میری تو قسمت ہی خراب

2019-07-07 19:52:48 Written by بشریٰ اسلم

میری تو قسمت ہی خراب 

از                           

                       بشریٰ اسلم 

 

پوری وادی بلند و بالا اور مغرور پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی.

پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکتی برف اور دائیں جانب ایک پہاڑ کی چوٹی سے حسین و جمیل آبشار نیچے گول دائرہ نما جھیل میں گر رہا تھا اس کا بھپرا ہوا پانی جب جھیل میں پڑی بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا تو عجیب سا شور پیدا کرتا.

تاحد نگاہ وادی میں بچھا سبزہ آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا. یخ ٹھنڈی ہوائیں اور بادلوں سے ڈھکا آسمان وہ جنت کا ایک ٹکرہ ہی تو تھا. سدرہ کے لیےیہ ساری چیزیں بے حد دل کش اور مسرور کردہ تھیں. تختہ سیاہ پر ریاضی کے سوال لکھوا کر اب وہ کھڑکی سے دور کھڑے پہاڑ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی.

باجی گاؤں کا وڈیرا خان صاحب آئے ہیں" سکول کے چپڑاسی کی آواز سے اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا.

وڈیرا... خان.. صاحب... " حیرت اور بے یقینی سے اس نے اٹک اٹک کر الفاظ دہرائے . جیسے وہ تصدیق کرنا چاہتی ہو کہ اس نے کچھ غلط تو نہیں سنا.

جی میڈم جی.. وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں" چپڑاسی اپنی بات کہہ کر باہر نکل گیا.

ہائے اللہ تو کتنا رحیم و کریم ہے. اتنی جلدی میری سن لی مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا. وہ پرس سے چھوٹا شیشہ نکالے اب اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی خوشی سے اس کا چہرہ چمک رہا تھا. 

خان خود آیا ہے چل کر یقیناً اس نے مجھے رستے میں سکول آتے دیکھ لیا ہو گا- ایک تو یہ بگڑے امیر زادے اب اس وڈیرے کو بھی "جو چلے تو جان سے گزر گے" کہ عالم شاہ کی طرح ضوفشاں ہی چاہیے. وہ عالم شاہ کی ضوفشاں ہی تو تھی. مگر اپنی خیالی دنیا میں. 

وہ نجانے کیا کچھ سوچتی ہوئی ایک آخری نظر خود پر ڈالی وہ بے حد سادہ تھی میک اپ کے نام پر صرف لیپ سِٹک اور کاجل بھر بھر کر آنکھوں میں ڈالا ہوا تھا ناول کی ہیروئن سادہ ہی تو ہوتی ہیں اس نے خود کو تسلی دی بس کاجل کا استعمال ذیادہ ہوتا ہے اور ہیرو قدموں میں-

کلاس میں موجود گنے چنے چھے بچوں کو شور نہ کرنے کی تاکید کرتی باہر نکلی اور سکول کے برآمدے کو پار کر کے وہ گیٹ کے قریب آئی تو وڈیرا خان کو دیکھ کر اس کے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں والی حالت ہو گئی تھی-وہ جو سوچ کر آئی تھی معاملہ اس کے برعکس تھا.

وڈیرا خان لگ بھگ ساٹھ سال کا بڈھا تھا- اس سکول میں چونکہ کوئی استانی ٹکتی نہیں تھی وہ اس کا حال چال پوچھنے اور اس کا اس چھوٹے سے علاقے میں نوکری کرنے پر تہہ دل سے مشکور تھا اور اسی خوشی میں ملنے چلا آیا. اور جاتے ہوئے بیٹی سمجھ کر سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر چلا گیا. 

اس کے ساری خواب جل کر خاک ہوگے تھے. 

سارے الفاظ جیسے کہیں کھو سے گے تھے. 

میری تو قسمت ہی خراب ہے" ہوہ بڑبڑائی اور دھپ دھپ کرتی اندر کی جانب چل دی. 

          ….………………..

اماں کے لاکھ منع کرنے پر بھی وہ اتنی دور نوکری کرنے آئی تھی. اس نے یہ سکول اپنی مرضی سے چنا تھا یہ نہیں کہ اسے بچوں کو پڑھانے کا شوق تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ ناول کی دنیا میں رہنے والی ایک بے نیاز لڑکی تھی. اسے لگتا تھا کہ اس کی زندگی کا ہیرو اسے پہاڑی علاقے میں ضرور ملے گا آدھے سے زیادہ ناولز تو پہاڑی علاقوں پر ہی لکھے گے ہیں جیسے پریشے کا افق اسے پہاڑی علاقے میں گھوڑے پر بیٹھا مل گیا تھا اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو گا وہ پر یقین تھی. 

تبھی وہ اب پیدل مارچ کرتی گاؤں سے باہر سڑک پر آ گئی اب وہ قدرے اونچی سڑک پر کھڑی ہاتھوں کا چھجا بنائے ماتھے پر ٹکا کر بل کھاتی اوپر نیچے جاتی سڑک کو رک کر دور تک دیکھ رہی تھی بارش کی ہلکی ہلکی پھوار اس کے منہ پر گر رہی تھی. وہ ہنوز اسی کیفیت میں کھڑی شہر جاتی سڑک کو دیکھ رہی تھی. کیا آج کوئی افق ارسلان گھوڑے پر اس کے لیے بیٹھ کر آئے گا. پھر وہ بھی افق کے لیے کوہ پیما بن جائے گی اگر اتنی مشکل سے اسے افق ملے گا تو کوہ پیما بننے میں کیا دشواری ہے. 

وہ اپنی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی جب اسے دور شمال کی جانب سے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی. آواز قدرے دور سے آ رہی تھی اس کا دل ذور سے دھڑکا اب آواز قدرے قریب سے آ رہی تھی اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر دیکھا .اپنی دور کی نظر خراب ہونے پراسے شدید ملال ہوا مگروہ اتنا ضرور دیکھ سکتی تھی کہ بھورے گھوڑے پر کوئی نوجوان اب کافی نزدیک آچکا تھا. 

 اس کا یہاں آنا رائیگاں نہیں گیا وہ اپنے ہیرو کو ساتھ لے کر جائے گی اس کا دل بلیوں اچھلا.

گھوڑا اس کے قریب آکر رک گیا - اس پر سوار بھورے بالوں اور نیلی آنکھوں والا بے حد خوبصورت نوجوان تھا دفعتاً اس کی نظر اس کے گلے میں جھولتے کیمرے پر پڑی اس کا دل پورے ذور سے دھڑکا وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہی تھی .

"میرا افق پریشے کے افق سے زیادہ خوبصورت ہے " خوشی اس کے چہرے پر عیاں تھی. کیا یہ میرے لیے رک گیا ہے. اسے پتا ہے میں اس کی پریشے ہوں" اس نے دل ہی دل میں سوچا. 

امے پتا ہے تم اس علاقے کی نہیں ہو. گھوڑے پرجھولا لینا چاہیو گی. ویسے تو شہر میں ام پچاس لیتے ہیں تم تیس دے دینا اور اگر تصویر کھینچوانا ہے تو پورے سو روپیہ لے گا" گھڑسوار گھوڑے کی لگامیں کھینچے کھڑا تھا. وہ یقیناً شہر میں سیاحوں کو گھوڑے پر بیٹھا کر گھومانے پھیرانے اور تصویریں کھینچ کر روزی کماتا تھا. 

اس کے دل کے کتنے ٹکڑے ہوئے تھے. بڑی زور سے جیسے کچھ ٹوٹا تھا. وہ اسے کھری کھری سنا کر اب خود کو کوس رہی تھی. گھڑ سوار وہاں سے جا چکا تھا. مگر وہ تیوریاں چڑھائے اب بھی اسی جانب دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گزر کر جا چکا تھا.

کیا تھا اللہ جی اگر وہ میرا افق ہوتا. منحوس مارا شکل سے بھی تو کتنا ہنڈسم لگ رہا تھا. بس میری تو قسمت ہی خراب ہے" برے برے منہ بناتی اس نے واپسی کی جانب قدم بڑھا دیے. 

      …………………………….

جیسے ہی اس کی امید ختم ہوئی کہ اس کا ہیرو اسے پہاڑی علاقے میں نہیں ملنے والا تو دل کو سمجھا کر دوسرے ہی ہفتے واپس گھر آگی. اماں اسے دیکھ کر خوشی سے نہال ہو گئی مگر اس نے تین دن منہ سجائے رکھا اور کسی سے بات نہ کی اماں اس کی اس عادت سے اچھی طرح واقف تھیں تبھی خاموشی سے اپنے کاموں میں لگی رہتیں کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ایک دو دن میں خود ہی ٹھیک ہو جائے گی. اور ایسا ہی ہوا آج صبح وہ اٹھی تو موڈ قدرے بہتر تھا اماں نے بھی سکھ کا سانس لیا- اس کی پٹر پٹر چلتی زبان سے ہی تو گھر میں رونق رہتی تھی. اماں نے ناشتہ بنایا ناشتے سے فارغ ہو کر سدرہ نے صحن میں لگے نل کے نیچے برتن دھونے لگی. برتن دھو کر اٹھا کر کچن میں لاتی صحن میں کسی چیز سے اس کا پاؤں بری طرح ٹکرایا اور سارے برتن نیچے گرے اماں ہائے ہائے کرتی سامنے کمرے سے تقریبا بھاگتی ہوئی آئیں. شیشے کے گلاس ٹوٹ کر چکنا چور ہو چکے تھے. اماں اسے صلواتیں سناتی کوسنے لگیں. 

کوئی کام تم ڈھنگ سے نہیں کرتی. دھیان کہاں ہے تمہارا سدرہ سارے برتن تباہ کر دیے ہیں. ابھی پچھلے ہفتے ہی تو یہ نئے گلاس خرید کر لائی تھی تیرا ابا سٹیل کے گلاس میں پانی نہیں پیتا. ہائے ہائے منحوس ماری میرے جہیز کے کپ بھی توڑ دیے کمبخت ماری. جس کام کو ہاتھ لگاتی ہو بس تباہی پھیلا دیتی ہو. میں نے تبھی کہا تھا کہ میں خود دھو لیتی ہوں. میرا ابا خود گوجرانوالہ سے لے کر آیا تھا یہ کپ.. " اماں نہ جانے اور بھی کیا کچھ کہہ رہی تھی اس کا دھیان بس منحوس لفظ میں اٹک کر رہ گیا تھا. اس نے خوشی سے اماں کو گلے لگالیا. 

میں بھی سوچوں اماں کے اتنی دور جا کر بھی میں خالی واپس کیوں لوٹ آئی. اب سمجھ آئی میرا عالیان تو مانچسٹر میں میرا انتظار کر رہا ہو گا" وہ خوشی سے کہتی اندر کی جانب بھاگ گئی-

ایک تو اس لڑکی کی مجھے سمجھ نہیں آتی. سارا دن وہ موئے ڈائجسٹ پڑھتی رہتی ہے کام کی طرف دھیان کیسے جائے" اماں اپنے جہیز کے ٹوٹے کپ اکھٹے کرتی بڑ بڑائیں-

سدرہ نے کمرے میں آکر بھنگڑا ڈالا تو وہ یارم کی امرحہ تھی منحوس تبھی تو اس کا کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہوتا تھا. مجھے سکالرشپ کے لیے اپلائی کرنا چاہیے میرا عالیان میرے انتظار میں بوڑھا ہو رہا ہے. ایسا کرتی ہوں کل ہی باہر کی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ کے لیے اپلائی کرتی ہوں" اس نے خود کلامی کی. 

 

      ……………………

 

اگلے دن ہی اس نے ابا کو بتایا کہ وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے اور باہر اپلائی کرنا چاہتی ہے .ابا کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا البتہ اماں کو اس کا یہ فیصلہ سخت ناپسند آیا مگر ابا نے اس کی بھرپور حمایت کی تو اماں خاموش ہو گئیں. رات کو وہ خود کو مانچسٹر کی سڑکوں پر سائیکل چلاتے سوچتی. کارل کا مقابلہ تو میں خود ہی کر لوں گی. انہی سوچوں میں گم کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے پتا ہی نہیں چلا . صبح اٹھتے ہی وہ اماں سے پیار بھری باتیں کرتی اور پھر دل میں اٹھتے سوالوں کو پوچھ لیتی. 

اماں میں منحوس ہی ہوں ناں" آج صبح وہ باورچی خانے میں موڑا رکھ کر اماں کے قریب ہی بیٹھ گئی-

نہ پتر میری دھی تو بڑی کرموں والی ہے تو پیدا ہوئی تھی تو تیرے باپ کو زمینوں کی پیداوار پر بڑا منافع ہوا تھا. اور ہماری بھوری بھینس نے جڑواں بچے دیئے تھے دور دور کے گاؤں سے لوگ دیکھنے آتے تھے." اماں نے ناشتا بنانے کی غرض سے آگے جلانے کے لیےمٹی کے چولہے میں لکڑیاں رکھیں. 

پر اماں میرا ایک بڑا بھائی بھی تو میری منحوسیت کی وجہ سے فوت ہو گیا تھا" سدرہ نے انہیں جیسے یاد دلایا

جھلیے وہ تو تجھ سے بڑا تھا وہ پیدا ہوتے ہی اللہ کو پیارا ہو گیا تھا تو اس سے چار سال چھوٹی ہے .بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی اور پھر گولو بھی تو تیری سوہنی قسمت سے اللہ نے ہمیں دیا" اماں نے محبت سے اس کی جانب دیکھا سدرہ کا دل جل کر سیاہ ہو گیا. اور وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گی. 

"اماں کو کچھ نہیں یاد اب میں منحوس ہی ہوں. چاچی شیداں بھی تو اکثر کہتی ہے کہ میں پیدا ہوئی تو اس کی دائیں ٹانگ ٹوٹی تھی چار مہینے چارپائی پر رہی تھیں. اور ماسی نوراں کی چھت بھی تو گری تھی چاہے تب میں تین سال کی تھی پر میرے سامنے گری تھی" اس نے جیسے خود کو اپنے منحوس ہونے کا یقین دلایا. اور تکیے کے نیچے رکھا ڈائجسٹ کھول کر پڑھنے لگی. 

…………………….

سکالرشپ کے لے اپلائی کیے اسے تین مہینے ہو چکے تھے مگر کہیں سے کوئی مثبت جواب نہ ملا اب اس کی امید دم توڑنے لگی تھی. آج صبح خوب بارش برسی موسم قدرے خوشگوار ہو گیا تھا. سدرہ صحن میں لگے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی کسی ناول میں پوری طرح سے مگن تھی جب اماں اس کے قریب ہی بیٹھ گئیں. اماں کی نظریں مسلسل خود پر محسوس کر کے اس نے ڈائجسٹ بند کیا اور اماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا. 

کچھ کہنا ہے اماں آپ کو" وہ پوری طرح سے اب اماں کی جانب متوجہ تھی. 

سوچ رہی تھی کہ تو واقعی بڑی قسمت والی ہے" اماں نے محبت اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا

کیوں اب کیا کر دیا ہے میری قسمت نے" اسے نے چڑ کر کہا. آخر کو اس اچھی قسمت کی وجہ سے ہی تو اسے عالیان نہیں ملا تھا. 

تیری خالہ نے اصغر کے لیے تیرا ہاتھ مانگا ہے. تیرا ابا اور مجھے تو وہ بہت پسند ہے گھر کا دیکھا بھالا لڑکا ہے. اپنی زمینیں ہیں اور اب تو اس نےٹریکٹر بھی خرید لیا ہے. ماشاءاللہ بڑا سمجھدار اور سلجھا ہوا لڑکا ہے. خوش رہے گی تو" اصغر کے. رشتے کا سن کر اس نے بے یقینی اور حیرت سے اماں کی جانب دیکھا. 

خالہ زینب کا اصغر" اس نے جیسے تصدیق کرنا چاہی. اور اماں نے اثبات میں سر ہلا دیا. سدرہ کے ہاتھوں سے ڈائجسٹ دور جا گرا.

اماں مجھے نہیں کرنی اس گھامڑ سے شادی. شکل دیکھی ہے اس کی اور اس کے لمبے گردن تک آتے بال جنہیں ہر وقت وہ تیل لگا کر رکھتا ہے. افف مجھے تو اسے دیکھ کر ہی کوفت ہوتی ہے. اماں آپ انکار کر دیں" اس نے جلدی جلدی جلدی کہا.

چلو مان لیا کہ سالار سکندر جیسا نہیں مل سکتا کوئی بات نہیں اگر وہ وڈیرا عالم شاہ نہیں تھا . چلو مان لیا کہ وہ گھوڑے والا افق ارسلان نہیں تھا مگر ابھی عالیان کے ملنے کے چانسس تو ہیں ناں .خالہ زینب کا اصغر توبہ توبہ" اس نے سوچ کر جھرجھری بھری. 

ایسے کیسے انکار کر دوں کوئی وجہ بھی تو ہو" اماں نے غصے سے قدرے بلند آواز میں کہا. 

وجہ ہے ناں.. مجھے نہیں پسند اصغر اور نہ اس کے تیل میں نہاتے بال اور وہ کتنے شوخ رنگ پہنتا ہے .آپ بس انکار کر دیں" اس کی بات سن کر اماں نے اس کی کمر پر ایک دھپ رسید کی. 

تیرے ابا اور میں نے ہاں کر دی ہے اگلے مہینے منگنی کی رسم ہے. اب تمیز سیکھ لو منہ پھاڑ کر اصغر اصغر مت کہا کرو .اب وہ تمہارا ہونے والا شوہر ہے." اماں نے اب کی بار رعب سے کہا.

اس نے بہت واویلہ کیا شور مچایا مگر اماں ٹس سے مس نہ ہوئیں اور اٹھ کر چلیں گئیں. اسے یقین ہو گیا کی اب کی بار اس کی کوئی نہیں سننے والا اس نے بے بسی سے زمیں پر گرے ڈائجسٹ کو دیکھا-

میری تو قسمت ہی خراب ہے" اس نے اپنا ماتھا پیٹا_