوڑا ۔۔ بس کسی طرح میرا بیگ ملوا دے ۔۔ یہ میری پوری زندگی کا سرمایہ تھا میرے کیریئر کا سوال ہے مولا۔۔ تیرے لئے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔۔” فرخ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔۔

نماز پڑھ کے اس نے دل کا بوجھ کچھ ہلکا محسوس کیا- اب وہ اگلے مرحلے کے بارے میں سوچنے لگا۔

"ڈپلیکیٹ ڈاکومنٹس کے لئے پہلی چیز جو تمہیں چاہیئے وہ پولیس اسٹیشن سے ایف آئی آر کا حصول ہے۔۔ کیوں کہ ہر ڈاکومنٹ کے اپلائے کرنے کے لئے اس کی ضرورت پڑتی ہے۔۔” نوید نے اسے بتایا۔

"یار لیکن میرا بیگ تو کنفرم ہی نہیں ہے کس تھانے کی حدود میں گرا ہے تو ایف آئی آر کہاں جاکر کٹواؤں؟” فرخ نے پریشانی سے کہا

"یار پولیس کو یہی کہیں گے کہ بیگ حیدرآباد کے قریب گرا ہے۔ ” نوید نے حل بتایا۔

حیدرآباد اسٹیشن پہ ٹرین رکی تو فرخ کے والد اسے لینے کے لئے آئے ہوئے تھے ۔ فرخ نے انھیں بیگ کی گمشدگی کے متعلق ساری بات بتائی۔ اس کے والد نے اسے دلاسا دیا اور ایف آئی آر کٹوانے کے لئے پولیس اسٹیشن کی طرف بڑھے۔

ایف آئی آر کے حصول کے بعد اگلا مرحلہ میٹرک کے ڈپلیکیٹ ڈاکومنٹس کے لئے اپلائے کرنا تھا۔ جس کے لیے وہ دونوں نوید کا شکریہ ادا کرکے بورڈ آفس کی طرف روانہ ہوگئے۔

-------------------------------

 

بورڈ آفس پہنچ کر فرخ نے میٹرک کے ڈپلیکیٹ سرٹیفیکیٹ کا چالان لیا۔

"کیا ۔۔ پندرہ سو روپے فیس ؟؟؟ یہ ٹھیک ٹھاک خرچہ کروانے والے ہیں” فرخ چالان کے پیسے دیتے ہوئے خود سے گویا ہوا۔۔

"بھائی یہ چالان کے ساتھ اور کیا کیا چیزیں لگے گی؟ ” فرخ نے کاونٹر پہ موجود شخص سےپوچھا۔

"کیا آپ نے اپنے اسکول کے پرنسپل سے ایپلیکشن لکھوالی؟” کاونٹر سے سوال آیا

"ایپلیکشن؟ نہیں بھائی ۔۔ اسکول تو پاس آوٹ کئے ہوئے سات آٹھ سال ہوگئے اب ” فرخ کو خواری سوچ کے ہی رونا آرہا تھا۔

"وہ لے کر آؤ گے تب ہی کچھ آگے کام ہوگا اور کم سے کم دو مہینے لگے گے”

"دو مہینے !!! بھائی کچھ جلدی نہیں ہوسکتا ۔۔ مجھے اس کی بیس پہ دوسرے ڈاکومنٹس کے لئے اپلائی کرنا ہے”

"نہیں اس سے جلدی نہیں ہوگا”

"یار اب یہ نئی ٹینشن ۔۔ اسکول کی تو بلڈنگ بھی اب شفٹ ہوگئی ہے ” فرخ سوچنے لگا۔۔۔

خیر دو دن خوار ہونے کے بعد فرخ ایپلیکشن لے کر بورڈ آفس پہنچ گیا ۔۔ لیکن وہاں ایک نئی مصیبت اس کا انتظار کررہی تھی۔

-------------------------------

"میجسٹریٹ کے سامنے ۔۔۔ کورٹ میں ۔۔؟ کیا پاگل ہوگئے ہیں یہ لوگ ۔۔ کوئی چوری کی ہے کیا” فرخ کے والد ان ڈاکومنٹس کی لسٹ دیکھ کر بولے جو چالان کے ساتھ لگنے تھے۔۔

"اس میں لکھا ہے آپ کو میجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو کر حلفیہ بیان دینا ہے کہ میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے اور اب ڈپلیکیٹ کے لئے اپلائے کررہا ہوں” فرخ نے بتایا۔

"لو بھئی ایک ڈاکومنٹ کے لئے اتنی خواریاں۔۔ چلو اب کرنا تو پڑے گا ۔۔ چلتے ہیں کورٹ” اس کے والد ہر موقعہ پر ساتھ کھڑے تھے۔

اسکول کے پرنسپل سے ایپلیکشن فاروڈ کروا کے ۔۔ اسے پہلے گورنمنٹ کے گزاٹڈ آفیسر سے اٹیسٹ کروا کے پھر کورٹ میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو کر گواہی دینا اور اس کی سٹیمپ لگوانا اور ان سب خواریوں کے بعد پندرہ سو کا چالان ۔۔ اور وہ بھی دو مہینے بعد ملے۔۔۔ فرخ کو آگے کا سوچ کر ہی خوف آرہا تھا۔۔

خیر وہ اس پراسس کو لے کر چلتا رہا ۔۔ انہی دنوں میں اسے کراچی میں ایک پرائیویٹ کمپنی سے جاب آفر آ گئی اور اس نے جوائن کرلیا۔ اب وہ ہر ویک اینڈ پہ گھر آتا ۔۔ یہ بات اس نے اور گھر والوں نے اب دل سے قبول کرلی تھی کہ ڈاکومنٹس ملنے والے نہیں ہیں اور بظاہر تھی بھی ناممکن سی بات۔

-------------------------------

اس دفعہ وہ شب برات کے موقعہ پر گھر آیا تھا ۔۔ مسجدوں میں خوب رونق تھی اور عبادات چل رہی تھی۔۔ وہ بھی گھر والوں سے ملنے اور ڈنر سے فارغ ہو کر مسجد شب بیداری کے لئے چلا گیا۔ اس رات کی مناسبت سے خصوصی نوافل ادا کئے اور پھر رب کے حضور سجدے میں جا کر دعا کرنے لگا۔۔۔ وہ اس طرح رو رہا تھا جس طرح بچے بلک بلک کہ اپنی چیز گم ہونے پر روتے ہیں ۔۔۔

دعا سے فارغ ہوا تو فجر کا وقت ہوچکا تھا اس نے نماز پڑھی اور گھر آ کر سونے کے لئے لیٹ گیا۔۔ تھکا ہوا اور ساری رات کا جاگا ہوا تھا تو جلد گہری نیند نے آلیا۔۔

سوئے ہوئے کچھ گھنٹے گزرے تھے کہ اچانک وہ گھبرا کے اور حیرت سے نیند سے بیدار ہوا ۔۔۔ اور اپنےبیڈ پہ ہاتھ ٹٹولنے لگا ۔۔ "کہاں گیا یہیں تو دیکھا ہے میں نے ابھی اپنا بیگ ۔۔۔ وہ مل گیا مجھے یہیں بیڈ پہ سے”

اس نے خواب دیکھا تھا۔۔

"کیا پتہ یہ کوئی اشارہ ہو یا میرا وہم ہو۔۔۔خیر” ۔۔۔

شاید دعا کی قبولیت کا وقت قریب آچکا تھا۔۔۔

--------------------------------

ویک اینڈ حیدرآباد میں گزارنے کے بعد فرخ کراچی کے لئے روانہ ہوگیا۔ پورے راستے وہ اس خواب کے بارے میں سوچتا رہا۔ پتہ نہیں کیوں اسے یقین کامل ہوچکا تھا کہ اس کا بیگ اسے مل جائے گا۔ لیکن ابھی اس نے اس خواب کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا۔۔ اپنے گھر والوں سے بھی نہیں! کچھ معاملات راز میں رکھنے کے ہوتے ہیں۔۔۔

دن یوں ہی گزرتے گئے۔ فرخ اپنی جاب روٹینز میں مصروف ہو گیا۔ ایک دن فرخ اپنے آفس بلڈنگ کی لفٹ کے سامنے کھڑا لفٹ آنے کا انتظار کررہا تھا کہ اچانک ایک انجان نمبر سے کال آئی۔

"یہ کس کی کال آرہی ہے۔۔ شاید کسی انٹرویو کی ہو” فرخ نے سوچتے ہوئے کال اٹینڈ کی۔

"ہیلو ! ہیلو! ۔۔۔ کون بات کررہا ہے؟” کال کے دوسری طرف موجود شخص نے پوچھا۔ لہجے سے وہ کسی گاوں کا رہائشی لگ رہا تھا جو کہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کررہا تھا۔

"جی بھائی آپ نے کال کی ہے آپ بتائیں کون ہیں اور کس سے بات کرنی ہے؟” فرخ نے جواباََ کہا

"کیا تم فرخ شیخ بول رہے ہو؟” کال پہ پوچھا گیا۔

فرخ کو حیرت کا دھچکا لگا یہ کون شخص ہے جسے میرا نام پتہ ہے۔ اس نے کئی جگہ جاب کے لئے اپلائی کیا ہوا تھا لیکن کسی کمپنی کے نمائندے کا لہجہ الگ ہوتا ہے۔

"جی میں فرخ ہی بات کر رہا ہوں لیکن آپ اپنا تو بتاؤ کون ہو”

"اچھا یہ بتاو نوکری کیا کرتے ہو ۔۔ کہاں رہتے ہو اور ابھی کہاں ہو؟” کال پہ پوچھا گیا ۔

"بھائی ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب ہے کراچی میں۔۔ لیکن آپ ہیں کون؟”

"کراچی میں۔۔ لیکن ایڈریس تو تمھارا حیدرآباد کا ہے۔۔ ”

"اس کے پاس میرا ایڈریس کیسے۔۔۔۔ کہیں میرا این آئی سی تو۔۔۔ مطلب ڈاکومنٹس ۔۔۔۔ بیگ ۔۔۔” فرخ کا دل دھڑکنے لگا۔

"بھائی حیدرآباد میں ہی رہتا ہوں کراچی جاب کی وجہ سے آیا ہوں اب تو بتا دو کون ہو؟”

"بھائی تمھارے کوئی ڈاکومنٹس گم ہوئے ہیں کیا”

"ارےے۔۔ ہاں بھائی۔۔ بلکل ہوئے ہیں ” یہ کہ کر فرخ نے ٹرین والا پورا واقعہ اسے سنایا۔

” ادا میں گھوٹکی سے بات کررہا ہوں۔۔ تمھارے یہ ڈاکومنٹس کی فائل میرے بہنوئی کو ملی تھی اسٹیشن کے پاس سے۔۔ وہ پڑھا لکھا نہیں ہے ۔۔ وہ تو انھیں پھینک رہا تھا میری نظر پڑی تو میں نے سوچا کسی کے اوریجنل ڈاکومنٹس ہیں اسے بھیج دوں۔ تو آپ کو میں ٹی سی ایس کے ذریعے بھیج رہا ہوں ۔ مل جائیں تو بتادینا”

فرخ کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی تک خواب میں ہے۔۔ اسے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔۔ دعا قبول ہو گی لیکن اتنی جلدی۔۔۔ 

"اوہ تو مطلب بیگ گھوٹکی میں گرا تھا۔۔۔ یا ہوسکتا ہے اسٹیشن پہ ٹرین سلو ہوئی ہو تو کسی نے کھینچ لیا ہو۔۔۔ لیکن اسے میرا نمبر کیسے ملا ۔۔۔ ” فرخ کے دماغ میں ساری کہانی بننے لگی۔

پھر اسے یاد آیا کی اس نے بیگ میں تیاری کے لئے ایک رجسٹر بھی رکھا تھا جس میں اس نے پہلے پیج پہ اپنے نام کے ساتھ نمبر بھی لکھ دیا تھا۔۔

"بھائی میں کن الفاظ میں تمھارا شکریہ ادا کروں مجھے سمجھ نہیں آرہا ۔۔ تم نے میری ذہن کا بوجھ ہلکا کردیا ہے۔۔آپ کو کبھی زندگی میں کوئی بھی کام ہو تو لازمی بتانا۔۔ اور ہاں حیدرآباد آنا ہو تو بتانا آپ کی شاندار دعوت کریں گے” فرخ نے احسان مندی سے کہا۔

"نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے بس دعا میں یاد رکھنا، میں بھیج رہا ہوں فائل”

فرخ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔۔ اس کا دل کررہا تھا کہ ابھی سجدے میں چلا جائے اور رو رو کے اس شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رب کا شکر بجا لائے۔۔

ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اس شخص کی دوبارہ کال آئی ۔ 

” بھائی بات یہ ہے کہ میں تو تمھاری فائل بھیج رہا تھا لیکن میرا بہنوئی بھیجنے نہیں دے رہا ۔۔ وہ کہتا ہے اس کو ایسے نہیں دو اس سے پیسے لو۔ تو آپ اپنے این آئی سی پہ ایزی پیسہ کے ذریعے بھیج دو پیسے”

"اوہ اچھا ۔۔ کتنے پیسے” 

جواب میں تین ہزار کی ڈیمانڈ کی گئی۔۔۔ فرخ کچھ پریشان ہوگیا۔۔ لیکن خیر ڈاکومنٹس اسی کے پاس تھے اور ویسے بھی ان خواریوں کے بدلے میں جو ڈپلیکیٹ ڈاکومنٹس کے پراسیس میں لگنی تھی ۔۔ یہ رقم کچھ بھی نہیں تھی۔۔

” شاید وہ غریب انسان ہو اور اسے پیسوں کی ضرورت ہو۔۔” فرخ نے سوچا اور اسے کہا۔۔

"اچھا میں ابھی بھیجتا ہوں آپ فائل بھیج دیں مہربانی کر کے”

"ہاں وہ آپ بے فکر رہو میں بھیجتا ہوں”

اگلے دن فرخ کو اس کے گھر پہ پارسل ملا۔ جس میں اس کے تمام ڈاکومنٹس سہی سلامت موجود تھے۔۔ والٹ بھی واپس بھیج دیا گیا تھا لیکن پیسوں کے بغیر۔۔ ہاں لیکن اے ٹی ایم اور این آئی سی آ گیا تھا ۔۔ فرخ کو اپنے کام کی چیزیں مل گئی تھیں اور اسے اپنے کام کی۔۔۔۔

فرخ نے موبائل نکالا اور ریسیوڈ کال میں موجود اس نمبر کو سیو کیا۔۔

‘دی موسٹ تھینک فل پرسن’

_______