تحفظ

2019-07-13 20:03:21 Written by سحر اسامہ

 "تحفظ" 

از قلم

"سحر اسامہ" 

 

ناشتے کی میز پر چاروں نفوس موجود تھے۔ زوجین انڈہ پراٹھا کھا رہے تھے جبکہ دونوں بچے جیم اور توس سے اپنی ماما کے کہنے پر جلدی جلدی ناشتہ کررہے تھے کیونکہ انکی وین آنے کا ٹائم ہورہا تھا۔۔

 

بچوں کی وین آچکی تھی وہ اسکول کیلیے نکل گئے۔ بچوں کے نکلتے ہی ثمرین نے اپنے شوہر سے پچھلی کئی دفعہ کی گئی بات پھر دہرائی۔

 

”شمائل میں نے آپ سے پہلے بھی کئی بار کہا ہے لیکن آپ مجھے اجازت نہیں دے رہے مگر اب مجھے ہر حال میں جاب کرنی ہے۔ شمائل آخر کو میں نے اتنا پڑھا ہی کیوں ہے جب میں جاب کرکے آپکا ہاتھ نہیں بٹا سکتی۔ آپ خود دیکھیں کتنی زیادہ مہنگائی ہوگئی ہے ایک فرد کی ماہانہ انکم سے گھر کا سارا خرچ نہیں چل سکتا۔ میرے پاس ڈگری ہے جاب کی آفرز ہیں تو میں کیوں نہ جاب کروں۔“ ثمرین نے برتن کچن میں رکھ کر شوہر کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

 

”ثمر یار مجھے ہرگز یہ بات گوارا نہیں کہ میرے ہوتے ہوئے تم بھی باہر جاکر کماؤ۔ تم عورت ہو گھر کی زمہ داریاں کافی ہیں تمہارے لئے۔ مجھے معلوم ہے مہنگائی بہت ہوگئی ہے لیکن پریشان نہ ہو ان شاءاللہ اسی مہنگائی میں اللّٰہ میری اسی انکم میں برکت عطا فرمائے گا “ شمائل نے ہر بار کی طرح اس بار بھی بہت پیار سے ثمرین کو سمجھایا ۔ لیکن وہ شاید اس بار پکا سوچ کے بیٹھی تھی کہ اب جاب کرنی ہے تو کرنی ہے۔

 

‘’شمائل کیا میں ابھی گھر کی زمہ داریاں اچھی طرح نبھا نہیں رہی“۔ ثمرین نے شکوہ کناں نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

 

‘’یہ میں نے کب کہا ثمر۔ تم نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا لیکن میں بھی یہی چاہتا ہوں جیسے تم گھر کے تمام کام اکیلے کرکے ایک اچھی بیوی کا ثبوت دے رہی ہو اسی طرح میں بھی باہر کی تمام زمہ داریاں اکیلے پوری کرنا چاہتا ہوں۔“ شمائل نے اسکا شکوہ دور کیا۔

 

”’لیکن شمائل آپ کی اکیلے کی انکم سے گھر بھر کا سارا خرچ نہیں چل سکتا ۔ اسکول کی بڑھتی ہوئی فیسز بجلی گیس کا بل تین وقت اچھا کھانا اچھا پہننا یہ سب نہیں ہو پائے گا اس سیلری سے“ ثمرین اس بار اپنے شوہر کو منا ہی لینا چاہتی تھی۔

 

‘’دیکھو میری پیاری ثمر بات صرف باہر نکل کر جاب کرنے کی نہیں تم جانتی ہو اس وقت باہر کے حالات کس قدر خراب ہیں۔ ہر مرد اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے باہر نکلی عورت لڑکی اور یہاں تک کہ چھوٹی بچی تک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنارہا ہے۔ جب تم جاب کروگی تو ظاہر سی بات ہے میرے ساتھ تو آنا جانا نہیں کروگی۔ آفس جانے کیلئے تمہیں اکیلے بس یا کسی بھی سواری کا استعمال کرنا پڑیگا اور اس دوران کتنے ہی مرد ایسے ہونگے جو دل میں بری نیت لئے پھرتے ہیں۔ جانتی ہو کس قدر گندی نظر سے دیکھتے ہیں کچھ مرد ۔ تم کیسے بچاؤ گی خود کو ان غلیظ نظروں سے اور پھر جہاں جاب کروگی وہاں کے ماحول کا بھی علم نہیں کیسا ہوگا ۔ اسی لئے پلیز چھوڑو ان چکروں کو ۔ الحمدللہ میری سیلری سے میرے گھر والوں کی ضروریات پوری ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ اللہ کے کرم سے ان شاءاللہ کبھی کسی کمی کا سامنا نہیں ہوگا ہمیں۔“شمائل نے بہت پیار اور محبت سے اپنی بیوی کو سمجھایا اب پتہ نہیں وہ سمجھی تھی یا نہیں لیکن بہرحال چپ ضرور ہوگئی تھی جس سے شمائل کو یہی لگا کہ ہر بار کی طرح وہ اس بار بھی مان گئی ہے۔اسے مانتا دیکھ کر اسکا گال ہولے سے تھپتھپاتے وہ آفس کیلئے نکل گئے تھے۔

 

     _______________________________

 

شمائل کے جاتے ہی ثمر گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر موبائل پر سرچنگ میں مصروف ہوگئی ۔ مختلف کمپنیز کی ویب سائٹ سرچ کررہی تھی جو قریب قریب بھی تھیں اور جنکا ماحول بھی اچھا تھا۔ کافی وقت صرف کرنے کے بعد بالآخر اسے ایک کمپنی کا ماحول اور کام وغیرہ مناسب لگا تو فورا ان سے کانٹیکٹ بھی کرلیا۔ سی وی وغیرہ سینڈ کی اور کچھ کام سے متعلق سوال جواب کے بعد کمپنی کی طرف سے اسے انٹرویو کیلئے بلا لیا گیا۔وہ خوش تھی اور مطمئن بھی اب بس اسے شمائل کو منانا تھا۔

 

رات کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی روز کے معمول کے مطابق وہ کچھ دیر بچوں کے پاس رہی پھر انہیں سلا کر انکے سونے کا اطمینان کرتی اٹھ کر شمائل کے پاس آبیٹھی۔

 

“شمائل دیکھیں یہ میں نے آج ایک کمپنی سے بات کی ہے یہاں کا ماحول بھی اچھا ہے اور کام بھی وہی ہے جو میں چاہ رہی تھی اور سب سے بڑی بات وقت بھی بس اتنا مانگ رہے ہیں یہ لوگ جتنا میں دے سکتی ہوں یعنی نو سے دوپہر دو بجے تک ” وہ شمائل کے تاثرات دیکھے بغیر اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھی۔ بات مکمل کرکے جب شمائل کی طرف سے کوئی جواب نہ پایا تو اسکی طرف دیکھا۔وہ اپنا غصہ کنٹرول کر رہا تھا جو وہ ہمیشہ ہی ثمر کے سامنے کر جاتا تھا ۔ 

 

“میں نے صبح تمہیں کتنا سمجھایا تھا نا ثمر لیکن شاید سب بے سود رہا” وہ افسوس سے اسے دیکھ رہا تھا۔

“اچھا ٹھیک ہے شمائل صرف ایک ماہ ۔۔ صرف ایک ماہ مجھے جاب کرنے دیں اس دوران اگر ایسا کچھ بھی ہوا جو آپکا خدشہ ہے تو میں آئیندہ کبھی جاب کا نام بھی نہیں لوں گی” ثمر نے متانت سے کہا۔

 

اوکے اونلی ون منتھ۔ شمائل نے مان لیا اور بات ختم کردی۔

             _________________________

 

آج جاب کرتے ہوئے اسکا بیسواں دن تھا۔ جاب بہت اچھی چل رہی تھی اسے یقین تھا پورا ماہ گزرجائیگا اور ایسا کچھ نہیں ہوگا جیسا شمائل کو لگ رہا تھا۔ وہ اپنے کیبن میں بیٹھی لیپ ٹاپ پر کسی پراجیکٹ میں مصروف تھی جب اسے اندر باس سے ملنے کا آرڈر آیا۔ ان بیس دنوں میں وہ ڈائریکٹ باس سے صرف تین بار ملنے گئی تھی ۔ 

 

باس سے ملنے گئی تو باس نے کہا کہ آج کام کچھ زیادہ ہے وہ شام تک رک جائے ۔اس نے یہ سوچ کر حامی بھرلی کہ گھر جا کر بچوں کو انکی خالہ گھر چھوڑ کر دوبارہ آجائیگی کیونکہ یقیناً کام زیادہ ہوگا جبھی باس نے رکنے کا کہا۔

 

اس نے ایسا ہی کیا۔ جب واپس آفس پہنچی تو تقریباً تمام لوگ جاچکے تھے ۔ 

 

 باس نے کہا چلو کام اسٹارٹ کرتے ہیں وہ کام میں اتنی مصروف ہوگئی کہ احساس ہی نہ ہوا کہ تمام لوگ جاچکے ہیں اب آفس میں صرف وہ اور سر رہ گئے ہیں۔ جیسے ہی سر کے ساتھ تنہائی کا احساس ہوا فورا کھڑی ہوگئی۔

 

“مجھے چلنا چاہئے سر بہت دیر ہوگئی ہے اور اب تو سب لوگ بھی جاچکے ہیں” وہ جلدی جلدی سارا سامان بیگ میں ڈال رہی تھی جب سامنے کرسی پر بیٹھا شخص اپنی بری نیت کے ساتھ اس تک چلتا آیا۔

 

“اہاں ایسے کہاں مس ثمرین۔ اب تو آپ ہاتھ آئیں ہیں کچھ تو وصول کرنے دیں اس تنہائی سے ہمیں بھی” ہوس سے بھرا انسان اب مکروہ ہنسی ہنس رہا تھا۔

 

”نہیں پلیز میں دو بچوں کی ماں ہوں یہ ظلم نہ کرو میرے ساتھ پلیز مجھے جانے دو“ وہ دروازے کا ہینڈل کھول کر بھاگنے لگی جب اس شیطان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔ ثمرین کو اپنے نصف بہتر کی ایک ایک بات یاد آنے لگی اسے لگا اب وہ بیہوش ہو جائیگی لیکن یہ وقت ہوش کھونے کا نہیں بلکہ ہوش سے ہی کام لینے کا تھا۔

 

وقت ضائع کئے بغیر پاس میز پر رکھا گلدان اٹھا کر اس حیوان کے سر پر مارا اور فورا دروازہ کھول کر بھاگ نکلی۔ کس طرح اور کن قدموں سے وہ اپنی بہن کے گھر پہنچی یہ صرف وہ یا اسکا خدا جانتا تھا۔

 

امبرین کے پاس پہنچتے ہی اسکا کب کا باندھا ہوا بند ٹوٹ گیا اور وہ اسکے گلے لگ کر خوب روئی زرا کچھ سنبھلی تو اسے سب حرف با حرف بتادیا۔۔

 

“ثمر گڑیا اسلام اسی لئے تو عورت کو چار دیواری کا حکم دیتا ہے کیونکہ جس نے اسلام کو بھیجا ہے وہ رب جانتا ہے کہ عورت چاہے کتنا پڑھ لکھ جائے ڈگریاں حاصل کر لے رہیگی وہ مرد سے کمزور ہی اسی لئے تو اللّٰہ قرآن میں فرماتا ہے گھروں میں بیٹھی رہو بلا ضرورت باہر نہ نکلو ۔ باہر گندگی ہے حیوان بری نیت لئے پھر رہا ہے باہر نکلو گی تو وہ تمہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنائے گا ہاں بوقت ضرورت اسلام نے نکلنے سے منع نہیں کیا لیکن اس میں بھی کوشش کرے عورت کہ اپنے محرم کے ساتھ نکلے بغیر محرم تو اس دور میں باہر کھڑے بھیڑئے اپنی بھوک مٹانے کیلئے ہماری تاک میں بیٹھے ہیں یہ جو لوگ اس چار دیواری کو داغ کہہ رہے نا یہ انتہائی غلط کہہ رہے ہیں عورت کا گھر میں رہنا ہی عورت کا سب سے بڑا تحفظ ہے تم اس رب کے حکم کو مانو وہ تمہاری ہر ضرورت ہر خواہش پوری کریگا ان شاءاللہ " امبرین مسلسل اسے سمجھا رہی تھیں اور اس بار ثمر سب سمجھ گئی تھی۔

 

اپنے شوہر کی بات بھی اور قرآن کا درس بھی۔