بیٹیاں پھول ہیں

2019-07-12 19:58:13 Written by ارم رضا

بیٹیاں پھول ہیں 

از قلم 

ارم رضا

 

وہ جلدی جلدی بچیوں کو ناشتہ کرا رہی تھی آج آنکھ دیر سے کھلی تھی ۔اتنے میں ساس نے آواز دی "نادیہ بیٹا ۔۔آج بہت دیر کر دی ناشتے میں۔۔"۔وہ بچیوں کو پیار کرتے ہوۓ بولیں ۔

"وہ امی آج آنکھ دیر سے کھلی تو اس لیے! ابھی پانچ منٹ میں ناشتہ بناتی ہوں آپکے لیے ۔"۔وہ جلدی سے کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔جلدی سے زینب اور زینت کے منہ صاف کیےاور کچن چل دی ۔جلدی سےناشتہ بنا کر ساس کے کمرے میں آئی ۔"کوئی فون آیا وارث کا ۔"وہ ناشتہ کرتے ہوئے پوچھنیں لگیں "نہیں امی ۔۔پہلے کبھی آیا جو اب آئے گا۔ "

اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتیں وہ کمرے سے باہر آ گئی ۔اور کرسی پہ بیٹھ کر وہ دن یاد کرنے لگی جب حارث سے اسکی شادی ہوئی تھی ۔اسکی اور حارث کی ارینج میرج تھی ۔حارث سے بڑے وارث تھے انہوں نے شادی نہیں کی تھی ۔وہ جس سے پیار کرتے تھے اس سے حارث کی امی انکی شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں تواس لیے وارث باہر چلے گئے تھے اور واپس نہیں آئے ۔حارث سے فون پہ بات کر لیا کرتے تھے ۔ نادیہ کی صرف ایک بہن تھی جس کی شادی اس سے پہلے ہی ہو گئی تھی ۔

شادی کو ابھی سال بھی نہ ہوا تھا کہ وہ جڑواں بچیوں کی ماں بن گئی ۔بچیاں پہلے تو نار مل تھیں لیکن جب وہ تین سال کی ہوئیں تواسے بچیوں میں عجیب تبدیلی کا احساس ہوا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ" آپکی بچیاں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہیں ۔آپ علاج کرائیں آگے جو اللّه کی مرضی۔۔ "حارث کو پتا چلا تو بہت پریشان ہوۓ ۔۔ابھی اس بات کو زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں حارث کی ڈیتھ هو گئی ۔۔اس پر تو قیامت ٹوٹ پڑی ۔۔وارث حارث کے جنازہ کے ٹائم پہنچ گئے تھے ۔۔اسکی عدت ختم ہوئی تو اسکی امی اور ساس نے اسکی منت سماجت کر کے وارث سے اسکا نکاح پڑھوا دیا ۔نکاح کے اگلے روز وارث کسی کو بتاۓ بغیر چلے گئے ۔۔یہ خط چھوڑ کر کہ کچھ ٹائم تک آ جائیں گے ۔۔وہ اس رشتے کے لیے تیار نہیں تھے ۔۔

 

********************­**********

زینب اور زینت اب پانچ سال کی تھیں ۔زیادہ تر وہ انہیں وہیل چیئر پہ بیٹھائے رکھتی ۔وہ نہ چل سکتی تھیں اور نہ خود سے کچھ کھا سکتی تھیں ۔بار بار انھیں چینج کروانا پڑتا تھا ۔پورا دن وہ بچیوں کے کپڑے دھوتی ۔انہیں کھلانا بہت مشکل ہوتا لیکن وہ نہ کبھی گھبرائی اور نہ کبھی تھکی ۔۔اسکے لیے اسکی بچیا ں ہی سب کچھ تھیں ۔اسکی ساس حارث کے جانے کے بعد بیمار رہنے لگی تھیں۔ اس لیے وہ انھیں کوئی کام نا کرنے دیتی ۔

********************­********

"امی آپ ۔۔۔اچانک۔۔۔۔ بتایا ہی نہیں "۔وہ خوش هو کے امی کے گلے لگتے ہوے بولی۔ 

"میں نے سوچا سر پرائز دوں" ۔وہ پیار کرتے ہوئے بولیں ۔

"چلیں امی کمرے میں بیٹھتے ہیں "۔۔وہ امی کو کمرے میں لے آئی ۔

"کیسی هو زینب اور زینت ؟"۔وہ بچیوں کو پیار کرتے ہوے بولیں ۔

بچیاں نانی کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنے لگیں ۔

"امی آپ کم آتی ہیں لیکن جب بھی آتی ہیں بچیاں خوش ہوتی ہیں ۔۔آپکو پتا ہے مجھے اماں اماں کہتی ہیں ۔۔۔ذرا آگے پیچھے هو رونا شرو ع کر دیتی ہیں ۔۔اچھا آپ بیٹھیں ۔۔۔۔میں کچھ بناتی ہوں آپکے لیے "

"نہ بیٹا۔ ۔۔۔۔میں کچھ کھانے نہیں تجھ سے ملنے آئی ہوں "۔وہ اسے پاس بیٹھا تے ہوئے بولیں ۔

"کیا ہو گیا ہے بیٹا کتنی کمزور ہو گئی ہو ۔۔۔مجھے پتا ہے تجھ پہ بہت ذمہ داری ہے ۔۔۔۔لیکن اپنا بھی خیال رکھا کر۔۔۔دودھ نہیں پیتی اور فروٹ وغیرہ "۔۔۔؟وہ غور سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔

"سب کچھ کھاتی پیتی ہوں امی ۔۔۔آپ نہ پریشان ہوں "۔۔

وارث ٹھیک ہے۔؟اسے بولو چکر لگا جاۓ ۔۔کافی ٹائم هو گیا آیا ہی نہیں ۔۔نادیہ تو کچھ چھپا تو نہیں رہی مجھ سے ۔۔۔وارث ٹھیک ہے نہ تم سے "۔۔؟وہ جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔

اسنے امی کو یہی بتایا تھا کہ وارث نکاح سے اگلے روز اس لیے چلے گئے تھے کیوں کہ کمپنی نے اچانک بلایا تھا ۔اور یہ کے وارث کا روز فون آتا ہے۔ "جی امی ۔۔روز کال کرتے ہیں ۔۔اور میں کچھ نہیں چھپا رہی ۔۔"وہ جھوٹ بولتے ہوۓ بولی ۔۔وہ اپنی ماں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ۔"تمہارا جسم کتنا گرم ہے ۔۔۔لگتا ہے بخار ہے۔"۔وہ تشویش سے بولیں ۔۔

"جی امی کل سے طبیعت خراب ہے ۔۔سوچ رہی ہوں کل چیک کرا لوں ۔۔۔کل پھر آپکی طرف چکر لگاؤں گی ۔۔ہسپتال آپکے گھر کے پاس ہی ہے "۔۔آپ پریشان نہ ہونا "۔۔۔۔وہ دلاسہ دیتے ہوئے بولی ۔

"اچھا بیٹا میں چلتی ہوں ۔۔ اپنا خیال رکھنا ۔۔اور کل لازمی چیک کروانا ۔۔۔اللّه حافظ "۔۔۔وہ اسے اور بچیوں کو ملتے ہوئے بولیں ۔

***************

وہ قریبی دکان سے کچھ سامان لے کر آ رہی تھی کہ کہ اپنی گلی میں بابر اور عاقب کو کھڑے پایا ۔وہ دونو ں ایک نمبر کے لوفر لفنگے اور بدمعاش تھے ۔۔ابھی کچھ مہینہ پہلےہی شفٹ ہوۓ تھے ۔سارا محلہ ان سے تنگ تھا ۔لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ ۔۔سب سے پنگے لینا انکو بہت پسند تھا ۔"کیسی هو شہزادی۔۔۔

کبھی ہماری طرف بھی نظر کرم کر لیا کرو ۔۔۔ہم روز تمہاری راہ تکتےہیں ۔۔۔۔شوہر تو تمہارا باہر ہوتا ہے ۔۔۔تو کیا خیال ہے ۔؟وہ خباثت سے ہنستے ہوئے بولے 

چٹاخ۔۔۔چٹاخ۔۔۔"دفع هو جاؤ یہاں سے ۔۔۔خبر دار جو دوبارہ نظر آئے ۔۔۔تم لوگوں کی بھی ماں بہنیں ہوں گی ۔۔انکو جو کوئی ایسا بولےتو کیسا لگے گا۔آیندہ اگر یہاں نظر آئے تو اس سے زیادہ برا پیش آؤں گی " ۔۔۔وہ چیلنج کرتے ہوئے بولی "اوۓ ۔۔۔ہمت کیسے ہوئی تیری ۔۔۔اب دیکھنا کیا کرتے ہیں تیرے ساتھ" ۔۔۔وہ وارن کرتے ہوئے بولے ۔۔۔

وہ گھر کی طرف چل پڑی جہاں اسکی بچیاں اسکی راہ تک رہی تھیں۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اسنے کتنی بڑی مصیبت کو دعوت دی تھی ۔۔۔۔ 

**************

وہ بچیوں کو تیار کر کے کمرے سے با ہر نکلی تو ساس باہر بیٹھی تھیں ۔"امی میں ذرا ہسپتال جا رہی ہوں ۔۔۔ میں نے بچیوں کو تیار کر دیا ہے ۔۔آپ انکا خیال کیجیے گا ۔۔میں جلدی آ جاؤں گی۔ "

بخار سے اسکا چہرہ تپ رہا تھا ۔۔۔سر میں بھی بہت درد تھا ۔۔۔ابھی سارے کام کر کے فار غ ہوئی تھی ۔وہ پھر اندر گئی اور بچیوں کو پیار کیا ۔۔آج اسکا دل بہت اداس تھا کمرے سے نکلتے ہوئے مڑ کر انکو دیکھا ۔۔"اماں ۔۔۔اماں " ۔۔۔۔بچیوں کی آواز اسے با ہر تک آ رہی تھی۔۔ 

اسے نہیں پتا تھا کہ وہ آخری بار انہیں دیکھ کر رہی ہے ۔۔۔انکی آواز سن رہی ہے ۔۔۔۔

***************

وہ ہسپتال سے چیک کرا کے امی کی طرف آئی۔امی اسکا ہی انتظار کر رہی تھیں ۔۔۔"کیسی ہے ۔۔۔میری بچی ۔"؟وہ اسکا ماتھا چومتے ہوئے بولیں ۔۔"بس ڈاکٹر نے چیک کر کے دوا دی ہے ۔۔آپ پانی لا دیں ۔۔میں ٹیبلٹ لے لوں ۔"

وہ جلدی سے فروٹ اور دودھ کا گلاس لے آئیں۔۔"یہ لو بیٹا ۔۔کچھ کھا لو ۔۔اسکے بعد دوا لینا۔" وہ اسکے پاس بیٹھ گئیں۔۔۔اور غور سے اسے دیکھنے لگیں ۔۔"کیا دیکھ رہی ہیں امی ۔۔"وہ سیب کھاتے ہوۓ بولی ۔۔" دیکھ رہی ہوں تم کتنی بڑی هو گئی هو ۔۔۔یاد ہے تم کتنی سست اور کام چور تھیں ۔۔۔کوئی کام نہیں کرتی تھی ۔۔۔سب کی لاڈلی تھی ۔۔اب دیکھ سارا گھر سنبھالا ہوا ہے ۔"وہ اسکا ہاتھ پکڑ تے ہوۓ بولیں ۔۔

وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں ۔۔وہ انکی گود میں ہی سو گئی ۔۔ابھی پندرہ منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ ایک دم وہ اٹھ بیٹھی ۔۔

"کیا ہوا ۔۔۔کوئی برا خواب دیکھا ۔"؟وہ پریشان ہوتے ہوئے بولیں ۔۔"اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتیں وہ اٹھ کر چپل پہنیں لگی ۔۔۔

"امی میں جا رہی ہو ۔"عجیب خواب دیکھا کہ میری بچیاں مصیبت میں ہیں۔"وہ روتے ہوئے بولی 

وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکی بیٹیوں کی زندگی کا چراغ بجھ چکا تھا ۔۔۔

★★★★★★★★★★

وہ گھر کے قریب پہنچی تو اسے ساس کے رونے کی آوازیں سنائی دیں ۔وہ جلدی سے گھر داخل ہوئی تو دروازہ کھلا ہوا تھا ۔وہ بھاگ کے اندر آئی۔ تو اسکی ساس اور محلے کی بہت سے عورتیں بیٹھی تھیں ۔۔اسے دیکھ کے ساس اٹھی ۔۔۔"کیا ھوا ۔۔۔زینب ۔۔۔زینت کہاں ہیں ۔۔"وہ جلدی سے بچیوں کے کمر ے کی طرف بڑھنے لگی کسی انہونی کے احساس سے اسکی ٹانگیں کانپنے لگیں ۔۔۔ایک دم اسنے دروازہ کھولا ۔۔اندر اسکی بچیاں پڑی تھیں ۔۔انکے اوپر چادر دی ہوئی تھی ۔۔۔وہ انکے قریب پہنچی۔ اسے لگا اسکی سانس رک رہی ہے۔اسنے چادر اتاری۔اسکی بچیاں برھنہ پڑی تھیں۔یہ دیکھنے کے بعد اسنے آنکھیں بند کر دیں ۔۔اور نیچے بیٹھتی گئی ۔۔۔ اسکی ساس کھڑی رو رہی تھی ۔۔"بابر اور عاقب آئے تھے ۔۔۔میرا منہ بندکر کے مجھے کمرے میں بند کر دیا انہوں نے ۔۔اسکے بعد جب جانے لگے تو دروازہ کھول گئے ۔بچیوں کے اوپر میں نے ہی چادر دی ۔۔تمہاری امی کو کال کر دی ہے ۔۔آتی ہوں گی ۔تبھی امی بھاگی بھاگی چلی آئیں ۔۔۔تو ساس انھیں تفصیل بتانے لگیں ۔۔اسکے بعد جو اسکی سسکیاں۔۔ آہیں شروع هوئیں تو رکنے میں نا آئیں "ہائےاللّه ۔۔یہ کیا هو گیا ۔۔" وہ بیٹی کے پاس بیٹھ گئیں اور اسے گلے لگا لیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں ۔۔"امی ۔۔یہ دیکھیں ان درندوں نے میری پھول جیسی بیٹیوں کے ساتھ کیا کر دیا ۔۔۔امی ۔ یہ تو میری آنکھوں کا نور تھیں ۔۔میرے دل کا ٹکڑا تھیں ۔۔کیسا ظلم ڈھایا میری پریوں کے ساتھ ۔۔۔میری زینب اور زینت ۔۔۔کتنی تکلیف ہوئی هو گی انہیں ۔۔مجھے پکارا ہوگا ۔۔۔میں کیسی ماں ہوں ۔۔اپنی بچیوں کو اکیلا چھو ڑ گئی ۔۔۔"وہ بلک بلک کر رو رہی تھی ۔۔۔سارا محلہ اکٹھا هو گیا ۔۔۔سب کی آنکھیں نم تھیں ۔۔"ارے سنا ہے زیادتی کر کے گلا گھونٹھ کے مار دیا "۔۔۔کوئی دو عورتیں آپس میں باتیں کر رہی تھیں ۔۔ "جنازہ کب ہے بہن۔ "کوئی اس کی ساس سے پوچھ رہا تھا ۔۔اس سے پہلے ساس کچھ بولتیں وہ بول پڑی ۔"کل ہوگا جنازہ ۔ابھی آپ سب لوگ جائیں۔ "انکے جانے کے بعد اسکی ساس اور امی بچیوں کے کفن کا انتظام کرنے لگیں ۔۔اس بات سے بے خبر کہ اسنے جنازہ کل کیوں رکھا ۔

*************

رات بارہ بجے جب سب سو رہےتھے تو ایک بڑا خنجر لے کر چادر کر کے باہر نکلی ۔۔رخ بابر اور عاقب کےگھر کی طرف تھا ۔۔دروازہ کھلا پڑا تھا ۔۔وہ صحن میں شراب کے نشے میں دھت پڑے تھے ۔۔اسنے سب سے پہلے خنجر کے پے در پے وار کر کے بابر اور پھر عاقب کو مارا ۔۔۔اور جلدی سے باہر نکلی ۔۔۔گھر میں داخل ہوتے ہی خنجر پھینکا سامنے امی کھڑی تھیں "کہاں سے آ رہی ہو ۔کیا ۔۔۔کیا ۔۔تم نے۔"وہ زور زور سے ہنسنے لگی "مار دیا میں نے اپنی بیٹیوں کے قاتلوں کو ۔۔ان درندوں کو جنہوں نے انکی عزتوں کے ساتھ کھیلا۔۔ "اسکی امی نے اسے گلے لگا لیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رونےلگی ۔۔ 

********************­********

تین سال بعد:

 

"مبارک ہو ۔۔بیٹا ہوا ہے ۔"نرس نے آ کر بتایا تو وارث نے اپنی امی اور ساس کو مبارک باد دی ۔

وارث اس حادثے کے کچھ ماہ باد لوٹ آئے تھے ۔۔گھر آ کے انھیں اس حادثے کا پتا چلا تو بہت روئے ۔اپنی امی اور نادیہ سے معافی مانگی ۔۔

نادیہ اس حادثے کے بعد چپ هو گئی تھی ۔۔کبھی اچانک خود سے باتیں کرنے لگتی ۔۔کبھی صحن میں بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگتی ۔۔پولیس کو قاتل کا پتا نہ چل سکا کیوں کہ نادیہ کو کسی نے جاتے ہوئے نا دیکھا تھا ۔جب وارث لوٹ آئے تو انہوں نے نادیہ کو اس فیز سے نکالا ۔۔اور آج نادیہ اپنے بیٹے اور وارث کے ساتھ خوش ہے ۔۔لیکن کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اسنے بچیوں کو یاد نہ کیا هو ۔کسی ایک دکھ کو پکڑکر ہم دوسری خوشیوں سے تو منہ نہیں موڑ سکتےنہ ۔زندگی میں دکھ سکھ تو چلتے رہتے ہیں اسی کا نام زندگی ہے___